قوموں کا کردار ان تعلیمات اور روایات کا آئینہ دار ہوتا ہے جن کے وہ علمبردار ہوتے ہیں، ان کی رگوں میں دوڑنے والا صحت مند خون صفحہ دہر پر تاریخ رقم کرتا ہے۔ کوئی بھی قوم اپنی روایات سے کتنی بھی دور ہوجائے لیکن روح عمل انگڑائی لیتی ہے، سلف کے عظیم کارنامے انھیں آواز دیتے ہیں۔ احوال وظروف شاہد ہیں کہ مسلم قوم انتہائی زوال کے بعد بھی ایک نرالی شان رکھتی ہے، اخلاقی گراوٹ کے اس گئے گزرے دور میں بھی خیر و نیکی کی اسپرٹ ان میں باقی ہے، رحمدلی اور خدمت خلق کا جذبہ جابجا محو خرام ہے۔
ملک میں غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن سے جو تشویشناک صورتحال پیدا ہوئی وہ تاریخ کا ایک دردناک ورق بن چکی ہے، اچانک مزدورں کا پلائن، علاج اور بیماری کے مسائل، غذا کی قلت، گھروں میں فاقے اور دیگر سماجی مسائل میں پورا ملک گھر گیا تھا۔ امیر غریب سب کی جان پر بن آئی تھی، یہ قوم مصیبت کی اس گھڑی میں خدمت ملک ووطن کے لیے جس طرح آگے آئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، ہمیشہ کی طرح انھوں نے ثابت کیا کہ یہ ملک کے سچے سپوت ہیں، غریبوں کے مسیحا ہیں، ملک کی بقا وترقی کا خواب ان کے بغیر نامکمل ہے۔
کسے نہیں پتہ کہ اول روز سے ہی کورونا بحران کی نفسانفسی میں انھوں نے ہر محاذ پر اپنا رول ادا کیا ہے، دامے درمے قدمے سخنے انھوں نے ملک کے پریشان حال عوام کی مدد کی ہے۔ یہ مدد انسانیت کی بنیاد پر تھی، کسی کا مذہب نہیں پوچھا، کسی کا دھرم نہیں دیکھا، جو بھوکا نظر آیا اسے کھانا کھلایا، جو پیاسا نظر آیا اسے پانی پلایا، جو بیمار نظر آیا اس کا علاج کرایا۔ جبکہ دوسری طرف مصیبت کے ان کٹھن لمحات میں بھی نفرت وتعصب کا کھیل جاری تھا، یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے امداد کے لیے ایک مسلمان کو جے شری رام پکارنے کے لیے کہا، اس غیور مسلمان نے امداد نہیں لی، خالی ہاتھ واپس آگیا۔ مگر یہاں دیکھیے، کوئی بھید بھاؤ نہیں تھا، کوئی شرط اور کوئی تفریق نہیں تھی، گروہی عصبیت سے بالاتر ہوکر خدمت خلق میں لگے رہے، کسی نے لنگر چلائے، کسی نے ماسک اور سینی ٹائیزر تقسیم کیا، کسی نے راستوں میں بسکٹ پانی کا بوتل اور دیگر کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کی، علاج سے ٹھیک ہونے والوں نے اپنا پلازمہ بھی ڈونیٹ کیا، گاڑیوں اور بسوں میں گھس گھس کر غریبوں کو اشیاء خوردونوش دی، مزدورں نے اس کی شہادت بھی دی۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور تصویروں کا سیلاب آگیا۔
سلسلہ یہیں پر نہیں رکا بلکہ اہل مدارس نے علاج ومعالجہ اور کورنٹائن سینٹر کے لیے پوری پوری عمارت وقف کردی، مسجدوں کے دروازے کھول دیے گئے، اسپتالوں کے لیے بیڈ دیے، وینٹی لیٹر دیے، کٹس دیے، مسلم امراء نے پی ایم کئیر میں پیسے ڈونیٹ کیے، مزدوروں کو وطن بھیجنے کے لیے کرایے اور سفر خرچ بھی دیے، گھروں میں راشن پہنچائے، کھانے کے پیک پیک گھر گھر بھیجے، یہاں تک کہ بے یارومددگار غیر مسلم میتوں کے آخری رسوم بھی ادا کیے۔ ادھر میڈیا اور فرقہ پرست ہمارے بائیکاٹ اور ہم پر پابندیوں کی بات کرتے رہے، مسلم دکانداروں سے اشیاء نہ خریدنے کی جگہ جگہ مہم چھیڑی جارہی تھی، ادھر مسلمان خدمت خلق اور رواداری کی شاندار مثالیں قائم کرتے رہے، حالانکہ وبا کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلا رہا تھا لیکن انسانیت کے جذبے سے سرشار کفن بردوش یہ رفاہی خدمت میں لگے رہے۔
دراصل یہ اسلامی تعلیمات کی دین ہے، خدمت خلق، رواداری، خیرخواہی، انسانیت نوازی، غرباء پروری اسلام کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ یقینی طور پر مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس پر عمل پیرا ہے، اس قوم کی انسانیت نوازی نے ملک کے عوام کو راحت پہنچائی ہے، ان کی تکلیفوں کو کم کیا ہے، ان کی اشک شوئی کی ہے۔ یہ اس قوم کے فرزند ہیں جو اللہ کے لیے پریشان حال انسانیت کی مدد کرتے ہیں، غریبوں کے دکھوں کا مداوا کرتے ہیں، بحران کے ہر دور میں ملک کے لیے مسیحا ثابت ہوتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو مذہب اور اپنے بھگوان کا نام لے کر بے قصور مسلمانوں کی جان لیتے ہیں، دھرم کے نام پر وحشی درندے بن جاتے ہیں، ان سے کہہ دو کہ اسلام اور مسلمان اس ملک کے لیے نعمت ہیں، ہمارا وجود ایک روشنی ہے جس دن ہم نہ رہے محرومیاں اور تاریکیاں ہی تمھارا مقّدر ہوں گی اور یہ بات جتنی جلدی یہ ملک سمجھ لے اتنا ہی بہتر ہوگا۔
ما شاء الله. بہت خوب.
الحمد لله یہ اسلام كى آفاقی تعليمات کی بدولت ہے. ان شاء الله مسلمان جاگے گا، اور الله پاک کی توفیق سے قوم وملك میں انقلاب آئے گا. کچھ بعيد نہیں کہ بھارتی مسلمانوں پر نا مساعد حالات وہ طوفان ہوں جنكى دعا علامہ إقبال رحمہ الله نے کی تھی “خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں”.
بارك الله فيكم وفي علمكم.