تربیت اولاد میں احتیاط کی ضرورت

زلفی مظہر اعظمی تعلیم و تربیت

لفظ تربیت اپنے اندر ایک وسیع معنی سمیٹے ہوئے ہے، اسی لیے اس کو بہت ساری جگہوں پر استعمال کیا جاتا ہے جیسے ایک استاد اپنے شاگرد کی تربیت کرتا ہے۔ کسی بھی فن میں ٹریننگ دینے والا اپنے زیر نگرانی لوگوں کو ٹرینڈ کرتا ہے، مگر عام طور پر اس لفظ کو سن کر ہمارے ذہن میں جو تربیت سب سے پہلے آتی ہے وہ تربیت اولاد ہی ہوتی ہے۔
اولاد کی تربیت والدین کے لیے ایک نازک ترین مسئلہ ہے۔ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے نیک و صالح ہوں، بڑے ہوکر تعلیم و تعلم کے میدان میں نام کمائیں اور بڑھاپے میں ان کا سہارا بن سکیں مگر ان کی یہ خواہشات بڑی آسانی سے پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتیں بلکہ اس کے لیے بچپن سے ہی ان کی تربیت پر مکمل توجہ کی ضرورت درکار ہوتی ہے جو محنت اور وقت طلب کام ہے۔ انھیں لاڈ پیار ضرور کریں مگر ان کی کوتاہیوں اور غلطیوں پر سخت گرفت بھی کریں۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے بچوں کو سونے کی بسکٹ کھلاؤ مگر شیر کی نظر سے دیکھو۔ یعنی اپنے بچوں سے محبت اور لاڈ پیار ضرور کریں مگر وقت ضرورت ان پر سختی بھی کریں۔ بچوں کی تربیت میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ وہ کس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، گھر سے باہر کس فکر اور اخلاق کے حاملین کے ساتھ رہتے سہتے ہیں، رات میں اگر دیر سے گھر پہنچتے ہیں تو ان سے باز پرس کی جائے تاکہ ان کے ذہن میں پوچھ تاچھ اور سوال و جواب کا خوف ہر وقت موجود رہے اور کوئی بھی غلط قدم اٹھانے سے پہلے دس بار سوچیں۔ اور آج کے اس ٹکنالوجیکل دور میں، جبکہ گناہوں تک رسائی بڑی آسان ہو گئی ہے، والدین کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ یہ بچے جدید ٹکنالوجی کا استعمال کتنا مثبت کرتے ہیں اور کتنا منفی۔ بچوں پر ہر معاملے میں گہری نظر رکھیں مگر ان پر بے جا شک نہ کریں بلکہ بھروسہ کریں کیونکہ شکوک و شبہات کی نظر انھیں بغاوت پر آمادہ کر سکتی ہے۔ اور جب بچہ کثرتِ شک و شبہ کی وجہ سے تنگ آجائے گا تو ہر وہ کام کر گزرے گا جو اس نے بھی کبھی سوچا نہیں ہوگا الا یہ کہ بچہ حد درجہ غیور و صابر ہو اور آپ کی قدر و منزلت کا لحاظ کرتے ہوئے آپ سے زبان درازی نہ کرے اور نہ ہی بغاوت پر آمادہ ہو لیکن آپ کے اس رویے کو اپنے اندر دفن کرکے ڈپریشن کا شکار ضرور ہوجائے گا اور ظاہر سی بات ہے کہ جب اس کا ذہنی توازن حد اعتدال سے تجاوز کرجائے گا تو اسے اپنی زندگی بوجھ لگنے لگے گی اور وہ اپنے ہدف سے بھٹک کر کسی اور راہ کی طرف رواں دواں ہوجائے گا اور اپنے مستقبل کو تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچادے گا۔
اس لیے بچوں کی تربیت میں مکمل احتیاط کریں کہ کبھی شک کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے، ان کی صالح تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے ان کے ہدایت یافتہ اور صالح ہونے کی دعا بھی کرتے رہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام والدین کو اپنی اولاد کی صالح تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ان بچوں کو ان کے لیے بڑھاپے کا سہارا اور مرنے کے بعد صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالمتين

ما شاء الله. بہت خوب. آپ نے جو باتیں کی ہیں درست ہیں، مگر تربیّت کا جو سب سے اہم پہلو ہے آپ نے اسکو نظر انداز کر دیا ہے. تربیت کے ماہرین کہتے ہے کہ آپ جیسا اپنے بچوں کو دیکھنا چاہتے ہیں ویسا آپ خود بن جایئں. بچے عہد طفولت ہی سے أخلاق، عادات وأطوار سیکھنے لگتے ہیں.اور ان كا ابتدائى مدرسہ انکا گھر ہوتا ہے جس کے اساتذہ اس کے والدین ہوتے ہیں. جہاں شوہر نے بیوی کو گالی دی یا مارا پیٹا اس نے اپنے لڑکے کو گالی دینا اور مارنا پیٹنا سکھا دیا ، جہاں… Read more »