ترقی یافتہ زمانہ میں نت نئی ایجادات نے جہاں جملہ شعبہائے حیات میں نئی روح پھونک دی وہیں تجارت کے میدان میں استفادہ کی شاہراہوں میں وسعت پیدا کی۔ شیئر بازار بھی انہی ترقیات کا ایک مظہر ہے۔
شیئر کیا ہے:
شیئر یعنی حصہ داری، شراکت۔ کسی بڑی کمپنی کو تنہا چلانا، خرچ سنبھالنا، اس کی نگہداشت ایک مشکل کام ہے ،اس لیے ہر کمپنی اپنے شیئرز (حصہ داری) فروخت کرتی ہے جس کی تعداد اور قیمت Securities and exchange Board of India کے زیر نگرانی متعین کی جاتی ہے۔ اس طرح ایک شیئرز خریدنے والا کمپنی میں شراکت داری حاصل کرلیتا ہے۔ “۔۔۔لوگ کمپنی کے شیئر کو ابتدائی بازار (primary market) میں خریدتے ہیں، اجتماع سرمایہ کے لیے جو کاغذی دستاویز اسناد کی شکل میں تیار کی جاتی ہے اس کو فائنانس کی اصطلاح میں شیئر کہتے ہیں”۔ (شیئر بازار تعارف و مواقع از عرفان شاہد ص:9)
بنیادی طور پر شیئر کی دو قسمیں ہیں:
1- ترجیحی شیئر (prefrence share)
2- شراکتی شیئر (Equity share)
یہ prefrence share خاص لوگوں کو ہی دیا جاتا ہے جیسے promoter وغیرہ جب کہ equity share عام لوگوں کو دی جاتی ہے۔ prefrence share یہ fixed deposit سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے یعنی اس میں متعینہ منافع خریدار کو دیا جائے گا خواہ کمپنی گھاٹے میں ہو یا کثیر منافع میں اور equity share میں منافع کا انحصار کمپنی کے منافع اور خسارہ کے مطابق ہوتا ہے۔
شیئر بازار کا تعارف:
“بازار اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں چیزیں خریدی اور بیچی جاتی ہیں، جہاں ایک خریدنے اور ایک فروخت کرنے والا ہوتا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ (شیئر بازار کو اسٹاک مارکیٹ بھی کہتے ہیں) ایک ایسا بازار ہے جہاں شیئر خریدے اور بیچے جاتے ہیں۔ قدیم زمانہ میں اس کی مارکیٹینگ سبزی بازار کی طرح تھی لیکن ٹیکنالوجی کے اس دور میں اس کا طریقہ کار مختلف ہوچکا ہے ،آپ گھر بیٹھے ہی بیع و شراء کرسکتے ہیں۔
شیئر بازار کی تاریخ:
“1840ء میں پہلی بار شیئر بازار کی ابتدا ممبئی میں برگد کے پیڑ کے نیچے 22 لوگوں کے ساتھ شروع کی گئی۔ آہستہ آہستہ ان بروکرز کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور 1875ءمیں انھوں نے اپنا Native share and stoke brokers association بنالیا اور ساتھ ہی دلال اسٹریٹ پر آفس خرید لی۔ تقسیم ہند کے 15 سال بعد 31 اگست 1957 کو بامبے اسٹاک ایکسچینج کو بھارت سرکار نے سیکیورٹی ایکٹ کے تحت لیا۔ ( Wikipedia .patrik.com)
1957 کے بعد Native share and stoke brokers کو ہندوستانی حکومت نے اسٹاک ایکسچینج کا درجہ دے دیا۔ (.FinnovationZ.comمفہوم)
1980ء میں BSE کو دلال اسٹریٹ پر شفٹ کر دیا گیا، 1986 میں ایکسچینج میں Sensex جیسے انڈیکس بنائے گئے۔ (patrik.com)
اسٹاک ایکسچینج کا تعارف:
جس طرح “۔۔۔ہر چیز کی مارکیٹ ہوگئی ہے ٹھیک اسی طرح سے شیئر، ڈبینچر اور بانڈ (بانڈ، ڈبینچر یہ قرض کے دستاویز ہوتے ہیں جس طرح اجتماع سرمایہ کے دستاویز کو شیئر کہتے ہیں) کی بھی اپنی ایک مارکیٹ ہے۔ اس مارکیٹ کو اسٹاک ایکسچینج (Stock Exchange) کہتے ہیں۔ عام طور پر جب کوئی شخص اپنے شیئر کو کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت کرتا ہے تو اسے اسٹاک ایکسچینج کے ذریعہ فروخت کرنا ہوتا ہے اور کمپنی اپنے رجسٹر سے فروخت کرنے والے کے نام کو کاٹ کر نئے خریدنے والے کا نام درج کرلیتی ہےاور جو بھی نفع یا بونس شیئر پر حاصل ہوتا ہے وہ نئے خریدار کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دیتی ہے۔ (شیئر بازار تعارف و مواقع ص:17)
مختصر یہ کہ اسٹاک ایکسچینج یہ شیئر بازار کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے۔ ملک کی تجارتی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے حکومت نے کئی ایک اسٹاک قائم کیا ہے جن میں دو ایکسچینج زیادہ معروف ہیں:
1۔Bombay stoke exchange (BSE)
2۔National stoke exchange (NSE )
(groww.in)
سینسیکس: مختلف وجوہات کی بنا پر شیئر مارکیٹ میں جو اتار چڑھاؤ ہوتے ہیں ان کا ادراک سینسیکس کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ اسٹاک کی ہر پل کی خبر سینسیکس کے میٹر پر نمایاں ہوتی ہے۔ یہ ایک سب اسٹیشن کے ذریعہ ڈائریکٹ سٹیلائٹ سے جڑا ہوتا ہے۔ یہ مشین کمپیوٹر کی طرح ہوتی ہے لیکن ہر آدمی کے پاس نہیں ہوتی۔ عام آدمی سینسیکس کے اتار چڑھاؤ کو صرف اخبار کے صفحات اور ٹیلی ویژن پر دیکھ سکتے ہیں۔ (شیئر بازار تعارف و مواقع ص:14)
سیبی: سینسیکس اور اسٹاک ایکسچینج کی نگرانی اور شیئر بازار کے متعلق کاروائیوں کے لیے حکومت ہند نے سیبی (Security and exchange Board of India) نامی ایک ادارہ قائم کیا ہے۔
“یہ ادارہ سینسیکس کے متعلق جملہ امور کی نگرانی کرتا ہے۔ بسا اوقات شیئر مارکیٹ کے متعلق قانون وضع کرتا ہے۔” (حوالہ مذکور ص:15)
“حکومت ہند نے شیئر بازار سے متعلق بدعنوانی اور کرپشن کو روکنے کے لیے سیبی کو 1988ء میں عارضی طور پر قائم کیا۔ شیئر بازار کے متعلق جملہ مسائل کو دیکھتے ہوئے حکومت ہند نے 1992ء میں قانونی طور پر سیبی کے دائرہ کو وسیع کیا۔۔۔”(حوالہ مذکور ص: 23)
خلاصہ یہ کہ سیبی کی نگرانی میں ہی شیئر بازار ترقی سے ہمکنار ہو رہا ہے۔
بارك الله فيكم. آپ نے شیئر مارکیٹ کا تعارف کرایا. بہتر ہوتا اگر آپ ساتھ ہی ساتھ شیئر بازار میں انویسٹمنٹ کے متعلق شرعى أحكام سے بھی قارئين کو آگاہ فرماتے. أصولى طور پر یہ سمجھ لیں کی اسلام میں شراكتى شيئر (نفع ونقصان میں برابر ساجھے داری) حلال ہے بشرطيکہ کمپنی کا بزنس حلال ہو. شرعى نقطۂ نظر كو سامنے رکھیں تو اسلامى ملکوں كى اكثر وبيشتر کمپنیوں کے شيئرز بهى حرام ہیں. اور جب یہ حال اسلامى ملکوں کی کمپنیوں کے شيئرز کا حال ہے تو غیر اسلامی ملکوں کی کمپنیوں کے شيئرز کی حلّت وحرمت کا اندازہ… Read more »
اس مضمون میں شیئر بازار سے متعارف کرانا مقصود تھا نہ کہ اس کی طرف ترغیب دلانا رہا مسئلہ حلت و حرمت کا تو چونکہ میں ابھی طالب علم ہوں اس لیے فقہی مسائل میں الجھنا اور عوام کے سامنے پیش کرنا مناسب نہیں سمجھتا ۔
تشیع کا میں شکر گزار ہوں اللہ آپ کے علم میں پختگی بخشے۔امین
گنجائش ہو سکتا ہے