شیعہ سنی اتحاد کیوں اور کیسے؟

رفیق احمد رئیس سلفی

 

گزشتہ کئی سالوں سے مسلم ممالک کو جس طرح غیروں نے نشانہ بنارکھا ہے اور وہ ہمارے ہی سربراہان مملکت کو آلۂ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ،اس پر کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ہمارے تعلیم یافتہ اور دانش ور حضرات اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔افغانستان، کویت،عراق،لیبیا،شام اور یمن کو ہم نے آنکھوں سے خون میں لت پت دیکھا ہے اور آج بھی دیکھ رہے ہیں۔اس سے پہلے کہ ہم اپنے دشمنوں کی صحیح شناخت کرکے ان سے اپنی حفاظت کے لیے کوئی تدبیر کرپاتے ،ایک بڑا قضیہ شیعہ سنی اختلاف کا سامنے آگیا ہے۔بلکہ شام اور یمن میں عملی طور پر شیعہ سنی جنگ جاری ہے اور ایران کسی بھی حال میں اس جنگ سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔جو سنی ممالک اس کا مقابلہ کررہے ہیں،ان کی قیادت بظاہر سعودی عرب کررہا ہے۔زمین ہماری ہیں،جانیں بھی اپنوں کی ہیں اور سرمایہ بھی عالم اسلام کا ہے ۔سب کچھ تباہ ہورہا ہے اور یہ سلسلہ دیکھئے جب تک چلتا ہے اور تباہی وبربادی کس شکل میں سامنے آتی ہے۔موت کے سوداگر صلح واتحاد کے نام پر مذاکرات منعقد کراتے ہیں ،اپنے مفادات پیش نظر رکھتے ہیں اور کوئی بات بنتی نظر نہیں آتی۔اربوں ڈالر کے ہتھیار خریدے جارہے ہیں اور ہتھیاروں کے سوداگر وں کی چاندی ہوگئی ہے۔حالات بتارہے ہیں کہ اگر شیعہ سنی اختلاف کا دائرہ وسیع ہوتا ہے تو کئی ایک ممالک اس کی لپیٹ میں آسکتے ہیں اور وہاں خانہ جنگی کی صورت ابھر سکتی ہے۔

پس چہ باید کرد؟کیا اس اختلاف کو ختم کرنے کی کوئی صورت ہے؟کیا شیعہ سنی اتحاد ممکن ہے؟سنی دنیا کے دین پسند طبقے کی اکثریت کا خیال ہے کہ شیعہ سنی اتحاد ممکن نہیں،شیعہ دوسرے دشمنان اسلام کے مقابلے میں سنی دنیا کے لیے زیادہ خطرناک ہیں لہذا انھیں نیست ونابود کردینا ہی بہتر ہے۔ایران کی شیعہ حکومت اس کے لیے ذمہ دار ہے۔اس حکومت کو قابو میں رکھنا ضروری ہے ۔جب تک ایران میں شیعہ حکومت کمزور نہیں پڑجاتی یا اس کا خاتمہ نہیں ہوجاتا،یہ سلسلہ جاری ہی رہے گا۔

ایران میں شیعی انقلاب سے متاثر تحریکی سنی اسکالرس کا خیال ہے کہ ایران کے تمام سیاسی اقدامات ملت اسلامیہ کے حق میں ہیں ،وہ اعدائے اسلام کو لگام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ،اس نے جس اسلامی جمہوریہ کی بنیاد رکھی ہے،وہ بہت مضبوط ہے لہذا سنی دنیا اس سے ٹکراؤ کا راستہ چھوڑ دے اور اس کو ساتھ لے کر عالم اسلام کا عظیم اتحاد قائم کرے جس میں ایران کا کلیدی کردار ہو۔سنی دنیا اپنے جن معقدات اور فقہیات سے شیعی مسلک سے اختلاف کا ذکر کرتی ہے ،ان کی حیثیت بہت معمولی ہے۔ان اختلافات کو ہوا دینا اور ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا درست نہیں ہے۔اس طرح ایران اور شیعہ مسلک کو لے کر سنی دنیا دو الگ الگ خیموں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ایران اور شیعہ کے بارے میں نرم موقف رکھنے والے سنی اسکالرس کی تعداد اگر چہ بہت کم ہے لیکن ان کے ہاتھ میں قلم ہے اور ان کی زبان بہت تیز ہے ،اس لیے سنی دنیا کے عوام ان سے متاثر ہورہے ہیں اور استعماری قوتوں کی سازشیں انھیں یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہیں کہ ہمارے سنی حکمراں صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے شیعیت کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔

ان حالات میں ہمارے پاس صرف دو راستے بچتے ہیں :پہلا شیعہ حکومت کا ایران سے خاتمہ کردیا جائے اور جگہ جگہ اس کی شہ پر جو شورشیں برپاہیں،ان کو سختی سے کچل دیا جائے یا پھر کچھ تحفظات کے ساتھ شیعی ایران سے اتحاد اور توافق پیدا کیا جائے۔دونوں طرح کے خیالات ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ان میں سے کسی ایک کا انکار جلد بازی ہوگی۔ہمیں سنجیدگی سے ان دونوں پہلووں پر غور کرنا چاہئے تاکہ کوئی بہتر صورت سامنے آسکے۔

جہاں تک سوال ایران کی شیعہ حکومت کو ختم کرنے یا اس کا کمزور کرنے کا ہے،بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا۔اگر ہماری یاد داشت اچھی ہے تو ہمیں ذرا ماضی میں جانا چاہئے جب ایران میں خمینی کے انقلاب کے بعد ابھی حکومت کو استحکام بھی نہیں مل سکا تھا کہ صدام حسین نے عراق سے ایران پر حملہ کردیا اور آٹھ سالوں تک بڑی بھیانک جنگ لڑی گئی جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور بے پناہ سرمایہ برباد ہوا۔صدام حسین نے یہ جنگ کیوں لڑی ؟اس کے اسباب کیا تھے؟صدام کے پیچھے کون تھے؟ان کے مقاصد کیا تھے؟ان سوالوں کا جواب اگر ہم دے سکیں تو معلوم ہوجائے گا کہ سنی عرب دنیا سے ایران کے اختلافات کی وجوہات کیا ہیں۔جس دنیا میں ہم سانس لے رہے ہیں ،اس میں سب کچھ ہماری خواہشات کے مطابق نہیں ہورہا ہے۔یہاں بین الاقوامی ادارے قائم ہیں،جن کی ممبر شپ ہم نے بھی قبول کررکھی ہے۔ان بین الاقوامی اداروں کے چودھری جہاں چاہتے ہیں امن قائم کراتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیںجنگ کے حالات پیدا کردیتے ہیں۔کسے نہیںمعلوم کہ عرب دنیا میں ہتھیاروں کے کارخانے نہیں ہیں۔جب بھی جنگ ہوگی ہتھیار روس ،امریکہ،چین،برطانیہ اور فرانس سے آئیں گے۔دنیا کو دکھانے کے لیے کچھ سرکاری طور پر آئیں گے اور کچھ خفیہ طور پر جن کی قیمت کا ایک بڑا حصہ دلالوں کی جیب میں جائے گا۔ان آٹھ سالوں میں ایران اور عراق دونوں پیدل ہوگئے۔ایران نے اپنی عوام کو ولایت فقیہ کی گولی دے کر میٹھی نیند سلادیا اور وہ غربت وافلاس کو اپنا مقدر سمجھ کر بیٹھ گئے۔صدام حسین نے خود کو عربوں کا ہیرو بناکر پیش کیا اور اپنے نقصان کی تلافی عربوں سے کی۔کویت سے اس کے تنازعے کی اصل وجہ یہی تھی ۔وہ اپنے حصے کی رقم دینے کو تیار نہیں تھا ،سرحد کے جن تیل کے کنووں کو صدام کچھ سالوں کے لیے اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا،کویت اس کے لیے راضی نہیں ہوا ۔جدہ میں کئی ایک نشستیں ہوئیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور عربوں کے ہیرو صدام حسین نے کویت پر اپنے خونی پنجے گاڑدیے۔دنیا کے مسلم حکمراں صدام کو سمجھاتے رہے لیکن اس کا اڑیل رویہ ٹس سے مس نہ ہوا،جس عراق سے صدام محبت کا دعوی کرتا رہا اگر خلیفہ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا اسوہ سامنے رکھ کر خود تختۂ دار پر چڑھ جاتا تو عراق ،عظیم عراق برباد نہ ہوتا اور اس کی ہزاروں معصوم عورتوں کی عصمت تار تار نہ ہوتی۔لیکن کمیونسٹ افکار کا حامل صدام ان باتوں کو کہاں سمجھ سکتا تھا۔ ایران سے جنگ کرنے کے نتیجے میں جس صدام حسین کی تصویر ایک مضبوط عرب حکمراں کی شکل میں ابھری تھی،اسے اسرائیل اور امریکہ کیوں پسند کرسکتے تھے،موقع اچھا تھا ،لگے ہاتھ کئی مفادات کو محفوظ کرنے کا وقت آگیاتھا ۔امریکہ نے مظلوم کویت کی مدد کرکے اس سے اپنی دوستی کو ہمیشہ کے لیے پختہ کرلیا،سعودی عرب کی حفاظت کے نام پر ہزاروں امریکی فوج سعودی عرب کے خرچے پر کئی سالوں کے لیے سرزمین حجاز میں اتر گئی،عراق کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خوف زدہ اسرائیل کے دل کا کانٹا نکل گیا،صدام حسین کو عین عید الاضحی کی صبح جانور کی طرح ذبح کردیا گیا اور ترقی کی راہ پر جس عراق کے قدم آگے بڑھ رہے تھے،اسے آتشیں اسلحوں سے برباد کرکے پتھر کے عہد میں پہنچادیا گیا۔عرب دیکھتے رہ گئے ۔صدام کے بعد عراق کے بھگوڑوں کو صدر اور وزیر اعظم بناکر امریکہ واپس چلاگیا۔عراق کے شیعہ حکمرانوں نے ایران سے رشتے استوار کیے اور بڑی خاموشی سے سنی عراق کو شیعہ عراق بنانے کی کارروائی شروع کی گئی۔غیرت مند عراق کے سنی نوجوان یہ سب کیوں کر دیکھ سکتے تھے ۔انھوں نے صدام کے دور کے سنی فوجیوں کو جمع کرکے ایک جماعت تشکیل دی اور پھر اس داعش کا جنم ہوا جسے آج دنیا کا ہر شخص سب سے بڑا دہشت گرد گروپ کہہ رہا ہے۔کسی ملک میں جب اس طرح کے گروپ وجود میں آتے ہیں تو اپنی مجبوریوں اور ضرورتوں کے تحت دوسروں کا آلۂ کار بن جاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک کے لوگ اس میں شامل ہوگئے ہیں،ایمن جواہری کے القاعدہ کے باقی بچے لوگ بھی اس کے ساتھ ہیں۔تیل کے کنووں پر داعش کا قبضہ ہے۔وہ تیل بیچ کر ہتھیار خرید رہے ہیں اور ان کی طاقت ناقابل شکست بنتی جارہی ہے۔عراق سے نکل کر وہ شام میں پہنچ گئے ہیں اور بشار اسد کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔آپ ذرا اس پیچیدگی پر غور کیجئے کہ بشار اسد کی ایران حمایت کررہا ہے،پاسداران انقلاب بشار کے مخالفین سے پنجہ آزمائی کررہے ہیں اور داعش شام پر اپنا تسلط جمانے اور بشار کو نیست ونابود کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔داعش کے خلاف روس نے ہلہ بول دیا ہے اور داعش کو ختم کرنے کے لیے میدان میں آچکا ہے۔داعش سے تیل کون خرید رہا ہے اور ان کو ہتھیار کہاں سے مل رہے ہیں؟کہاں ہیں دنیا کے چودھری،اس کا پتا کیوں نہیں چلاتے اور ان لوگوں کے خلاف کیوں نہیں بولتے جو درپردہ داعش کے معاون ہیں۔عالم اسلام کی اس الجھی ہوئی سیاست کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔ہمیں صرف یہ معلوم ہے کہ سر بھی مسلمانوں کا کٹ رہا ہے،دولت بھی مسلمانوں کی ضائع ہورہی ہے اور زمین بھی مسلمانوں کی استعمال ہورہی ہے ۔فائدہ صرف موت کے سوداگروں اور ہتھیار کے تاجروں کا ہورہا ہے۔

اس طویل پس منظر کو بیان کرنے کی وجہ صرف اس سوال کا جواب دینا تھا کہ کیا سنی دنیا ایران سے جنگ کرکے اس کا خاتمہ کرسکتی ہے۔سیدھا جواب ہے کہ نہیںکیوں کہ اعدائے اسلام کی کئی ایک طاقتیں اس کی پشت پر ہیں۔ایران کے ایٹمی طاقت پر ایک طویل عرصے تک چیخ وپکار مچائی جاتی رہی اور اس کو گھیرنے کے لیے کئی طرح کی پابندیاں لگانے کی بات کہی گئی ،بظاہر پابندیاں لگیں بھی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔امریکہ دھمکیاں دیتا رہا لیکن عملاً کچھ نہیں ہوا اور آخر کار سمجھوتا کرلیا گیا۔کیا اس سے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اعدائے اسلام نے سنی عربوں پر اسرائیل کی طرح شیعہ ایران کی ایک پولیس چوکی بنادی ہے اور انھیں خوف زدہ کرتا ہے کہ اگر ہماری اطاعت کا قلادہ گردن سے نکالا تو ایران تمھیں دھر دبوچے گا۔اب سنی عرب مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہے ہیں ۔آگے کنواں ہے اور پیچھے کھائی،نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔یمن کے حکمرانوں کو وقت پر نظر نہیں آیا کہ ایران ان کے ملک میں کس طرح مداخلت کررہا ہے ۔زیدی شیعوں کو امامیہ بنانے کی پوری تاریخ سے ہم کیوں غافل رہے اور پھر جب حوثیوں نے سر اٹھایا تو سیاسی سطح پر مذاکرات کرکے مسئلے کو سلجھانے کی بجائے ان کے خلاف فوجی کارروائی کس کے اشارے پر کی گئی۔دنیا میں جنگ کے اصول وآداب میں سے ہے کہ کارروائی میں حصہ لینے والے فوجیوں کے نام اور ان کی تصویر مخفی رکھی جاتی ہے لیکن میڈیا کا کمال دیکھئے کہ سعودی عرب کی جنگی جہاز اڑانے والی اور بم برسانے والی خواتین کی تصویریں عام کی گئیں۔ہماری پیٹھ کون تھپ تھپا رہا تھا ۔کیا ہم دنیا کو یہ دکھا رہے تھے کہ مسلمانوں نے اپنی خواتین کو برقع میں بند نہیں کیا ہے بلکہ وہ محاذ جنگ پر جاکر خطرناک جنگ میں حصہ بھی لے سکتی ہیں۔ہماری ان حماقتوں سے دنیا کی نظر میں اسلام اور اس کی تعلیمات کی تصویر کتنی اچھی ہوجائے گی ،یہ تو وقت بتائے گا۔جب جنگ ایک بار شروع ہوجاتی ہے تو کافی عرصے تک چلتی ہے اور اس کا کوئی پائیدار حل اور نتیجہ سامنے نہیں آتا۔سرحدی ممالک سے دشمنی کافی مہنگی ثابت ہوتی ہے ۔ہماری دعا یہی ہے کہ اللہ سرزمین مقدس کی حفاظت فرمائے اور اس کے حکمرانوں کو بصیرت وبصارت عطا فرمائے تاکہ وہ اعدائے اسلام کی سازشوں کو سمجھیں اور ان سے محفوظ رہیں اور حرمین شریفین کی حرمت وعزت کو بحال رکھیں۔مختصر یہ کہ شیعہ ایران سے جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔اس سے مسائل مزید الجھیں گے اور ہم اعدائے اسلام کا آلہ کار بن کر اپنی ہی سرزمین کو معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگین کرتے رہیں گے۔

مسئلے کا دوسرا پہلو جس میں شیعہ ایران سے توافق اور اتحاد قائم کرنے کی بات کہی گئی ہے،آئیے اس پر بھی غور کرتے ہیں۔ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ شیعہ خود مختلف فرقوں میں منقسم ہیں۔بعض فرقے اہل سنت سے قربت رکھتے ہیں جب کہ کئی ایک فرقے ان سے کافی دور ہیں۔ایران جس فرقے کی نمائندگی کررہا ہے ،وہ شیعوں کا انتہا پسند گروہ ہے اور اس کے معتقدات صرف تفضیل علی تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ خلفائے ثلاثہ کو غاصب قرار دیتا ہے۔اس کی نظر میں چند ایک کو چھوڑ کر تمام صحابہ مرتد ہوگئے تھے اور ازواج مطہرات خاص طور پر صدیقہ عائشہ اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہما نبی کے ساتھ خیانت کرنے والی تھیں۔امام مہدی یعنی شیعوں کے امام غائب کا جب ظہور ہوگا تو وہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر حد شرعی نافذ کریں گے۔امامت کا منصب نبوت کے منصب جیسا ہی ہے ۔آسمان سے جو رشتہ ایک نبی کا قائم ہوتا ہے،وہی رشتہ آسمان سے ایک امام کا بھی ہوتا ہے۔دنیا کبھی اماموں سے خالی نہیں ہوتی۔امام غائب کے بعد اب ان کی نیابت ولایت فقیہ کررہی ہے اور وہی کام اس کے ذمہ ہے جو امام کے ذمہ ہوتا ہے۔اہل بیت کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی رکھنا ضروری ہے اور اہل بیت کے دشمنوں کے ساتھ جو دشمنی نہیں رکھتا وہ بھی ہمارا دشمن ہے۔وحی کا سلسلہ نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد اس وقت تک جاری رہا جب تک سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا حیات رہیں۔اس عرصے میں جو وحی آسمان سے اتری اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قلم بند کیا اور اس طرح قرآن تیس پاروں پر نہیں چالیس پاروں پر مشتمل ہے ۔آخر کے دس پارے اماموں کے پاس رہے اور آخری امام کے ساتھ پردۂ خفا میں چلے گئے۔جب ان کا ظہور ہوگا تو وہ دس پارے بھی سامنے آئیں گے۔اس وقت بہت سے حقائق آشکارا ہوں گے جن کو لوگ نہیں جانتے ہیں۔اہل سنت کے اسلامی تراث کو شیعہ تسلیم نہیں کرتے،انھوں نے تفسیر،حدیث اور فقہ کی اپنی مستقل کتابیں تیار کررکھی ہیں جن کو وہ پڑھتے پڑھاتے اور جن کی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔جس متعہ کو نبی اکرم ﷺ نے حرام قرار دے دیا تھا،اس کو شیعہ نہ صرف جائز بتاتے ہیں بلکہ ان کی کتابوں میں بعض ایسی روایات موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ متعہ ایک فضیلت کی چیز ہے۔تقیہ کا شمار ان کے یہاں اصول دین میں ہوتا ہے۔ان کے علاوہ بھی ان کے بہت سے معتقدات ہیں جو اہل سنت کی نظر میں ضلالت اور گمراہی کے ذیل میں آتے ہیں۔

بلاشبہ شیعہ حضرات کے بعض عقائد کفر وشرک کے دائرے میں آتے ہیں لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود اہل سنت کی پوری تاریخ میں انھیں ملت سے خارج قرار نہیں دیا گیا۔وہ آج بھی اہل سنت کی طرح حرمین شریفین کی زیارت کرتے ہیں اور عام مسلمانوں کے ساتھ حج کی ادائیگی کرتے ہیں۔شیعہ فرقہ اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور ہی سے موجود رہا ہے ۔یہ اور بات ہے کہ پہلے اس کی حیثیت ایک سیاسی جماعت کی تھی لیکن آہستہ آہستہ اس نے اپنی ایک الگ مذہبی شناخت قائم کرلی اور خود کو اہل سنت سے الگ تھلگ کرلیا۔سنی دنیا میں جگہ جگہ شیعہ پائے جاتے ہیں اور وہ اپنی تمام دینی ترجیحات کے ساتھ زندگی گزارتے ہیںحتی کہ سعودی عرب میں بھی وہ اپنے تمام تحفظات کے ساتھ رہتے ہیں اور محرم الحرام کے مہینے میں وہ سارے کام کرتے ہیں جو دوسرے ممالک میں ان کے ہم عقیدہ لوگ کرتے ہیں۔

مجھے ذاتی طور پر یہ احساس ہے کہ موجودہ حالات میں شیعہ فرقے کے عقائد ونظریات اصل وجہ نزاع نہیں ہیں۔ان کے یہ عقائد ونظریات بہت پرانے ہیں اور ہمیشہ سے وہ ان سے وابستہ رہے ہیں۔لہذا موجودہ شورشوں کو ان کے عقائد ونظریات سے جوڑنا صحیح نہیں ہے بلکہ وہ اپنی حکومت کا دائرہ وسیع کرنا چاہتے ہیں اور ایران کو مسلم دنیا میں اہم مقام دلانا چاہتے ہیں۔اہل سنت کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ لامرکزیت کا شکار ہیں اور شیعہ حضرات نے خود کو ایک روحانی مرکز سے جوڑلیا ہے اور ان کا یہ روحانی مرکز امام غائب کی نمایندگی کررہا ہے۔اسی اجتماعیت اور مرکزیت نے انھیں ایک ساتھ جوڑے رکھا ہے اور ان کے مرکز سے جو ہدایات انھیں ملتی ہیں ،وہ ان پر عمل کرتے ہیں۔ایران میں ایسے دینی مراکز قائم ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں دوسرے ممالک کے شیعہ طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر داعی،خطیب اور مصنف بن کر اپنے ملکوں میں جاتے ہیں اور وہاں شیعیت کی تبلیغ واشاعت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔بدقسمتی سے سعودی عرب کے علاوہ کسی سنی ملک نے اس طرح کا اپنے یہاں کوئی نظم نہیں قائم کیا ہے جہاں دوسرے ممالک کے طلبہ آئیں اور انھیں سنی اسلام سے صحیح معنوں میں متعارف کرایا جائے ۔مصر میں جامعہ ازہر ضرور ہے لیکن وہ دینی اور مسلکی اعتبار سے خود کو غیر جانب دار کہنے میں زیادہ دل چسپی رکھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جامعہ ازہر کے فارغین میں عام طور پر وہ حمیت دیکھنے کو نہیں ملتی جو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فارغین میں ملتی ہے اور جس کے لیے قم کے فارغین جانے جاتے ہیں۔دنیا کے دوسرے ممالک میں جہاں جہاں شیعہ ہیں ،وہ خود کو اہل سنت سے الگ تھلگ رکھے ہوئے ہیں اور سب کا رشتہ کسی نہ کسی صورت میں ایران کی شیعہ حکومت سے استوار ہے۔اپنی سیاسی بالادستی کے لیے یہ جگہ جگہ شورشیں برپا کرتے ہیں اور ایران کی سیاسی وعسکری حمایت انھیں حاصل رہتی ہے۔عراق،شام اور یمن میں یہ کھلے عام اپنی سیاسی برتری قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور بعض ممالک میں دوسرے سنی متحارب جماعتوںکو اعتماد میں لے کر اپنے مفادات حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ان حالات میں سنی ممالک سخت آزمائش میں گھرے ہوئے ہیں۔ایک طرف استعماری طاقتیں ہیں جو زرخیز سنی ممالک پر اپنا شکنجہ کستی جارہی ہیں اور دوسری طرف شیعہ ہیں جو اندرون ملک اتھل پتھل پیدا کررہے ہیںاور اوپر سے ایران اپنا دباؤ بنائے ہوئے ہے۔ایران عالم اسلام میں نہ صرف اپنا عسکری دبدبہ قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے بلکہ علمی اور فکری اعتبار سے بھی اس کی کوششیں حددرجہ منظم ہیں۔دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے سفارت خانوںکے ماتحت وہ ایران کلچرل ہاؤس کا بھی شعبہ چلاتا ہے ۔اس کے ذریعے اس ملک کے اہل قلم اور مصنفین سے رابطہ رکھا جاتا ہے ،انھیں مادی اور اخلاقی مدد فراہم کی جاتی ہے۔اپنے مطلب کے پروگراموں کی مالی مدد کی جاتی ہے اور ہرسال دنیا کے مشہور اہل فکر وقلم کو ایران مدعو کیا جاتا ہے اور ان کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔انٹرنیٹ پر دنیا کی تمام زبانوں میں شیعی مواد اتنی کثرت سے پھیلایا جارہا ہے کہ آپ اسلام کے تعلق سے کوئی بھی چیز تلاش کریں تو شیعی سائٹس ضرور سامنے آجائیں گی۔میں عربی میں کچھ چیزیں سرچ کرتا ہوں تو عربی میں وافر مقدار میں شیعی مواد سامنے آجاتا ہے۔انٹرنیٹ میں اسلامی مواد منتقل کرنے میں سعودی عرب کا خصوصی تعاون ہے اور کسی حد تک مصر اس میدان میں ہے ،ورنہ دوسرے سنی ممالک کو اس کی چنداں فکر نہیں ہے۔اس طرح سیاسی اور علمی دونوں محاذوں پر ایران اپنی پوری توانائی صرف کررہا ہے۔

ایران سے پیچھا چھڑانے کا ایک آسان راستہ یہ ہے کہانتہا پسند شیعوں کو ملت اسلامیہ سے خارج کردیا جائے ۔بہت سے لوگ اس پہلو پر بھی غور کررہے ہیں لیکن اس سلسلے میں مشکل یہ ہے کہ ہماری پوری تاریخ میں جن جن حضرات نے بھی شیعوں کی گمراہیوں پر قلم اٹھایا ہے ،انھوں نے ان کی ضلالت اور گمراہی کی بات تو کی ہے ،انھیں اسلام سے خارج نہیں کیا ہے ۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منہاج السنۃ میں ایک شیعی عالم کی ہفوات کا جواب دیتے ہوئے ان کے باطل عقائد کے تمام دلائل کی ایسی تردید کی ہے کہ آج تک کسی شیعہ عالم نے اس کتاب کا کوئی معقول جواب لکھنے کی جراء ت نہیں کی ۔یہی وہ کتاب ہے جس کی وجہ سے ابن تیمیہ کو شیعہ اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں اور گم راہ اور بدعقیدہ صوفیاء کے ساتھ مل کر ان پر لعن طعن کرتے ہیں ۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی شیعوں کو کافر نہیں کہا ہے۔مجھے یاد پڑتا ہے علامہ شبلی نے بھی کہیں اپنی کسی کتاب یا تحریر میں اس بات پر اظہار افسوس کیا ہے۔لہذا جب اب تک ان کو کافر نہیں کہا گیا ہے تو اب کیوں کر کہا جاسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی اپنی تمام تر گمراہیوں کے باوجود حرمین شریفین کی زیارت کے لیے جاتے ہیں اور تمام تر سختیوں کے باوجود اہل بیت کی قبروں کے پاس موقع ملتا ہے تو آنسو بہاتے ہیں اور غیر شرعی اعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔دوران حج نعرے لگانا اور اپنا جھنڈا لے کر چلنا ان کی عادت بن چکی تھی ،وہ تو اللہ سعودی عرب کے حکم رانوں کو سلامت رکھے ،انھوں نے بڑی سختی سے اس طرح کے نعروں کا سلسلہ بند کیا ،ورنہ وہاں حج کرنے سے زیادہ ایرانی حکومت کا پروپیگنڈہ کیا جاتا۔

ایران کے سلسلے میں اب صرف ایک آپشن ملت اسلامیہ کے سامنے بچتا ہے کہ اس سے مذاکرات کیے جائیں اور اسے یہ سمجھایا جائے کہ جن عقائد کو تم اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہو،ان کو سنی دنیا تسلیم نہیں کرسکتی جس طرح تم اب تک اپنے گھروں میں رہتے رہے ہو اسی طرح رہو اور ان باطل عقائد کو مسلمانوں پر تھوپنے کی کوشش نہ کرو۔ہمیں نبی اکرم ﷺ سے محبت اور اہل بیت سے محبت کا طریقہ ایران سے نہیں سیکھنا ہے ۔ہمیں معلوم ہے کہ کتاب وسنت میں ان کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم وتاکید کس طرح دی گئی ہے۔علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ نے تمھاری اپنی کتابوں سے جو تصویر تمھاری دکھائی ہے ،اس سے تم ذرا بھی مختلف نہیں ہو ۔سنی دنیا کا بچہ بچہ تمھاری حقیقت سے واقف ہے۔مذاکرات میں ایران کی سیاسی ریشہ دوانیاں بھی زیر بحث لائی جائیں اور اعدائے اسلام سے جس طرح اپنے سیاسی رشتے استوار کرکے وہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے،اس سے اسے آگاہ کیا جائے۔مذاکرات سے اگر بات نہیں بنتی ہے تو سنی دنیا ایران سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرلے اور پھر اسے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کرے۔

ایران میں جس مذہبی رہنما کے زیر سایہ اس وقت حکومت کام کررہی ہے،اس سے وہاں کے بہت سے سیاسی اور مذہبی رہنما مطمئن نہیں ہیں۔ان کو سنی دنیا دعوت دے اور ان سے بات چیت کرے اور ان کو تقویت پہنچاکر انھیں ایرانی عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ ایران کی سوچ اور فکر میں توازن پیدا کیا جاسکے۔یہی گروہ ان باتوں کو سنجیدگی کے ساتھ سنے گا جن سے سنی دنیا اذیت محسوس کررہی ہے۔اختلاف اور جنگ ایران کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔

آپ کے تبصرے

3000