سید احمد شہید: ایک عظیم مصلح

راشد حسن مبارکپوری

 

گاہے گاہے بازخواں ایں قصئہ پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گر داغہائے سینہ را
ہندوستان کی علمی و مذہبی تاریخ پر اگر گہری نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بارہویں صدی ہجری علمی تگ و تاز کا ایک اہم موڑ ہے۔ یہی وہ دور ہے جس میں باقاعدہ کتاب و سنت پر عمل کی غیر معمولی تحریک ہوئی۔ گو اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے قبل بھی ہندوستان کی بساط علم و تہذیب ساغران جذب و شوق اورساقیان شعور و آگہی سے یکسر خالی نہ تھی۔ شاہ عبدالحق محدث دہلوی (۱۰۵۲ھ) نے صحرائے ہند میں عین عالم قحط خم خانئہ نبوی میں جو صدا بلند کی تھی، درحقیقت شاہ عبدالرحیم (۱۱۳۱ھ) اور ان کے فرزند ذی وقار شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۱۱۷۶ھ) پھر شاہ صاحب کی اولاد شاہ عبدالقادر (۱۲۳۰ھ) شاہ عبدالعزیز (۱۲۳۹ھ) شاہ رفیع الدین (۱۲۳۳ھ) اور شاہ عبدالغنی (۱۲۲۷ھ) پھر پوتے شاہ محمد اسماعیل شہید (۱۲۴۶ھ) اور نواسے شاہ محمد اسحاق (۱۲۶۲ھ) اسی صدائے ایمان آفریں کے صدائے بازگشت تھے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے تدریس و تالیف کے ذریعے اس عظیم ذمہ داری کو آگے بڑھایا جو ان کے والد گرامی کی جانب سے سونپی گئی تھی۔ علم حدیث کی طرف خاص توجہ فرمائی، فقہی مسائل میں راہ اعتدال کو ترجیح دی، اختلافی بازار میں سرے سے قدم ہی نہیں رکھا۔ ’’ مؤطا‘‘ کی دو شرحیں بزبان عربی و فارسی ’’المسوی‘‘ اور ’’المصفی‘‘ تحریر فرمائیں۔ شاہ صاحب کا علمی مقام و مرتبہ اور خاندانی عظمت و وجاہت کا پورے ہندوستان میں غلغلہ تھا، اس لیے ان کی تگ و تاز کے گہرے نقوش ہندوستانی معاشرے پر پڑنے ضروری تھے، جس جانب بھی شاہ صاحب نے معاشرتی ذہن کا رخ موڑنا چاہا ادھر مڑ گیا۔ یہ بھی ضرور ہے کہ اس وقت حالات دگرگوں تھے، شرک و کفر کی مہیب تاریکی تھی، تقلید و تصوف اور غیر شرعی اعمال کا زور تھا، انسانی مزاج نے خدا پرستی کے بجائے قبر پرستی کو مذہبی عقیدہ اور اسلامی قدر کے طور پر تسلیم کر لیا تھا، الہیات کے مسئلے میں عقلیاتی ورزشیں ہونے لگی تھیں، علماء اور تہذیب یافتہ طبقہ علم کلام کی بے اعتدالیوں اورفلسفیانہ موشگافیوں میں الجھا ہوا تھا، ایسے حالات میں شاہ ولی اللہ ایک کامیاب، مخلص مگر خاموش داعی کی حیثیت سے اٹھے، گو اس وقت درس نظامی – جس میں منطق و فلسفہ کی کتابوں کی بہتات تھی- کا زور تھا اور اہل اسلام انہی کتابوں کو اسلامیات کا جامع نصاب تصور کرتے تھے، ان کے حواشی، شروحات اور تعلیقات پر پورا زور صرف ہو رہا تھا، مگر شاہ صاحب کے حکیمانہ لب و لہجہ نے ماحول میں شمع سنت کی لو تیز کر دی، دیکھتے ہی دیکھتے اس کی روشنی بکھرنے لگی، لوگ تاریکیوں سے دست کش ہو کر ضیاء فیضان نبوی کی طرف آنے لگے، دبستان آگہی رسول کے غنچے اس سیرابی مخلصانہ سے چمکنے اور مہکنے لگے، حدیث کی شرحیں لکھی جانے لگیں، قرآن مجید کے فارسی و اردو ترجمے کیے جانے لگے، ماحول کی تلخ نوائیوں کا سامنا بھی رہا، مگر وقت کے طوفان کا سلسلہ تھمنے والا نہیں تھا، شروع ہوا تو بڑھتا ہی رہا۔ ان کے تلامذہ، اخلاف اور جانشینوں نے اس علمی قافلے کو آگے بڑھایا، شاہ صاحب کے جانشیں شاہ عبدالعزیز (۱۲۳۱ھ) ہوئے پھر ان کے جانشیں شاہ محمد اسحاق (۱۲۶۲ھ) ہوئے اور ان کے جانشینوں میں نمایاں نام مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (۱۳۲۰ھ) کا ہے۔
قافلے کا ایک رخ تو اس جانب حرکت و عمل میں مشغول تھا مگر ایک دوسرا میدان جو ابھی تک خالی تھا اور کسی مرد باہمت، درویش صفت با کمال کا منتظر تھا، اس وقت کے ماحول میں شرکیات، بدعات، انحرافات اور غیر اسلامی رسوم و وراج نے جس انداز میں جڑ پکڑ رکھی تھی، سخت ضرورت تھی کہ ان کے خاتمہ کی بے پناہ جدوجہد کی جائے، اس جد وجہد میں اخلاص و للہیت بھی ہو اور ریا و نمود کا شائبہ بھی نہ ہو۔ دوسری طرف ہندوستان کے سیاسی حالات بڑے بدتر ہو چکے تھے، سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھرے ایک مدت گزر چکی تھی، انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ملک بھر میں اپنا تسلط قائم کر رکھا تھا۔ پنجاب سے افغانستان کی سرحدوں تک سکھوں کا بول بالا تھا، دہلی اور ہندوستان کا جنوبی حصہ مرہٹوں کی بدعنوانیوں اور فسادات سے بری طرح زخمی تھا، الغرض سکھ، مرہٹے اور جاٹ ہندوستانی سیاست کے منظر نامے پر ایک سیاہ دھبے کی مانند تھے جنھیں لوٹ مار، قتل و غارت گری اور فنون حرب و ضرب کی مشاقی میں لطف آتا تھا، آ ئے دن دہلی اور اطراف دہلی میں قتل و نہب کے واقعات رونما ہوتے رہتے تھے۔
حالی مرحوم کا اشارہ اسی طرف ہے:
تذکرہ دہلئی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گاہم سے یہ فسانہ ہر گز
تفصیلات ’’واقعات دارالحکومت دہلی‘‘ از مولوی بشیر الدین میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
شاہ عبد العزیز مرحوم (۱۲۳۹ھ) نے بھی انہی حالات کے پیش نظر کہا تھا:
و إنی أری الإفرنج أصحاب ثروۃ
لقد أفسدواما بین دلہی و کابل
یہ دینی و سیاسی حالات تھے جس میں ایک مرد مجاہد حضرت سید احمد شہید (۱۲۴۶ھ) اور ان کے خلیفہ حضرت شاہ اسماعیل شہید (۱۲۴۶ھ) نے حالات کی کمان اپنے ہاتھ میں لی۔
سید احمد شہید اس وقت پیدا ہوئے جب بارہویں صدی ہجری کا آفتاب رخت سفر باندھ چکا تھا، تیرہویں صدی ہجری کا سورج طلوع کے اوٹ سے جھانک رہا تھا، یعنی ۱۲۰۱ھ کا سن تھا جب لکھنؤ کے قریب ایک چھوٹی سی بستی علم و عرفان اورمیکدہ روحانیت ’’رائے بریلی ‘‘ کی پیدائش ہوئی۔ حصول علم کے لیے دہلی کا سفر کیا، اس وقت وہاں بازار علم سجا ہوا تھا، وہ بازار جسے شاہ ولی اللہ نے اپنے خون جگر سے سینچا تھا، ان دو حضرات کے پاس حاضر ہوئے اور صحبت سے فیضیاب ہوئے مگر حصول علم کا سلسلہ نہ بڑھ سکا۔ البتہ تزکیہ و احسان کی تربیت میں کمال حاصل کیا۔ بیس سال کی عمر میں لکھنؤ میں جہاد کے لیے لشکر میں شامل ہوئے پھر دہلی آکر ’’نواب میر خان‘‘ کے لشکر میں شریک ہوئے۔ مگر مقاصد واضح نہ ہونے کے سبب اس سے نکل آئے اور احقاق حق اور ابطال باطل کے لیے زمینی تگ و تاز میں مصروف ہو گئے۔ احیائے سنت، بیخ کنی بدعت و انحراف اور دعوت جہاد کے عظیم الشان منصوبے کی تکمیل کی راہیں ہموار کرنے لگے۔ دوسری طرف خانوادہ ولی اللہی کے گل سر سبد اور سید صاحب کے خلیفہ ورفیق حضرت شاہ اسماعیل شہید (۱۲۴۶ھ) اس راہ میں ان کے باقاعدہ سہیم و شریک ہوگئے، دونوں حضرات مشترکہ جدوجہد کے ذریعے معاشرتی انحرافات، شرک و کفر کے رسم و رواج اور تصوف کے نام پر غلط اقدار کی ترویج کے خلاف شمشیر برہنہ ہوگئے، سید صاحب نے تصوف کو احسان کی شکل میں دیکھا اور اسی احسان کی ترویج کی۔ ادھر شاہ شہید نے ’’تقویۃ الایمان‘‘ کے ذریعے شرک وبدعت کے رواج پذیر تصورات کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ سید صاحب کی زندگی و جدوجہد میں ان کا مصلحانہ کردار ہمیں بہت نمایاں طور پر نظر آتا ہے، وہ ایک عظیم مصلح اور قائد تھے، وہ اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے کہ معاشرتی اصلاح کی ضرورت ہے، اس کے لیے وہ اپنی پوری قوت فنا کر دینا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ایک صالح معاشرے کی تشکیل ہو، جہاں خالص کتاب و سنت پر عمل کو فروغ دیا جائے۔ ہندوانہ رسوم و رواج اور غیر اسلامی افکار و خیالات جو اس معاشرے کا حصہ بن چکے تھے، اس کا حکیمانہ انداز میں خاتمہ ہو۔ ساتھ ہی یہ ساری چیزیں بلا اسلامی حکومت و قیادت کے ممکن نہیں، امر و نہی کا فریضہ حکومت کے بغیر خام خیالی ہے۔ ان کے ذہن میں یہ بات پیوست ہو چکی تھی کہ معاشرے کی شفافیت اسلامی حدود و تعزیرات کے نفاذ میں پنہاں ہے۔ اس کے لیے انھوں نے اپنے سفر حج کے ذریعے سے راہیں ہموار کیں۔
سید صاحب نے ۱۲۳۶ھ میں پورے ہند میں اپنے حج کا اعلان کیا، اس وقت اپنی قوت کے زور اور بعض علماء سوء کے فتاوی کی مدد سے یہ بات مشتہر کر دی تھی کہ اب تمھارے اوپر سے حج ساقط ہو چکا ہے، سید صاحب کے اعلان حج کے بعد لوگ مختلف علاقوں سے جوق در جوق آنے لگے ۔ تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ تعداد چار سو سے متجاوز ہو گئی، یہ پورا قافلہ رائے بریلی سے نکلا۔ راستے میں مختلف علاقوں میں قیام کرتا ہوا چلتا رہا اور لوگوں کے سینوں کو دعوت توحید و جہاد سے روشن کرتا رہا، مرزاپور، بنارس سے ہوتے ہوئے کلکتہ پہنچا۔ ان خطوں سے لوگوں نے اصلاح کی اور راہ سنت پر چلنے کا پیماں باندھا، سید صاحب کی تاخیر کی بابت مولوی محمد یعقوب فرمایا کرتے تھے کہ ’’شاہ عبد العزیز کی توجہ کی تاثیر مثل ہلکے سے مینہ کے ہوتی ہے جس کی چھوٹی چھوٹی بوندیں ہوتی ہیں اور سید صاحب کی تاثیرمثل لوہاروں کی پھکنی کے اثر کرتی ہے جو فوارہ کی طرح قلب پر پڑتی ہے‘‘ (سوانح احمدی از مولوی جعفر تھانیسری ص۲۱)
اس منصوبہ بند حج کا فائدہ یہ ہوا کہ معتقدین اور رفقاء کی ایک جماعت تیار ہو گئی۔ ۱۲۳۹ھ میں جب حج سے واپس ہوئے تو پنجاب میں مسلمانوں کے خلاف سکھوں کی ظالمانہ کاروائی اور کشت و خون کی دلخراش داستان سنی، وہیں سے اپنے رفقاء و مخلصین کے ساتھ میدان جہاد کے لیے نکل پڑے۔ پیشاور (موجودہ پاکستان) پہنچ کر سکھوں سے مقابلہ کیا اور فتح یاب ہوئے۔ پیشاور میں اسلامی حکومت قائم ہوئی، ایک ایسی حکومت جس نے قرن اول کی یاد تازہ کر دی۔ مدت حکومت چار سال تھی مگر اپنوں اور غیروں کی دسیسہ کاریوں نے پیشاور چھوڑنے پر مجبور کیا اور پنجاب پہنچ کر وہاں سکھ راجا رنجیت سنگھ کے خلاف جہاد کیا اور فتح سے ہمکنار ہوئے۔ مگر پیمان شکنی، خیانت اور سازشوں کے بادل گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ پھر آپ نے کشمیر کا رخ کیا اور کچھ خائنوں نے سکھوں کو خبر کر دی جس کی وجہ سے انھوں نے ’’بالاکوٹ‘‘ میں دھوکے سے حملہ کیا جہاں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل نے جام شہادت نوش کی۔ یہ ۱۲۴۶ھ کا زمانہ تھا۔
سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی شہادت سے بظاہر اس تحریک کے اثرات کمزور پڑگئے مگر یہ ایک ظاہری تصور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک میں خود زندگی میں لاکھوں لوگوں نے راہ مستقیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنایا، بہتوں نے اصلاح قلب کی اور بہتوں نے اسلام قبول کیا۔ ناریخ میں یہ سارا احصائیہ موجود ہے۔
اصلاح و سدھار کی یہ صورت اس زمانے تک محدود نہ تھی بلکہ بعد میں علم و عمل میں جو کچھ سدھار اور عقائد و خیالات میں جو کچھ اصلاح نظر آتی ہے وہ اسی تحریک کا پرتو ہے۔ یہی تحریک ہندوستان سے انگریزوں کے انخلاء کے نقطہ آغاز کے طور پر ابھری تھی اور ہندوستان کی معاشرتی زندگی پر اس نے گہرے اور دوررس نتائج چھوڑے، ایسے اثرات جو آج بھی کسی نہ کسی حد تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دو سو سال گزر جانے کے بعد آج بھی باشندگان دنیائے شرک و تصوف کے درمیان ’’تقویہ الایمان‘‘ کی تلخی گلوگیر ہے:
بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقاں پاک طینت را
ضمیمہ:
حضرت سید صاحب پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور جب تک سورج طلوع و غروب کے مراحل سے گزرتا رہے گا اس کاروان دعوت و عزیمت و جہاد پر لکھا جاتا رہے گا، قلم کی سیاہی اس داستان وفا کے نقوش ثبت کرتی رہے گی، زبان ان کے ذکر سے زمزمہ سنج رہے گی۔
’’تذکرہ‘‘ میں مولانا آزاد (۱۹۵۸ء) نے تحریک شہید پر جس جذب و مستی اور دریائے عقیدت میں ڈوب کر لکھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور کاروان عزیمت کی عظمت گزشتہ کی ایک روشن تصویر ہے۔ حضرت مولانا داؤد غزنوی مرحوم (۱۹۶۳ء) نے ۱۹۲۷ء میں ایک ہفت روزہ اخبار بنام ’’توحید‘‘ امرتسر سے جاری فرمایا تھا، جو دو سال تک جاری رہا۔ اس میں ایک سلسلہ وار مضمون ’’تیرہویں صدی کا مجاہد اعظم‘‘ مولانا محی الدین قصوری مرحوم کے قلم سے شائع ہوا، جس کا عربی میں ترجمہ کر کے مولانا ابوالحسن علی ندوی مرحوم نے اپنے استاد علامہ تقی الدین ہلالی مراکشی کے توسط سے سید رشید رضا کے معروف زمانہ مجلہ ’’المنار‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجا اور وہ شائع بھی ہوا۔
سید صاحب کی زندگی پر کچھ کتابیں بڑی اہم ہیں، ایک کتاب ’’وقائع احمدی ‘‘ ہے۔ نواب وزیر الدولہ مرحوم نے ان لوگوں کی ایک جماعت تیار کی جولوگ سید صاحب کے براہ راست معتقدین یا مستفیدین میں سے تھے، وہ جماعت جو کچھ بولتی ایک کاتب اسے محفوظ کرتا جاتا۔ اس طرح یہ کتاب اردو میں تیار ہوئی جسے موضوع کا اہم ترین مرجع قرار دیا جا سکتا ہے۔ دوسری کتاب ’’منظورۃ السعداء فی أقوال الغزاۃ و الشہداء ‘‘ ہے جس کے مؤلف سید جعفر علی نقوی ہیں۔ مرحوم بستی کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’’مجھوامیر‘‘ کے باشندے تھے، سن تالیف ۱۲۷۲ھ ہے۔ تیسری کتاب ’’سوانح احمدی‘‘ ہے جس کے مؤلف مولانا جعفر تھانیسری مرحوم ہیں جنھوں نے’’ تواریخ عجیب ‘‘یعنی کالا پانی بھی تحریر فرمائی ۔ اس طرح ضمنی طور سے ’’الدر المنثور فی تراجم اہل صادق پور‘‘ ازمولانا عبدالرحیم صادق پوری، ’’رسالہ دعوت‘‘ از مولانا ولایت علی صادق پوری،’’ نزھۃ الخواطر‘‘ از مولانا عبدالحی حسنی، ’’حیات طیبہ‘‘ از مرزا حیرت دہلوی، ’’یہ کتاب شاہ اسماعیل کے مجاہدانہ کارناموں پر مشتمل ہے‘‘ میں تذکرہ آ گیا ہے۔ اس باب میں اہم ترین کتاب مولانا غلام رسول مہر مرحوم کی ہے، جو درحقیقت ایک مکمل تاریخی دستاویز ہونے کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کی خوبصورت چاشنی بھی رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم کتاب مولانا ابو الحسن علی ندوی کی ’’سیرت سید احمد شہید‘‘ ہے جو بعد کے لوگوں کے لیے دلیل راہ بنی۔ اگر اس کتاب میں قدرے غلو اور طوالت نہ ہوتی تو اپنے باب میں منفرد ہو جاتی۔ اسی سلسلۃ الذہب کی ایک شاندار کڑی ہمارے محترم ڈاکٹر محبوب الرحمن صاحب کی کتاب ’’ سید احمد شہید ــــ- ایک عظیم مصلح‘‘ بھی ہے..

یہ مضمون دراصل ڈاکٹر محمد محبوب الرحمن اسسٹنٹ پروفیسر علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کی کتاب “سید احمد رایے بریلوی… ” پر لکھا جانے والا مقدمہ ہے، افادہ عام کی غرض سے فری لانسر کے قارئین تک پہونچایا جارہا ہے. 

 

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عامر انصاری

بہت خوب