زکوٰۃ: نزول بارش کا سبب

ام عائشہ طوبی مظہر الاعظمی عبادات


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِيتُمْ بِهِنَّ، وَأَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ تُدْرِكُوهُنَّ: لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ، حَتَّى يُعْلِنُوا بِهَا، إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الطَّاعُونُ، وَالْأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوْا، وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ، إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ، وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يَمْنَعُوا زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ، إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوا، وَلَمْ يَنْقُضُوا عَهْدَ اللَّهِ، وَعَهْدَ رَسُولِهِ، إِلَّا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ، فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ، وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، وَيَتَخَيَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ، إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ.(سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن:٤٠١٩)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اے مہاجروں کی جماعت! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہوجاؤ (تو ان کی سزا ضرور ملے گی) اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ (بری چیزیں) تم تک پہنچیں۔
جب بھی کسی قوم میں بے حیائی (بدکاری وغیرہ) علانیہ ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے لوگوں میں نہیں تھیں۔
جب وہ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں تو ان کو قحط سالی، روزگار کی تنگی اور بادشاہ کے ظلم کے ذریعے سے سزا دی جاتی ہے۔
جب وہ اپنے مالوں کی زکاۃ دینا بند کرتے ہیں تو ان سے آسمان کی بارش روک لی جاتی ہے۔ اگر جانور نہ ہوں تو ان پر کبھی بارش نہ برسے۔
جب وہ اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑتے ہیں تو اللہ ان پر دوسری قوموں میں سے دشمن کو مسلط کردیتا ہے پھر وہ ان سے چھین لیتا ہے بعض ان چیزوں کو جو ان کے ہاتھ میں تھیں۔
جب بھی ان کے امام (سردار اور لیڈر) اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور جو اللہ نے اتارا ہے اسے اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان میں آپس کی لڑائی ڈال دیتا ہے۔
مذکورہ حدیث کے اندر پانچ اہم باتوں کا تذکرہ کیا ہے کہ جب یہ پانچ چیزیں یا پانچ گناہ بالکل عام ہو جائیں، معاشرہ اجتماعی طور پر ان گناہوں کا ارتکاب کرنے لگے تو اللہ رب العالمین ان گناہوں کی سزا اسی روئے زمین پر ہمیں اجتماعی طور پر دیتا ہے، جیسا کہ قرآن بھی کہتا ہے:
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (سوره انفال:٢٥)

“اور تم ایسے وبال سے بچو! جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔”
حدیث کے اندر سب سے پہلے فحاشی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اگر آج ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ فحاشی بالکل عام ہوچکی ہے۔ فحاشی کے تمام ذرائع فحش لٹریچر، ساز، رقص، فلمیں، مرد و زن کا اختلاط وغیرہ ہمارے یہاں موجود ہیں جس کی سزا خاص و عام سب کو نئے نئے امراض کی شکل میں مل رہی ہے، جن کا سد باب بے حد ضروری ہے۔
کورونا وائرس یا COVID-19 کے پھیلنے کی شروعات دسمبر ٢٠١٩ء میں چین کے Wuhan شہر سے ہوئی۔ شریعت مطہرہ کا ایک قانون ہے کہ جس جگہ وبا پھیلی ہوئی ہے اگر ہم اس جگہ ہیں تو پھر وہاں سے دوسری جگہ منتقل نہ ہوں اور اگر ہم اس جگہ نہیں ہیں تو پھر وہاں داخل نہ ہوں۔ وبا سے لڑنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی تدبیر ہو ہی نہیں سکتی ہے۔ وہاں کے لوگوں نے اس چیز کا خیال نہ کیا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے جس کے نتیجے میں یہ وبا صرف وہیں تک محدود نہ رہ کر اس نے سب سے پہلے چین اور پھر پوری دنیا کو اپنی چپیٹ میں لے لیا۔ آج پوری دنیا اس سے جوجھ رہی ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سارے کاروبار بند کر دیے گئے، شہروں میں لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے تمام ذرائع بند ہوگئے جس کی وجہ سے لوگوں کو کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا، لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے ترسنے لگے۔ صورت حال یہ ہوگئی کہ لوگ کورونا وائرس سے کم اور بھوک سے زیادہ مرنے لگے۔ ایسے میں لوگوں نے ہمدردی کا مظاہرہ کیا دل کھول کر ضرورت مندوں کی مدد کی، لوگوں نے خوب خوب صدقات و خیرات کیے۔ اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کی جس سے لوگوں کو بہت راحت ملی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بہت سی پریشانیوں سے بچانے کے لیے زکوٰۃ جیسا شاندار نظام ہمیں عطا فرمایا ہے جیسا کہ ایک غیر مسلم بھائی نے بھی اپنی ٹویٹ میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا : “بہت ساری ویڈیوز اور تصاویر دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس نازک صورتحال میں لوگوں کو ان کے گھر تک پہنچانے اور ان کو کھانا وغیرہ مہیا کرانے میں زکوٰۃ نے بہت اہم رول ادا کیا ہے، اگلی مرتبہ سے میں بھی اپنی آمدنی کا ڈھائی فیصد صدقہ کروں گا”۔
جیسا کہ اوپر ذکر کی ہوئی حدیث میں بتایا گیا کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ دینا بند کر دیتے ہیں تو آسمان سے بارشیں روک لی جاتی ہیں(جس کے نتیجے میں ہمیں پانی کی قلت کے علاوہ اور بھی بہت ساری دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے) لیکن اس سال ایسا نہیں ہوا۔ لوگوں نے خوب جم کر صدقہ و خیرات کیے جس کے نتیجے میں ہم دیکھ رہے کہ الحمد للّہ ثم الحمدللہ وقت سے پہلے ہی بارش شروع ہوگئی ہے۔ کچھ نیکیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے اثرات ہمیں فوراً دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر زکوٰۃ کے نظام کو صحیح طریقہ سے شریعت کے مطابق چلایا جائے، لوگ ہر سال اسی طرح سے صدقہ و خیرات کرتے رہیں تو پانی کی قلت کے علاوہ اور بھی دیگر مسائل جو بارش نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ان سب کا حل ممکن ہے۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ صدقات و خیرات کرنے کی توفیق دے اور جو بارشیں ہورہی ہیں ان کو ہمارے لیے نفع بخش بنائے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000