حدیث ”خراب الہند من الصین“ کی تحقیق

فاروق عبداللہ نراین پوری حدیث و علوم حدیث

آج کل وطن عزیز کی موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر سوشل میڈیا میں ایک حدیث گردش کر رہی ہے کہ ہندوستان کی خرابی وبربادی چین کی وجہ سے ہوگی۔ یہ ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہےجو کہ متعدد کتابوں میں بلا سند مذکور ہے۔ پہلے حدیث کا متن ملاحظہ فرمائیں، امام قرطبی فرماتے ہیں:
«رُوِيَ من حديث حذيفة بن اليمان رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ويبدأ الخراب في أطراف الأرض حتى تخرب مصر، ومصر آمنة من الخراب حتى تخرب البصرة، وخراب البصرة من العراق، وخراب مصر من جفاف النيل، وخراب مكة من الحبشة، وخراب المدينة من الجوع، وخراب اليمن من الجراد، وخراب الأيلة من الحصار، وخراب فارس من الصعاليك، وخراب الترك من الديلم، وخراب الديلم من الأرمن، وخراب الأرمن من الخزر، وخراب الخزر من الترك، وخراب الترك من الصواعق وخراب السند من الهند، وخراب الهند من الصين، وخراب الصين من الرمل، وخراب الحبشة من الرجفة، وخراب الزوراء من السفياني، وخراب الروحاء من الخسف، وخراب العراق من القحط»

اسے امام قرطبی نے ”التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة“ (ص1349) میں حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے صیغہ تمریض ”رُوِی“ کے ساتھ بلا سند مرفوعا بیان کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ اسے ابو الفرج ابن الجوزی نے بھی ”روضة المشتاق والطريق إلى الملك الخلاق“میں ذکر کیا ہے۔
اسی طرح اسے بلا سند حافظ ابن کثیر نے ”البدایہ والنہایہ“ (19/92) میں ذکر کیا ہے۔ اور اس پر کلام بھی کیا ہے۔
امام سیوطی نے بھی اسے دو کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ ”رفع شان الحبشان“ (ص210) میں اسے امام قرطبی کی ”التذکرہ“ کی طرف اور”حسن المحاضرة في تاريخ مصر والقاهرة“ (1/15) میں امام دیلمی کی ”مسند الفردوس“ اور امام قرطبی کی ”التذکرہ“ کی طرف احالہ کیا ہے۔
🔷 اس حدیث کا درجہ: یہ ایک بے بنیاد حدیث ہے۔ اس کی سند کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اسے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
“وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا يُعْرَفُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْكُتُبِ الْمُعْتَمَدَةِ، وَأَخْلَقُ بِهِ أَنْ لَا يَكُونَ صَحِيحًا، بَلْ أَخْلَقُ بِهِ أَنْ يَكُونَ مَوْضُوعًا، أَوْ أَنْ يَكُونَ مَوْقُوفًا عَلَى حُذَيْفَةَ، وَلَا يَصِحُّ عَنْهُ أَيْضًا، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ أَعْلَمُ”۔ (البدایہ والنہایہ:19/92)

(یہ حدیث کسی معتمد کتاب میں موجود نہیں۔ مناسب یہی ہے کہ یہ صحیح نہ ہو، بلکہ زیادہ مناسب ہے کہ یہ موضوع یعنی من گھڑت ہو، یا یہ کہ حذیفہ سے موقوفا مروی ہو اور ان سے بھی ثابت نہ ہو۔ واللہ سبحانہ اعلم)
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ موجودہ صورتحال اس حدیث کی تصدیق کرتی ہے۔ ایسے لوگوں سے کہنا ہے کہ گرچہ موجودہ صورتحال سے اس کی کسی نوعیت کی تصدیق ہوتی ہو لیکن اس کی وجہ سے کسی صحابی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت جائز نہیں۔ تجربے کی بنیاد پر احادیث کی تحسین وتصحیح یا تضعیف کا اصول ایک غیر مقبول اصول ہے۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ ایک حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
“الاعتماد فِي مثل هَذَا على التجربة لَا على الْإِسْنَاد وَالله أعلم۔ وَأَقُول السّنة لَا تثبت بِمُجَرَّد التجربة”۔ (تحفة الذاكرين بعدة الحصن الحصين: ص215)

(اس طرح کی احادیث کا اعتماد تجربہ پر ہے، اسناد پر نہیں، واللہ اعلم۔ اور میں کہتا ہوں کہ سنت صرف تجربے سے ثابت نہیں ہوتی)
اسی طرح اور بھی بہت سارے غیر مقبول اصول بعض علما اور بعض فرقوں کے یہاں رائج ہیں جو کہ محدثین کے متفقہ اصول سے ٹکراتے ہیں۔
نوٹ: قبولیت حدیث کے ان غیر مقبول طریقوں پر خاکسار نے ایک چھوٹا سا رسالہ ترتیب دیا ہے جو کہ عنقریب قارئین کے ہاتھوں میں ہوگا۔ ان شاء اللہ
واضح رہے کہ اسی کے برعکس ایک اور حدیث مروی ہے جس میں ”خَرَابُ الصِّينِ مِنْ قِبَلِ الْهِنْدِ“کا تذکرہ ہے۔ اسے ابو عمرو الدانی نے”السنن الواردۃ فی الفتن“ (4/881-883، ح455)میں روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا عَبْدُ بْنُ أَحْمَدَ الْهَرَوِيُّ، فِي كِتَابِهِ قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ شَاهِينَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ الْحَضْرَمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ التَّمِيمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمُنْعِمُ بْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، قَالَ: «الْجَزِيرَةُ آمِنَةٌ مِنَ الْخَرَابِ حَتَّى تَخْرُبَ أَرْمِينِيَّةُ , وَأَرْمِينِيَّةُ آمِنَةٌ مِنَ الْخَرَابِ حَتَّى تَخْرُبَ مِصْرُ , وَمِصْرُ آمِنَةٌ مِنَ الْخَرَابِ حَتَّى تَخْرُبَ الْكُوفَةُ , وَلَا تَكُونُ الْمَلْحَمَةُ الْكُبْرَى حَتَّى تَخْرُبَ الْكُوفَةُ , فَإِذَا كَانَتِ الْمَلْحَمَةُ الْكُبْرَى فُتِحَتِ الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ عَلَى يَدِ رَجُلٍ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ , وَخَرَابُ الْأَنْدَلُسِ مِنْ قِبَلِ الرِّيحِ , وَخَرَابُ إِفْرِيقِيَّةَ مِنْ قِبَلِ الْأَنْدَلُسِ , وَخَرَابُ مِصْرَ مِنَ انْقِطَاعِ النِّيلِ , وَاخْتِلَافِ الْجُيُوشِ فِيهَا , وَخَرَابُ الْعِرَاقِ مِنْ قِبَلِ الْجُوعِ وَالسَّيْفِ , وَخَرَابُ الْكُوفَةِ مِنْ قِبَلِ عَدُوٍّ مِنْ وَرَائِهِمْ , يَخْفِرُهُمْ حَتَّى لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَشْرَبُوا مِنَ الْفُرَاتِ قَطْرَةً , وَخَرَابُ الْبَصْرَةِ مِنْ قِبَلِ الْعِرَاقِ , وَخَرَابُ الْأُبُلَّةِ مِنْ قِبَلِ عَدُوٍّ يَخْفِرُهُمْ , مَرَّةً بَرًّا , وَمَرَّةً بَحْرًا , وَخَرَابُ الرَّيِّ مِنْ قِبَلِ الدَّيْلَمِ , وَخَرَابُ خُرَاسَانَ مِنْ قِبَلِ التِّبْتِ , وَخَرَابُ التِّبْتِ مِنْ قِبَلِ الصِّينِ , وَخَرَابُ الصِّينِ مِنْ قِبَلِ الْهِنْدِ , وَخَرَابُ الْيَمَنِ مِنْ قِبَلِ الْجَرَادِ وَالسُّلْطَانِ , وَخَرَابُ مَكَّةَ مِنْ قِبَلِ الْحَبَشَةِ , وَخَرَابُ الْمَدِينَةِ مِنْ قِبَلِ الْجُوعِ»

اس کی سند سخت ضعیف ہے، بلکہ موضوع کہہ سکتے ہیں۔ اس میں عبد المنعم بن ادریس کے متعلق حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
“مشهور قصاص، ليس يعتمد عليه، تركه غير واحد، وأفصح أحمد بن حنبل فقال: كان يكذب على وهب بن منبه وقال البخاري: ذاهب الحديث”. (ميزان الاعتدال، 2/668)۔

(یہ مشہور قصہ گو ہیں، ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، کئی لوگوں نے انہیں ترک کر دیا ہے، بلکہ احمد بن حنبل نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ وہب بن منبہ پر وہ جھوٹ باندھتے تھے۔ اور بخاری نے انہیں ذاہب الحدیث کہا ہے۔)
اور یہ حدیث وہب بن منبہ کی طرف ہی منسوب ہے۔ عبد المنعم نے اپنے باپ کے واسطے سے وہب بن منبہ سے روایت کی ہے۔
اور حافظ ابن حجر نے انہیں کذاب کہا ہے۔ (التلخیص، 2/251)۔
لہذا دونوں روایتیں بے بنیاد ہیں۔ ان سے کچھ استدلال کرنا جائز نہیں۔

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
مهرالدين

جزاكم الله خيرا

محمد رضوان سلفى مديرجامعة خديجة الكبرى،پورنیہ،بہار

ما شاء اللہ!
بہت خوب شیخ فاروق عبداللہ مدنی نرائن پوری صاحب ، اللہ تعالی آپ کی زبان و قلم اور علم میں برکت دے۔ نہایت اہم و اچھوتے مسائل کو آپ موضوعِ بحث بناتے اور علمی تحقیق وتبصرے سے قارئین کو بھرپور استفادے کا سنہری موقع فراہم کرتے ہیں۔جزاکم اللہ خیراً،وبارك في حياتكم.

فاروق

جب حدیث کے عین مطابق حالات نظر آرہے ہیں اسکو کیسے جھٹلایا جائے ضروری تو نہیں محدثین کی تحقیق پوری ہو ہو سکتا ہے محدثین اسناد کی تلاش میں ناکام رہے ہوں انبیاء کے علاوہ تو تمام انسان غلطی کر سکتے ہیں اب ایک حدیث جو صدیوں پہلے کتب میں درج کی گئی لیکن آج حالات اسمیں بیان کے مطابق ہو بہو ویسے ہیں تو اسکا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ محدثین کی تحقیق یہاں ناقص رہی علامات قیامت سے متعلق احادیث کو تجربات کی بنیاد پر کیوں نہیں پرکھا جا سکتا اسمیں تو کوئی شرعی قباحت نظر نہیں آتی۔