صحابہ کرام کا جذبہ ایمانی اور ہم

زلفی مظہر اعظمی

اللہ تعالٰی نے جب سے اس دنیا کو وجود بخشا اسی وقت سے حق و باطل کی جنگ جاری ہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں حق و باطل کو لے کر متعدد جنگیں پیش آئیں۔ آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بہت سی مصیبتوں اور اذیتوں کو جھیلنا پڑا۔ حق کو مغلوب کرنے کے لیے کبھی صحابہ کو تپتی ریت پر لٹایا گیا، کبھی ان کے سینے پر پتھر رکھا گیا، کبھی چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیا گیا غرضیکہ حق کو نیست و نابود کرنے کے لیے دشمنوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اس کے باوجود بھی صحابہ کرام نہایت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈٹے رہے اور کلمہ حق کو بلند کرنے کے لیے کبھی اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کی۔ یہاں تک کہ روم و ایران وغیرہ کے بادشاہوں کے دربار میں توحید و رسالت کا خط لے کر تن تنہا پہنچ گئے اور بلا خوف و خطر ان کو توحید کا پیغام سنایا اور مسلسل کوششوں اور مشقتوں کو جھیلنے کے بعد آخرکار تیئس سال بعد مکہ کو فتح کرکے اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے۔
بالکل اسی طرح آج ہم مسلمانوں کو مختلف قسم کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ہمیں نشانہ بنا کر مذہب اسلام کو ختم کرنے کی ناپاک کوششیں کی جارہی ہیں۔ لیکن کیا یہ بات کبھی ہم نے سوچا کہ آخر اسلام کو بلند کرنے میں ہم کیوں ناکام ہیں؟ اور جس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو اللہ نے فتح ونصرت سے نوازا تھا ہماری مدد کیوں نہیں ہو رہی ہے؟
اس کی سب سے اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کا ایمان نہایت پختہ اور خالص تھا، وہ اسلام کی راہ میں مر مٹنے کو تیار تھے انھوں نے اعلائے کلمۃ اللہ کے سلسلے میں کبھی اپنی جان کو مقدم نہیں کیا اور اس راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا خیر مقدم کیا۔
لہذا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر صحابہ کرام جیسا ایمان پیدا کریں، کلمہ اسلام کو بلند کرنے میں آنے والی رکاوٹوں کی پرواہ نہ کریں کیوں کہ یہ بات یقینی ہے کہ جب بھی آپ حق کے لیے کھڑے ہوں گے تو آپ کا استقبال پھولوں کی مالا کے بجائے اینٹ پتھر سے ہی ہوگا۔ آپ ان پتھروں کی پرواہ کیے بغیر ایمان و اخلاص کے ساتھ حق کے لیے آگے بڑھیں چاہے جان کی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ پھر جس طرح اللہ نے صحابہ کرام کو فتح و نصرت سے سرفراز کیا تھا اسی طرح وہی اللہ ہماری بھی ایک دن ضرور مدد کرے گا اور پھر دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو جائے گا۔ ان شاء الله

 

زلفی مظہر اعظمی کی دیگر تحریریں

آپ کے تبصرے

3000