اگر یہ وسوسہ دل‌ میں پیدا ہو تو کیا کریں؟

حسان عبدالغفار عقائد

شیطان – جو کہ انسان کا ازلی دشمن ہے – کسی بھی طرح انسان کو سکون و اطمینان سے رہنے نہیں دیتا بلکہ اس کی حالت اور ایمان ویقین کے اعتبار سے اس کے دل میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔ اس کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ انسان کو اس کے خالق کے بارے میں شکوک و شبہات کے اندر مبتلا کر کے اس کا سکون و اطمینان غارت کردے اور اسے راہ راست سے دور کردے۔ جب اس پر بس نہیں چلتا تو سب سے اہم عبادت نماز کے اندر اس کے دل میں خیالات ڈالتا رہتا ہے۔ کبھی وضو کے بارے میں تو کبھی طہارت کے بارے میں انسان کو شکی بنا دیتا ہے۔ کبھی میاں بیوی کے درمیان تو کبھی دو مسلمانوں کے درمیان شکوک و شبہات کے ذریعے اختلافات ڈالتا رہتا ہے۔
مذکورہ شیطانی وساوس میں سے سب سے اہم اور خطرناک وسوسہ جسے شیطان انسانی دلوں میں القا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ جب ہر چیز کا خالق اللہ ہے تو پھر – نعوذ باللہ – اللہ کا خالق کون ہے؟

‏ چونکہ بعض کمزور دل انسانوں پر ان وسوسوں کا اس قدر تسلط ہوتا ہے کہ وہ تنگی وبے چینی، حسرت وندامت اور خوف ‏ودہشت کی وجہ سے کچھ نازیبا اقدامات کر گزرتے ہیں لہذا مناسب معلوم ہوا کہ اس مرض کا تریاق پیش کر دیا جائے۔

چونکہ مذکورہ سطور سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ اس سوال کا مصدر اور مرجع شیطان ہوتا ہے وہی مختلف حیلہ کر کے یہ سوال ذہن میں ڈالتا ہے۔
لہذا اگر یہ وسوسہ اور سوال کسی مسلمان کے دل میں پیدا ہو تو وہ درج ذیل حدیث کو سامنے رکھے:
(1) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ: هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ، فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ؟ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، فَلْيَقُلْ: آمَنْتُ بِاللَّهِ”. (صحيح مسلم | كِتَابٌ: الْإِيمَانُ | بَابٌ: بَيَانُ الْوَسْوَسَةِ فِي الْإِيمَانِ: 134)

“ابو هريرة رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیشہ ہی لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے حتی کہ یہ کہا جائے گا یہ اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے تو اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا؟ تو جو شخص ایسا (اپنے ذہن میں) پائے وہ یہ کہے میں اللہ تعالی پر ایمان لایا”۔
(2) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ، فَيَقُولَ: مَنْ خَلَقَ كَذَا وَكَذَا؟ حَتَّى يَقُولَ لَهُ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ؟ فَإِذَا بَلَغَ ذَلِكَ، فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ، وَلْيَنْتَهِ”. (صحيح مسلم | كِتَابٌ: الْإِيمَانُ | بَابٌ: بَيَانُ الْوَسْوَسَةِ فِي الْإِيمَانِ: 134)
“حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی ایک کے پاس شیطان آکر کہتا ہے کہ یہ یہ چیز کس نے پیدا کی ہے حتی کہ وہ اسے کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ تو جب معاملہ یہاں تک جا پہنچے تو وہ اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے اور اس سے رک جائے”۔
سنن أبو داود کے الفاظ میں ہے: “… فَإِذَا قَالُوا ذَلِكَ فَقُولُوا: “اللَّهُ أَحَدٌ” “اللَّهُ الصَّمَدُ” “لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ” “وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ”. ثُمَّ لْيَتْفُلْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلَاثًا، وَلْيَسْتَعِذْ مِنَ الشَّيْطَانِ”. (سنن أبي داود /أَوْلُ كِتَابِ السُّنَّةِ | بَابٌ: فِي الْجَهْمِيةِ: 4722، صحيح الجامع: 8182)
“جب لوگ ایسا کہیں تو تم کہو: “الله أحد ۔ الله الصمد ۔ لم يلد ولم يولد ۔ ولم يكن له كفوا أحد” اللہ ایک ہے وہ بے نیاز ہے اس نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔ پھر وہ اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوکے اور شیطان سے پناہ مانگے”۔

مذکورہ احادیث کا ماحصل:
1 – مسلمان اس شیطانی وسوسہ کو دل میں دبا کر نہ رکھے اور نہ ہی اسے چھپائے ورنہ کچھ دنوں بعد وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔
2 – یہ کلمات پڑھے: آمنت بالله “میں اللہ تعالی پر ایمان لایا”۔
3 – شیطان سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کریں۔ یعنی: “أعوذ بالله من الشيطان الرجيم” پڑھے۔
4 – بائیں طرف تین دفعہ تھوکے اور سورۃ الاخلاص (قل هو اللہ احد) پڑھے۔
نوٹ: اگر کسی مسلمان کے دل میں شیطان اس طرح کے وسوسے ڈالے تو وہ اس سے پریشان نہ ہو بلکہ مذکورہ طریقہ کو اختیار کرے اور یہ بات یاد رکھے کہ یہ اس طرح کے وسوسے شیطان عموماً انھی لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے جو صاحب ایمان ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلُوهُ، إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ. قَالَ : “وَقَدْ وَجَدْتُمُوهُ ؟ “. قَالُوا : نَعَمْ. قَالَ : ” ذَاكَ صَرِيحُ الْإِيمَانِ “.( صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْإِيمَانُ | بَابٌ : بَيَانُ الْوَسْوَسَةِ فِي الْإِيمَانِ: 132)
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگ آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اپنے دلوں میں ایسے وسوسے پاتے ہیں، جن کو بیان کرنا ہم پر بہت گراں ہے، آپ نے فرمایا: کیا تمھیں ایسے وسوسے ہوتے ہیں؟ انھوں نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: یہ تو عین ایمان ہے”۔

کیونکہ شیطان انھی لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے جن پر اس کا بس نہیں چلتا ہے۔ رہی بات غير مسلموں کی تو ان کے ساتھ جس طرح چاہتا ہے کھیلتا ہے”۔ (شرح النووي لمسلم: 2/ 333، والتعليق على مسلم لشيخ ابن عثيمين: 1/ 424)

لیکن اگر کوئی کافر، مشرک، منکر یا عقل پرست کہے کہ جب ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے تو پھر اللہ یعنی: خالق کو کس نے پیدا کیا؟ تو ایسے لوگوں کے لیے مذکورہ نسخہ بالکل بے سود اور بے معنی ہوگا۔

کیونکہ یہ لوگ کتاب و سنت کو مانتے ہی کہاں ہیں!!

لہذا ہم ان سے یہ کہیں گے کہ یہ سوال کرنا اصولی اعتبار سے باطل ہے بلکہ فی نفسہ سوال ہی میں بھی تناقض ہے۔
کیونکہ اگر بفرض محال اور جدلی طریقے پر یہ کہہ بھی دیا جائے کہ اللہ تعالی کا کوئی خالق ہے تو فورا دوسرا سوال پیدا ہوگا کہ اس پیدا کرنے والے کے خالق کو کس نے پیدا کیا؟؟ پھر پیدا کرنے والے کے خالق کے خالق کو کس نے پیدا کیا؟؟ اس طرح ایک ایسا سلسلہ اور تسلسل نکل پڑے گا جس کی کوئی انتہا نہیں ہوگی، جو کہ عقلا محال بھی ہے، چنانچہ شیخ الإِسلام ابن تیمیہ رحمہ الله فرماتے ہیں: “ولفظ التسلسل يراد به التسلسل في المؤثرات، وهو أن يكون للحادث فاعل وللفاعل فاعل، وهذا باطل بصريح العقل واتفاق العقلاء، وهذا هو التسلسل الذي أمر النبي بأن يستعاذ بالله منه، وأمر بالانتهاء عنه”. (درء تعارض العقل والنقل: 1/215)
“لفظ تسلسل سے مراد اس کے مؤثرات میں تسلسل ہے۔ اور وہ یہ کہ حادث کے لیے فاعل ہو اور فاعل کے لیے فاعل ہو، تو یہ عقلی اعتبار اور عقلاء کے اتفاق سے باطل ہے۔ اور یہ وہ تسلسل ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی پناہ مانگنے اور اس سے دور رہنے کا بھی حکم دیا ہے”۔
نیز ہم اس کافر، مشرک اور بے عقل سے سوال کریں گے کہ کیا تم اللہ کو “خالق” مانتے ہو؟
وہ یقینا جواب دے گا کہ اللہ ہی خالق ہے “وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ”. (الزخرف: 9)
“اور اگر تو ان سے دریافت کرے کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا کہ انھیں غالب و دانا (اللہ) نے ہی پیدا کیا ہے۔
“لیکن اگر کوئی ملحد اور دہریہ ہے اور اللہ کو خالق ہی نہیں تسلیم کرتا ہے تم سب سے پہلے ہم ایک قاطع اور واضح دلیل کے ذریعہ سے اس کے ملحدانہ فکر کا قلع قمع کریں گے۔
وہ قاطع دلیل احکم الحاکمین کا یہ فرمان ہے: أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ”۔ (الطور :35)
“کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟”۔
اس آیت کے دو حصے ہیں:
(1) “أم خلقوا من غير شيء أي: من غير خالق”۔
کہ کیا یہ لوگ بغیر خالق کے پیدا ہو گئے ہیں؟
جواب: ہر گز نہیں!
اس لیے کہ تمام عقلاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہر “مُحْدَث ” کا کوئی نہ کوئی “محدِث” ضرور ہوتا ہے۔
لہذا جب ہر “مُحدَث” ( ہر وجود میں آنے والی چیز) کے لیے ایک مُحدَث (وجود میں لانے والا) کا ہونا ضروری ہے تو ہم اس ملحد سے کہیں گے کہ تم اپنے نفس میں غور کرو اور بتلاؤ کہ کیا تم حادث نہیں ہو؟
یقینا ہو!!!
پھر فرض کرلو کہ تمھاری عمر بیس سال ہے تو 22 سال پہلے تم کیا تھے؟
وہ جواب دے گا کہ کچھ بھی نہیں!
پھر سوال کیا جائے کہ جب کچھ بھی نہیں تھے تو پھر کیسے وجود میں آگئے؟
لہذا لامحالہ ماننا پڑے گا کہ کوئی “مُحدِث” اور خالق ضرور ہے اور وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات واحد ہے۔
جیسا کہ اللہ فرماتا ہے: “هَلْ أَتَى عَلَى الإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا۔ إِنَّا خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا”۔ (الدھر: 1-2)
“یقیناً انسان پر زمانے میں ایک وقت ايسا گزرا ہے جب کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔ بے شک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کے لیے پیدا کیا اور اس کو سنتا دیکھتا بنایا”۔
(2) آیت کا دوسرا حصہ ہے: “أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ۔ أي: لأنفسهم”۔
یا وہ خود اپنے آپ کو پیدا کرنے والے ہیں؟
جواب: ہرگز ہرگز ہرگز نہیں!
کیونکہ وہ وجود میں آنے سے پہلے معدوم تھے۔
لہذا کیسے ممکن ہے معدوم اپنے آپ کو پیدا کر لے؟
یہ عقل اور مشاھدہ دونوں کے یکسر خلاف بھی ہے۔
چنانچہ جب یہ واضح ہوگیا کہ نہ تو وہ بغیر خالق کے پیدا ہوئے ہیں اور نہ ہی انھوں نے خود کو پیدا کیا ہے تو متعین ہوگیا کہ ان کو پیدا کرنے والا اور انھیں وجود میں لانے والا کوئی نہ کوئی ضرور ہے، اور وہ اللہ رب العزت ہے۔
پھر جب یہ کافر، مشرک، ملحد، مجنوں اور بے عقل یہ تسلیم کرلیتے ہیں تو ہم ان سے دوبارہ سوال کریں گے کہ کیا خالق مخلوق ہو سکتا ہے؟
جواب: ہر گز ہرگز ہرگز ہرگز نہیں!
کیونکہ اس سے اجتماع نقیضین لازم آئے گا۔
اس لیے کہ “اصول تباین” یہ کہتا ہے کہ اجتماع نقیضین محال ہے۔
ایک چیز ایک ہی وقت میں اس چیز کی نقیض نہیں ہو سکتی یعنی: ایک وقت میں دو متناقض صفات کی حامل نہیں ہو سکتی۔
مثلا کوئی جاندار ایک وقت میں انسان اور غیر انسان نہیں ہوسکتا۔ پانی ایک وقت میں مائع اور غیر مائع نہیں ہو سکتا۔ زید عالم ہے اور غیر عالم بھی ہے ایسا قطعا درست نہیں۔
اگر پہلا صحیح ہے تو دوسرا غلط۔ اور دوسرا درست ہے تو پہلا غلط۔ بالکل اسی طرح اگر اللہ خالق ہے تو مخلوق نہیں ہو سکتا اور مخلوق ہے تو خالق نہیں ۔

چنانچہ جب آپ قطعی طور پر اللہ کو خالق تسلیم کر چکے ہیں تو لا محالہ ماننا پڑے گا کہ وہ مخلوق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اجتماع نقیضین محال ہے۔

ہم مزید کہہ سکتے ہیں کہ خالق کے سلسلے میں اصل وجود ہے کیونکہ اگر عدم اصل ہوتا تو وہ کائنات کو پیدا نہیں کر سکتا تھا (جیسا کہ گزشتہ سطور میں بیان کر دیا گیا ہے کہ معدوم کا خود کو پیدا کرنا ہی محال ہے چہ جائیکہ کہ وہ کائنات کو پیدا کرے) لہذا جب خالق کے سلسلے میں اصل وجود ہے تو اس کے سبب وجود اور اس کی خلقت کے بارے میں سوال کرنا ہی سرے سے باطل ہے۔

اسی طرح اللہ رب العزت کی ذات ازلی ہے اور اس کا وجود اس کی ذات سے کبھی جدا نہیں ہوسکتا۔ لہذا یہ سوال کرنا کہ اس کا وجود کیسے ہوا یا وہ کیسے پیدا ہوا انتہائی درجہ کی بیوقوفی ہے کیونکہ اس کے وجود کی کوئی ابتدا ہی نہیں ہے۔

مزید برآں اللہ رب العزت کو کمال مطلق حاصل ہے اور وہی اپنی مخلوق کو بھی کمال ہبہ کرتا ہے لہذا وہ موہوب سے زیادہ صفت کمال سے متصف ہے اور ہر وہ کمال جو مخلوق کے لیے ثابت ہے خالق کے لیے بدرجہ اولیٰ ثابت ہے۔
چنانچہ جب اللہ رب العزت صفت کمال مطلق سے متصف ہے اور ضرورت و حاجت کمال مطلق کے منافی ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ کامل مطلق کسی غیر کا قطعا محتاج نہیں ہوسکتا ہے چنانچہ اسی بنا پر خالق کسی غیر کا محتاج نہیں اور جب کسی غیر کا محتاج نہیں تو اس کا مطلب یہ کہ وہ غیر معلول ہے اور جب غیر معلول ہے تو اس کے وجود کی علت دریافت کرنا اور اس کی پیدائش کے بارے میں سوال کرنا بھی باطل ہے۔

اسی طرح اگر ہم کہیں کہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خالق ہے چنانچہ کائنات کا کوئی خالق ہے پھر اس کائنات کو پیدا کرنے والے کا کوئی خالق ہے پھر اس کے پیدا کرنے والے خالق کا کوئی خالق ہے پھر اس کے پیدا کرنے والے خالق کے خالق کو بھی کوئی پیدا کرنے والا ہے تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور کبھی ختم ہی نہیں ہوگا۔ اور اس (تسلسل) سے یقینی طور پر لازم آئے گا کہ کائنات کا کوئی خالق ہی نہیں ہے (کیونکہ جب ہم یہ کہیں گے کہ کائنات کو پیدا کرنے والے کا بھی کوئی خالق ہے تو اس سے اس کا مخلوق ہونا لازم آئے گا اور جو مخلوق ہو وہ خالق نہیں ہوسکتا اور جب خالق نہیں ہوسکتا تو پھر کائنات کو پیدا بھی نہیں کر سکتا) مگر کائنات کے وجود سے پتا چلتا ہے یہ سوال اور فلسفہ ہی سرے سے باطل ہے۔ کیونکہ کائنات کے وجود کا مطلب ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے اور جو خالق ہوگا وہ مخلوق نہیں ہوسکتا۔
لہذا کائنات کا وجود لا تعداد فاعلین (خالقوں) کے عدم تسلسل کو مستلزم ہے اور ضروری ہے کہ فاعلین (خالقین) کا سلسلہ کسی غیر معلول علت پر ختم ہو اور کسی ایک سبب پر تمام اسباب کی انتہا ہو، جبکہ تسلسل کو تسلیم کرلینے کی صورت میں کوئی انتہا ہی نظر نہیں آتا۔ لہذا یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں کہ فاعلین (خالقین) میں تسلسل ممنوع ہے اور ایک انتہا کا ہونا ضروری ہے اور فاعلین و خالقین میں انتہا اللہ رب العزت کی ذات ہے لہذا خالق کی خلقت کے بارے میں سوال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ سائل کا دماغی توازن اپنی صلاحیت کھو بیٹھا ہے اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اصولی طور پر یہ سوال باطل ہے بلکہ فی نفسہ سوال ہی میں تناقض ہے کیونکہ خالق کو کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ وہ اپنے سوا سب کا خالق ہے یہی بات عقل اور منطق کے موافق ہے۔

آپ کے تبصرے

3000