اللہ تعالٰی نے ہر انسان کو کامیابی کے اسباب دیے ہیں، چاہے وہ مالدار ہو یا فقیر۔ اور وہ اسباب جن میں کامیابی نہیں ہے، جیسے مال و دولت، جاہ و منصب، کچھ لوگوں کو ہی دیا ہے اور کچھ لوگوں کو نہیں دیا ہے۔ پس ایمان اور عمل صالح دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے تنہا سبب ہیں، اس کی دعوت ہر ایک کو دی گئی ہے اور یہ سبب ہر شخص کے لیے ہے۔ ایمان کی جگہ دل ہے جو ہر ایک کے پاس ہے اور اعمال کی جگہ اعضاء ہیں جو ہر ایک کو دیے گئے ہیں، پس جس کے دل میں ایمان ہو اور اس کے اعضاء سے اعمال صالحہ کا صدور ہو وہ دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہیں اور اس کے علاوہ لوگ خائب و خاسر اور گھاٹے میں ہیں۔
دنیا و آخرت میں کامیابی صرف اعمال صالحہ سے حاصل ہوگی، انسان کی قدر و قیمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے ہے نہ کہ سیم و زر اور جاہ و منصب کی وجہ سے۔ بہت سے لوگوں نے یہ خیال کیا کہ کامیابی سلطنت و حکومت حاصل کرنے میں ہے جیسے کہ نمرود و فرعون، کچھ لوگوں نے یہ خیال کیا کہ کامیابی قوت حاصل کرنے میں ہے جیسے کہ قوم عاد، کچھ لوگوں نے یہ خیال کیا کہ کامیابی تجارت میں ہے جیسے کہ قوم شعیب، کچھ لوگوں نے یہ خیال کیا کہ کامیابی مال میں ہے جیسے کہ قارون، اللہ رب العالمین نے ان قوموں کے پاس انبیاء و رسل بھیجے جو انھیں اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی طرف بلائیں اور انھیں بتادیں کہ فوز و فلاح حقیقتاً دنیاوی جاہ و منصب اور مال و متاع کے حصول میں نہیں ہے بلکہ اصل کامیابی و کامرانی ایمان اور عمل صالح میں ہے۔ اور ایک معاشرہ اسی وقت سعادت مند ہوگا جب اس کے اندر صالح اور اللہ رب العالمین کا خوف رکھنے والے لوگ ہوں۔
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے جا بجا عمل صالح کی ترغیب دی ہے اس لیے کہ نیک اعمال ایمان باللہ، ایمان بالرسل، ایمان بالیوم الآخر وغیرہ کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:
(ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ طُوبَىٰ لَهُمۡ وَحُسۡنُ مَـَٔابࣲ) [سورة الرعد 29]
“جو لوگ ایمان ﻻئے اور نیک کام بھی کیے ان کے لیے خوشحالی اور بہترین ٹھکانا ہے”۔
(إِنَّ ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ كَانَتۡ لَهُمۡ جَنَّـٰتُ ٱلۡفِرۡدَوۡسِ نُزُلًا) [سورة الكهف 107]
“جو لوگ ایمان ﻻئے اور کام بھی اچھے کیے یقیناً ان کے لیے الفردوس کے باغات کی مہمانی ہے”۔
اور اسی طرح جو لوگ نیک عمل انجام دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی زندگی کو خوشنما بنا دیتا ہے اور بروز قیامت ان کے عمل کا بہترین بدلہ بھی عطا کیا جائے گا جیسا کہ سورہ نحل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(مَنۡ عَمِلَ صَـٰلِحࣰا مِّن ذَكَرٍ أَوۡ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤۡمِنࣱ فَلَنُحۡیِیَنَّهُۥ حَیَوٰةࣰ طَیِّبَةࣰۖ وَلَنَجۡزِیَنَّهُمۡ أَجۡرَهُم بِأَحۡسَنِ مَا كَانُوا۟ یَعۡمَلُونَ)
ایک دوسری جگہ فرمایا:
(إِنَّ ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ یَهۡدِیهِمۡ رَبُّهُم بِإِیمَـٰنِهِمۡۖ تَجۡرِی مِن تَحۡتِهِمُ ٱلۡأَنۡهَـٰرُ فِی جَنَّـٰتِ ٱلنَّعِیمِ) [سورة يونس 9]
“یقیناً جو لوگ ایمان ﻻئے اور انھوں نے نیک کام کیے ان کا رب ان کو ان کے ایمان کے سبب ان کے مقصد تک پہنچا دے گا نعمت کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی”۔
انسان کا نیک عمل ہی باقی رہنے والا ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز باقی نہیں رہے گی بلکہ ساری چیزیں فنا کے گھاٹ اتر جائیں گی اور نیک عمل کرنے والوں کو جو سب سے عظیم اجر ملے گا وہ ہے خوف اور غم سے مامون ہونا یعنی اہل ایمان اور اعمال صالحہ کی انجام دہی میں مصروف کبھی غمگین اور رنجور نہیں ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(فَمَنۡ ءَامَنَ وَأَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡهِمۡ وَلَا هُمۡ یَحۡزَنُونَ)[سورة الأنعام 48]
“جو ایمان لے آئے اور درستی کرلے سو ان لوگوں پر کوئی اندیشہ نہیں اور نہ وه مغموم ہوں گے”۔
(فَمَنِ ٱتَّقَىٰ وَأَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡهِمۡ وَلَا هُمۡ یَحۡزَنُونَ) [سورة الأعراف 35]
“جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور درستی کرے سو ان لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے”۔
اور اسی طرح نیک عمل کرنے والوں سے قیامت کے دن کہا جائے گا:
(ٱدۡخُلُوا۟ ٱلۡجَنَّةَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡكُمۡ وَلَاۤ أَنتُمۡ تَحۡزَنُونَ) [سورة الأعراف 49]
“جاؤ جنت میں تم پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ تم مغموم ہوگے”۔
اللہ رب العالمین عمل صالح کی وجہ سے بہت سارے گناہوں کو مٹا دیتا ہے جس طرح ایک شخص حج کے فریضہ کو ادا کرنے کے بعد گناہوں سے ایسے ہی پاک و صاف ہوجاتا ہے جیسے کہ وہ پیدا ہونے کے وقت گناہوں سے پاک و صاف تھا۔ ایسے ہی وضو کرنے کی وجہ سے اعضاء وضو سے گناہ جھڑجاتے ہیں اور صحیح مسلم میں آپ صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے:
“جب انسان کبیرہ گناہوں سے اجتناب کر رہا ہو تو پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، درمیان کے عرصے میں ہونے والے گناہوں کو مٹانے کا سبب ہیں”۔
اس لیے ایک مسلمان کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ عمل صالح جو کہ نجات کا ضامن ہے، سبقت کرے، اس پر مداومت کرے نیز قبولیت کی پوری امید رکھے اور عدم قبولیت سے خوف کھائے۔ پس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے فارغ اوقات کو غنیمت سمجھیں اور اس نعمت عظمی کی ناقدری نہ کریں، لغویات سے اجتناب کریں، ہوٹلوں اور چوراہوں پر بیٹھ کر گپ شپ اور ہنسی مذاق سے بچیں، وبا کے ان ایام میں ہم اپنا تعلق اللہ رب العالمین سے مضبوط کریں، زیادہ سے زیادہ نیک اعمال انجام دیں تاکہ ہماری دنیوی زندگی خوشگوار ہو اور آخرت میں ہمارے لیے یہ نیک اعمال ذخیرہ ہوں۔ کیونکہ کوئی نہیں جانتا کب یہ مہلت ختم ہوجائے اور ہم کف افسوس ملتے رہ جائیں۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس وبا کو جلد از جلد ہم سے دور کردے۔ آمین
آپ کے تبصرے