چھٹی اور آخری قسط:
حاملہ اور مرضعہ کے روزے کا مسئلہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے، تابعین کے زمانے سے اس میں اختلاف رہا ہے اور اس کی کسی بھی صورت پر ان کے درمیان اجماع نہیں ہوا ہے۔
لہذا اصول کے مطابق ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ شرعی رخصت کی بنا پر جو خواتین حمل ورضاعت کی حالت میں رمضان کے روزے نہیں رکھ پاتیں ان پر بعد میں کیا واجب ہوتا ہے۔ تاکہ علما کے مختلف اقوال میں سے کتاب وسنت سے سب سے قریب ترین قول کون سا ہے اسے معلوم کیا جاسکے اور اس پر عمل کیا جاسکے۔
اس لیے اب علما کے اقوال مع دلائل پیش کیے جا رہے ہیں۔
● پہلا قول: ان پر صرف فدیہ ہے، قضا نہیں۔ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دینے سے وہ برئ الذمہ ہوجائیں گی۔
عہد صحابہ سے لے کر دور حاضر تک علما کی ایک جماعت کا یہ موقف رہا ہے، لیکن افسوس کہ اس قول کے ساتھ اکثر انصاف نہیں ہو پاتا اور اسے ایک شاذ قول تصور کرایا جاتا ہے، اور یہ کہا جاتا ہےکہ یہ صرف ابن عباس، ابن عمر اور سعید بن جبیر کا شاذ قول ہے، ان کے ساتھ نہ کوئی سلف ہے، نہ خلف۔
حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ جیسے کہ کہا گیا صحابہ کرام میں سے ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ فتوی ہے۔ بسند صحیح ان سے یہ فتوی ثابت ہے۔ اور صحابہ کرام میں سے کسی نے ان کی مخالفت نہیں کی ہے۔ ابن قدامہ، عبد الرحمن مقدسی ،شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ ابن عثیمین رحمہم اللہ نے اس کی باضابطہ صراحت کی ہے۔ (المغنی لابن قدامہ: 3/150، والشرح الکبیر علی متن المقنع: 7/383، وشرح العمدہ، کتاب الصیام لابن تیمیہ، : 1/249، التعليق على رسالۃ حقیقۃ الصیام لابن عثیمین: ص 116)
اسی وجہ سے شیخ محمد بن عمر بازمول نے اسے اجماع سکوتی قرار دیا ہے۔ (الترجیح فی مسائل الصوم والزکاۃ: 2/64)
سلف میں سے سعید بن المسیب، سعید بن جبیر، قتادہ، عکرمہ، قاسم بن محمد، ابراہیم نخعی، اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ اور ان کے ساتھ سلف کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ایک جماعت کی طرف اس قول کو منسوب کیا ہے۔ (المحلی لابن حزم: 4/411-412، والاستذکار لابن عبد البر: 3/365)
اور ائمہ اربعہ میں سے امام مالک رحمہ اللہ کا یہ ایک قول ہے جسے ان کے شاگرد ابن وہب نے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں: “وَقَدْ كَانَ مَالِكٌ يَقُولُ فِي الْحَامِلِ: تُفْطِرُ وَتُطْعِمُ، وَيَذْكُرُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَهُ”۔ (المدونہ: 1/279)
مسلم بن یسار (المتوفی 100ھ او ما بعدھا) فرماتے ہیں: أدركت أهل المدينة وهم يخيرون المرضع والحامل في شهرها الذي تخاف على نفسها يفطران ويطعمان كل يوم مسكينًا۔ (شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے شرح العمدہ کتاب الصیام (ص252) میں ان سے صیغہ جزم کے ساتھ نقل کیا ہے۔ اور سعید بن منصور کی طرف احالہ کیا ہے لیکن سنن سعید بن منصور کا کتاب الصیام والا حصہ مطبوع نہیں ہے، جس کی وجہ سے اس کی سند معلوم نہ ہو سکی)
علامہ امیر صنعانی ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: “هذه فتيا من ابن عمر، وقد وافقه عليها أئمةٌ، وظاهره ولا قضاء عليها بعد ذلك۔ (التحبير لإيضاح معاني التيسير: 6/361)
علامہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “عن ابن عباس بسند صحيح أنه قال: لأم ولد له حامل أو مرضعة أنت بمنزلة الذين لا يطيقون الصوم، عليك الطعام لا قضاء عليك، عن ابن عمر أن إحدى بناته أرسلت تسأله عن صوم رمضان وهي حامل، قال: تفطر وتطعم كل يوم مسكيناً، وقد روي نحو هذا عن جماعة من التابعين”۔ (فتح البيان في مقاصد القرآن: 1/365)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “وهذا مروي عن ابن عباس وعن ابن عمر رضي الله عنهما، قاله جماعة من السلف”۔
الغرض علمائے کرام نے سلف کی ایک جماعت کی طرف اس قول کو منسوب کیا ہے اور یہ ان کے نزدیک کبھی شاذ قول نہیں رہا ہے۔
معاصرین علمائے محققین کی ایک جماعت نے بھی اسے ہی راجح کہا ہے۔ مثلا: علامہ البانی، شیخ حسین العوایشہ، شیخ محمد بن ابراہیم شقرہ، شیخ مشہور حسن آل سلمان، شیخ فرکوس، شیخ محمد بن عمر بازمول، شیخ کمال السید سالم، شیخ عبد العظیم بدوی، وغیرہم۔ (سلسلہ الہدی والنور للالبانی: کیسیٹ نمبر58، الموسوعۃ الفقہیہ المیسرہ:3/221، ارشاد الساری الی عبادۃ الباری، القسم الثالث، الصیام، 64، موقع الشیخ ابی عبد المعز محمد علی فرکوس، الترجیح فی مسائل الصوم والزکاۃ لمحمد عمر بازمول، 2/64، صحیح فقہ السنہ لکمال السید سالم، 2/127، الوجیز فی فقہ السنہ والکتاب العزیز للدکتور عبد العظیم بدوی، ص199)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کوئی شاذ قول نہیں بلکہ اجلائے علمائے سلف وخلف کی ایک جماعت کا مختار قول ہے۔
در اصل اسی غلط فہمی نے بہت سارے حضرات کی نظر میں اس قول کو نہایت کمزور کردیا ہے کہ یہ ایک شاذ قول ہے اور جمہور کی مخالفت سے مرعوب ہوکر کوئی اس کی طرف خاص توجہ نہیں دینا چاہتا۔ حالانکہ دلائل کے اعتبار سے یہ سب سے قوی ہے اور علمائے سلف وخلف کی ایک جماعت نے اسے ہی اختیار کیا ہے۔
✿ اب اس قول کے دلائل ملاحظہ فرمائیں:
● پہلی دلیل: اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ”وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ“۔
اس آیت میں اس بات کی صراحت ہے کہ کچھ لوگوں پر صرف فدیہ واجب ہے، مزید کچھ نہیں۔ اب یہ کون ہیں اسے جاننے کی ضرورت ہے۔
ابتدائے اسلام میں یہ آیت سب کے لیے عام تھی، سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے۔ (صحیح بخاری: ح4507)
پھر بعد میں کچھ لوگوں کے حق میں اس کا حکم منسوخ ہو گیا اور کچھ لوگوں کے حق میں اسے باقی رکھا گیا۔ بہت سارے آثار میں اسی چیز کو بغیر تفصیل کے ”منسوخ“ کہا گیا ہے، جس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ یہ آیت بالکلیہ منسوخ ہے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے، یہاں منسوخ تخصیص کے معنی میں ہے جیسا کہ علامہ قرطبی، علامہ ابن القیم اور علامہ شاطبی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے۔ یعنی پہلے یہ آیت سب کے حق میں عام تھی، بعد میں بعض لوگوں کے حق میں خاص کردی گئی۔ (تفسیر قرطبی: 2/288-289، اعلام الموقعین: 1/35-36، الموافقات: 3/108)
اگر منسوخ کا یہ معنی نہ لیا جائے تو لازم آئے گا کہ خود ابن عباس رضی اللہ عنہ تضاد کے شکار ہیں، کیونکہ انھوں نے بعض جگہوں پر منسوخ ہونے کا انکار کیا ہے۔ (صحیح بخاری: 6/25، ح4505)
اور بعض جگہوں پر کہا ہے کہ یہ منسوخ ہے۔ مثلا جہاں منسوخ ہونے کی بات کی ہے وہاں ان کے الفاظ پر غور کریں، فرماتے ہیں:
رُخِّصَ لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ وَالْعَجُوزِ الْكَبِيرَةِ فِي ذَلِكَ وَهُمَا يُطِيقَانِ الصَّوْمَ أَنْ يُفْطِرَا إِنْ شَاءَا أَوْ يُطْعِمَا كُلَّ يَوْمٍ مِسْكِينًا وَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِمَا ثُمَّ نُسِخَ ذَلِكَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ {فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ} وَثَبَتَ لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ وَالْعَجُوزِ الْكَبِيرَةِ إِذَا كَانَا لَا يُطِيقَانِ الصَّوْمَ وَالْحُبْلَى وَالْمُرْضِعِ إِذَا خَافَتَا أَفْطَرَتَا وَأَطْعَمَتَا كُلَّ يَوْمٍ مِسْكِينًا. (المنتقى لابن الجارود: ص 103، ح381)
یہاں پر منسوخ ہونے کی بھی بات کر رہے اور بوڑھے بزرگ اور حاملہ ومرضعہ کے حق میں محکم اور ثابت ہونے کی بھی بات کر رہے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ منسوخ سے مراد یہاں ”معروف اصطلاحی منسوخ“ نہیں بلکہ ”تخصیص“ ہے۔ اور یہی علما نے توجیہ کی ہے، جیسا کہ گزرا۔
یہ تو آیت کو متواتر قراءت ”يُطِيقُونَهُ“ پڑھنے کی صورت میں بات ہوئی۔ اس آیت کی ایک اور مشہور قراءت بہت سارے سلف صالحین سے وارد ہے، وہ ہے: ”يُطَوَّقُونَه“ کی قراءت۔ ترجمان القرآن ابن عباس رضی اللہ عنہ اس لفظ کو ”يُطَوَّقُونَه“پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری: 6/25، ح4505)
اسی طرح یہ قراءت عائشہ، مجاہد، عطاء، سعید بن جبیر، عکرمہ اور تابعین وغیرہم کی ایک جماعت سے منقول ہے۔ (الاستذکار: 3/364)
اس قراءت کا معنی ہے: جنھیں روزہ رکھنے میں کلفت اور پریشانی ہوتی ہو وہ روزہ نہ رکھیں اور فدیہ ادا کر دیں۔
علامہ ابن عبد البر فرماتے ہیں:
“وأما الذين كانوا يقرؤون (عَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ) فَهَذِهِ القراءة رويت عن ابن عَبَّاسٍ مِنْ طُرُقٍ، وَعَنْ عَائِشَةَ كَذَلِك،َ كَانَ يَقْرَأُ مُجَاهِدٌ وَعَطَاءٌ وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَعِكْرِمَةُ وَجَمَاعَةٌ مِنَ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ، وَكُلُّهُمْ يَذْهَبُ إِلَى أَنَّ الْآيَةَ مَحْكَمَةٌ فِي الشَّيْخِ وَالْعَجُوزِ وَالْحَامِلِ وَالْمُرْضِعِ الَّذِينَ يُكَلَّفُونَ الصِّيَامَ وَلَا يُطِيقُونَهُ”۔ (الاستذكار: 3/ 364)
(جو لوگ آیت کو اس طرح پڑھتے ہیں: ”عَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ“ تو یہ قراءت ابن عباس سے متعدد طرق سے مروی ہے، اسی طرح عائشہ سے، مجاہد، عطاء، سعید بن جبیر، عکرمہ اور تابعین وغیر تابعین کی ایک جماعت بھی اسی طرح پڑھتے تھے، اور ہر ایک کی رائے یہ تھی کہ یہ آیت بوڑھے مرد وعورت، حاملہ اور مرضعہ جنھیں روزہ رکھنے میں پریشانی ہوتی ہو اور روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں ان کے حق میں محکم ہے)
ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اس قراءت کی صورت میں سلف کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے کہ وہ اس آیت کو بوڑھے مرد وعورت اور حاملہ ومرضعہ جنھیں روزہ رکھنے میں پریشانی ہوتی ہو اور روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں ان کے حق میں محکم کہا ہے۔ اور مجھے کوئی ایک بھی ایسا قول نہیں ملا جنھوں نے آیت کو محکم کہا ہو اور حاملہ ومرضعہ کا اس کے حکم میں داخل ہونے سے انکار کیا ہو۔ ہاں بعض سلف کے یہاں یہ تو موجود ہےکہ انھوں نے صرف بوڑھے مرد وعورت کے ذکر پر اکتفا کیا ہے اور انھوں نے حاملہ ومرضعہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ لیکن کسی سے ایک بھی ایسا قول نہ ملا کہ حاملہ اور مرضعہ اس میں داخل نہیں ہیں۔ وفوق کل ذی علم علیم
یہاں پر قضا کے قائلین کو غور کرنا چاہیے کہ وہ اس آیت کو محکم مانتے ہیں یا منسوخ؟
اگر وہ اسے منسوخ کہیں تو جنھوں نے محکم کہا ہے ان کا قول رد کرنے کی ان کے پاس کیا دلیل ہے؟
نیز منسوخ ماننے کی صورت میں بوڑھے مرد وعورت کا حکم وہ کس دلیل سے بیان کرتے ہیں؟
اور اگر کہیں کہ منسوخ نہیں، محکم ہے، جیسا کہ توقع ہے تو حاملہ ومرضعہ اس میں داخل ہیں یا نہیں؟
اگر ”داخل نہیں“، تو کیا کسی سلف نے ان کے دخول کا انکار کیا ہے؟
ظاہر سی بات ہے سبھی حاملہ ومرضعہ کو اس میں داخل مانتے ہیں، اس کے بعد ان کے یہاں اس بات پر اختلاف ہے کہ ان کے اوپر قضا واجب ہے یا فدیہ۔
حالانکہ داخل ماننے کی صورت میں خود قرآن کا نص ہے کہ ان کے اوپر فدیہ واجب ہے۔
آپ ”وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ“ میں یہ تو تسلیم کریں کہ ”الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ“ میں حاملہ ومرضعہ داخل ہیں لیکن ”فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ“ کا انکار کردیں یہ کہاں کا انصاف ہے؟
اس لیے راجح یہ ہے کہ یہ آیت جو بھی ”الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ“ کے اندر داخل ہیں ان کے حق میں فدیہ کے وجوب پر نص ہے۔ اور یہی بات شیخ محمد بن عمر بازمول نے کہی ہے۔ (الترجیح فی مسائل الصوم والزکاۃ: 2/64)
اور جب یہ نص ہے تو حاملہ ومرضعہ کو مریض کے اوپر ”قیاس“ کرکے ”فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ“ کا حکم دینا قطعا جائز نہیں۔ لا قیاس فی مقابل النص
● دوسری دلیل: ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رُخِّصَ لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ وَالْعَجُوزِ الْكَبِيرَةِ وَهُمَا يُطِيقَانِ الصَّوْمَ، إِنْ شَاءَا أَطْعَمَا وَلَمْ يَصُومَا، ثُمَّ نُسِخَتْ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ اللَّهُ: فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سفر فعدة مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَثَبَتَ لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ وَالْعَجُوزِ الْكَبِيرَةِ، إِذَا كَانَ لَا يُطِيقَانِ الصَّوْمَ، أَنْ يُطْعِمَا، وَلِلْحُبْلَى وَالْمُرْضِعِ إِذَا خَافَتَا أَفْطَرَتَا وَأَطْعَمَتَا، مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا، وَلا قَضَاءَ عَلَيْهِمَا. (تفسير ابن أبي حاتم: 1/307، بإسناد حسن)
(بوڑھے مرد وعورت کو طاقت رکھنے کی صورت میں یہ رخصت دی گئی کہ چاہیں تو فدیہ دیں، چاہیں تو روزہ رکھیں، پھر یہ حکم آیت ”فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سفر فعدة مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ “ سے منسوخ کر دیا گیا، اور صرف بوڑھے مرد وعورت جب طاقت نہ رکھیں ان کے بارے میں ثابت رکھا کہ وہ کھانا کھلا دیں۔ اسی طرح حاملہ ومرضعہ کو جب خوف ہو تو ان کے بارے میں ثابت رکھا کہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ اور ان دونوں پر اس کی قضا نہیں)
✿ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ تفسیر حدیثِ مرفوع کے حکم میں ہے۔
محدثین کرام نے مرفوع حکمی کے جو اصول بیان کیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی صحابی کسی چیز کے متعلق جب یہ کہے: «أُمِرْنا بكذا», «نُهِينا عن كذا», «رُخِّصَ لنا», «أُبِيحَ لنا», «حُرِّمَ علينا», «أُوجِبَ علينا» تو گرچہ یہ لفظًا موقوف ہولیکن حکمًا مرفوع ہے۔ چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ایک زمانے کے بعد کہا ہو یا وفات کے تھوڑے دنوں کے بعد یا آپ کی زندگی میں۔ چاہے بطور احتجاج کہا ہو یا بغیر احتجاج کے، چاہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے کے ماتحت رہا ہو یا نہ رہا ہو، چاہے چھوٹا ہو یا بڑا۔ تقریبا تمام محدثین کا اس پر اتفاق ہے۔ بلکہ امام بیہقی اور امام حاکم رحمہما اللہ نے اس بارے میں کسی اختلاف ہی کا انکار کیا ہے۔ حالانکہ بعض اصولیین نے اس میں اختلاف بھی کیا ہے لیکن محدثین کے یہاں تقریبا یہ شبہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ (فتح المغیث للسخاوی: 1/141-143، فتح الباقي بشرح ألفية العراقي لزکریا الانصاری: 1/181، وصفوة الملح بشرح منظومة البيقوني في فن المصطلح لشمس الدین الدمیاطی: ص66)
اور یہاں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے «رُخِّصَ لنا» کہا ہے۔ اسی طرح سنن ابی داود میں اس آیت کے متعلق ان کے الفاظ ہیں: «أُثْبِتَتْ لِلحُبلى والمُرْضِع» (حاملہ ومرضعہ کے لیے اس آیت کو ثابت رکھا گیا)
لہذا محدثین کرام کے بیان کردہ اصول کے مطابق یہ گرچہ لفظا موقوف ہو لیکن حکمًا مرفوع ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ گرچہ قضا کے قائلین میں سے ہیں لیکن اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“قوله رضي الله عنه: «رخِّص»: إذا قال الصحابي هكذا بالبناء للمجهول، فإن الفاعل هو النبي صلى الله عليه وسلم، وإذا قال النبي صلى الله عليه وسلم مثل ذلك بالبناء للمجهول فإن الفاعل هو الله عز وجل، وعلى هذا فيكون مثل هذا الحديث من باب المرفوع حكمًا، لا نجعله صريحًا؛ لأنه لم يصرح بأن النبي صلى الله عليه وسلم هو الذي رخص، ولم نجعله موقوفًا؛ لأنه لم يقله من عند نفسه، بل قال: “رُخِّصَ”۔
فإن قال قائل: أفلا يجوز أن يكون ابن عباس رضي الله عنهما فهم ذلك اجتهادًا، وحينئذٍ يكون موقوفًا لا مرفوعًا؟ الجواب: أن مثل هذا لا يقع بهذا الجزم، بمعنى: أن الاجتهاد لا يقع بهذا الجزم فيقول: “رخص” إلا مقرونًا بالدليل في الغالب”۔ (فتح ذي الجلال والإكرام بشرح بلوغ المرام: 3/239)
(ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ”رُخِّصَ“ کہنا تو جب صحابی صیغہ مجہول کے ساتھ اس طرح کہے تو اس کا فاعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح صیغہ مجہول کے ساتھ کہیں تو فاعل اللہ تعالی ہوتے ہیں۔ بنا بریں اس طرح کی حدیث مرفوع حکمی کے قبیل سے ہے۔ ہم مرفوع صریح نہیں کہتے کیونکہ صحابی نے اس بات کی صراحت نہیں کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دی ہے، لیکن اسے موقوف بھی نہیں کہیں گے کیونکہ یہ بات انھوں نے اپنی طرف سے بیان نہیں کی ہے، بلکہ ”رُخِّصَ“ کہا ہے۔
اگر کوئی کہے: کیا یہ جائز نہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے یہ سمجھا ہو، ایسی صورت میں یہ موقوف ہوگی مرفوع نہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو اس طرح یقین کے ساتھ نہ کہتے۔ یعنی کہ اجتہاد کی صورت میں اس طرح یقین کے ساتھ ”رُخِّصَ“ نہ کہتے، بلکہ غالبا ساتھ میں کوئی دلیل ذکر کرتے)
شیخ رحمہ اللہ نے صاف طور پر یہاں اس تفسیر کو حکما مرفوع کہا ہے۔ اور محتمل اشکالات کا پہلے ہی جواب دے دیا ہے کہ ان کی بنا پر اسے مرفوع حکمی ماننے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
یہی بات ان سے پہلے علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے کہی ہے، فرماتے ہیں: “وهذا عن ابن عباس تفسير لما في القرآن، مع مافيه من الإشعار بالرفع”۔ (الدراري المضية شرح الدرر البهية: 2/177)
(یہ ایک تو ابن عباس کی طرف سے قرآن کی تفسیر ہے۔ نیز اس میں مرفوع ہونے کی بھی اطلاع ہے)
علامہ شوکانی کا اشارہ مذکورہ صیغہ کی طرف ہے، کیونکہ یہ صیغہ محدثین کے نزدیک مرفوع حکمی کا صیغہ ہے۔
جب اس تفسیر کا حکم حدیثِ مرفوع کا ہوا تو آیت میں اس بات کی صراحت ہے کہ ان کے لیے صرف فدیہ ہے، مزید کچھ نہیں۔ اور یہی ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں اور ان کی قضا نہ کریں۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے ان کی اس تفسیر کو درست اور بہت ہی عمیق و دقیق کہا ہے۔ فرماتے ہیں:
“أن استدلال ابن عباس رضي الله عنهما بهذه الآية استدلال عميق جداً، ووجهه أن الله قال: {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ} فجعل الفدية معادلة للصوم، وهذا في أول الأمر لما كان الناس مخيرين بين الصوم والفدية، فلما تعذر أحد البديلين ثبت الآخر، أي: لما تعذر الصوم ثبتت الفدية، وإلا فمن أخذ بظاهر الآية قال: إن الآية لا تدل على هذا، فالآية تدل على أن الذي يطيق الصيام، إما أن يفدي أو يصوم، والصوم خير ثم نسخ هذا الحكم۔
والجواب: أن الله تعالى لما جعل الفدية عديلاً للصوم في مقام التخيير دل ذلك على أنها تكون بدلاً عنه في حال تعذر الصوم، وهذا واضح، وعلى هذا فمن أفطر لكبر، أو مرض لا يرجى برؤه، فإنه يطعم عن كل يوم مسكيناً”.ض۔ (الشرح الممتع على زاد المستقنع: 6/ 338)
یہاں شیخ رحمہ اللہ نے عمر رسیدہ بزرگ کے معاملہ میں اس استدلال کو ”عمیق جدا“ کہا ہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ نے ان کے ساتھ ہی حاملہ ومرضعہ کو بھی بیان کیا ہے۔ اور بلا شبہ ان کی تفسیر آیت کے بالکل موافق ہے، کیونکہ آیت میں صرف فدیہ کی بات ہے، قضا کی نہیں۔ اور سابقہ تفصیل کے مطابق حاملہ ومرضعہ کا دخول اس میں مرفوع حکمی سے ثابت ہے۔
اس لیے یہ دونوں دلیلیں اس مسئلہ میں نص کی حیثیت رکھتی ہیں کہ حاملہ ومرضعہ پر صرف فدیہ ہے، مزید کچھ بھی نہیں۔
● تیسری دلیل: انس بن مالک الکعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“إن الله تعالى وضع عن المسافر الصوم، وشطر الصلاة، وعن الحامل أو المرضع الصوم أو الصيام”۔
ایک مستقل مضمون میں اس حدیث کے متعلق بالتفصیل بیان کیا جاچکا ہے کہ اس کی صحت پر محدثین نے کلام کیا ہے۔ اور اس کے وارد شدہ الفاظ سے یہ واضح ہے کہ راوی حدیث سے اس کے الفاظ کو ضبط کرنے میں چوک ہوئی ہے، اگر اسے صحیح یا حسن مانا بھی جائے جیسا کہ بعض علما نے کہا ہے تو اس سے یہ فائدہ ملتا ہے کہ حاملہ ومرضعہ سے اللہ تعالی نے روزے کو معاف کردیا ہے۔ اور سابقہ دونوں دلیلوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان پر بعد میں فدیہ ہے، اس کے علاوہ مزید کچھ نہیں۔
● چوتھی دلیل: صحابہ کرام کا فتوی:
دو جلیل القدر صحابہ عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بسند صحیح مروی ہے کہ حاملہ ومرضعہ اگر روزے نہ رکھ سکیں تو بعد میں ان پر صرف فدیہ ہے، قضا نہیں۔ (دونوں صحابہ کرام سے وارد تمام مرویات کا تفصیلی دراسہ دی فری لانسر میں پہلے ہی پیش کیا جا چکا ہے، اس کی طرف رجوع کیا جائے)
صحابہ کرام میں سے اور کسی دوسرے صحابی نے ان دونوں کی مخالفت نہیں کی ہے۔ اگر پہلی دونوں دلیلیں نہ بھی ہوتیں پھر بھی اختلاف کی صورت میں صحابہ کرام کے اس قول پر عمل کرنا اولی اور اقرب الی الصواب ہوتا۔
✿ اس دلیل پر وارد بعض اعتراضات اور ان کا جائزہ:
پہلا اعتراض: یہ صحابہ کرام کا قول ہے اور اقوال صحابہ حجت نہیں۔
✿ جائزہ: صحابی کا قول حجت ہے یا نہیں اس بارے میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ علمائے اصول نے اسے مختلف فیہ ادلہ میں سے شمار کیا ہے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین (5/543، وما بعدہا) میں قول صحابی کی حجیت پر بہت ہی عمدہ اور نفیس بحث پیش کی ہے۔ اور اقوال صحابہ کی حجیت پر ایک دو نہیں چھیالیس دلیلیں دی ہیں کہ اقوال صحابہ حجت ہیں۔ ساتھ ہی آخر میں مخالفین کی طرف سے وارد ہونے والے تمام شبہات کا تشفی بخش جواب بھی دیا ہے۔ شیخ احمد سلام نے اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اسے الگ سے ”البينات السلفية على أن أقوال الصحابة حجة شرعية في إعلام الإمام ابن قيم الجوزية“ کے عنوان سے اپنی مفید تعلیقات کے ساتھ نشر کیا ہے۔ شیخ مشہور حسن سلمان حفظہ اللہ نے اپنی تحقیق میں ان تعلیقات کو حاشیہ میں شامل کر لیا ہے، جزاہما اللہ خیرا، جو کہ ان کی تحقیق میں متن وحاشیہ کے ساتھ تقریبا اسی صفحات پر مشتمل ہیں۔
محققین علما کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ راجح قول کے مطابق قول صحابی دو شرطوں کے ساتھ حجت ہے۔ استاد محترم شیخ صالح العصیمی حفظہ اللہ (عضو ہیئۃ کبار العلماء) ایک درس میں فرماتے ہیں کہ راجح قول کے مطابق قول صحابی دو شرطوں کے ساتھ حجت ہے:
پہلی شرط: ان کا قول کتاب وسنت کی کسی دلیل سے نہ ٹکراتا ہو۔
دوسری شرط: کسی دوسرے صحابی نے ان کی مخالفت نہ کی ہو۔
اگر کسی صحابی کے قول میں یہ دو شرطیں پائی جاتی ہیں تو وہ حجت ہے، ورنہ نہیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اپنے منظومۃ القواعد الفقہیہ میں فرماتے ہیں:
قولُ الصحابي حُجَّةٌ على الأَصَحّ …. ما لَمْ يُخالِفْ مثلَهُ فَمَا رَجَحْ
(قول صحابی راجح قول کے مطابق حجت ہے، جب تک کہ اپنے جیسے کسی صحابی یا اس سے قوی دلیل – یعنی کتاب وسنت – کی مخالفت نہ کرتا ہو)
اب یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ کیا ان دونوں صحابہ کرام کے فتووں میں یہ دونوں شرطیں پائی جاتی ہیں یا نہیں؟
✿ پہلے: پہلی شرط کو دیکھتے ہیں:
قرآن کی کسی آیت سے ان دونوں کے قول کی کوئی مخالفت لازم نہیں آتی، بلکہ ابھی اوپر بیان کیا گیا کہ ان دونوں کا فتوی آیت ”وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ“ کے عین مطابق ہے۔
جہاں تک ”وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سفر فعدة مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ“ والی آیت کی بات ہے تو وہ اس مسئلہ میں نص نہیں، بلکہ وہ مریض اور مسافر کے بارے میں نص ہے اور قضا کے قائلین مریض پر ”قیاس“ کرتے ہوئے حاملہ ومرضعہ کو قضا کا حکم دیتے ہیں۔ اس آیت میں حاملہ ومرضعہ کی بات نہیں آئی ہے۔
جہاں تک انس بن مالک الکعبی رضی اللہ عنہ کی حدیث کا تعلق ہے تو اس کے متعلق تفصیلی بحث گزری کہ اس سے قضا کے وجوب پر استدلال کرنا غلط استدلال ہے۔ اور مسئلہ میں کوئی دوسری ایسی حدیث نہیں جو ان دونوں صحابہ کرام کے فتووں سے ٹکراتی ہو۔
لہذا بلا شبہ یہاں پہلی شرط موجود ہے۔
✿ دوسری شرط: یعنی کسی دوسرے صحابی نے ان کی مخالفت نہ کی ہو۔
تو یہ شرط بھی الحمد للہ یہاں موجود ہے۔ کسی دوسرے صحابی سے ان کی مخالفت ثابت نہیں ہے۔
مجموعی طور پر ان کے فتووں کی مخالفت میں تین آثار وارد ہیں۔
1 – ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: «تُفْطِرُ الْحَامِلُ وَالْمُرْضِعُ فِي رَمَضَانَ، وَتَقْضِيَانِ صِيَامًا، وَلَا تُطْعِمَانِ» (مصنف عبد الرزاق الصنعاني: 4/218 حدیث نمبر7564)
یہ اثر ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔ اس کی مفصل تخریج پہلے پیش کی جاچکی ہے۔
2 – ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: «أن امرأة صامت حاملا فاستعطشت في شهر رمضان، فسئل عنها ابن عمر، فأمرها أن تفطر وتطعم كل يوم مسكينا مدًّا، ثم لا يجزئها ذلك، فإذا صحّت قضته»۔ (الناسخ والمنسوخ للقاسم بن سلام: 1/63)
یہ اثر ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔ اس کی بھی تفصیلی تخریج پیش کی جاچکی ہے۔
اس پر ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ امام ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ نے قضا کے قائلین میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کا نام بھی شمار کیا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جب ان سے مروی سند ہمیں مل چکی اور دلائل سے ثابت ہوگیا کہ یہ اثر ان سے ثابت نہیں تو صرف کسی کی طرف سے نام ذکر کردینے سے یہ ان سے ثابت نہیں ہو جائے گا اور اس کا ضعف ختم نہیں ہو جائے گا۔ اہل علم پر یہ مخفی نہیں۔
اس کے بالمقابل علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْمَرْوَزِيُّ: لَا نَعْلَمُ أَحَدًا صَحَّ عَنْهُ أَنَّهُ جَمَعَ عَلَيْهِمَا الْأَمْرَيْنِ الْقَضَاءَ وَالْإِطْعَامَ إِلَّا مُجَاهِدًا. قال: وروي ذلك عن عطاء وعن ابن عُمَرَ أَيْضًا وَلَا يَصِحُّ عَنْهُمَا، وَالصَّحِيحُ عَنِ ابن عُمَرَ فِيهَا الْإِطْعَامُ وَلَا قَضَاءَ۔ (الاستذكار:3/365)
(ابو عبد اللہ المروزی فرماتے ہیں: ہمیں نہیں معلوم کہ مجاہد کے علاوہ کسی سے قضا وفدیہ دونوں کا جمع کرنا ثابت ہے۔ فرماتے ہیں: عطاء اور ابن عمر سے بھی یہ مروی ہے لیکن ثابت نہیں ہے۔ ابن عمر سے جو ثابت ہے وہ یہ کہ ان پر صرف فدیہ ہے، قضا نہیں)
3 – علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: “عَلَيْهِمَا الْقَضَاءُ إذَا أَفْطَرَتَا وَلَا فِدْيَةَ عَلَيْهِمَا”۔ (أحكام القرآن للجصاص: 1/220)
(ان دونوں – یعنی حاملہ ومرضعہ – پر روزہ چھوڑنے کی صورت میں قضا ہے، فدیہ نہیں)
✿ اس اثر کا درجہ: لا اصل لہ (اس کی کوئی اصل نہیں ہے)
اسے ابو بکر الجصاص نے بلا سند علی رضی اللہ عنہ روایت کی ہے۔ دوسری جگہ بھی کہیں اس کی کوئی سند نہ مل سکی۔ اور ایسی احادیث جن کی اسانید کا کوئی اتہ پتہ نہ ہو ان کے متعلق محدثین حکم لگاتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ليس له أصل“ یا ”لا أصل له“۔ (تدريب الراوي: 1/350)
ایسی بلا سند روایت کو رد کرنے میں تردد کرنا محدثین کے اصول کے خلاف ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ان دونوں صحابہ کرام نے کسی دوسرے صحابی کی کوئی مخالفت نہیں کی ہے۔ بلکہ علامہ ابن قدامہ المقدسی، عبد الرحمن المقدسی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ ابن عثیمین رحمہم اللہ نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ کسی دوسرے صحابی نے ان کی مخالفت نہیں کی ہے۔ لہذا کسی صحابی کے قول کی حجیت کے لیے علما نے جو دو شرطیں لگائی ہیں دونوں یہاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اس لیے مسئلہ ہذا میں ان کا قول حجت ہے۔
● شریعت کے بہت سارے ایسے مسائل ہیں جن میں کتاب وسنت کے نصوص ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں اور ہم بلا چوں وچراں صحابہ کرام کے فتاوے کی روشنی میں بخوشی عمل کرتے ہیں اور کبھی اس میں تردد نہیں کرتے۔ میں یہاں اس طرح کی صرف تین مثالیں پیش کرتا ہوں۔
✿ پہلی مثال: عید کی مبارکبادی کے سلسلے میں کتاب وسنت کے نصوص ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں، لیکن جبیر بن نفیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام جب عید کے دن آپس میں ملتے تو یہ کہتے تھے: “تقبل الله منا ومنكم” یعنی اللہ ہمارے اور آپ کے نیک اعمال قبول فرمائے”۔ اسی طرح واثلہ اور ابو امامہ رضی اللہ عنہما سے بھی یہ الفاظ مروی ہیں۔ اور ہم میں سے ہر کوئی بلا کسی ادنی تردد کے اس پر ہر سال عمل کرتا ہے۔ اس وقت ہمیں ذرہ برابر یہ اشکال نہیں ہوتا کہ اس کی دلیل قول صحابی ہے۔
✿ دوسری مثال: حج یا عمرہ کے واجبات میں سے کوئی واجب اگر کسی سے فوت ہوجائے تو ”دم“ کے ذریعہ اس کی بھرپائی کی جاتی ہے۔ ہر سال حجاج کرام اس مسئلہ پر عمل کرتے ہیں اور ہم بھی حجاج کرام کو اس کی رہنمائی کرتے ہیں، حالانکہ اس مسئلہ میں کتاب وسنت کے نصوص ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں، بس ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی ہے جسے امام مالک رحمہ اللہ نے موطا (1/419) میں بسند صحیح روایت کی ہے، فرماتے ہیں: “من نسي من نسكه شيئاً أو تركه فليهرق دمًا” (جو اپنے نسک میں سے کچھ بھول جائے یا چھوڑ دے وہ ایک جانور ذبح کرے)
یہاں پر عمل کرتے وقت ہمیں یہ اشکال نہیں ہوتا کہ یہ تو قول صحابی ہے، اس کی بنا پر کسی کو کیسے جانور ذبح کرنے کا حکم دیا جائے۔ جس طرح یہاں پر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جانور ذبح کرنے کا فتوی دیا ہے اسی طرح حاملہ ومرضعہ کو فدیہ ادا کرنے کا فتوی دیا ہے۔ ہم ایک جگہ ان کے قول کو حجت مانیں اور دوسری جگہ رد کردیں کیا یہ انصاف ہے؟
✿ تیسری مثال: ابھی لاک ڈاؤن کے زمانے میں ہم نے گھروں میں عید کی نماز ادا کی ہے اور اس موقع پر سب نے بڑھ چڑھ کر انس رضی اللہ عنہ کے عمل سے استدلال کیا ہے۔ حالانکہ بعض دوسرے صحابہ کرام سے اس کے برعکس دوسرے فتاوے بھی سامنے آئے تھے، بعض علما کے اقوال پیش کیے گئے تھے کہ یہ جائز نہیں، لیکن ہم نے دو رکعت نماز عید پڑھنے میں تردد نہ کیا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بعض جگہوں پر کتاب وسنت کے نصوص کی عدم موجودگی میں تو ہم قول صحابی کو حجت کہیں اور دوسری جگہ تمام شرائط کے پائے جانے کے باوجود ان کو کوئی اہمیت نہ دیں؟
✿ تنبیہ: بوڑھے مرد وعورت جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں ان کے متعلق بھی قول صحابی کو حجت مانا جاتا ہے اور ابن عباس وانس رضی اللہ عنہما کے آثار سے استدلال کیا جاتا ہے۔
ان کے لیے فدیہ پر اکتفا کو لے کر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ ان پر فدیہ کے لیے جو دلیلیں ہیں وہی حاملہ ومرضعہ کے لیے بھی ہیں۔ جس آیت سے ان پر فدیہ کے لیے استدلال کیا جاتا ہے اسی آیت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حاملہ ومرضعہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ اگر کوئی آیت کو منسوخ کہہ کر قابل استدلال نہیں سمجھتا تو بوڑھے مرد وعورت کےحق میں بھی اسے ناقابل استدلال ہونا چاہیے۔
نیز اس میں ابن عباس کی تفسیر اور انس رضی اللہ عنہ کے عمل کو بلا تردد بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ اگر قول صحابی حجت نہیں تو یہاں بھی رد کر دیا جانا چاہیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ آیت منسوخ ہے اور نہ شروط کے ساتھ قول صحابی کی حجیت کا انکار درست ہے۔
✿ قول صحابی کی حجیت کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“من قال من العلماء قول الصحابي حجة فإن كان لم يخالفه غيره من الصحابة ولا عرف نص يخالفه ثم إذا اشتهر ولم ينكروه كان إقراراً على القول فقد يقال إجماع إقراري أنهم أقروه لم ينكره أحد منهم وهم لا يقرون على باطل۔
وأما إذا لم يشتهر فهذا إن عرف أن غيره لم يخالفه فقد يقال هو حجة وأما إذا عرف أنه خالفه فليس بحجة بالاتفاق. وأما إذا لم يعرف هل وافقه غيره أو خالفه لم يجزم بأحدهما۔
ومتى كانت السنة تدل على خلافه كانت الحجة في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم لا فيما يخالفها بلا ريب عند أهل العلم”۔ (مجموع الفتاوى:1/283)
“اہل علم میں جو لوگ اس بات کے قائل کے ہیں کہ صحابی کا قول حجت ہے، تو یہ اس وقت ہے جب کسی دوسر ے صحابی نے اس قول کی مخالفت نہیں کی ہو اور نہ ہی کوئی نص اس کے مخالف ہو۔ اور یہ قول صحابہ کے درمیان مشہور ہوا ہو لیکن کسی نے اس پر نکیر نہ کی ہو تو ایسی صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اجماع سکوتی ہے کیونکہ صحابہ کرام باطل پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ اور اگر اس قول کو گرچہ شہرت نہ ہوئی ہو لیکن یہ بات معلوم ہو کہ کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی ہے، تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حجت ہے۔ لیکن اگر کسی نے اس کی مخالفت کی ہو تو اس وقت قول صحابی بالاتفاق حجت نہیں ہے۔ اسی طرح اگر یہ نہیں معلوم ہو کہ کسی نے اس کی موافقت کی ہے یا مخالفت تو پھر یقینی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جائے گا۔ اور اگر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس قول کے برخلاف ہو تو بلاتردد تمام اہل علم کے نزدیک سنت نبوی حجت ہے، نہ کہ اس کے برخلاف کسی کا قول”۔
✿ جائزہ: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے قول صحابی کو اولا دو قسموں میں تقسیم کیا ہے: ان کا قول صحابہ کے درمیان مشہور تھا یا مشہور نہیں تھا۔
اگر مشہور تھا اور انھوں نے کتاب وسنت کے کسی نص کی یا کسی دوسرے صحابی کی مخالفت نہیں کی ہے تو یہ اجماع اقراری (سکوتی) ہے۔
اور اگر مشہور نہیں تھا تو اس کی تین قسمیں ہیں:
پہلی قسم: معلوم ہو کہ کسی دوسرے صحابی نے ان کی مخالفت نہیں کی ہے تو ان کا قول حجت ہے۔
دوسری قسم: معلوم ہو کہ کسی دوسرے نے ان کی مخالفت کی ہے تو ان کا قول حجت نہیں۔
تیسری قسم: کچھ بھی پتہ نہ چلے کہ کسی دوسرے نے مخالفت کی ہے یا موافقت تو اس کے متعلق یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ حجت ہے یا نہیں۔
یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جب خود وہ کہہ رہے کہ ان کا قول مشہور نہیں تھا تو کسی دوسرے نے مخالفت کی ہے یا نہیں کی اسے معلوم کرنے کا کیا طریقہ ہوگا۔ اگر دوسرے صحابہ کرام سے یہ مل جائے کہ ان تک یہ بات پہنچی اور انھوں نے مخالفت نہیں کی تو یہ ”غیر مشہور“ ہی کہاں رہ گیا؟
یہ تو مشہور کے ضمن میں داخل ہوگیا۔ کوئی قول غیر مشہور ہو اور پتہ بھی چلے کہ کسی دوسرے صحابی نے اس کی مخالفت نہیں کی ہے یہ بالفعل ممکن نہیں سوائے ایک صورت کے، وہ ہے: علمائے استقراء کا فیصلہ۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی ممکنہ صورت مجھے نظر نہیں آتی۔ وفوق کل ذی علم علیم
اگر علما کسی قول صحابی کے متعلق یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کسی دوسرے صحابی نے ان کی مخالفت نہیں کی ہے تو ان کا قول معتبر ہے الا یہ کہ اس کے خلاف کوئی دلیل مل جائے کہ فلاں دوسرے صحابی سے ان کی مخالفت ثابت ہے۔
اب زیر بحث ابن عمر وابن عباس رضی اللہ عنہما کے فتووں پر غور کرتے ہیں۔
اولا: یہ کسی ایک صحابی کا معاملہ نہیں ہے۔
ثانیا: یہ دونوں ایسے صحابہ ہیں جو نشرِ علم کے لیے وقف تھے اور کثیر تعداد میں لوگ اپنے دینی مسائل کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔
ثالثا: ابن عمر رضی اللہ نے متعدد بار یہ فتوی دیا ہے۔ ایک مرتبہ اپنی بیٹی کو، ایک مرتبہ اپنی بیوی کو، ایک مرتبہ اپنی لونڈی کو اور بعض روات نے مطلقا بھی یہ فتوی نقل کیا ہے۔ اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کا معاملہ ہے۔ بعض دفعہ انھوں نے آیت کی تفسیر میں یہ بات ذکر کی ہے، بعض دفعہ اپنی لونڈی کو یہ فتوی دیا ہے اور بعض دفعہ مطلقا یہ مسئلہ ذکر کیا ہے۔ اس لیے اس پر مطلقا غیر مشہور ہونے کا حکم لگا دینا ہی محل نظر ہے۔
اگر شیخ الاسلام کی تقسیم کے مطابق اسے غیر مشہور کے زمرے میں رکھا بھی جائے تو یہ اس کی پہلی قسم کے اندر بلاشبہ داخل ہے جسے انھوں نے حجت کہا ہے۔ کیونکہ خود انھوں نےصراحت کی ہے کہ کسی دوسرے صحابی نے ان کی مخالفت نہیں کی ہے۔ اور یہ فیصلہ کرنے والے وہ اکیلے نہیں ہیں، بلکہ ان سے پہلے علامہ ابن قدامہ صاحب المغنی اور علامہ عبد الرحمن المقدسی صاحب الشرح الکبیر نے بھی یہ بات کہی ہے۔ اور ان تین اصحاب استقراء علما کی تصریح کے بعد نہیں کہا جاسکتا کہ ”ان سے یہاں فیصلہ کرنے میں چوک ہوئی ہے“ اور ”پتہ نہیں ان کی کسی نے مخالفت کی ہے یا نہیں؟“
ورنہ پہلی قسم کی پھر کوئی مثال ہی نہیں ملے گی، کیونکہ جیسے ہی دوسرے صحابہ سے موافقت ثابت ہوجائے گی مشہور کی قسم میں داخل ہوجائے گی اور مخالفت ہوگی تو مردود کی قسم میں۔ اس طرح غیر مشہور کی پہلی قسم کے لیے کوئی مثال ہی نہیں ملے گی سوائے اس صورت کے جو میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ علما کی تصریحات دیکھی جائیں۔ اگر کسی نے دعوی کیا ہو کہ ان کی کسی نے مخالفت نہیں کی ہے اور ان کے دعوی کے بر خلاف کوئی قوی حجت نہ ہو تو ان کا دعوی معتبر ہے اور وہ حجت ہے۔ اور یہاں ایک نہیں تین بلکہ چار اصحاب استقراء علما نے یہ تصریح کر رکھی ہے جن میں سے ایک خود شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہیں کہ کسی صحابی نے ان کی مخالفت نہیں کی ہے۔
لہذا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس تقسیم کے مطابق بھی ان دونوں صحابہ کرام کا فتوی زیر بحث مسئلہ میں حجت ہے۔
یہ تمام باتیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مذکورہ عبارت کے سلسلے میں ہیں، ورنہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو قول صحابی “مشہور نہ ہونے کی صورت میں،” یا “پتہ نہ ہو کہ مشہور تھا یا نہیں” ایسی صورت میں اگر کسی دوسرے صحابی نے مخالفت نہ کی ہو تو جمہور علماکے نزدیک وہ حجت ہے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین میں بڑے شرح وبسط کے ساتھ اس مسئلہ کو بیان کیا ہے، فرماتے ہیں: “وإن لم يخالف الصحابيَّ صحابيٌّ آخر فإما أن يشتهر قوله في الصحابة أو لا يشتهر، فإن اشتهر فالذي عليه جماهير الطوائف من الفقهاء أنه إجماع وحجة، وقالت طائفة منهم: هو حجة وليس بإجماع، وقالت شرذمة من المتكلمين وبعض الفقهاء المتأخرين: لا يكون إجماعًا ولا حجةَ
وإن لم يشتهر قوله أو لم يعلم [هل] اشتهر أم لا فاختلف الناس: هل يكون حجة أم لا؟
فالذي عليه جمهور الأمة أنه حجة، هذا قول جمهور الحنفية، صرح به محمد بن الحسن، وذكر عن أبي حنيفة نصًا، وهو مذهب مالك وأصحابه، وتصرفه في “موطئه” دليل عليه، وهو قول إسحاق ابن راهويه وأبي عبيد، وهو منصوص الإمام أحمد في غير موضع [عنه]، واختيار جمهور أصحابه، وهو منصوص الشافعي في القديم والجديد، أما القديم فأصحابه مقرون به، وأما الجديد فكثير منهم يحكي عنه فيه أنه ليس بحجة، وفي هذه الحكاية عنه نظر ظاهر جدًا؛ فإنه لا يحفظ عنه في الجديد حرف واحد أن قول الصحابي ليس بحجة”۔ (اعلام الموقعين عن رب العالمين:5/548-550)
(اگر کسی صحابی کی دوسرے صحابی نے مخالفت نہ کی ہو، تو یا تو صحابہ میں ان کا قول مشہور تھا یا نہیں تھا۔ اگر مشہور تھا توجمہور فقہاء کا مذہب ہے کہ وہ اجماع اور حجت ہے۔ اور ایک گروہ کے مطابق وہ حجت ہی اجماع نہیں۔ اور تھوڑے بہت متکلمین اور بعض فقہائے متاخرین کا کہنا ہے کہ نہ اجماع ہے نہ حجت۔
اور اگر ان کا قول مشہور نہ ہو، یا پتہ نہ چلے کہ مشہور تھا یا نہیں تو اس بارے میں علما کا اختلاف ہے کہ حجت ہے یا نہیں۔ جمہور علما کا مذہب ہے کہ وہ حجت ہے۔ جمہور احناف کا یہی قول ہے، محمد بن الحسن نے اس کی صراحت کی ہے۔ اور امام ابو حنیفہ سے اسے نصًا بیان کیا ہے۔ یہی امام مالک اور ان کے اصحاب کا بھی مذہب ہے، موطا کے اندر امام مالک کا تصرف اس کی دلیل ہے۔ اسحاق بن راہویہ اور ابو عبید کا بھی یہی قول ہے۔ یہی امام احمد سے کئی جگہوں پر منصوص ہے اور ان کے جمہور تلامذہ نے اسے ہی اختیار کیا ہے۔ یہی امام شافعی سے قول جدید وقول قدیم دونوں میں منصوص ہے۔ جہاں تک قول قدیم کی بات ہے تو ان کے اصحاب خود اس کا اقرار کرتے ہیں اور قول جدید کے متعلق ان میں سے بہت سارے اصحاب ان سے یہ نقل کرتے ہیں کہ ایسی صورت میں یہ حجت نہیں۔ لیکن ان سے یہ نقل کرنا سخت محل نظر ہے۔ قول جدید میں ان سے ایک حرف بھی ایسا محفوظ نہیں کہ قول صحابی حجت نہیں۔
پھر علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے بہت سارے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ امام شافعی قول جدید وقول قدیم دونوں کے مطابق اسے حجت مانتے تھے۔ اور ان کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اسے قول جدید میں حجت نہیں مانتے تھے غلط نسبت ہے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے یہاں جس چیز کو شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا ہے در اصل وہ ان کے سب سے جلیل القدر شیخ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہی بیان کردہ اصول ہے۔ ان سے پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجموع الفتاوی (20/14) میں اسے بیان کیا ہے، اس لیے شیخ الاسلام کی سابقہ عبارت کو سمجھنے کے لیے درج ذیل عبارت کو دیکھنا انتہائی ضروری ہے۔ فرماتے ہیں:
“وأما أقوال الصحابة؛ فإن انتشرت ولم تنكر في زمانهم فهي حجة عند جماهير العلماء, وإن تنازعوا رُدَّ ما تنازعوا فيه إلى الله والرسول, ولم يكن قول بعضهم حجة مع مخالفة بعضهم له باتفاق العلماء, وإن قال بعضهم قولًا ولم يقل بعضهم بخلافه ولم ينتشر؛ فهذا فيه نزاع, وجمهور العلماء يحتجون به كأبي حنيفة, ومالك؛ وأحمد في المشهور عنه؛ والشافعي في أحد قوليه, وفي كتبه الجديدة الاحتجاج بمثل ذلك في غير موضع, ولكن من الناس من يقول: هذا هو القول القديم”۔ (مجموع الفتاوى: 20/14)
(اقوال صحابہ اگر منتشر ہوں اور ان کے زمانے میں ان پر نکیر نہ کی گئی ہو تو جمہور علما کے نزدیک وہ حجت ہیں۔ اور اگر ان کا آپس میں اختلاف ہو تو مختلف فیہ اقوال کو کتاب وسنت کی طرف لوٹایا جائے گا اور کسی ایک کا قول باتفاق علما دوسرے پر حجت نہ ہوگا۔ اور اگر کسی صحابی نے کوئی بات کہی اور بعض دوسرے صحابہ نے ان کی مخالفت میں کچھ نہ کہا اور اس صحابی کا قول منتشر بھی نہ ہوا تو اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ حجت ہے یا نہیں۔ جمہور علما مثلا ابوحنیفہ، مالک، احمد مشہور قول کے مطابق اور شافعی ایک قول کے مطابق اسے حجت مانتے ہیں۔ امام شافعی کی نئی کتابوں میں کئی جگہوں پر اس سے احتجاج کی بات موجود ہے لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ان کا قدیم قول ہے)
اور ابھی بیان کیا گیا کہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے بہت سارے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ امام شافعی قول جدید وقول قدیم دونوں کے مطابق اسے حجت مانتے تھے۔ اور ان کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اسے قول جدید میں حجت نہیں مانتے تھے غلط نسبت ہے۔
پتہ چلا کہ زیر بحث مسئلہ میں دونوں صحابہ کرام کا فتوی جمہور علما کے اصول کے مطابق بلا شبہ حجت ہے۔
✿ قول صحابی کی حجیت کے متعلق شیخ البانی رحمہ اللہ کا منہج:
کہا جاتا ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک قول صحابی علی الاطلاق حجت نہیں ہے۔ اور اس کے لیے شیخ البانی رحمہ اللہ کا درج ذیل کلام پیش کیا جاتا ہے:
“نحن نعرف أن هناك قولاً بأن قول الصحابي حجة، لكن هذا القول على إطلاقه لا يأخذ به أحد من أهل العلم إطلاقاً، كلما قال الصحابي قولاً كان حجةً، هذا لا يقوله إنسان على وجه الأرض إطلاقاً، إنما قول الصحابي أحياناً يكون حجة، وأنا أضرب لك مثلاً: إذا قال الصحابي قولاً ليس من موارد الاجتهاد، أو كما يقول بعض الفقهاء: لا يقال بالرأي، وإنما هو توقيفي، هذا القول يؤخذ به لا لأن الصحابي قاله؛ وإنما لأنه يحمل في طواياه أنه لم يكن من اجتهاد من عنده، وإنما تلقاه من النبي عليه الصلاة والسلامَ۔۔۔۔۔ أما الصحابي يقول قولاً برأيه وباجتهاده، فهذا ليس موضع اتفاق أنه ينبغي أن نأخذ به، فمنهم من يأخذ ومنهم من لا يأخذ، وحينذاك نرجع إلى أصل الآية السابقة: (فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ)، فليس عندنا دليل في السنة فضلاً عن القرآن أن الصحابي يرى رأياً فيجب علينا أن نتبعه، هذا غير موجود، ولا على ذلك إجماع -أيضاً- من المسلمين حتى يقال: نتبعهم ولا نخالف سبيلهم، هذا ما عندي بالنسبة للسؤال، وجزاكم الله خيراً۔
“ہمیں یہ معلوم ہے کہ اہل علم کا ایک قول یہ بھی ہے کہ صحابی کا قول حجت ہے لیکن یہ قول علی الاطلاق نہیں ہے اور نہ ہی کسی عالم نے اسے علی الاطلاق قبول کیا ہے۔ صحابی کا قول بعض اوقات حجت ہوتا ہے، مثال کے طور پر صحابی کوئی ایسی بات کہتا ہے جس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہو یا بعض فقہاء کی اصطلاح میں، جس میں رائے کا دخل نہیں ہو بلکہ امر توقیفی ہو، تو صحابی کے اس قول کو لیا جائے گا اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ صحابی کا قول ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قول میں یہ قرائن موجود ہیں کہ انھوں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیا ہوگا۔…… اسی طرح اگر کسی غیبی امر کی بات کرے تو اس کے قول کو اس لیے اخذ کیا جائے گا کہ انھوں نے یہ بات اپنی نظر واجتہاد سے نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیا ہے۔۔۔۔۔پھر آگے فرماتے ہیں: البتہ اگر صحابی اپنی رائے اور اجتہاد سے کوئی بات کہتا ہے تو یہ بات محل اتفاق نہیں ہے کہ ان کی بات کو قبول کیا ہی جائے، بلکہ بعض لوگ ان کی رائے کو لیتے ہیں اور بعض نہیں لیتے ہیں۔ اور جب یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن کریم کی اس آیت کی طرف رجوع کریں: (فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ) “پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالی کی طرف اور رسول کی طرف”۔ اور سنت سے ایک بھی دلیل نہیں ہے چہ جائیکہ قرآن سے ہو کہ صحابی کی رائے کو قبول کرنا ہمارے لیے ضروری ہے اور نہ ہی اس بات پر امت کا اجماع ہے تاکہ یہ کہا جاسکے کہ ہم اجماع کے پابند ہیں اور اس کی مخالفت نہیں کر سکتے ہیں”۔
✿ جائزہ: شیخ البانی رحمہ اللہ کے اس کلام سے ان کے متعلق یہ فیصلہ کرنا صحیح نہیں ہے کہ ان کے نزدیک قول صحابی علی الاطلاق حجت نہیں ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں:
پہلا سبب: شیخ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ باتیں ایک سائل کے سوال کے جواب میں کہی ہیں۔ اس لیے جب تک سوال نہ دیکھا جائے ان کے کلام کے سیاق کو سمجھنا مشکل ہے۔
اس لیے پہلے سوال وجواب کا نص ملاحظہ فرمائیں، جو کہ یہ ہے:
السؤال: قول الصحابة لابد ألا يكون مخالفاً لقول الله وقول رسوله، فإذا كان كذلك فإن اختلاف الصحابة إنما هو اختلاف تنوع وليس تضاد۔
الجواب: كيف اختلاف تنوع؟ أضرب لك مثلاً: بعضهم يقول: إن مس المرأة ينقض الوضوء، وبعضهم يقول: لا ينقض الوضوء، هل هذا اختلاف تنوع؟
(سائل کہتا ہے: صحابہ کرام کا قول ضروری ہے کہ اللہ اور اور رسول کے قول کے مخالف نہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو صحابہ کرام کا (آپسی) اختلاف اختلاف تنوع کے قبیل سے ہے، اختلاف تضاد کے قبیل سے نہیں۔
جس کے جواب میں شیخ فرماتے ہیں: کیسا اختلاف تنوع؟ میں تمھیں ایک مثال دیتا ہوں، بعض صحابہ فرماتے ہیں عورت کا چھونا ناقض وضو ہے اور بعض کہتے ہیں ناقض وضو نہیں ہے۔ کیا یہ اختلاف تنوع ہے؟
پھر مذکورہ باتیں شیخ نے پیش کی ہیں۔ اس سیاق کو سامنے رکھنے سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان اگر آپس میں اختلاف ہو (جیسا کہ عورت کا چھونا ناقض وضو ہے یا نہیں اس کی شیخ نے مثال دی) اس صورت میں شیخ نے مذکورہ باتیں پیش کی ہیں۔
دوسرا سبب: علما نے شیخ البانی رحمہ اللہ کے منہج پر کتابیں تصنیف کی ہیں اور ان کے اقوال ومنہج کے دراسہ کے بعد ثابت کیا ہے کہ دوسرے علما کی طرح آپ بھی معروف شرائط کی بنیاد پر قول صحابی کی حجیت کے قائل تھے۔ (المنہج السلفی عند الشیخ الالبانی لعمرو عبد المنعم سلیم:ص47-48)
تیسرا سبب: شیخ سے سوال کیا گیا کہ سلف صالحین کے اقوال اگر صحیح سند سے ثابت ہوں تو کیا ان پر علی الاطلاق عمل کیا جائے گا؟
آپ نے جواب دیا: اس مسئلہ میں کوئی مطرد قاعدہ نہیں ہے۔ لیکن ممکن ہے کہ اس کے متعلق بعض ضوابط مقرر کیے جائیں، مثلا کہا جائے کہ کسی صحابی سے کوئی قول آئے اور وہ کتاب اللہ یا حدیث رسول کی کسی نص کے مخالف نہ ہو، اور یہ قول یا فعل صحابہ کے درمیان ظاہر ہو اور کسی دوسرے صحابی سے ان کی مخالفت نہ ملتی ہو تو یہاں پر نفس اس صحابی کے قول یا فعل کو قبول کرنے میں مطمئن ہوتا ہے۔
بسا اوقات بعض حضرات غلو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”ھُم رجال، ونحن رجال“ یعنی وہ انسان تھے ہم بھی انسان ہیں۔ اگر وہ صحابی اسے جائز کہتے ہیں تو میں حرام کہتا ہوں۔ ایسے شخص سے میں کہنا چاہتا ہوں: اے میرے بھائی! اس صحابی کے مقابلے میں آپ کون ہوتے ہو؟ علم اور کتاب اللہ وحدیث رسول کے تفقہ میں آپ کی کیا حیثیت ہے؟
اس لیے واجب ہے کہ ہم غور وفکر سے کام لیں اور اپنے خاص آراء کو لے کر مگن نہ رہیں۔ بلکہ ہمارے اوپر واجب ہے کہ ہم حقیقت میں سلفی بنیں، سلف صالحین کی اتباع کریں، انہی کے طریقے پر چلیں اور صرف وہاں پر ان کی مخالفت کریں جہاں کتاب وسنت سے کوئی دلیل ثابت ہو۔ (الاختیارات الفقہیہ للامام الالبانی تالیف ابراہیم ابی شادی: ص13-14، و المنہج السلفی عند الشیخ الالبانی لعمرو عبد المنعم سلیم: ص40-41)
چوتھا سبب: نماز تراویح والے مسئلہ میں شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خلفائے راشدین یا فقہائے صحابہ میں سے کسی سے بھی اگر گیارہ رکعت سے زیادہ ثابت ہوجاتا تو اسے جائز کہنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ کیونکہ ان کی فضیلت، فقاہت اور بدعت سے دوری ہمیں معلوم ہے۔ اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی سنت کی اتباع کریں۔ (الاختیارات الفقہیہ للامام الالبانی تالیف ابراہیم ابی شادی: ص13-14، والمنہج السلفی عند الشیخ الالبانی لعمرو عبد المنعم سلیم: ص40-41)
پانچواں سبب: شیخ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا: قول الصحابي إذا لم يوجد له مخالف علمت أنكم ذكرتم أنه بشرط أن يشتهر هذا القول عن الصحابي هل لا بد من شرط الاشتهار أو لو أن الصحابي قال قولا ولم نعلم أحدًا خالفه وليس هناك من يرده لا من كتاب ولا من سنة ولا من إجماع فهل يقدم هو على القياس والاجتهاد۔
(قول صحابی کا اگر کوئی مخالف نہ ہو تو مجھے پتہ ہے کہ آپ نے یہ شرط ذکر کی ہے کہ وہ قول صحابی سے مشہور ہو۔ کیا مشہور ہونے کی شرط ضروری ہے یا کسی صحابی نے کوئی بات کہی اور ہمیں پتہ نہ چل پایا کہ کسی نے ان کی مخالفت کی ہے یا نہیں اور کتاب وسنت واجماع سے بھی اس کی تردید نہ ہوتی ہو تو اسے قیاس واجتہاد پر مقدم کیا جائےگا یا نہیں؟)
جس کے جواب میں آپ نے فرمایا:
لا شك أن قول الصحابي إذا لم يكن له مخالف وبالطبع أول ما يدخل في هذا القيد أنه ليس مخالفًا للسنة فلا شك أن قوله أبرك وأنفع وأصوب من قول من جاء من بعده فأنا بقول لكني لا أستطيع أني ألزم الآخرين بهذا الذي أقول أن الذي اطمئننت إليه أخيرًا أن قول الصحابي أنا أحتج به لنفسي بالشرط المذكور آنفًا فإذا اختلف قول صحابي مع قول إمام من أئمة المسلمين فقول الصحابي أحب إليّ من قول ذاك الإمام لكن هنا أيضًا قد يأتي شيء من التفصيل لا بد منه إذا كان جماعة من أئمة المسلمين خالفوا هذا الصحابي في فتواه هنا بيضعضع موقفنا الأول وقد نميل إلى الموقف الآخر والحقيقة أن الذي أريد أن أنصح به طلاب العلم أن لا يتصوروا أنه يمكن أن يقطع في كل مسألة برأي لأنو لا بد أن يبقى باب الاجتهاد مفتوحًا لكن لكل إنسان أن يدلوا بدلوه وأن يقدم برأيه ولو أنه آثره على رأي غيره باختصار إذا اختلف قول صحابي مع قول تابعي أو إمام من أئمة المسلمين فقول الصحابي عندي هو المعتمد أما إذا كثرت الأقوال من أئمة معروفين بالفقه والعلم مخالفين لهذا الصحابي فحين ذاك يكون لنا موقف آخر۔ (الدرر في مسائل المصطلح والأثر مسائل أبي الحسن المصري المأربي: ص28-29)
(بلا شک اگر قول صحابی کا کوئی مخالف نہ ہو اور طبعی طور پر اس قید میں سب سے پہلے یہ داخل ہوگا کہ ان کا قول سنت کا مخالف نہ ہو تو بلا شک ان کا قول ان کے بعد آنے والے دوسروں کے اقوال سے زیادہ بابرکت، نفع بخش اور درست ہے۔ یہی میرا قول ہے لیکن میں دوسروں کو اس کا پابند نہیں کرسکتا۔ آخر میں جس بات پر میں مطمئن ہوا وہ یہ کہ سابقہ شرط کے ساتھ میں قول صحابی کو اپنے لیے حجت مانتا ہوں۔ اگر صحابی کا قول ائمہ مسلمین میں سے کسی امام کے مخالف ہو تو قول صحابی میرے نزدیک اس امام کے قول سے زیادہ محبوب ہے۔
لیکن اس تفصیل کو بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ ائمہ کرام کی ایک جماعت اگر کسی صحابی کے فتوی کی مخالفت کرتی ہے تو اس وقت ہمارا پہلا موقف متزلزل ہوجاتا ہے۔ ہوسکتا ہے یہاں ہم دوسرا موقف اپنائیں۔ درحقیقت یہاں میں طلبہ علم کو نصیحت کرنا چاہوں گا کہ وہ یہ نہ سوچیں کہ ہر مسئلہ میں کوئی حتمی رائے رکھنا ممکن ہے، اس لیے ضروری ہے اجتہاد کا دروازہ کھلا رہے اور ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی ہو گرچہ اپنی رائے کو دوسروں کی رائے پر ترجیح دے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اگر صحابی کا قول کسی تابعی یا کسی امام کے قول سے متعارض ہو تو صحابی کا قول ہی میرے نزدیک معتمد ہے، البتہ اگر اس قول صحابی کی مخالفت میں ائمہ فقہ اور اہل علم کے اقوال بہ کثرت ہوں تو پھر ہمارا موقف دوسرا ہوتا ہے)
شیخ رحمہ اللہ نے یہاں صریح طور پر قول صحابی کو حجت کہا ہے اور دوسروں کے اقوال کے مقابلے اسے ہی معتمد کہا ہے۔ صرف کتاب وسنت کی مخالفت کی صورت میں اس کی حجیت کا انکار کیا ہے۔ یا یہ کہ کوئی صحابی کسی مسئلہ میں متفرد ہوں اور ان کی مخالفت میں ائمہ فقہ اور اہل علم کے اقوال بہ کثرت ہوں تو قول صحابی کو وہ حجت نہیں مانتے۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ ایسی صورت میں اس قول صحابی کی مخالفت کو ضروری سمجھتے ہیں بلکہ پہلے جس طرح حجت مانتے تھے اب ایسی خاص صورت میں حجت نہیں مانتے۔
اب زیر بحث مسئلہ پر غور کریں۔ یہاں صحابی متفرد نہیں ہیں بلکہ دو دو مشہور فقہائے صحابہ کا یہ قول ہے۔ کتاب وسنت کے نصوص بھی مخالفت میں نہیں بلکہ تائید میں ہیں۔ اور سلف کی ایک جماعت نے ان کی موافقت کی ہے جیسا کہ علامہ امیر صنعانی، نواب صدیق حسن خان اور شیخ ابن باز رحمہم اللہ نے (قضا کا قول اختیار کرنے کے باوجود) اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ سلف کی ایک جماعت کا قول ہے۔ کیا ایسے موقع پر شیخ البانی کے حوالے سے یہ کہنا صحیح ہے کہ ایسے مسائل میں قول صحابی حجت نہیں؟
واضح ہو کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے عملی طور پر حاملہ ومرضعہ والے زیر بحث مسئلہ میں قول صحابی کو ہی اختیار کیا ہے۔ اور دوسرے دلائل کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کی بنا پر اس مسئلہ میں فدیہ کے موقف کو راجح قرار دیا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ کی زبانی ان کا موقف اور سبب ترجیح سننے کے لیے لنک پر کلک کریں:
اس لیے شیخ البانی رحمہ اللہ کے قول سے فدیہ کے موقف کی تردید کرنا مناسب نہیں۔
✿ دوسرا اعتراض: ابن عباس وابن عمر رضی اللہ عنہما کے فتاوے خصوصی واقعات سے متعلق ہیں اور قاعدہ ہے ”وَقائِعُ الأَعْيانِ لا عُمُومَ لَها“۔
✿ جائزہ: قارئین کرام! دونوں صحابہ کرام کے آثار کی جو تفصیلی تخریج میں نے پیش کی ہے اسے دیکھیں! ان کے الفاظ پر غور فرمائیں! آپ پر واضح ہوگا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فتوی ایک بار کسی خاص واقعہ کے تناظر میں نہیں دیا ہے۔ بلکہ متعدد بار انھوں نے یہ فتوی دیا ہے جسے ان کے سب سے قریبی شاگرد نافع ابوعبد اللہ المدنی نے بیان فرمایا ہے۔ ایک بار انھوں نے یہ فتوی اپنی بیوی کو دیا ہے، ایک بار اپنی بیٹی کو، ایک بار اپنی لونڈی کو۔ اور امام مالک وایوب السختیانی کے الفاظ اس بات پر دال ہیں کہ انھوں نے صرف کسی سوال کے جواب میں نہیں بلکہ بالعموم بھی یہ فتوی دیا ہے۔ اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کا معاملہ ہے۔ بعض دفعہ انھوں نے آیت کی تفسیر میں یہ بات ذکر کی ہے، بعض دفعہ اپنی لونڈی کو یہ فتوی دیا ہے اور بعض دفعہ مطلقا یہ مسئلہ ذکر کیا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ کوئی واقعۃ العین نہیں ہے جس کے بارے میں کہا جائے کہ صرف ایک مرتبہ اتفاقا پیش آیا تھا اور کسی دوسرے کے لیے اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔
کیونکہ واقعۃ العین کا معنی یہ ہے کہ جن کے ساتھ واقعہ پیش آیا ہے وہ حکم صرف ان کے ساتھ خاص ہے، کسی دوسرے کے لیے اس سے استدلال کرنا اور نظیر بنا کر عمل کرنا جائز نہیں۔ اس کی بعض مثالیں یہ دی جاتی ہیں:
1 – سالم مولی حذیفہ کا جوانی کی عمر میں حذیفہ کی بیوی کا دودھ پینا۔
2 – خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کی گواہی کو دو گواہوں کی گواہی کا درجہ دینا۔
کسی واقعہ کو کب واقعۃ العین قرار دیا جائے اور کب نہیں، اس بارے میں علما کے مابین بہت اختلاف ہے۔ ایک ہی واقعہ کو بعض علما واقعۃ العین قرار دیتے ہیں اور اس سے استدلال جائز نہیں سمجھتے جب کہ دوسرے علما اس کا انکار کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ جہاں ایک طرف یہ قاعدہ ہے: ”وَقَائِعُ الأَعيانِ لا عُمومَ لَهَا“ وہیں دوسری طرف یہ قاعدہ بھی ہے: ”العبرة بعموم الفظ لا بخصوص السبب“۔
اس لیے سب سے پہلا سوال یہی ہے کہ کیا کسی عالم دین نے ابن عمر وابن عباس رضی اللہ عنہما کے فتووں پر واقعۃ العین کا حکم لگایا ہے؟ اگر لگایا ہو تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہوگی کہ ان کا دعوی کہاں تک صحیح ہے۔
جہاں تک حکم لگانے کی بات ہے تو میرے علم کی حد تک پوری امت میں سے کسی نے ان کے فتووں پر واقعۃ العین کا حکم نہیں لگایا ہے۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی نہیں۔ ان کے متعلق یہ کہنا صحیح نہیں کہ انھوں نے ان کے فتووں پر واقعۃ العین کا حکم لگایا ہے۔ شیخ رحمہ اللہ کے الفاظ پر غور کریں، فرماتے ہیں:
وأما ما ورد عن بعض السلف من أنها تطعم ولا تصوم، فيحمل على أن هذه لا تستطيع الصيام أبداً، والذي لا يستطيع الصيام أبداً كالكبير والمريض مرضاً لا يرجى برؤه عليه الإطعام، كما جاء ذلك عن ابن عباس رضي الله عنهما في تفسير قوله تعالى: {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَن تَصُومُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ}
(بعض سلف سے جو یہ بات مروی ہے کہ حاملہ، مرضعہ فدیہ دیں گی اور روزہ کی قضا نہیں کریں گی تو ان کو ایسی عورتوں پر محمول کیا جائے گا جو دائمی طور پر روزہ رکھنے سے عاجز ہوں اور ایسی عورتیں ایسے عمر رسیدہ اور مریض کے حکم میں ہیں جن کو شفایابی کی امید نہیں ہے اور ان پر صرف کھانا کھلانا واجب ہے۔ جیسا کہ {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَن تَصُومُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ} کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے)
شیخ رحمہ اللہ کا یہ قول دلائل کی روشنی میں راجح ہے یا مرجوح یہ الگ مسئلہ ہے، لیکن یہاں محل شاہد یہ ہے کہ کیا انھوں نے اس قول میں ان دونوں کے فتووں پر واقعۃ العین کا حکم لگایا ہے؟
اوپر واقعۃ العین کا مفہوم بیان کیا جاچکا ہے، اس کی روشنی میں غور فرمائیں کہ کیا شیخ رحمہ اللہ ان کے فتووں سے کسی دوسرے کے لیے استدلال ناجائز سمجھتے ہیں یا ان کا کوئی دوسرا مفہوم بیان کر رہے ہیں۔ واضح ہے کہ وہ ان سے استدلال کو ناجائز نہیں سمجھتے۔ بلکہ ایک دوسرا مفہوم بیان کر رہے ہیں کہ ان کے فتاوے خاص قسم کی عورتوں کے لیے ہیں اور ان خاص قسم کی عورتوں کے لیے آج بھی ان پر عمل کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ لہذا ان کی طرف یہ نسبت کرنا صحیح نہیں ہے کہ انھوں نے ان فتووں پر واقعۃ العین کا حکم لگایا ہے۔
دوسری بات: علمائے کرام فرماتے ہیں کہ واقعۃ العین کی تمیز کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ واقعۃ شرعی دلائل کے مخالف ہو جیسا کہ شیخ شنقیطی نے اپنے ایک درس میں کہا ہے۔ اور اس کی توجیہ ممکن نہ ہو سوائے اس کے کہ اسے واقعۃ العین قرار دیا جائے۔ اوپر واقعۃ العین کی جو مثالیں دی گئیں ان پر غور کرنے سے اسے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر دونوں صحابہ کرام کے فتاوے کتاب وسنت کی کس دلیل کے مخالف ہیں کہ ان پر واقعۃ العین کا حکم صادر کیا جائے؟
بلکہ قضا کو واجب کرنے کے لیے نہ قرآن کی کوئی آیت ہے اور نہ حدیث انس الکعبی سے استدلال صحیح ہے جیسا کہ گزرا۔ سب سے بڑی دلیل وہی مریض پر قیاس ہے۔ کیا اس صورت میں کسی بھی واقعہ پر واقعۃ العین کا حکم لگانے کی شریعت میں ایک بھی نظیر موجود ہے؟
یہ تو اس صورت کی بات ہے جب حقیقت میں صرف کوئی ایک واقعہ اس طرح کا پیش ہوا ہوتا۔ اور یہاں تو معاملہ ہی الگ ہے۔ ایک نہیں دو دو صحابہ کرام سے یہ مروی ہے اور دونوں سے کئی کئی صورتوں اور حالات میں۔
لہذا کسی بھی صورت میں اسے واقعۃ العین قرار دینا صحیح نہیں۔
ان مذکورہ چار دلائل (آیت صوم، ابن عباس سے اس کی تفسیر جو کہ حکما مرفوع ہے، حدیث انس الکعبی اور ابن عمر وابن عباس کے فتاوے) سے پتہ چلتا ہے کہ حاملہ ومرضعہ پر روزہ ترک کرنے کی صورت میں صرف فدیہ ہے، قضا نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
● دوسرا قول: حاملہ ومرضعہ دونوں پر صرف قضا ہے، فدیہ نہیں۔
یہ عطا، عکرمہ، زہری، حسن بصری، سعید بن جبیر (ایک قول کے مطابق)، ضحاک، ربیعہ، اوزاعی، ثوری، ابو عبید، ابوثور، ابن المنذر، مزنی، نخعی اور امام ابوحنیفہ وغیرہم اور معاصرین میں سے علامہ عبد الرحمن مبارکپوری، علامہ عبید اللہ مبارکپوری، شیخ ابن باز، شیخ ابن عثیمین، شیخ ابن جبرین اور شیخ اثیوبی وغیرھم کا قول ہے۔ (المحلى:4/411، والمغني:3/150، المجموع:6/269، تحفہ الاحوذی:3/331، المرعاة:7/16)
واضح ہو کہ ان میں سے بہت سارے علما سے ایک سے زائد اقوال منقول ہیں۔
✿ اس قول کی دلیلیں:
● پہلی دلیل: اللہ تعالی کا ارشاد ہے: “فَمَنْ كَانَ مِنكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ”۔
وجہ استدلال: آیت میں مریض کے لیے قضا کی صراحت ہے۔ اور حاملہ ومرضعہ مریض کی طرح ہیں۔ دونوں کے درمیان وجہ شبہ عارضی مشقت اور ضرر ہے۔ لہذا جس طرح مریض پر عذر زائل ہونے کے بعد قضا ضروری ہے اسی طرح ان پر بھی ضروری ہے۔
✿ جائزہ: آیت میں اللہ تعالی نے صرف مریض اور مسافر کا حکم بیان کیا ہے، حاملہ ومرضعہ کا نہیں۔ یہ آیت صرف مریض ومسافر کے لیے نص ہے، حاملہ ومرضعہ کے لیے نہیں۔ اس میں حاملہ ومرضعہ کا الحاق ”بطور قیاس“ ہے۔ اسی لیے اس قول کے قائلین کو مریض اور حاملہ ومرضعہ کے درمیان ”وجہ شبہ“ بیان کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ قیاس کو صحیح ٹھہرایا جاسکے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
“المرأة إذا كانت من النفساء في شهر رمضان أو من الحوامل أو من المرضعات هل عليها القضاء أو الإطعام، لأنه قيل لنا بعدم قضائهن وعليهن الإطعام فقط، نرجو الإجابة على هذا السؤال مدعماً بالدليل؟”
جس کے جواب میں آپ نے آیت مذکورہ کو بیان کرنے کے بعد فرمایا: “وقد بين الله تعالى أن على من أفطره بعذر أن يقضيه من الأيام الأخر، والمرأة الحامل والمرأة المرضع والمرأة النفساء والمرأة الحائض كلهن يتركن الصوم بعذر، وإن كنّ كذلك فإنهن يجب عليهن القضاء قياساً على المريض والمسافر، ونصًّا في الحائض”۔ (مجموع فتاوى ورسائل العثيمين:19/165)
یہاں شیخ صراحت کر رہے ہیں کہ حاملہ ومرضعہ کا یہ حکم آیت کے نص سے نہیں بلکہ مریض پر قیاس کے ذریعہ ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہاں قیاس کی کوئی ضرورت ہے؟
اہل علم کے مابین یہ معروف ہے کہ نص کی موجودگی میں قیاس فاسد اور باطل ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین میں اس کے متعلق ایک فصل ہی قائم کیا ہے: الفصل الثاني: في سقوط الرأي والاجتهاد والقياس، وبطلانها مع وجود النص. (اعلام الموقعين عن رب العالمين: 3/116)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں متعدد جگہوں پر کہا ہے کہ نص کی موجودگی میں قیاس فاسد ہے۔ (فتح الباری: 2/356، 3/403)
اور پہلے قول کی دلیل میں بیان کیا جاچکا ہے کہ آیت ”وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ“ حاملہ، مرضعہ اور بوڑھے مرد وعورت کے حق میں محکم ہے۔ علما کی ایک جماعت نے ان کے حق میں آیت کو محکم مانا ہے۔ اور کسی نے بھی حاملہ ومرضعہ کے دخول کا اس میں انکار نہیں کیا ہے۔ بلکہ خود قضا کے بہت سارے قائلین بھی بچے پر خوف کی صورت میں اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے قضا کے ساتھ فدیہ کو واجب قرار دیتے ہیں۔ ان کا طرز عمل بھی خود اس بات کی دلیل ہے وہ اس آیت کو حاملہ ومرضعہ کے حق میں محکم مانتے ہیں۔
نیز بیان کیا گیا کہ اس کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ کا قول حکمًا مرفوع ہے۔
اور آیت میں صراحت ہے کہ ایسے لوگوں پر فقط اور فقط ”فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ“ ہے، مزید کچھ نہیں۔ اس لیے نص قرآنی کے مطابق حاملہ ومرضعہ کے لیے صرف فدیہ ہے، مزید کچھ نہیں۔ اور نص کی موجودگی میں قیاس کرنا جائز نہیں۔
اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ یہاں قیاس کی گنجائش ہے تو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مریض کے اوپر قیاس کرنا اولی وانسب ہے یا عمر رسیدہ بزرگ مرد وعورت پر۔
واضح رہے کہ شرعی طور پر ایک دو دن بیمار رہنے والے شخص کا بھی یہی حکم ہے کہ اسے بعد میں قضا کرنا ہے۔ اور حاملہ ومرضعہ کے ساتھ مشقت کا معاملہ ایک دو دن کا نہیں مہینوں مہینوں کا ہوتا ہے بلکہ سال دو سال تک۔ وہ بھی صرف ایک حمل میں، لیکن اگر پے در پے بچے ہوئے تو یہ معاملہ کئی سال تک دراز رہتا ہے۔ یہ کون سا وجہ شبہ ہے کہ مہینوں بلکہ سالوں تک استطاعت نہ رکھنے والی کو ایک دو دن بیمار رہنے والے پر قیاس کیا جائے؟
کوئی کہہ سکتا ہے کہ بہت سارے مریض مہینوں تک یا بعض سالوں تک بھی بیمار رہتے ہیں۔ تو اس کا انکار نہیں، یقینا بعض رہتے ہوں گے۔ لیکن جو شخص صرف چند دن بیمار رہے کیا اس کا حکم الگ ہے؟
یقینا اس کا حکم وہی ہے، دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ لہذا قیاس کرنے والوں کو کہنا چاہیےکہ جو مہینوں بلکہ سالوں بیمار رہتے ہیں ان پر قیاس کرتے ہوئے حاملہ کو قضا کرنا ہے۔ حالانکہ کوئی اس کا قائل نہیں۔ اور کوئی قائل بھی ہو تو ان کا قول مردود ہے کیونکہ شریعت نے ایک دو دن بیمار رہنے والے اور مہینوں تک بیمار رہنے والوں کے مابین کوئی فرق نہیں کیا ہے، الا یہ کہ وہ دائمی مریض ہوں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مریض اور حاملہ ومرضعہ کے مابین وجہ شبہ بہت کمزور ہے۔ مریض کے بہت سارے حالات ہوتے ہیں اور حاملہ ومرضعہ کے بھی بہت سارے حالات اور بے شمار حالات میں دونوں کے مابین وجہ شبہ (علت) نہایت کمزور ہوتا ہے۔ جب کہ قیاس کے لیے اصل اور فرع میں علت کا متحد ہونا ضروری ہے۔
دوسری بات: مریض کو صرف اپنے نفس پر خوف ہوتا ہے، کسی دوسرے پر نہیں۔ اور حاملہ ومرضعہ کو اپنے ساتھ ساتھ بچے پر بھی خوف ہوتا ہے۔ پھر دونوں کے درمیان علت کس طرح ایک ہوئی؟
اسی وجہ سے بعض قضا کے قائلین نے اس قول کی مخالفت کی ہے اور بچے پر خوف کی صورت میں فدیہ کو بھی واجب کہا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قیاس کرنے والوں کے نزدیک خود علت (وجہ شبہ) کو لے کر اختلاف ہے۔ انھیں خود اطمینان نہیں ہے کہ مطلقا حاملہ ومرضعہ کو مریض کے اوپر قیاس کیا جائے یا بعض خاص قسم کی حاملہ ومرضعہ کو۔
اسی لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بچے پر خوف کی صورت میں انھیں فدیہ بھی دینا ضروری ہے، ان کا قول ہے: إن كانت الحامل تخاف على جنينها فإنها تفطر، وتقضي عن كل يوم يوما، وتطعم عن كل يوم مسكينا رطلا من خبز. انتهى۔ (25/318)
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ بھی ان کی موافقت کرتے ہیں، فرماتے ہیں: إن كان الضرر الذي أفطرت من أجله يحصل على الطفل فقط دونها فإنها تقضي ما أفطرته وتطعم كل يوم مسكينا. (تنبيهات على أحكام تختص بالمؤمنات للشيخ صالح فوزان الفوزان: ص64)
اسی طرح شیخ خالد المشیقیح بھی ان کی موافقت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “أما إذا كانتا خائفتين على ولديهما فقط فيجوز لهما الفطر، وعليهما القضاء والفدية”۔ (المختصر في فقه العبادات: ص 87)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ایک عام مریض اور وہ حاملہ ومرضعہ جو بچے پر خوف کی وجہ سے روزہ ترک کرتی ہیں دونوں کا معاملہ یکساں نہیں ہے، دونوں کے مابین فرق ہے، اس لیے ان کا کہنا ہے کہ حکم میں بھی فرق ہونا چاہیے۔
تیسری بات: ایک ہی خاتون کی حمل ورضاعت کی حالت یکساں نہیں ہوتی۔ رضاعت کی مدت میں عموما وہ صحت مند ہوتی ہے لیکن بچے کی وجہ سے روزہ ترک کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ حمل کی حالت میں خود بستر پر پڑی رہتی ہے۔ اسی وجہ سے بعض آثار میں ”الحامل علی نفسہا والمرضع علی ولدہا“ کی بات آئی ہے۔ قیاس کی صورت میں کیا دونوں کو ایک مان کر مریض پر قیاس کرنا صحیح ہے؟
خود قیاس کرنے والے آپس میں اس قیاس میں متفق نہیں ہیں۔
دوسرے قول کے قائلین دونوں کو ایک ہی مانتے ہیں، دونوں میں فرق نہیں کرتے، جب کہ امام مالک فرماتے ہیں کہ دونوں میں بہت فرق ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک صرف حاملہ کو قیاس کرنا صحیح ہے، مرضعہ کو نہیں، کیونکہ وہ بیمار نہیں رہتی۔ المدونہ میں ہے: ابن القاسم نے ان سے سوال کیا: ما الفرق بين الحامل والمرضع؟ تو امام مالک نے فرمایا: لأن الحامل هي مريضة، والمرضع ليست بمريضة”
امام مالک صرف حاملہ کو مریضہ مانتے ہیں مرضعہ کو مریضہ مانتے ہی نہیں۔
اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ یہاں علت (وجہ شبہ) کی حیثیت کتنی مضبوط ہے جس پر قیاس کی بنیاد ہے، وہ بھی نص کے مقابلے میں۔
بلکہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو قیاس کرنے کی صورت میں حاملہ ومرضعہ کو بوڑھے مرد وعورت پر قیاس کرنا مریض پر قیاس کرنے سے کہیں زیادہ اولی وانسب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ رب العالمین جو ہم انسانوں کا خالق ہے، جسے ہماری جسمانی حالت کا سب سے زیادہ علم ہے، جو خود ارشاد فرماتا ہے: أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ
اس رب نے حاملہ کے لیے قرآن کریم کے اندر دو اوصاف بیان کیے ہیں: وہن اور کرہ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ) [لقمان:14], اور دوسری جگہ ہے: {حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا} [الأحقاف:15]
اب دیکھا جائے کہ یہ دونوں اوصاف وقتی مریض کے یہاں زیادہ پائے جاتے ہیں یا عمر رسیدہ بزرگ کے یہاں؟ اور کیا وہن مرض ہےبھی یا نہیں؟
خود قرآن کریم میں اللہ تعالی نے عمر رسیدہ بزرگ کو اس وصف سے متصف کیا ہے لیکن کسی بھی مفسر نے وہن کو مرض نہیں کہا ہے۔ بعض مشائخ فرماتے ہیں کہ ہم نے وہن کی تفسیر میں چالیس سے زیادہ مفسرین کا قول دیکھا کسی نے وہن کو مرض شمار نہیں کیا ہے۔ لہذا حاملہ جس کی صفت اللہ نے وہن بیان کی ہے اسے مریض کے مشابہ کہنا صحیح نہیں۔ ایک حاملہ وہن کا شکار ہوتی ہے، مرض کا نہیں۔ اور یہ صفت ایک عمر رسیدہ بزرگ کے یہاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے زکریا علیہ السلام کے متعلق فرمایا: “رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا”۔ (سورة مريم 4)
حاملہ اور بوڑھے بزرگ کے درمیان اللہ تعالی کے بیان کردہ اس ”گہری مشابہت“ کا ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ کریں کہ دونوں کے مابین یہ علت زیادہ قوی ہے یا مرض کی علت جس کا اعتبار کرنے والے آپس میں خود مختلف ہیں۔
✿ دوسری دلیل: انس بن مالک الکعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “إن الله تعالى وضع عن المسافر الصوم، وشطر الصلاة، وعن الحامل أو المرضع الصوم أو الصيام”۔
گزشتہ قسط میں اس حدیث کے متعلق بالتفصیل بیان کیا جاچکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
انس بن مالک الکعبی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی سند ومتن میں شدید اضطراب ہے۔ امام نسائی،ابو حاتم رازی، یعقوب بن سفیان الفسوی، بیہقی اور ابن الترکمانی وغیرہم نے اس میں اضطراب کی بات کی ہے۔
جب کہ امام ترمذی، حافظ ابن حجر اور شیخ البانی وغیرہم نے اسے حسن کہا ہے۔ حسن ماننے کی صورت میں اس سے وجہ استدلال دلالت اقتران ہے۔ اور دلالت اقتران جمہور کے نزدیک ایک ضعیف حجت ہے، ان کے نزدیک اس سے استدلال جائز ہی نہیں۔ ہاں اگر کہیں قوی قرینہ موجود ہو تو اس سے استدلال کی گنجائش ہے۔
اس کے الفاظ پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں مختلف طرح کی چیزوں کو ایک ہی سیاق میں بیان کیا گیا ہے جن کا حکم الگ الگ ہے، شارحین حدیث کی ایک جماعت نے اس کی صراحت کی ہے۔ کیونکہ ایک ہی سیاق میں مسافر، حاملہ ومرضعہ کے روزوں کے ساتھ مسافر کی آدھی نماز بھی ساقط ہونے کی بات آئی ہے۔ اگر یہاں وضع سے مراد صرف عذر کی مدت میں سقوط ہو اور عذر زائل ہونے کے بعد قضا مقصود ہو تو مسافر سے آدھی نماز کی قضا کا بھی مطالبہ ہونا چاہیے، کیونکہ وضع کا لفظ اسے بھی شامل ہے۔ اس لیے یہاں قرینہ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ یہاں دلالت اقتران انتہائی ضعیف ہے۔
اس کی مزید تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ امام ابوحاتم رازی نے جس طریق کی تصحیح کی ہے اس کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حاملہ ومرضعہ سے آدھی نماز بھی ساقط ہے۔ اور اس کا کوئی قائل نہیں۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے دلالت اقتران کب قوی ہوتی ہے اور کب ضعیف اس کے متعلق ایک نفیس قاعدہ بیان کیا ہے، وہ یہ کہ اگر عامل ایک ہو اور مفرد کا عطف مفرد پر ہو تو دلالت اقتران قوی ہوتی ہے جیسا کہ ”الفطرۃ خمس“ والی حدیث میں ہے۔ لیکن اگر جملہ کا عطف جملہ پر ہو تو دلالت اقتران انتہائی ضعیف ہوتی ہے جیسا کہ ”لا یقتل مؤمن بکافر…“ والی حدیث میں ہے۔ اور حدیث انس میں جملہ کا عطف جملہ پر ہے، مفرد کا عطف مفرد پر نہیں۔ اس لیے بھی یہاں دلالت اقتران انتہائی ضعیف ہے۔
لہذا اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے حاملہ ومرضعہ سے روزوں کی قضا کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
✿ تیسری دلیل: حاملہ ومرضعہ کی دو صورتوں پر بعض علما نے اجماع کا دعوی کیا ہے کہ ان پر قضا واجب ہے۔ پہلی صورت ہے: حاملہ ومرضعہ اپنے نفس پر خوف کی وجہ سے روزہ ترک کریں۔ اور دوسری صورت ہے: مرضعہ نفاس کی حالت میں روزے ترک کریں۔
✿ جائزہ: یہ دونوں دعوے خلاف صواب ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ اس میں سلف کے زمانے سے اختلاف رہا ہے۔ اور جنھوں نے فدیہ کا قول اختیار کیا ہے انھوں نے مطلقًا فدیہ کی بات کی ہے، وہ کسی بھی صورت میں قضا کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے متعلق یہ کہنا کہ وہ ان دو صورتوں میں قضا کے قائل تھے ان کی طرف غلط نسبت ہے اور بلا دلیل انھیں ایسے قول کا قائل بنانا ہے جسے انھوں نے کہا ہی نہیں۔
✿ چوتھی دلیل: اسے علمائے اسلام اور فقہائے امت نے اختیار کیا ہے، جب کہ فدیہ کے قول کے ساتھ ابن عباس، ابن عمر اور سعید بن جبیر کے علاوہ نہ کوئی سلف ہے نہ خلف۔
✿ جائزہ:
اولا: یہ کوئی دلیل نہیں جس کی اتباع ضروری ہو۔
ثانیا: یہ خلاف حقیقت بھی ہے۔ شروع ہی میں بیان کیا گیا ہے کہ صحابہ، تابعین، وتبع تابعین کی ایک جماعت نے فدیہ کے قول کو اختیار کیا ہے، جس کی متقدمین میں سے ابن عبد البر اور متاخرین میں سے علامہ امیر صنعانی، نواب صدیق حسن خان اور شیخ ابن باز رحمہم اللہ نے واضح لفظوں میں صراحت کی ہے۔
اسی طرح خلف میں سے شیخ البانی، شیخ فرکوس، شیخ حسین العوائشہ، شیخ مشہور حسن آل سلمان اور شیخ محمد بن عمر بازمول جیسے محققین علما کی ایک جماعت نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔
ثالثا: جمہور اسے اختیار کرنے میں متفق نہیں ہیں، بلکہ ائمہ اربعہ میں سے صرف احناف نے اسے اختیار کیا ہے۔ باقی ائمہ ثلاثہ نے اسے اختیار نہیں کیا ہے۔ ان کا قول اس مسئلہ میں کچھ دوسرا ہی ہے جو آگے آرہا ہے۔
پتہ چلا کہ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ فدیہ کے قول کو شاذ قول کہا جائے اور قضا کے قول کو جمہور کا متفقہ قول کہا جائے۔
● تیسرا قول: قضا اور فدیہ دونوں واجب ہیں۔
یہ قول مجاہد، امام شافعی اور امام احمد کا ہے۔ نیز امام مالک کا یہ دوسرا قول ہے۔ (المغني:3/150، المجموع: 6/269)
اس قول کے قائلین قضا کے لیے مریض پر قیاس کرتے ہیں، اور فدیہ کے لیے آیت ”وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ“ پر اور اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر کو حجت بناتے ہیں۔
پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ نص کی موجودگی میں قیاس درست نہیں۔ اس لیے قضا کا حکم درست نہیں۔ البتہ فدیہ کا حکم چونکہ دلائل کے موافق ہے اس لیے صرف فدیہ کا حکم صحیح ہے۔
● چوتھا قول: حاملہ پر صرف قضا ہے فدیہ نہیں اور مرضعہ پر قضا وفدیہ دونوں ہیں۔
یہ امام مالک کا مشہور قول ہے۔ لیث بن سعد نے بھی یہی کہا ہے۔ (المدونۃ الکبری: 4/310)
ان کی دلیل یہ ہے کہ حاملہ مریض کے حکم میں ہے لیکن مرضعہ مریض نہیں۔ اس لیے دونوں کا حکم مختلف ہے۔
یہ تفریق درست نہیں، کیونکہ شرعی دلائل کے اندر اس کی کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے۔ اس تفریق کا دار ومدار قیاس پر ہے، اس لیے نص کے مقابلے یہ مقبول نہیں۔
● پانچواں قول: نہ ان پر قضا ہے، نہ فدیہ۔
یہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ اور اس پر انھوں نے (المحلی:4/410) میں کافی لمبی چوڑی بحث پیش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قضا یا فدیہ کے وجوب کے لیے نہ کوئی نص ہے نہ اجماع، اور حدیث انس الکعبی سے پتہ چلتا ہے کہ ان سے روزہ ساقط ہے اور ان پر کچھ بھی واجب نہیں۔ نیز معروف ہے کہ وہ ظاہری المسلک ہیں اور ان کے نزدیک قیاس حجت نہیں۔ اس لیے قیاس کو دلیل بنانے کا ان کے یہاں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
لیکن ان کی پوری بات تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ یہ صحیح ہے کہ اس مسئلہ میں کوئی اجماع نہیں، وہ امام مطلع ہیں اور اقوال علما پر ان کی بڑی گہری نظر ہے، اس لیے ان کا یہ دعوی بالکل صحیح و مسلَّم ہے۔ لیکن نص کا انکار درست نہیں ہے اور آیت کو منسوخ کہنا بھی صحیح نہیں۔ یہ آیت محکم ہے اور اس مسئلہ میں نص ہے۔ نیز ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر مرفوع حکمی کے درجے میں ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان پر فدیہ واجب ہے، اس لیے فدیہ کا انکار درست نہیں ہے۔
اس مسئلہ میں اس کے علاوہ بھی اور اقوال ہیں لیکن طوالت کی وجہ سے انہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
✿ خلاصہ کلام یہ کہ حاملہ ومرضعہ کے روزے کے مسئلہ میں تابعین کے زمانے سے لے کر آج تک شدید اختلاف رہا ہے۔ اور ان میں سے دلائل کے اعتبار سے صرف فدیہ پر اکتفا کرنے والا قول راجح اور اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔
هذا ما تبين لي والعلم عند الله وهو أعلم وعلمه أتم وأحكم
آپ کے تبصرے