کورونا وائرس کی دہشت اعصاب پر اس طرح مسلط ہے کہ بڑے بڑے سورماؤں کے حواس گم ہیں، پوری دنیا میں محشرکا سماں ہے۔ نفسانفسی کا عالم یہ ہے کہ انسانیت کے مسیحا کہے جانے والے ڈاکٹرز بھی راہ فرار اختیار کررہے ہیں، وہ ڈاکٹر جو عام حالات میں مریضوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے تھے اب بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں۔ اسے بزدلی کہیں، بے مروتی کہیں یا انسانیت سے بے وفائی اور غداری کہیں، یا اور کیا نام دیں کہ کورونا سے نجات کے لیے جن سے ملک کی امیدیں وابستہ تھیں وہی پیٹھ دکھارہے ہیں۔
پیشہ بھی ایک بہت بڑی ذمے داری کی چیز ہے، اس کے بھی کچھ تقاضے واقدار ہیں، موت کے ڈر سے اپنے پیشے اور روایات سے پشت پھیر لینا، یہ بتاتا ہے کہ ضمیر مرچکا ہے، دیانت اور امانت دم توڑ چکی ہے، انسانیت کا جذبہ ناپید ہوچکا ہے، آپ تصور کیجیے کہ فوجی اگر محاذ چھوڑ دے، سپاہی اگر اپنے فرض سے اعراض کرنے لگے، کشتی کا ناخدا خوفناک موجوں کو دیکھ کر کشتی کے پتوار سے دستبردار ہوجائے تو صورتحال کیا بنے گی؟اسی طرح ڈاکٹروں کے کاندھوں پر بھی عوام کی صحت کی ذمے داری ہے، بیماریوں سے عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے، اگر یہ میدان چھوڑ دیں تو یہ بھی پرلے درجے کی بزدلی اور خود غرضی کہلائے گی۔
قابل مبارکباد ہیں وہ ڈاکٹرز جو مریضوں کا علاج کرتے ہوئے کورونا کی زد میں آگئے اور اپنے پیشے کی آبرو کے لیے جان قربان کردی، وہ ملک ووطن کے سامنے شرمندہ نہیں ہوئے۔ اگر دیکھا جائے تو کثیر تعداد میں اطباء کی جانیں اس مہاماری کی نذر ہوگئیں، ادھر کچھ بزدل اور ڈرپوک ڈاکٹرز ہیں جنھوں نے خوف اور ڈر کے پیش نظر اپنے اسپتال اور دوا خانے بند کردیے ہیں، کورونا کا تو پتہ نہیں البتہ چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے بھی علاج نہیں ہورہے ہیں، بخار، ٹائی فائیڈ، ملیریا، شوگر بلڈ پریشر کے مریض بھی گھٹ گھٹ کے مررہے ہیں۔ یہ فن طب کے امین ڈاکٹرز ہیں جن کی ذمے داری مریضوں کی جان بچانا تھی لیکن انھوں نے مریضوں کو بے یارومددگار مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے، انھوں نے اپنے پیشے کو پہلے بھی رسوا کیا تھا اور آج بھی طبیب کے نام پر کلنک بنے ہوئے ہیں، رحم ومروت سے یہ کل بھی عاری تھے اور آج بھی عاری ہیں۔
اسے احتیاط اور پیش بندی نہیں بلکہ ذمے داری سے فرار اور بدترین شکست کہا جائے گا۔ کیا وبا کے اس دور میں خدمت انسانیت کے میدان میں یہ اکیلے ہیں، انسانیت کی خدمت کے دوسرے محاذ بھی تو ہیں، اشیاء خوردونوش کی دکانیں، ملک سینٹرز اور میڈیکل اسٹورز میں بھی تو رسک ہے، لیکن کیا انھوں نے بھی راہ فرار اختیار کرلیا ہے؟جواب ہوگا نہیں! یہ لوگ بھی رسک لے کر انسانی ضروریات لوگوں کو بہم پہنچارہے ہیں۔ سوچو اگر یہ بھی راہ فرار اختیار کرلیں تو لوگ ایسے ہی بھوک سے مریں گے جیسے کورونا سے مررہے ہیں۔
طب انسانیت کی خدمت کا ایک باعزت ذریعہ ہے، دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو صحیح معنوں میں اپنی طبابت اور تجربہ سے انسانیت کو فیض پہنچا رہے ہیں، ایسے ڈاکٹروں کی کمی نہیں ہے جو غریب مریضوں کا نہ صرف فری میں چیک اپ کرتے ہیں بلکہ میڈیکل سے دوا اور دیگر اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔ ایسے بھی طبیب آپ کو ملیں گے جو اس خوف کے ماحول میں بھی احتیاطی تدابیر کے ساتھ اپنے دوا خانے کھول رہے ہیں اور مریضوں کو دیکھ رہے ہیں، اللہ ان انسانیت کے ہمدرد ڈاکٹروں کی حفاظت فرمائے۔ آمین
افسوس ہوتا ہے ان اطباء پر جنھوں نے میدان چھوڑ کر گوشۂ عافیت میں پناہ لے لی ہے، انھیں روز کے خسارے کی بھی پرواہ نہیں ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک بار حالات معمول پر آگئے تو خسارے کی بھرپائی کے بہت مواقع ملیں گے، دواخانہ یا اسپتال کھلے گا تو مرغے حلال ہونے کے لیے آنا شروع ہوجائیں گے۔ دنیا جانتی ہے کہ یہی جلاد ڈاکٹر عام دنوں میں مختلف بہانوں سے مریض کو ایسا نچوڑتے ہیں کہ مریض کے پاس گھر جانے کے لیے رکشے کا کرایہ بھی نہیں بچتا ہے۔ مریض کہتا ہے کہ اگر آپ کی فیس دے دیا تو میڈیکل سے دوا نہیں خرید پاؤں گا تو ڈاکٹر فائل چھین کے کہتا ہے، جاؤ فیس لے کر آؤ تب فائل ملے گی۔ دنیا کو پتہ ہے کہ بعض ڈاکٹر اتنے کٹھور ہوتے ہیں کہ مریض روتا رہے رحم کی بھیک مانگتا رہے لیکن ترس نہیں آتا، پھر وہ ڈاکٹر کی کیبن سے باہر کردیا جاتا ہے اور کمپاؤنڈر سارے واجبات وصول کرکے ہی اسے جانے دیتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی بیماری کے لیے ہزاروں روپئے کے ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں، اپنے اسپتال میں پوری طرح کنگال کرنے کے بعد دوسری جگہ ریفر کردیا جاتا ہے، زیورات فروخت ہوجاتے ہیں، قرضوں سے آدمی گراں بار ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ ادویات اور طبی آلات کی کمپنیوں کے ایجنٹ بن کر کام کرتے ہیں، یہی مال کے حریص اطباء آج کورونا مہاماری میں انڈر گراؤنڈ ہوگئے ہیں، یہ انسانیت کے خدمت گار نہیں بلکہ موقع پرست اور خود غرض ہیں۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ جنھیں کورونا نہیں ہوا ہے وہ بھی علاج نہ ملنے کے سبب مررہے ہیں۔ بڑے اسپتالوں کا رخ کرو تو بغیر کورونا ٹیسٹ رپورٹ کے علاج نہیں کیا جاتا، اگر مریض ڈاکٹر سے فون پر رابطہ کرتا ہے تو دوائیوں کے نام بتاکر اپنے میڈیکل سے خریدنے کے لیے کہا جاتا ہے، اسی پر بس نہیں بلکہ میڈیکل کا دوا فروش انسان ڈاکٹر کی غائبانہ فیس بھی وصولتا ہے۔ حیرت ہے کہ وہی صاحب پہلے بغیر چیک اپ کے مریض کو دوا دینے کے قائل نہیں تھے اور اب بغیر دیکھے دوا دینے پر اصرار کررہے ہیں۔ دیکھو تو کورونا نے کیسی مت مار دی ہے؟
طب مافیاؤں نے یہ بھی نہ سوچا کہ ہمارا فرار کورونا سے سہمے ہوئے سماج کو کس درجہ خوف کی نفسیات میں مبتلا کرے گا؟ گلی محلوں میں وبا کی دہشت دو چند ہوجائے گی، دواخانوں کے بند دروازے دلوں پر کیسی قیامت ڈھائیں گے؟ یہی تو وقت تھا کہ ڈاکٹر اپنی ثبات قدمی سے سماج کو حوصلہ دیتے، اپنے طرز عمل سے ڈھارس بندھاتے کہ ڈرو نہیں تمھارے ڈاکٹر میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں، ہم اس بیماری کو شکست دے کر رہیں گے، جب تک ہم زندہ ہیں تمھیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہ بہادر اپنے بلوں سے تھوڑا سا سر نکال کر کہہ رہے ہیں کہ ہم کیوں جان دینے جائیں، کیا ہماری جان قیمتی نہیں ہے؟
آپ کے تبصرے