دور حاضر میں جن معاملات کو کثرت کے ساتھ فروغ حاصل ہوا ہے ان میں سے ایک قسطوں پر خرید و فروخت (installment sales) بھی ہے۔
اس کو عربی زبان میں”بيع تقسيط” کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مشتری (Buyer) سامان خرید لے اور اس کی قیمت قسطوں میں ادا کرے۔
بیع تقسیط یعنی قسط وار لین دین کا حکم:
قسط وار لین دین جائز اور مباح ہے کیونکہ “الأصل في البيوع الإباحة” خرید وفروخت اور تجارت میں اصل اباحت ہے۔
مثلا: اگر کوئی کہے کہ “قسط وار خرید وفروخت” جائز ہے تو ہم اس سے دلیل کا مطالبہ نہیں کریں گے، کیونکہ خرید وفروخت اور تجارت میں اصل جواز ہی ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے: “وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلۡبَیۡعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰا۟ۚ”۔ ( البقرة : 275)
“اور اللہ نے بیع (لین دین) کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے”۔
لیکن اگر کوئی کہے کہ “قسط وار خرید وفروخت” حرام ہے تو ہم اس سے فورا دلیل کا مطالبہ کریں گے کہ اگر حرام ہے تو اس کی دلیل پیش کرو۔ اگر وہ صحیح اور صریح دلیل پیش کر دے تو ہم اس کی حرمت کو تسلیم کرلیں گے وگرنہ اس کی بات کو رد کر دیں گے۔ کیونکہ خرید وفروخت اور تجارت میں اصل جواز ہے نہ کہ حرمت۔
یاد رہے کہ خرید وفروخت کی یہ صورت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی موجود تھی۔جیسا کہ عمرو بن شرید کہتے ہیں کہ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑا تھا کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور اپنا ہاتھ میرے شانے پر رکھا۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور فرمایا کہ اے سعد! ابْتَعْ مِنِّي بَيْتَيَّ فِي دَارِكَ؟ فَقَالَ سَعْدٌ: وَاللَّهِ مَا أَبْتَاعُهُمَا، فَقَالَ المِسْوَرُ: وَاللَّهِ لَتَبْتَاعَنَّهُمَا، فَقَالَ سَعْدٌ: وَاللَّهِ لاَ أَزِيدُكَ عَلَى أَرْبَعَةِ آلاَفٍ مُنَجَّمَةً، أَوْ مُقَطَّعَةً، قَالَ أَبُو رَافِعٍ: لَقَدْ أُعْطِيتُ بِهَا خَمْسَ مِائَةِ دِينَارٍ، وَلَوْلاَ أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ»، مَا أَعْطَيْتُكَهَا بِأَرْبَعَةِ آلاَفٍ، وَأَنَا أُعْطَى بِهَا خَمْسَ مِائَةِ دِينَارٍ، فَأَعْطَاهَا إِيَّاهُ “(صحيح البخاري: رقم 2258، بَابُ عَرْضِ الشُّفْعَةِ عَلَى صَاحِبِهَا قَبْلَ البَيْعِ)
“تمھارے قبیلہ میں جو میرے دو گھر ہیں، انھیں تم خرید لو۔ سعد رضی اللہ عنہ بولے کہ بخدا میں تو انھیں نہیں خریدوں گا۔ اس پر مسور رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں، تمھیں خریدنا ہوگا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر میں چار ہزار سے زیادہ نہیں دے سکتا۔ اور وہ بھی قسط وار۔ ابورافع رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے پانچ سو دینار ان کے مل رہے ہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ حقدار ہے تو میں ان گھروں کو چار ہزار پر تمھیں ہرگز نہ دیتا۔ جب کہ مجھے پانچ سو دینار ان کے مل رہے ہیں۔ چنانچہ وہ دونوں گھر ابورافع رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ کو دے دیے۔
خلاصہ: قسط وار خرید وفروخت اصلا جائز ہے۔
قسطوں پر خریداری کی مختلف صورتیں:
قسط وار خرید وفروخت کی ایک سے زائد شکلیں ہیں جنھیں ہم ترتیب وار سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
(١) نقد اور ادھار دونوں صورتوں میں ایک ہی قیمت ہو۔
مثلا: کوئی زمین یا گاڑی ہے جس کا مالک کہتا ہے کہ اگر آپ نقد روپیہ دیں گے تو دو لاکھ اور قسط وار ادا کریں اور تب بھی دو لاکھ۔ تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
(٢) ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت وصول کی جائے۔ مثلا یوں کہا جائے کہ یہ گاڑی یا زمین نقد دو لاکھ کی اور ادھار دو لاکھ چالیس ہزار کی ہوگی۔
اس سلسلے میں علماء کے دو اقوال ہیں:
پہلا قول: یہ ہے کہ یہ شکل ناجائز ہے کیونکہ ادھار کی صورت میں اضافی رقم اصل میں “مدت کا معاوضہ” ہے اور مدت کا معاوضہ لینا سود ہے۔ ساتھ ہی اس کے اندر ایک بیع میں دو بیعوں کی صورت بھی پائی جاتی ہے، جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے۔ جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ “. ( سنن الترمذي | أَبْوابٌ : الْبُيُوعُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. | بَابٌ : النَّهْيُ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ: 1231)
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع کیا ہے۔”
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان یہ کہے:
إن كان بنقد فبكذا، وإن كان بنسيئة فبكذا” (رواه ابن ابن شيبة في المصنف: 5/54 وصححه الألباني في إرواء الغليل: 5/148)
“کہ اگر نقد لیتے ہیں تو اتنے روپئے کی اور اگر ادھار لیتے ہیں تو اتنے روپئے کی۔”
جبکہ امام نسائی رحمہ اللہ “كتاب البيوع” باب بَيْعَتَانِ فِي بِيعَةٍ” میں کہتے ہیں کہ آدمی کہے: أَبِيعُكَ هَذِهِ السِّلْعَةَ بِمِائَةِ دِرْهَمٍ نَقْدًا، وَبِمِائَتَيْ دِرْهَمٍ نَسِيئَةً “۔
“میں آپ سے یہ سامان نقدا سو درہم میں بیچوں گا جبکہ ادھار دو سو درہم میں بیچوں گا۔”
دوسرا قول: یہ ہے کہ یہ شکل جائز اور مباح ہے۔ یہ موقف جمہور فقہاء و محدثین کا ہے اور یہی صحیح اور درست ہے۔
کیونکہ معاملات میں اصل اباحت ہے، یعنی: کاروبار کی ہر وہ صورت جائز ہے جس سے شریعت نے منع نہ کیا ہو۔ اور قرآن و حدیث میں کوئی ایسی نص موجود نہیں جس سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ہو۔
اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
1 – “أَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ” ( البقرة : 275)
“اللہ نے خرید وفروخت کا حلال کیا ہے”۔
استدلال: یہ آیت عام ہے جو خرید وفروخت کے تمام صورتوں کو شامل ہے اور انہی صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ نقد کے مقابل میں قسط وار ادائیگی کی قیمت زیادہ ہو۔
2 – “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ “۔ (النساء:29)
“اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ، مگر یہ کہ تمھاری آپس کی رضامندی سے خرید وفروخت ہو۔
استدلال: اس آیت کا عموم بھی خرید وفروخت کے جواز پر دلالت کرتا ہے جب وہ دونوں جانب کی رضامندی سے ہو۔
لہذا جب خریدنے والا نقد کے بہ نسبت زیادہ قیمت دینے پر راضی ہے تو اس کے جائز ہونے میں کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں ہے۔
نیز ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: البيع بالتقسيط لا حرج فيه، إذا كانت الآجال معلومة والأقساط معلومة، ولو كان البيع بالتقسيط أكثر ثمنًا من البيع نقدًا؛ لأن البائع والمشتري كلاهما ينتفعان بالتقسيط. فالبائع ينتفع بالزيادة، والمشتري ينتفع بالمهلة “۔ (مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز 19/ 105)
”قسطوں کی بیع میں کوئی حرج نہیں جب کہ مدت اور قسطیں معلوم ہوں خواہ قسطوں کی صورت میں قیمت نقد قیمت سے زیادہ ہو کیونکہ قسطوں کی صورت میں بائع اور مشتری دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بائع زیادہ قیمت سے اور مشتری مہلت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔”
رہی بات اس حدیث (“نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع کیا ہے”) کی، تو اس میں بیع تقسیط یعنی قسط وار بیع داخل نہیں ہے۔
چنانچہ امام ترمذی رحمہ اﷲ علیہ اس فرمان کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ اَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ اَنْ يَقُولَ اَبِيعُکَ هَذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشَرَةٍ وَبِنَسِيئَةٍ بِعِشْرِينَ وَلَا يُفَارِقُهُ عَلَی اَحَدِ الْبَيْعَيْنِ فَإِذَا فَارَقَهُ عَلَی اَحَدِهِمَا فَلَا بَاْسَ إِذَا کَانَتِ الْعُقْدَهُ عَلَی اَحَدٍ مِنْهُمَا۔
قَالَ الشَّافِعِيُّ وَمِنْ مَعْنَی نَهْيِ النَّبِيِّ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ اَنْ يَقُولَ اَبِيعُکَ دَارِي هَذِهِ بِکَذَا عَلَی اَنْ تَبِيعَنِي غُلَامَکَ بِکَذَا فَإِذَا وَجَبَ لِي غُلَامُکَ وَجَبَت لَکَ دَارِي”۔ (سنن الترمذي | أَبْوابٌ: الْبُيُوعُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. | بَابٌ: النَّهْيُ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ: 1231)
“بعض علماء نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ کوئی شخص کہے میں آپ کے ہاتھ پہ یہ کپڑا نقد دس روپے میں اور ادھار بیس روپے میں بیچتا ہوں اور کسی ایک سودے کو متعین کر کے جدا نہ ہو۔ (بلکہ بغیر کسی ایک کی تعیین کے مبہم بیع ہی پر وہاں سے چلا جائے)
اگر ایک سودے کا فیصلہ کر کے جدا ہو تو کوئی حرج نہیں۔
جبکہ امام شافعی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بیع میں دو سودوں سے جو منع فرمایا اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آدمی کہے: میں اپنا یہ مکان تیرے ہاتھ پر اتنے روپے میں اس شرط پر بیچتا ہوں کہ تو مجھے اپنا غلام اتنی قیمت میں فروخت کرے۔ جب تیرا غلام مجھے مل جائے گا، میرا مکان تیرا ہوجائے گا۔
اس سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوگئی کہ نقد اور اُدھار کے لیے دو علیحدہ علیحدہ قیمتیں مقرر کرنے سے اس حدیث کی مخالفت نہیں ہوتی جس میں نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع سے منع فرمایا ہے۔
کیونکہ قسطوں کی تجارت میں بیع، قیمت اور مدت، ہر ایک کا تعین بر وقت ہوجاتا ہے۔ کسی قسم کی جہالت باقی نہیں رہتی۔ اس طرح جب قیمت کا تعین ہوگیا، قسطیں اور ان کی شرح بھی متعین ہوگئی تو بیع ایک ہی ہے، نہ کہ دو۔ اور ممانعت ایک بیع میں دو سودے کی ہے ایک کی نہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ ایک بیع میں دو بیعوں سے مراد یہ ہے کہ:
• بیچنے والا يہ کہے کہ یہ چیز نقد ایک لاکھ کی اور ادھار ڈیڑھ لاکھ کی۔ اور خریدنے والا دونوں میں سے کسی ایک قیمت کا تعین کیے بغیر خرید لے۔
• یہ کہا جائے کہ میں اپنا گھر تجھے اتنے میں بیچتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ اپنی زمین اتنے میں مجھے بیچ دیں۔
• قسط وار لین دین کے اندر ایک بیع میں دو بیعوں والی شکل نہیں پائی جاتی ہے بلکہ اس میں دو آپشن ہوتا ہے کہ آپ دونوں میں سے جسے چاہیں اختیار کر لیں۔
دوسری قسم یعنی ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت وصول کی جائے” کی بھی چند شکلیں ہیں، جن میں سے بعض جائز ہیں اور بعض حرام ہیں۔
ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
(١) ایک شخص سونا خریدنا چاہتا ہے جس کی موجودہ قیمت ایک لاکھ ہے لیکن وہ شخص اسے ایک سال تک کی مدت پر قسطوں میں ایک لاکھ تیس ہزار میں خرید رہا ہے۔ یہ حرام ہے۔
کیونکہ یہاں پر ایک شرعی رکاوٹ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ سونے اور چاندی کو ایک ہی مجلس میں ہاتھوں ہاتھ لینا اور دینا ضروری ہے، اگر کسی بھی جانب سے ادھار ہوتا ہے تو اس کا شمار سود میں ہوگا۔
جیسا کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: لَا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلَا تَبِيعُوا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلَا تَبِيعُوا مِنْهَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ “.( صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْبُيُوعُ. | بَابُ بَيْعِ الْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ :2177)
“سونا سونے کے بدلے اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو، دونوں طرف سے کسی کمی یا زیادتی کو روا نہ رکھو، اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو۔ دونوں طرف سے کسی کمی یا زیادتی کو روا نہ رکھو اور نہ ادھار کو نقد کے بدلے میں بیچو”۔
اسی طرح مالک بن عوس کہتے ہیں: أَنَّهُ الْتَمَسَ صَرْفًا بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَدَعَانِي طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ فَتَرَاوَضْنَا حَتَّى اصْطَرَفَ مِنِّي، فَأَخَذَ الذَّهَبَ يُقَلِّبُهَا فِي يَدِهِ ثُمَّ قَالَ : حَتَّى يَأْتِيَ خَازِنِي مِنَ الْغَابَةِ. وَعُمَرُ يَسْمَعُ ذَلِكَ، فَقَالَ : وَاللَّهِ لَا تُفَارِقُهُ حَتَّى تَأْخُذَ مِنْهُ ؛ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ “. (صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْبُيُوعُ. | بَابُ بَيْعِ الشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ : 2174)
” انھیں سو دینار بدلنے تھے۔ (انھوں نے بیان کیا کہ) پھر مجھے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہما نے بلایا۔ اور ہم نے (اپنے معاملہ کی) بات چیت کی۔ اور ان سے میرا معاملہ طے ہوگیا۔ وہ سونے کو اپنے ہاتھ میں لے کر الٹنے پلٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ذرا میرے خزانچی کو “غابہ” سے آ جانے دو۔ عمر رضی اللہ عنہ بھی ہماری باتیں سن رہے تھے، آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! جب تک تم طلحہ سے روپیہ لے نہ لو، ان سے جدا نہ ہونا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سونا سونے کے بدلہ میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہو جاتا ہے۔
معلوم ہوا کہ سونے اور چاندی کو قسطوں پر خریدنا جائز نہیں بلکہ حرام اور سود ہے۔
ساتھ ہی نیٹ یا کسی بھی آن لائن طریقے سے سونے اور چاندی کو خریدنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں بھی تقابض یعنی ہاتھوں ہاتھ لین دین نہیں ہوتا ہے۔
(٢) ایک شخص کہتا ہے کہ میں یہ گاڑی یا زمین قسطوں پر دو لاکھ میں فروخت کروں گا اگر آپ قیمت کو ایک سال میں ادا کریں گے۔
اور اگر دو سال میں ادا کریں گے تو اڑھائی لاکھ میں۔
اور اگر تین سال میں ادا کریں گے تو تین لاکھ میں۔
چنانچہ خریدنے والا اس پر راضی ہو جاتا ہے اور اسی پر بیع ہو جاتی ہے۔ یہ بھی جائز اور درست نہیں ہے۔
کیونکہ یہاں بھی ایک شرعی رکاوٹ موجود ہے اور وہ یہ کہ عقد (لین دین) کے وقت قیمت متعین نہیں ہوئی ہے بلکہ مجہول ہے۔
یعنی یہ متعین نہیں ہوا کہ وہ تینوں صورتوں میں سے کس صورت پر اسے خریدا ہے۔
لیکن اگر وہی شخص کہتا ہے کہ میں یہ گاڑی یا زمین قسطوں پر دو لاکھ میں فروخت کروں گا اگر آپ قیمت کو ایک سال میں جمع کریں گے۔ اور اڑھائی لاکھ میں دوں گا اگر آپ دو سال کی مدت میں قیمت ادا کریں گے۔
یا تین لاکھ میں دوں گا اگر آپ تین سال کی مدت میں ادائیگی کریں گے۔ پھر خریدنے والا کہتا ہے کہ میں تین سال والا لوں گا یا دو سال والا لوں گا یا ایک سال والا لوں گا اور اسی پر بیع ہو جاتی ہے۔ یہ جائز اور درست ہے۔
کیونکہ یہاں عقد (لین دین) کے وقت قیمت متعین ہوگئی ہے۔ یعنی یہ متعین ہوگیا ہے کہ وہ تینوں صورتوں میں سے کس صورت پر اسے خرید رہا ہے۔
ملاحظہ: ادائیگی میں تاخیر پر اضافی قیمت وصول نہ کی جائے۔ کیونکہ جب کسی چیز کی قیمت طے ہوجاتی ہے تو پھر اس میں اضافہ ممکن نہیں ہوتا خواہ ادائیگی مدت مقررہ پر کی جائے یا تاخیر کرکے۔
لہذا قیمت کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ وصول کیا جانا زمانہ جاہلیت کے سود ”إما أن تقضي وإما أن تربي” (یا ادا کرو یا اضافہ کرو) میں داخل ہے جو سراسر ناجائز ہے۔ (موطأ مالك | كِتَابٌ : الْبُيُوعُ | مَا جَاءَ فِي الرِّبَا فِي الدَّيْنِ : 1965)
خلاصہ یہ کہ ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت لگائی جاسکتی ہے۔ نیز قسط وار لین دین میں قسط کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار۔ نیز اگر کسی وجہ سے قسط کی ادائیگی میں تاخیر ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں اضافی رقم لینا حرام ہے اور اگر بوقتِ عقد یہ شرط رکھی گئی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔
آپ کے تبصرے