فیشن کا دور ہے لوگ تجمل وتزین اور آرائش وزیبائش میں قسم قسم کے نسخے آزماتے ہیں۔ خوبصورت دیکھنے اور دیدہ زیب دکھنے کی خاطر مختلف وسائل اپناتے ہیں۔ انواع و اقسام کے لباس، بھانت بھانت کے زیورات اور دیگر سامان سنگار سے سجنے سنورنے کا خاصا اہتمام کرتے ہیں۔ انہی وسائل آرائش میں سے ایک انگوٹھی بھی ہے۔
انگوٹھی مختلف قسم کی دھاتوں جسے سونے چاندی لوہے تانبے وغیرہ سے بنتی ہے جبکہ اللہ کے رسول سے صرف چاندی کی انگوٹھی پہننے کا ثبوت موجود ہے۔ لہذا شرعی تعلیمات سے محبت رکھنے والے مسلمانوں کے لیے یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں سے بنی انگوٹھیوں کے بارے میں اسلام کا حکم دریافت کریں۔
چنانچہ سوال یہ ہے کہ لوہے کی انگوٹھی پہننا شرعا کیسا ہے۔ کیا یہ جائز ہے یا شریعت میں کہیں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مسئلہ ہذا میں اہل علم کا اختلاف ہے:
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز اور درست ہے جن میں امام ابراہیم نخعی، ابن عبد البر، امام ابن باز، ابن عثیمین اور سعودی فتوی کمیٹی وغیرہ علمائے کرام ہیں۔
ان حضرات کے دلائل:
پہلی دلیل: منع اور عدم جواز پر کوئی دلیل نہیں ہے اور اصول فقہ میں یہ قاعدہ معروف ہے کہ
“الأصل في الأشياء الحل حتى يثبت تحريمه بوجه يعتد به”
دوسری دلیل: اللہ کے رسول کا فرمان اس صحابی کے لیے جنھوں نے اس عورت سے نکاح کیا تھا جس نے اپنے کو رسول کے لیے ہبہ کر دیا تھا “التمس ولو خاتما من حديد” (بخاری ومسلم)
وجہ استدلال یہ ہے کہ اگر لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی چیز کو مہر بنانے کی اجازت نہ دیتے جس کا استعمال حرام ہو۔ جیسا کہ جب شراب کی حرمت وارد ہوئی تو صحابہ نے فرمائش کی کہ اس کو بیچ کر اس کی قیمت سے استفادہ کرلینے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ چنانچہ رسول اللہ نے کہا کہ نہیں سب بہا دو جو خود حرام ہے اس کی قیمت بھی حرام ہے۔ اور یہ بات معروف ہے کہ انگوٹھی سے استفادہ صرف پہن کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ جب انگوٹھی رکھنا اور بطور مہر بیوی کو دینا جائز ہے تو اس کا پہننا بھی جائز ہے۔ بنا بریں بعض حضرات کا یہ کہنا کہ “حدیث مذکور میں لوہے کی انگوٹھی کے جواز کی دلیل نہیں ہے بلکہ اس کا معاملہ سونے کی طرح ہے۔ آدمی کے لیے اس کا استعمال تو ممنوع ہے لیکن مہر میں عورت کو دینا جائز ہے کیونکہ اس کو (یعنی لوہے کی انگوٹھی کو) بطور مہر دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ عورت اس کو پہنے، گنجائش ہے کہ عورت اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت سے استفادہ کرے” مبنی بر خطا ہے کیونکہ سونا اصلا حلال الاستعمال ہے، صرف مردوں کے لیے اس کا پہننا حرام ہے جبکہ لوہے کی انگوٹھی کا استعمال بلا تفریق مرد وزن آپ حرام قرار دیتے ہیں اور جیسا کہ ہم نے بتایا کہ انگوٹھی سے فائدہ صرف پہن کر ہی اٹھایا جاتا ہے لہذا جب اس کا پہننا مرد وعورت کسی کے لیے بھی جائز نہ رہا تو اس کی اصل ہی ممنوع قرار پائی۔ اور جو چیز اصلا ممنوع اور حرام ہو تو اس کا استخدام سوائے مستثنیات کے بہر صورت ممنوع ہے۔ لہذا ایسے لوگوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
تیسری دلیل: ”کان خاتم النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَليه وَسَلَّمَ مِنْ حديد مَلْوِيٌّ عليه فِضّة“ (ابو داود نسائی) اس حدیث میں مذکور ہے کہ اللہ کے رسول کی انگوٹھی لوہے کی تھی جس پر چاندی ملی (مونڈی) ہوئی تھی۔
اس حدیث کو امام نووی، ابن مفلح، ابن حجر، ملا علی قاری، شمس الحق عظیم آبادی، محمد عبد الرحمن مبارکپوری صاحب تحفۃ اور معاصرین میں سے شیخ شعیب أرنؤوط وغیرہ نے جید قوی اور حسن قرار دیا ہے۔
چوتھی دلیل: مصنف ابن ابی شیبۃ کے اندر مروی حضرت عبد اللہ بن مسعود کا اثر جس کو امام احمد نے صحیح قرار دیا ہے کہ آپ لوہے کی انگوٹھی پہنتے تھے۔
اور کچھ لوگ عدم جواز کے قائل ہیں جن میں نووی، ابن حجر اور معاصرین میں سے شیخ البانی کے مشہور شاگرد مشہور حسن آل سلمان (مبتدع صاحب الطامات والبلایا) ہیں۔
پہلی دلیل:
عن عبد الله بن بريدة عن أبيه رضي الله عنهما : أن رجلاً جاء النبي صلى الله عليه وسلم وعليه خاتم من ذهب ، فقال : ( مالي أجد منك ريح الأصنام ؟) فطرحه ، ثم جاء وعليه خاتم من حديد ، فقال : (ما لي أرى عليك حلية أهل النار ؟) فطرحه ، فقال : يا رسول الله من أي شيء أتخذه ؟ قال : اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالاً )
اس حدیث کو ابوداود ترمذی نسائی وغیرہ ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے (اس حدیث میں لوہے کی انگوٹھی کو جہنمیوں کا زیور قرار دیا گیا ہے) لیکن یہ حدیث ضعیف ہے خود امام ترمذی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اسی طرح امام ابن عدی، ابن عبد البر، ابن رجب، ذہبی، شوکانی اور البانی وغیرہم رحمہم اللہ نے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔
دوسری دلیل: اسی مفہوم میں مروی حضرت عمر کا اثر۔ لیکن یہ بھی ضعیف ہے جیسا کہ تمہید میں ابن عبد البر نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔
تیسری دلیل: حضرت عمر ہی کا اثر جو کہ مصنف ابن ابی شیبہ کے اندر ہے «أن عمر رأى على رجل خاتم حديد، فكرهه»
اس میں ہے کہ حضرت عمر نے لوہے کی انگوٹھی کو مکروہ جانا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے کیونکہ عدم جواز اور تحریم کے سلسلے میں مروی تمام احادیث ضعیف ہیں۔ جبکہ اصل اشیاء میں حلت واباحت ہے حتی کہ صحیح دلیل کی روشنی میں حرمت ثابت ہوجائے۔ ساتھ ہی انگوٹھی کے استعمال کی حلت پر دلالت کرنے والے صحیح دلائل بھی موجود ہیں جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ واللہ اعلم
آپ کے تبصرے