پروفیسر ولی اختر ندوی رحمہ اللہ کی یاد میں

آصف تنویر تیمی تاریخ و سیرت

صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
(پروفیسر ولی اختر ندوی رحمہ اللہ کی یاد میں)


پروفیسر ولی اختر ندوی رحمہ اللہ کی یاد میں

پروفیسر ڈاکٹر ولی اختر ندوی رحمہ اللہ کی روح کو قفس عنصری سے پرواز کیے ابھی چوبیس گھنٹہ نہیں ہوا۔ اچانک ان کی وفات کی خبر سے ہندوستان کی علمی وعملی فضا سوگوار ہے۔ اکثر لوگوں کی آنکھیں اشک بار اور دل شکستہ ہیں۔ آنسووں کا ایسا لا متناہی سلسلہ ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک ایک حرف پر آنسووں کا ایک ایک قطرہ ہے۔ دل اور کان ماننے کو تیار نہیں کہ علمی دنیا کا عظیم سرمایہ لمحوں میں ہم سے دور ہوگیا۔

اللہ نے انھیں بہت ساری دینی ودنیوی نعمتیں دی تھیں پھر بھی ان کی ذات میں ناموری اور شہرت نام کی چیز نہ تھی۔ تواضع اور خاکساری کا اعلی نمونہ تھے۔ دہلی یونیورسٹی جیسی اہم مرکزی تعلیم گاہ کے پروفیسر ہونے کے باوجود ہمیشہ فرشتہ صفت نظر آتے تھے۔ خود کو دینی مزاج اور اسلامی تہذیب سے کبھی دور نہیں کیا۔ اپنے بچوں اور بچیوں کو اسلامی تعلیم وتربیت سے بہرہ ور کیا۔ مال ودولت ہونے کے باوجود کامیابی کی کلید اسلامی علوم کو قرار دیتے تھے۔ منبر ومحراب کی بھی زینت بنتے۔ گاوں والوں کے لیے دینی اور سماجی پیشوا کی حیثیت رکھتے تھے۔ رفاہی کاموں میں قائدانہ رول ادا کرتے۔ ان کی امانت ودیانت کے سارے لوگ معترف تھے۔

سادہ مزاج تھے۔ ایک اجنبی شخص کے لیے سمجھنا مشکل ہوتا تھا کہ یہ فلاں یونیورسٹی اور فلاں فلاں کتابوں کے مصنف ہیں۔ ہندوستان میں عربی زبان وادب کی نشو ونما میں ان کا بڑا حصہ تھا۔ بین الاقوامی سطح پر وہ ملک ہندوستان کی نمائندگی کرتے تھے۔ عربی اور انگریزی زبان کے مستند اور کہنہ مشق ترجمہ نگار تھے۔ زبان میں مٹھاس اور لطافت تھی۔ اعلی فکر وشعور سے مالا مال تھے۔

بچپن سے محنتی اور جفاکش تھے۔ والدین کے عزیز اور دل کے قریب رہے۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رضا کے بعد انھیں والدین کی رضا زیادہ عزیز تھی۔ والدین کی دلجوئی اور خوشنودی کی خاطر انھوں نے ہر سیاہ و سفید کو قربان کیا۔ جب تک والدین باحیات رہے یونیورسٹی کی بڑی ذمہ داری کو قبول کرنے میں پس وپیش کیا۔ یونیورسٹی کی ہر چھٹی کو والدین کے ساتھ گزارنے کو ترجیح دیتے۔ سرکاری چھٹیوں کے مطابق والدین سے ملنے کا پورا لائحہ ان کے پاس بنا رہتا تھا۔ والدین کی جو خدمت انھوں نے کی ہے وہ پوری اسلامی برادری بالخصوص علما براردی کے لیے نمونہ ہے۔ شیخ الحدیث امان اللہ فیضی رحمہ اللہ کو میں نے بارہا کہتے ہوئے سنا کہ “ولی اختر” اسم با مسمی ہے۔ والدین کو جو اعتماد اور لگاؤ ان سے تھا وہ کسی دوسری اولاد سے نہیں تھا۔

ابھی چند ماہ قبل ان کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا۔ پانچ چھ سال قبل والد رحمہ اللہ، اللہ کو پیارے ہوئے اور اب اچانک خود راہی ملک بقا ہوگئے۔ ان کی اچانک رحلت سے ملک، ملت، ریاست، مدارس وجامعات اور طلبہ وطالبات کا بڑا نقصان ہوا۔ گھر والوں پر کیا بیت رہی ہوگی سمجھنا مشکل نہیں۔

خاندان کے لوگوں کے لیے ڈھال تھے۔ بھائیوں کے لیے والد کی حیثیت رکھتے تھے۔ بڑے بھائی بھی ان کی عزت ایسی کرتے تھے جتنی والد کی کی جاتی ہے۔ انھوں نے لوگوں کو گاؤں سے لے جاکر شہروں میں بسایا، نوجوان بچوں کے علم وہنر کا بندوبست کرتے۔ ابوالفضل، شاہین باغ کو انھوں نے اس وقت آباد کیا جب وہاں جانا پہاڑ پر چڑھنے جیسا تھا۔ زندگی کا بیش بہا وقت انھوں نے دلی خصوصا جامعہ نگر میں گزارا۔

زبردست قسم کی جماعتی غیرت سے سرشار تھے۔ توحید وسنت کے پاسدار اور شرک وبدعت سے بے زار تھے۔ موصوف ندوہ اور مدارس اسلامیہ کی شان تھے۔ مدارس وجامعات سے عصری یونیورسٹیوں کا رخ کرنے والے ہر طالب علم کی پوری رہنمائی کرتے اور حتی المقدور تعاون بھی کرتے۔

تدریس وتصنیف میں درک کامل تھا، کئی کتابیں انھوں نے عربی اور انگریزی زبان میں لکھیں۔ جو بعض کالجوں میں زیر نصاب بھی ہیں۔ سب سے بڑی بات کہ دنیا کی گہماگہمی میں وہ اپنے رب اور اپنے بچوں کے لیے کافی وقت نکال لیتے تھے۔ نماز پنج وقتہ کے پابند بلکہ جب تک آبائی گاؤں ‘بھکورہر’ میں رہتے امانت اور خطابت کا فریضہ انجام دیتے۔ بلا کی ذہانت اور فراست اللہ نے عطا کی تھی۔ دنیا میں انھوں نے جو مقام بنایا وہ محض اللہ کی توفیق، والدین کی دعاؤں اور اپنی ذاتی لگن، محنت سے بنایا۔ ان کو قرآن کریم سے خاصہ شغف تھا کچھ سالوں سے قرآن خود سے حفظ کرنا شروع کیا تھا۔ اور تقریبا بیس پارے کے قریب حفظ بھی کرچکے تھے۔ حق پسند تھے۔ غلط کا کبھی انھوں نے ساتھ نہ دیا۔ معاملہ اپنے کا ہو یا پرائے کا عدل وانصاف کے ساتھ معاملے کو نپٹاتے۔ بے لاگ گفتگو کرتے۔ اپنا قیمتی وقت لایعنی کاموں میں بالکل خرچ نہ کرتے۔ سفر ہو یا حضر پڑھنے لکھنے میں اپنا وقت لگاتے۔ مطالعے کا اعلی ذوق پایا تھا۔

اپنے گاؤں اور علاقے کی فلاح وبہودی کے لیے بے شمار اچھے عزائم تھے جو اب کچھ خواب جیسے اور کچھ ادھورے ہیں۔ وہ ہم سب کے لیے دینی اور دنیوی اعتبار سے رول ماڈل تھے، ان کے جیسا دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔ وہ ہمارے علمی راہنما بھی تھے۔ گزشتہ سال انھوں نے میری جو مدد کی وہ بیان سے باہر ہے اور پتہ نہیں ہم جیسے کتنوں کے مادی اور معنوی محسن تھے۔ احسان کرکے بھول جانا ان کی عادت تھی۔ جس کو دیتے لیتے سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔ کتنے لوگوں کے گھر بنائے، کتنی بچیوں کی شادیاں کرائیں، کتنے غریبوں کو ماہانہ خرچ دیتے تھے یہ کچھ خاص لوگ ہی جانتے ہیں۔

سب سے بڑا نقصان ان کے بچوں اور بھائیوں کا ہوا۔ سارا خواب چکنا چور ہوگیا۔ روشن چراغ بجھ گیا۔ راہنما بچھڑ گیا۔ مربی ومحسن کا سایہ سر سے اٹھ ہوگیا۔ اللہ نے انھیں دو بیٹے (عزیزی حماد اور خطاب) اور دو بیٹیاں (عزیزہ ثمینہ اور امینہ) دیں، خوشی کی بات یہ ہے کہ سب کے سب اعلی دینی تعلیم سے مزین ہیں۔ جو بھی تعلیم ہے وہ ٹھوس اور مستحکم ہے۔

ان سے میری آخری گفتگو بذریعہ فون ۲ جون کو ہوئی تھی۔ خود انھوں نے فون کیا اور کم وبیش پانچ منٹ تک گاؤں گھر کے موضوع پر بات ہوئی۔ دوران گفتگو انھوں نے کہا: “آصف! میرے لیے گھر اب دور ہوگیا ہے، راستہ اتنا پر خطر ہوگیا ہے کہ آنا آسان نہیں لگ رہا ہے۔ ابھی عید کے بعد ان کا گھر آنے کا پروگرام بھی تھا۔ ان کی باتوں میں درد وکرب تھا۔ میں نے کہا: بھیا اب بقرعید کا ٹکٹ بنوا لیجیے۔ دو دن قبل آجائیے گا، عید کی نماز بھی پڑھادیجیے گا اور چند روز قیام کرکے چلے جائیے گا۔ اس پر انھوں نے کہا: ان شاء اللہ سوچیں گے۔

مجھے کیا معلوم تھا کہ میری ان سے یہ آخری گفتگو ہورہی ہے ورنہ اور باتیں کرتا۔ بات کرنے کے ایک دو روز کے بعد معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہوگئے ہیں۔ ہاسپیٹل میں زیر علاج ہیں۔ دوبارہ سہ بارہ ان کو کال کیا مگر موبائل کسی اور کے ہاتھ میں جاچکا تھا۔ ان کی آواز سننے کو میں ترستا ہی رہ گیا۔ علی،جمیل اور سہیل بھائی سے برابر رابطے میں رہا۔ سب ٹھیک ہونے کی قوی امید دلاتے رہے۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ولی بھیا اتنی جلدی رب کے پاس ہم سب کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ ان کا دست شفقت ہم سے ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔ ان کی علمی وعملی سرپرستی سے ہمیشہ ہمیش کے لیے محروم ہوجائیں گے۔ اب میرا علمی وعملی مشیر کوئی نہیں رہے گا۔ جو بھی سنجیدہ گفتگو کرنی ہوتی وہ مجھ سے کرتے تھے۔ رفاہی کاموں میں مجھے حصہ دار بناتے تھے۔ اہم اوقات میں مجھے ساتھ لیتے تھے۔

ان کی یادوں کا ایسا سلسلہ ہے جو ختم ہونے والا نہیں۔ نام لیتے آنسوؤں کو روک پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ان سطروں کو لکھنے میں کتنی دشواری مجھے ہورہی ہے وہ میرا اللہ یا میرا دل جانتا ہے۔

اگر شرعی اور دینی لحاظ سے ناجائز نہ ہوتا تو ہفتوں نوحہ اور ماتم کرتا۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ موت اٹل ہے۔ ایک منٹ دیر سویر نہیں۔ ہم سب کو رب سے ملاقات کرنا ہے۔ اپنے اعمال کا حساب وکتاب دینا ہے۔ ان سے پہلے اور بعد میں بھی کوئی رہنے والا نہیں۔ جو بھی اس دنیا میں آیا ہے سب کو جانا ہے۔

اللہ سے اپنے اور تمام بھائیوں اور بچوں کے لیے صبر کی بھیک مانگتا ہوں، اور اس کے سامنے دست بستہ کھڑا عرض کرتا ہوں کہ اے رب غفور! تو اپنے عاجز ودر ماندہ بندے کی دعا قبول فرما اور مرنے والے کی بال بال مغفرت فرمادے، ان کی خطاؤں کو معاف فرما کر ان کو جنت الفردوس کا مہمان بنالے۔ ان کی حسنات کو قبول کرلے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخش دے۔

کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالمتين

رحمه الله رحمة واسعة وإنا لله وإنا إليه راجعون. جس کا بھی پروفیسر صاحب سے أدنى سا بھی تعلق رہا ہے اس کی آنکھیں اشکبار ہیں. الله ان کے أعمال صالحہ كو قبول فرمائے اور لغزشوں سے درگزر فرمائے. آمين.

عرفان سلفی

اللہ ان کے حسنات کو شرف قبولیت بخشے اور لغزشوں اور خطاؤں کو معاف فرما، ان کے علمی خدمات اور کاوشوں کو صدقہ جاریہ بنائے. آمین تقبل یا رب العالمین

محمد طارق بدر

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے!!!
الله رب العزت موصوف رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے اور ان کے حسنات کو بلندیِ درجات کا ذریعہ بنائے۔
آمین یا رب العالمین!!! 😢😢😢

محمد طارق بدر

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے!!!
اللہ رب العالمین موصوف کی خطاؤں پر معافی کا قلم پھیر دے اور ان کے حسنات کو بلندیِ درجات کا ذریعہ بنائے۔
آمین یا رب العالمین!!! 😢😢😢