صرف تقسیم ہند کے نقصانات کا اندازہ ہی نہیں درست تھا امام الہند کا، تنظیم اہل حدیث کا تجزیہ بھی سو فیصد درست تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد ہوں یا علامہ ابن تیمیہ ہم ان کی تحریریں وہیں نقل کرتے ہیں جہاں ہمیں اتفاق ہوتا ہے۔ جہاں اختلاف ہو یا ان کے جس ارشاد کی زد ہمارے اعمال و افعال پر پڑتی ہو وہاں ہم گونگے بہرے بن جاتے ہیں۔ وہ تو اچھا ہے کہ اس دنیا میں نہیں ہیں وہ، ورنہ ایسی باتوں پر تو نپ جاتے۔ یہاں تو ہر یرا غیرا انچ ٹیپ لے کر گھومتا ہے۔
تجویز تو وہی کارگر ہے گیارہ نومبر انیس تو تینتس والی۔ سارے مسائل ان کے سامنے تھے۔ علماء کی صدارت سے اچھا سمجھتے تھے کہ کوئی حاجی صاحب صدر بن جائیں۔ اور وہ بھی ایک سال یا تین سال کے لیے، اس سے زیادہ نہیں۔ پچھلی صدی میں نہ جائیے، جاری صدی کی گذشتہ دو دہائیوں کا جائزہ لے لیجیے۔ اس تدبیر کی اہمیت سمجھ میں آجائے گی۔ ہر نیا ذمہ دار بہت سرگرم ہوتا ہے جب نیا نیا ہوتا ہے، عہدے کی کرسی پر نہ صرف بیٹھتا ہے بلکہ اس کے فرائض بھی ادا کرتا ہے۔ اور جیسے جیسے یہ مدت بڑھتی جاتی ہے وہ کرسی اپنے ساتھ لے کر گھومنا شروع کردیتا ہے اور کرسی کے فرائض اپنی جیب میں رکھ لیتا ہے۔ اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ کرسی سمیت منظرنامے سے ہی غائب ہوجاتا ہے۔ ہماری مرکزی جمعیت کا اس وقت یہی حال ہے۔ کرسی اور صاحب کرسی دونوں کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ ہاں سرکار کی حمایت میں کبھی کچھ اوٹ پٹانگ بولنا ہوتا ہے تو یکایک نمودار ہوجاتے ہیں۔
اللہ رب العزت ہمیں مولانا ابوالکلام آزاد کی اس تجویز پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
اب پڑھیے دو ہزار بیس کا یہ سب سے اچھا مضمون اور اپنے تاثرات بھی نیچے کمنٹ باکس میں ضرور لکھیے۔ پھر بھی تسلی نہ ہو تو مضمون لکھیے اور فیس بک یا واٹس اپ پر شیئر کرنے سے پہلے ہمیں بھیجیے۔
(ایڈیٹر)
علی گڑھ میں جب کبھی فرصت کے اوقات میسر تھے، میں نے مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘ کے تمام حواشی حرفاً حرفاً پڑھ ڈالے تھے۔ دوران مطالعہ کئی ایک علمی چیزیں سامنے آئی تھیں۔ میں نے اپنے نسخے پر ان کی نشان دہی بھی کر رکھی تھی لیکن کئی دوست ساہتیہ اکیڈمی کی شائع کردہ چاروں جلدیں پڑھنے کے لیے لے گئے اور پھر میں ابھی تک ان کی واپسی کا انتظار ہی کررہا ہوں۔ البتہ اس کے اہم مقامات اب بھی نگاہوں میں ہیں اور وقتاً فوقتاً میں ان کی طرف رجوع بھی کرتا رہا ہوں۔ مولانا کے یہ حواشی کہیں مختصر ہیں اور کہیں مطول، ان حواشی سے مولانا کا مذہبی اور دینی فکر معلوم ہوتا ہے، فہم قرآن میں انھیں جو بصیرت حاصل تھی اور قرآن مجید کو مسائل حیات پر ایک زندہ کتاب کی حیثیت سے پیش کرنے کا جو انھیں ملکہ حاصل تھا، وہ سامنے آجاتا ہے۔ ان حواشی سے علوم قرآن کے کئی مشکل مسائل حل ہوتے ہیں اور قرآن کا اصل پیغام اور اس کی بنیادی روح سمجھ میں آتی ہے۔ نیز یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اقوام عالم کے لیے کس طرح اس کی رہنمائی ناگزیر ہے۔
برسوں بعد اب ایک ضرورت کے تحت مولانا آزاد کی تفسیر کا تجزیاتی مطالعہ کرنے بیٹھا ہوں تو خیال یہ آیا کہ کتاب کے آغاز میں مولانا کے دینی فکر اور ان کے عقیدہ ومسلک پر ایک مفصل باب لکھوں۔ میں نے مولانا آزاد کو جتنا سمجھا ہے، یہ بات علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ وہ اپنے دور کی ایک عبقری شخصیت تھے، برصغیر کے امام ابن تیمیہ تھے اور ایک زوال پذیر ملت کو عروج سے ہم کنار کرنے کا نسخۂ کیمیا ان کے پاس تھا۔افسوس کہ برصغیر کی دینی قیادت ان کو اپنا رہنما نہ بناسکی اور انگریزوں کی اسلام دشمنی کا وہ بروقت ادراک نہ کرسکی اور جس خطہ ارضی پر کم وبیش اس کے اجداد نے آٹھ سو سالوں تک حکم رانی کی تھی، اس میں تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی اور آج باد صرصر چلی ہے تو کہیں جائے پناہ دکھائی نہیں دیتی۔ اسلامی علوم وفنون پر مولانا آزاد کی نظر ناقدانہ اور مجتہدانہ تھی، ان کے ارتقا کے مراحل اور ان میں در آنے والی کمزوریوں پر ان کی گرفت بہت مضبوط تھی اور وہ تاریخی طور پر ملت اسلامیہ کے عروج وزوال کے اسباب وعلل پر بڑے اعتماد کے ساتھ گفتگو کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ سلف صالحین کے فہم دین کو وہ ترجیح دیتے تھے اور رجوع الی الکتاب والسنہ کی دعوت اور اس کی صداقت پر انھیں شرح صدر حاصل تھا۔
ان اوصاف وکمالات کی تلاش میں جب مولانا آزاد کے دینی خیالات ورجحانات اور ان کی تفسیر پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کیا تو پتا چلا کہ لکھنے والوں نے اپنے دینی افکار وخیالات کو مولانا کے افکار وخیالات بنانے کی شعوری یا غیر شعوری طور پر کوشش کی ہے۔ کتاب وسنت سے تمسک جو مولانا کا امتیاز ہے، وہ کسی کتاب میں نکھر کر سامنے نہیں آتا۔ ہماری اپنی جماعت کے بعض محترم علماء کی کچھ تحریریں اس موضوع کو ابھارتی ضرور ہیں لیکن ان میں تحقیق وتجزیہ کا فقدان ہے، مطالعہ بھی استیعابی نہیں ہے، اس لیے تصویر پورے طور پر صاف نہیں ہوپائی ہے۔ کاش ہم مولانا کی تمام ایسی متفرق تحریریں ایک خاص ترتیب میں مدون کرسکیں جو ان کے صحیح دینی فکر، منہج سلف سے ان کی ذہنی ہم آہنگی اور ان کی سلفیت کو نمایاں کرسکیں۔یہ بات کسی مسلکی عصبیت کے زیر اثر نہیں بلکہ اس لیے عرض کررہا ہوں کہ آج انسانیت کو اسی دینی فکر کی ضرورت ہے، خلق خدا اگر امن وامان پاسکتی ہے اور عدل وانصاف سے ہم کنار ہوسکتی ہے تو اسے اسی طریقہ فہم دین کو اختیار کرنا ہوگا جو مولانا آزاد کا مابہ الامتیاز ہے۔
مولانا کی سلفیت اور سلفی دعوت سے ان کی ذہنی اور فکری ہم آہنگی کو ثابت کرنے کے لیے جب کتابوں کا مطالعہ شروع کیا تو حیرت انگیز انکشافات ہوئے جو ان شاء اللہ مجوزہ کتاب میں شرح وبسط کے ساتھ سامنے آئیں گے۔ اس وقت برصغیر کی جماعت اہل حدیث کے لیے ان کی ایک تجویز پر کچھ عرض کرنے کے لیے کمپیوٹر پر بیٹھا ہوں، امید ہے کہ قارئین ذی احترام خصوصاً ہمارے سلفی نوجوان اس پر غور فرمائیں گے۔ ممکن ہے کہ مولانا کی یہ تجویز ہمیں خواب غفلت سے بیدار کردے اور ہم ان خطوط پر سوچنا شروع کردیں جس کی دعوت مولانا نے اس تجویز میں دی ہے۔
اس سے پہلے کہ مولانا کی تجویز پر گفتگو کروں ایک لطیفہ کے طور پر یہ بات عرض کردوں کہ ہفتہ دس روز پہلے میں نے بغیر نام بتائے مولانا کی یہ تحریر سلفی نوجوانوں کے کئی ایک گروپس پر سوشل میڈیا میں شیئر کرادی تھی اور اس کے تعلق سے یہ سوال کیا تھا کہ ہمارے نوجوان سلفی اہل قلم اندازہ کریں کہ یہ اقتباس کس کا ہے اور اس میں کتنی معنویت ہے۔ اقتباس کے نیچے یہ بھی عرض کیا تھا:
’’عصر حاضر کے ایک درد مند اور عالی دماغ مفکر اور دینی رہنما کے مکتوب گرامی کا اقتباس۔ نوجوان سلفی اہل قلم اس اقتباس پر اظہار خیال فرمائیں تاکہ داعیان منہج سلف کا فکری قبلہ درست کیا جاسکے اور انھیں دنیا میں اس فریضہ کی ادائیگی سے وابستہ کیا جاسکے جس کے لیے اللہ نے وجود کی نعمت سے انھیں بہرہ ور کیا ہے‘‘۔
آپ کو یہ جان کر سخت حیرت ہوگی کہ ہمارے بعض بزرگوں نے یہ تحریر میری طرف منسوب کردی، کسی نے ڈاکٹر راشد شاز کی طرف، کسی نے اسے مولانا مودودی کی تحریر بتایا اور کسی نے کہا کہ یہ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے لکھا ہے۔ کسی کا اندازہ یہ تھا کہ یہ کسی پاگل کی تحریر ہے، حد تو اس وقت ہوگئی جب ایک دوست نے یہ لکھ دیا کہ یہ احمد رضا خاں یا ان کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کی تحریر ہے جب کہ اس تحریر میں لفظوں کا انتخاب اور جملوں کی ساخت چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ یہ مولانا آزاد کی تحریر ہے۔
اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے سلفی نوجوانوں کا زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزرتا ہے، وہ کتابوں کی ورق گردانی بہت کم کرتے ہیں۔ صحیح دینی فکر بنانے اور اس میں استحکام پیدا کرنے کے لیے کتابوں کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ علم میں گہرائی اور وسعت ہمیں کئی پریشانیوں سے محفوظ رکھے گی۔ خدا را! نئی نسل کو سنبھالیے، نوجوان فارغین مدارس کے لیے اس نوعیت کی مصروفیت حددرجہ تباہ کن ہے۔ مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کے بقول، آپ کو مدارس وجامعات سے سند فراغت نہیں بلکہ لائبریری کی چابی دی گئی ہے، اب آپ اس قابل ہوئے ہیں کہ بند الماری کے تالے کھول سکیں اور مدارس میں حاصل کردہ علوم وفنون میں اجتہادی بصیرت پیدا کرسکیں۔
آئیے پہلے مولانا آزاد کی وہ تحریر پڑھیں جس کی ہمارے نوجوانوں کو پہچان نہیں ہوسکی اور یہ تازہ ترین لطیفہ سامنے آگیا۔ اس کے بعد ان شاء اللہ مولانا کی تجویز زیر گفتگو آئے گی اور اس کو زیر عمل لانے کے امکانات پر غور کیا جائے گا۔
مولانا ابوالکلام آزاد اپنے ایک مکتوب میں مولانا محی الدین احمد قصوری کو لکھتے ہیں:
’’آپ نے جماعت اہل حدیث کی تنظیم کا ذکر کیا ہے۔ کاش یہی ہوجائے لیکن حالات پر جب نظر ڈالتا ہوں تو یہ مختصر بھی اس مطول سے کم مشکل نہیں، بڑی مصیبت یہ ہے کہ جماعت اہل حدیث بھی اپنے اصلی ذوق اور ذہنیت سے ہٹ گئی ہے، علی الخصوص موجود علماء اہل حدیث کی منٹلٹی اس درجہ عمل وعزائم سے ابعد ہوگئی ہے کہ کسی طرح انھیں راہ عمل پر لایا نہیں جاسکتا۔ ایک لا علاج مرض، حد درجہ پستی فکرومعیار نظر کا پیدا ہوگیا ہے۔ مبتدعین ومقلدین کی ’’نصرانیت‘‘ کے مقابلے میں یہاں ظاہر ہرستی اور تقشف کی ’’یہودیت‘‘ سرایت کرگئی ہے۔ کس کس کو آپ راہ پر لائیں گے اور کتنا وقت آپ سنگ تراشی میں صرف کریں گے؟ صورت بننے کی نوبت ہی پیش نہ آئے گی۔
میں آپ کو بتلانا چاہتا ہوں کہ موجودہ طبقۂ علماء سے ’خواہ مقلدین ہوں یا اہل حدیث‘ میں قطعاً مایوس ہوں اور اس کو قوانین اجتماع کے بالکل خلاف سمجھتا ہوں کہ ان کے جمود میں کسی طرح کا انقلاب وتحول پیدا ہو۔راہ عمل صرف ایک ہی ہے یعنی موجودہ پختہ دماغوں سے صرف نظر کرکے ایک نئی مخلوق دماغ وفکر کی پیدا کرنا۔ اس کے لیے مادۂ اولیٰ صحیح اسلامی منٹلٹی کی تولید ہے اور اس کے لیے سب سے پہلے ایک خاص نیا لٹریچر مطلوب، اس کے بعد تعلیم وتربیت‘‘۔
(تبرکات آزاد، مرتبہ: مولانا غلام رسول مہر، پبلشرز: شیخ غلام علی اینڈ سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، لاہور، حیدرآباد، کراچی، اشاعت اول ۱۹۵۹ء، اشاعت دوم ۲۰۱۳ء، مکتوب [۳]،ص:۳۲-۳۱)
’’تبرکات آزاد ‘‘ میں شامل تحریریں مولانا ابوالکلام آزاد کے تبرکات کیوں کر ہیں اور ان کی علمی اور دینی حیثیت کیا ہے، اس پر کتاب کے مرتب مولانا غلام رسول مہر کے یہ دو اقتباسات ملاحظہ فرمالیں، اس کے بعد راقم اپنی معروضات ہدیۂ قارئین کرے گا۔
(۱) ’’یہ کتاب جو ’’تبرکات آزاد‘‘ کے نام سے خوانندگان کرام کی خدمت میں پیش ہورہی ہے، مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ومغفور کے ان رشحات قلم پر مشتمل ہے، جنھیں ’’تبرکات‘‘ تسلیم کرنے میں شاید کسی کو تأمل نہ ہوگا، اس لیے کہ مباحث کی اہمیت اور مطالب کی گراں مایگی کے باوجود علم وادب اور دین وسیاست کے یہ جواہر ریزے مختلف گوشوں میں بکھرے پڑے تھے اور ان پر گرد فراموشی کی اتنی تہیں جم چکی تھیں کہ غالباً کسی کو ان کے وجود کا احساس تک نہ رہا تھا‘‘۔ (ص:۳)
(۲) ’’ان میں دینی وعلمی مسائل بھی بیان ہوئے ہیں، تعلیمی واصلاحی مسائل سے متعلق بھی خاصے اہم نکتے ارشاد فرمائے گئے ہیں، جن کی کوئی مثال نہ محض ہمارے عہد میں بلکہ پیشتر کے اکثر عہدوں میں بھی نہیں ملتی۔ پھر جو کچھ قلم سے نکلا ہے، سراسر مجتہدانہ اور بصیرت وموعظت کا ایک نادیدہ مرقع ہے۔بعض مکاتیب اگرچہ مختصر ہیں مگر ان میں سے بھی کوئی کسی اہم علمی یا اخلاقی نکتے سے خالی نہ ہوگا۔سب سے آخر میں یہ کہ اسلوب نگارش کی ندرت کاری اور شخصیت کی خاص چھاپ کا حسن تو سب میں جلوہ گر ہے‘‘۔ (ص:۴)
مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے اپنی اس تحریر میں اپنی تجویز سے پہلے جماعت اہل حدیث کی تنظیم، علمائے اہل حدیث، مبتدعین اور مقلدین پر تبصرہ فرمایا ہے، ان کے جمود اور ذہن ومزاج کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی سخت مایوسی ظاہر کی ہے اور یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اب ان پختہ دماغوں سے کسی خیر کی امید بے سود ہے۔ مبتدعین اور مقلدین کو نصرانیت اور اہل حدیث کی ظاہر پرستی اور تقشف کو یہودیت سے تشبیہ دی ہے۔الفاظ بہت سخت ہیں، ان کو پڑھ کر تمام مسالک کے لوگ چراغ پا ہوجائیں گے اور بعید نہیں کہ مولانا آزاد کی دینی فکر کو ہی موضوع بحث بنا ڈالیں۔ ماضی میں ان کے سیاسی افکار وخیالات کی وجہ سے ان کی شان میں کئی اصحاب جبہ ودستار نے نوع بہ نوع گستاخیاں کی ہیں لیکن صبروعزیمت کے پہاڑ مولانا نے کبھی ان کا نوٹس نہیں لیا بلکہ کسی نے اصرار کرکے کبھی کچھ پوچھ ہی لیا تو بڑی شائستگی سے بات کرکے موضوع بدل دیا۔
یہ تبصرہ کسی عام انسان کا نہیں ہے جسے نظر انداز کردیا جائے بلکہ اس عظیم شخصیت کا ہے جس نے صحیح دینی شعور آنے کے بعد اپنے والد کی گدی کو لات مار دی اور پیری مریدی کے بدعتی سلسلہ سے ناطہ توڑ لیا۔ علمائے صادق پور سے خاندانی تعلق رکھنے والے بعض افراد کی صحبت میسر آئی اور امام ابن تیمیہ اور ابن قیم الجوزیہ کی کتابوں کا مطالعہ کیا تو اس کی دنیا ہی بدل گئی اور وہ صحافت کے میدان میں اتر کر انسانیت کے ساتھ ہونے والے ظلم وستم کے خلاف سینہ سپر ہوگیا۔
ہماری ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اس آئینے کو مورد الزام ٹھہرانے لگتے ہیں جو ہمارا حقیقی چہرہ ہمیں دکھاتا ہے۔ دانش مندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ آئینے میں خود کو دیکھ لینے کے بعد آئینے کا شکریہ ادا کریں لیکن ہمارا غصہ آئینے پر ٹوٹتا ہے اور ہم اس کی کرچیاں بکھیر دینے کے لیے بے تاب ہوجاتے ہیں۔ سورہ فاتحہ کی آخری آیت میں جن ضالین اور مغضوب علیہم کی راہ سے بچانے کی اللہ تعالیٰ سے نماز کی ہر رکعات میں دعا کرتے ہیں، انہی کی راہ پر ہم چل کھڑے ہوئے ہیں۔ سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران میں یہود ونصاری کی جو اعتقادی اور عملی خرابیاں بیان کی گئی ہیں، اپنے اعتقاد وعمل کا ان سے موازنہ کرلیں، تصویر صاف ہوجائے گی۔ لیکن اس نوع کی خود احتسابی زندہ قومیں کرتی ہیں، مردوں کو کہاں فکر ہے کہ وہ اپنا احتساب کریں اور کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں۔ ملت واحدہ ملت مفرقہ بن گئی، ہم نے کوئی فکر نہیں کی، ذات برادری کی ہندوانہ تقسیم نے مسلمانوں میں شرفاء اور اراذل کے طبقات بنا ڈالے اور ہم سوتے رہے بلکہ کبھی موقع ملا تو اس تقسیم کی مدافعت میں آگے آگئے، غیر شرعی رسوم وروایات کو مسلم معاشرے میں پھلنے پھولنے کا موقع دیا، یہود ونصاری کی طرح ہم بھی اپنے اپنے مسلک میں یہ نعرہ بلند کرتے رہے کہ اللہ کے چہیتے ہم ہیں، ہمارے سوا کسی دوسرے مسلک کا حامل اللہ کا محبوب ہو ہی نہیں سکتا۔ اہل کتاب کے انہی دونوں گروہوں کی طرح ہم بھی یہی صدا بلند کرتے رہے کہ حق صرف ہمارا مسلک ہے، دوسرے کا مسلک باطل ہے اور جنت کے تنہا وارث ہم ہیں۔ کبھی تنہائی میں غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ کو یہود ونصاری کے ان دعووں سے کیا دل چسپی تھی کہ ان کو ہمیشہ کے لیے اپنے آخری صحیفے میں محفوظ کردیا۔ مولانا آزاد کی یہ سخت تعبیر ہمیں بتاتی ہے کہ جو بھی نصاری کی راہ پر چلتے ہوئے شرکیات اور بدعات کو دین میں شامل کرے گا، وہ ضالین کے زمرے میں شمار ہوگا اور جو ظاہر پرستی اور تقشف کی راہ پر چلے گا، اس کا شمار یہودیوں میں ہوگا۔ کتاب الٰہی کا مفسر اپنے دل کی یہ بات اپنے ایک ہم مزاج اور ہم مسلک دوست کو لکھ رہا ہے۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ کبھی یہ ذاتی نوعیت کے خطوط اشاعت پذیر ہوکر پوری دنیا کے سامنے آجائیں گے۔ دل کی بات شرح وبسط کے ساتھ کاغذ پر خوبصورت لفظوں میں ڈھل گئی۔
مختصر یہ کہ اگر ہماری بصیرت وبصارت سلامت اور زندہ ہے تو ہمیں اپنے اعتقاد وعمل کا محاسبہ کرنا چاہیے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تنظیم اور جمعیۃ کے معاملات میں خیانت اور بے انصافی سنگین جرم ہے، اسے کسی بھی حال میں معاف نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کیا ایک مسلمان سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی ادارے کی تصدیق کرنے اور اسے توصیہ دینے کے لیے لاکھوں روپے ہدیہ میں قبول کرلے لیکن ہم نے اجتماعی اداروں کو جس راستے پر ڈال دیا ہے، اس میں اس طرح کے عجائبات روز بہ روز سامنے آرہے ہیں، یہی تو وہ بدترین یہودیت ہے جس کی طرف مولانا آزاد نے اشارہ کیا ہے۔
مولانا آزاد نے جماعت اہل حدیث کے سلسلے میں ایک بڑی خاص اور اہم بات یہ فرمائی ہے کہ ’’جماعت اہل حدیث بھی اپنے اصلی ذوق اور ذہنیت سے ہٹ گئی ہے‘‘۔ یعنی تمسک بالکتاب والسنہ اور اتباع منہج سلف کی بنیاد پر اس کا جو اپنا اصلی ذوق ہونا چاہیے اور جس ذہن ومزاج کی تشکیل ہونی چاہیے، اس سے وہ کہیں دور جا پڑی ہے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جماعت اہل حدیث کا اصلی ذوق کیا ہے، اس کا دینی مزاج کیا ہے اور اس کے مظاہر کیا ہیں؟ اس اجمال کی تفصیل اگر خود مولانا کی تحریروں میں تلاش کی جائے تو یہ پتا چلتا ہے کہ جہاں جہاں وہ مسلمانوں کے کردار وعمل سے گفتگو کرتے ہیں اور ان کو ان کا فرض منصبی یاد دلاتے ہیں، وہی جماعت اہل حدیث کا اصلی ذوق اور اس کی ذہنیت ہے۔ مولانا کی نظر میں جماعت اہل حدیث اور اسلام دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ بات بھی یہی صحیح معلوم ہوتی ہے کیوں کہ بعد کی صدیوں میں امت کے اندر پیدا ہونے والے فرقوں اور مسالک سے اس جماعت کا کوئی تعلق نہیں اور نہ اس نے خود کو ان کے سامنے کبھی ایک حریف کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ تحزب وتفرق کی تمام بیماریوں سے خود کو دور رکھتے ہوئے اس نے عہد رسالت اور عہد صحابہ وتابعین کے مکمل اسلام کی دعوت اور اسی کی تعلیمات کے مطابق افراد امت کی تعلیم وتربیت کو اپنے پیش نظر رکھا ہے۔ یہاں مولانا نے اپنے جس درد وکرب کا اظہار فرمایا ہے، اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جو بجا طور پر سلفی فکر کے حامل ومناد ہیں، ان سے ذہنی وفکری وابستگی رکھنے والے مولانا آزاد کی اس بات کو ہلکے میں نہ لیں اور نہ آپے سے باہر ہوکر دوسرے بونوں سے اپنی قامت کا موازنہ کریں بلکہ خود احتسابی کا حقیقت پسندانہ عمل جراحی کرکے ناسور بن چکے ان زخموں کو بھرنے کا سامان کریں جو ایک طویل عرصے سے ہمیں مبتلائے اذیت کیے ہوئے ہیں۔ اہل حدیث کے اصلی ذوق اور ذہنیت کی پہچان ۱۹۰۶ء سے نہ کریں جب آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس قائم ہوئی تھی اور نہ اس وقت سے جب سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ نے مسند ولی اللٰہی کا امین بن کر تدریس حدیث کا آغاز فرمایا تھا۔ یہ تو سلفی تحریک کی تاریخ کے مختلف پڑاؤ ہیں، جن میں وقت اور حالات کے مطابق ترجیحات فکروعمل کی تعیین کی گئی اور تمسک بالکتاب والسنہ کی دعوت کو فروغ دیا گیا۔ سلفی دعوت وفکر کا چشمۂ صافی تو قرون مشہود لہا بالخیر ہے جس سے اٹوٹ وابستگی ذہن وفکر کی صحت وسلامتی کے لیے ازبس ضروری ہے۔ تاریخ کے مختلف مراحل تک آتے آتے اس چشمہ صافی کی شفافیت میں فرق آجانا فطری بات ہے، لہذا کار تجدید یہی ہوسکتا ہے کہ چشمے کی شفافیت کو متاثر اور گدلا کردینے والے عناصر کو خس وخاشاک سمجھ کر باہر نکال دیا جائے اور یہ کام ایک تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ کئی صدیاں بیت گئیں، یہ کام ہم نہیں کرسکے، نتیجہ سامنے ہے کہ سو سو چھید والی چھلنیاں بھی ہمیں آنکھیں دکھانے لگی ہیں۔
بہر حال زیادہ تفصیل میں نہ جاکر صرف یہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ یہ تبصرہ اور تجزیہ ایک ایسے مسلمان کا ہے جس کے دل کی ہر دھڑکن اسلام اور مسلمانوں کے لیے تھی۔ جو ایسا طبیب حاذق تھا جسے ہماری بیماریوں کا صحیح صحیح ادراک تھا اور جسے ان کا علاج بھی معلوم تھا۔ حکیم دانا نے علاج بتادیا ہے، بیماری کی تشخیص بھی کردی ہے، دب ہمارا کام ہے کہ اپنا علاج کرکے صحت مند ہوجائیں اور اگر خدانخواستہ بیمار رہنے میں ہی ہم اپنی عافیت سمجھتے ہیں تو پھر اس مزمن مرض کا کوئی علاج نہیں۔
مولانا آزاد کی تجویز
اپنے اس مکتوب گرامی میں مولانا آزاد نے جو تجویز پیش فرمائی ہے، اس میں کئی باتیں شامل ہیں، مثلاً:
(۱)پختہ دماغوں سے صرف نظر کرنا
(۲)دماغ وفکر کی ایک نئی مخلوق پیدا کرنا
(۳)صحیح اسلامی منٹلٹی پیدا کرنا
(۴)ایک خاص نیا لٹریچر وجود میں لانا
(۵)اور پھر ان سب کی روشنی میں تعلیم وتربیت
آئیے ان سب پر ایک ایک کرکے گفتگو کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ صورت حال کیا ہے؟ مولانا کی پیش کردہ بات کی اہمیت کیا ہے؟ اس کو عملی جامہ پہنانے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اور اس کے نتائج اور اثرات کیا ہوسکتے ہیں؟
(۱)پختہ دماغوں سے صرف نظر کرنا
اللہ تعالیٰ نے انسان کو سوچنے سمجھنے، فیصلہ لینے اور اسے نافذ کرنے کی جو صلاحیت عطا فرمائی ہے، وہ تمام عمر ایک جیسی نہیں رہتی۔ عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ اس میں بھی کمزوری آجاتی ہے۔ جوانی میں جو جرأت وہمت ہوتی ہے، وہ بڑھاپے میں برقرار نہیں رہتی۔ مزید یہ کہ عمر کے ایک خاص مرحلے میں داخل ہوکر انسان کی یہ خواہش بن جاتی ہے کہ ہر کوئی اس کے اوصاف وکمالات کا تذکرہ کرے، اسے سب سے اونچی مسند پر بٹھایا جائے، لوگ آگے بڑھ کر بہ صد احترام اس کا استقبال کریں۔ یہ کمزوری اس وقت زیادہ تباہ کن بن جاتی ہے جب عزت افزائی اور دست بوسی کی یہ ظاہری رسم حق وباطل، صحیح اور غلط، راجح اور مرجوح، عہدہ ومنصب لینے اور دینے کا معیار بن جائے۔ اسی ظاہری پیمانے سے جب کسی کی سعادت مندی، صالحیت اور صلاحیت ناپی جانے لگے۔ مصلحتوں اور بے جا اندیشوں میں گرفتار یہی لوگ مولانا آزاد کی نظروں میں پختہ عمر والے ہیں۔ وہ مولانا محی الدین احمد قصوری کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر تنظیم کو تنظیم بنانا ہے اور اسے حرکت وعمل سے ہم کنار کرنا ہے تو پہلا کام یہ کریں کہ پختہ عمر والوں کو نظر انداز کریں۔
میں اپنا تجربہ عرض کروں کہ گزشتہ سالوں میں جب تنظیم میں اکھاڑ پچھاڑ کا ماحول پیدا ہوا تو میں نے ذاتی طور پر اپنے کچھ بزرگ علماء سے جن سے مجھے عقیدت ہے اور جو مجھ سے للہ فی اللہ محبت فرماتے ہیں، ٹیلی فونی رابطہ کرکے عرض کیا کہ سامنے آئیں، متحارب گروہوں کو سامنے بٹھائیں اور صحیح اور غلط کا فیصلہ فرمائیں۔ آپ یقین مانیں، میرے ہر بزرگ نے صورت حال پر سخت تشویش اور بے چینی کا اظہار فرمایا لیکن اس کار خیر کے لیے کسی نے حامی نہیں بھری۔’’باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی‘‘ کی کمزوری عمر کا تقاضا ہے، اسے کسی اور چیز پر محمول کرنا جلد بازی ہوگی۔ اس عمر میں دونوں متحارب گروہوں سے رسم وراہ باقی اور جاری رکھنے کی خواہش جوان ہوجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ بسااوقات ایک ہی بزرگ کو فریقین کی کرسی صدارت پر مسند نشیں دیکھتے ہیں اور متعجب ہوتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ مولانا آزاد کی یہ تجویز سمجھ لینے کے بعد آیندہ آپ اپنے کسی بزرگ سے بدگمان نہیں ہوں گے، ان کے احترام واکرام میں کوئی کمی نہیں آنے دیں گے اور اسے ان کی عمر اور ان کے قوائے ذہنی وجسمانی کی کمزوری پر محمول کرکے انھیں معذور قرار دیں گے۔ آج کتنے ادارے ہیں اور کتنی دینی جماعتیں جو پختہ عمر والوں کی سیادت وقیادت میں جی حضوریوں اور جاہ پسندوں کے ظلم وتعدی کا شکار ہیں لیکن کسے جرأت ہے کہ حضور عالی مقام سے بصد التجا یہ درخواست کرے کہ کسی دوسرے جواں سال اور حوصلہ مند باہمت شخص کو خدمت کا موقع دیں۔ ان کو تو شب وروز یہی نغمہ سنایا جاتا ہے کہ حضرت والا آپ ہی کے دم سے یہ گلشن سرسبزوشاداب ہے، آپ کے بعد تو بس چاروں طرف خزاں ہی خزاں نظر آرہی ہے۔ ایسے احمق چاپلوسوں کو کوئی یہ کیوں نہیں بتاتا کہ رب کائنات نے اپنی اس دنیا کا جو نظام بنایا ہے، اس میں وہ نوزائدہ بچہ بھی پرورش پاکر بھرپور کامیاب زندگی گزارتا ہے جو پیدا ہوتے ہی اپنے والدین کی شفقت ومحبت سے محروم ہوگیا تھا۔ یہ نظام اللہ چلا رہا ہے، کسی بندے کی صلاحیت اور اس کے تجربے کا یہ نظام محتاج نہیں ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک شعبے کا یہ لطیفہ بھی سن لیں۔ صدر شعبہ چند مہینوں کے بعد ریٹائر ہونے والے تھے، وہ روزانہ شعبے کی لائبریری میں آجاتے اور لائبریرین کے سامنے بیٹھ کر اپنی فتوحات کا تذکرہ کرتے اور اظہار افسوس کرتے ہوئے فرماتے کہ میرے بعد اس شعبے کا کیا ہوگا، مجھے تو کوئی نظر نہیں آتا جو اس کو صحیح ڈھنگ سے چلاسکے۔ اس غریب کو یہ نہیں معلوم کہ یونیورسٹی کا داخلی نظام ایسا ہے کہ کسی کے آنے اور جانے سے یہاں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شیخ الجامعہ بھی نہیں رہتا تب بھی کاروبار جامعہ حسب معمول جاری رہتا ہے۔ مولانا آزاد نے دینی جماعتوں اور اداروں کی جس کمزوری کی نشان دہی کی ہے، اس کو سمجھنا اور ملت کے ان اداروں کو جو ایک امانت ہیں، جواب دہی کے احساس کے ساتھ چلانا ہماری دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔
(۲)دماغ وفکر کی ایک نئی مخلوق پیدا کرنا
دینی اداروں اور دینی تنظیموں کی منصبی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات پر نظر رکھیں۔ زمانے کی رفتار بہت تیز ہے۔یہاں روز وشب کے حالات یکساں نہیں رہتے، ترجیحات میں تقدیم وتاخیر کا عمل جاری وساری رہتا ہے۔ آخری امت کے لیے وحی الٰہی کی بہ تدریج رہنمائی کا دور ختم ہوچکا ہے، اب ہدایات ربانی کی روشنی میں اسے اپنی حکمت عملی خود ترتیب دینی ہے اور اپنی ترجیحات کا تعین خود کرنا ہے لیکن جب دینی تنظیموں پر زوال آتا ہے تو اس کے پاس کرنے کے لیے کچھ نیا نہیں ہوتا بلکہ اس کے کرتا دھرتا کچھ نیا سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ وہ حال میں جینے کی بجائے خود کو ماضی میں لے جاکر سکون وراحت محسوس کرتے ہیں اور جب کہیں کار کردگی بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اپنے حالیہ کاموں کا تذکرہ کرنے کی بجائے ماضی میں اپنے بزرگوں کی بعض حقیقی اور غیر حقیقی فتوحات کا تذکرہ کرکے خود کو فریب دیتے اور سامنے والے کو مرعوب کرتے ہیں۔ مولانا آزاد کی تجویز یہ ہے کہ کاروبار تنظیم ایسے لوگوں سے نہیں چل سکتا بلکہ اس کے لیے ہمیں ایک ایسی نسل تیار کرنی ہے جس کے پاس صحیح معنوں میں دماغ وفکر ہو جو حالات کا صحیح اور بے لاگ تجزیہ کرکے اس میں اپنے لیے راہ عمل کی تعیین کرسکے۔
کس قدر بے جوڑ بات لگتی ہے کہ گردوپیش کی دنیا آخرت کو فراموش کرکے زندگی گزار رہی ہے، دولت کو دیوی سمجھ کر اس کی پوجا کرتی ہے، آوارہ لونڈے سر بازار عصمتیں پامال کررہے ہیں، اشیائے خورد ونوش میں ملاوٹ اور کالا بازاری سے عوام پریشان ہے۔ مظلوموں اور کمزوروں کو انصاف نہیں ملتا، منصب اور صاحب حیثیت لوگ حق وانصاف کا خون چوراہے چوراہے کرتے نظر آتے ہیں، محنت کش عوام کو ان کی پوری مزدوری نہیں ملتی بلکہ مسلسل ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ مرض وصحت کے ادارے انسانی بنیاد پر نہیں بلکہ روپے پیسے کے بل بوتے پر چلائے جاتے ہیں۔ درجہ بہ درجہ ہر ایک کا کمیشن مقرر ہے اور سب کی بھرپائی غریب کی محنت کی کمائی سے کی جاتی ہے۔ حکومتیں اپنی داخلہ وخارجہ پالیسی حق وانصاف کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے وقتی مفادات کے تحت بناتی ہیں…یہ سب کچھ ہمارے آس پاس ہو رہا ہے اور اللہ کی آخری ہدایت کے امین ان باتوں پر توجہ دینے کی بجائے طہر متخلل پر بحث فرمارہے ہیں، راجح اور مرجوح کے حق میں دلائل کے انبار لگائے جارہے ہیں۔ ماضی کی شخصیات کو زیر بحث لاکر ان کے جنتی یا جہنمی ہونے کی تحقیق کی جارہی ہے۔ مسائل حیات اور انسانوں کی پریشانیوں سے نظریں بچاکر کیا آپ اپنے وجود کی معنویت ثابت کرپائیں گے۔ آپ کے ان مسائل سے عوام کو کیا دل چسپی ہوسکتی ہے اور وہ آپ کے پیش کردہ دین کی طرف کیوں توجہ دینے لگی۔
مولانا آزاد جس دماغ اور فکر کو پیدا کرنے کی بات کر رہے ہیں، اس کے لیے ہم نے اجتماعی طور پر کبھی کوشش نہیں کی۔ اسی کا نتیجہ ہے اللہ کے اتارے ہوئے دستور حیات کی دنیا کو تفہیم کرانے والا شخص دو رکعات نماز کی امامت، نکاح خوانی اور جنازے کی نماز تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اب تو عوام بھی کہنے لگی ہے کہ مولوی صاحب یہ سیاست ہے، اس گندگی سے آپ خود کو دور رکھیں، اسی میں آپ کی عزت ہے۔ نیا دماغ وفکر ہوتا تو اس کا جواب یہ ہوتا کہ سیاست کو گندگی اور آلائشوں سے صاف کرنے کے لیے ہی تو ہم نے میدان عمل میں قدم رکھا ہے، ہم بتائیں گے کہ سیاست کیا ہوتی ہے اور اس کے ذریعے بنی نوع انسان کی کیسی خدمت کی جاسکتی ہے۔آج سیاست نے انسانوں سے متعلق تمام چھوٹی بڑی چیزوں کو براہ راست یا بالواسطہ اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ گاؤں کا تھانے دار کسی مال دار سے رشوت پاکر کسی شریف اور معصوم انسان کو کسی الزام میں جیل میں ڈال دیتا ہے اور بغیر کسی ثبوت کے اسے جسمانی اذیت دے کر ادھ مرا کردیتا ہے، کیا ہماری دینی تنظیموں کے پروگرام میں ایسا کوئی شعبہ ہے جو اس شریف اور مظلوم انسان کو انصاف دلاسکے۔ للہ بتائیں کہ اگر ہمارا کوئی ذمہ دار حق وانصاف کا یہ کام کردے تو یدخلون فی دین اللہ افواجا کا منظر دنیا آج بھی دیکھ سکے گی۔ایسا شخص دین کے حوالے سے جو بات بھی کہے گا، عوام اس پر یقین ہی نہیں، اس پر جان دینے کے لیے تیار ہوجائے گی لیکن یہ سیاست ہے اور دعوت میں سیاست منہج سلف کے خلاف ہے، اس لیے ایسا کوئی پروگرام ہماری ترجیحات میں کیوں کر شامل ہوسکتا ہے۔
روایتی اور فرسودہ راہوں پر چلتے چلتے ہمارے اندر اس قدر تن آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں کہ ہم دماغ وفکر کو نیا کرنے کی بجائے اگر کوئی دیوانہ نیا دماغ وفکر لے کر سامنے آتا بھی ہے تو ہمارا یہ روایتی نظام اسے کچل کر رکھ دیتا ہے، فتووں کی ایسی بمباری کی جاتی ہے کہ وہ جل کر بھسم ہوجائے، اگر یہ بھی نہ کرسکے تو اسے منہج سلف کا مخالف اور باغی قرار دے کر سماج میں اسے رسوا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
(۳)صحیح اسلامی منٹلٹی پیدا کرنا
مولانا آزاد کی تجویز کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اسلام کا صحیح ذہن ومزاج پیدا کیا جائے۔ یوں تو دنیا کے کسی بھی مسلمان سے پوچھیں کہ بھائی آپ کا ذہن ومزاج کیسا ہے تو اس کا جواب ہوگا کہ جناب میں اسلامی ذہن ومزاج کا حامل ہوں لیکن یہ دعوی ہے، اس کا عملی ثبوت وہ کردار وعمل ہے جو صحیح اسلامی ذہن کے نتیجے میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ ایک انفرادی نوعیت کا تزکیہ ہے جس کے لیے ہر شخص کو کوشش کرنی ہوگی کہ وہ اگر مسلمان ہے تو اس کی سوچ اسلامی ہو، اس کا ذہن اسلامی ہو اور اس کا مزاج اسلام کے سانچے میں ڈھلا ہو۔ اسلام کے بنیادی عقائد صحیح اسلامی ذہن اور مزاج بناتے ہیں۔ اللہ پر ایمان، رسول پر ایمان اور آخرت پر ایمان محض نہاں خانۂ دل کے بعض احساسات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ اساسیات اسلام صحیح اسلامی ذہن ومزاج کی تشکیل کرتی ہیں۔
توحید ایک عقیدہ ہی نہیں، ہمارے فکر وعمل کا سرچشمہ بھی ہے لیکن وہ توحید نہیں جو یونانی فکر وفلسفہ کے رد عمل کی صورت میں علم کلام کے مباحث میں نمایاں ہوا بلکہ وہ توحید جو کتاب وسنت کی نصوص میں جلوہ نما ہے۔ تقوی اور توکل علی اللہ کی باریکیوں کو وہ شخص کیوں کر سمجھ سکتا ہے جس نے متاع دنیا کو اپنی اولین ترجیح بنا رکھا ہے اور جس نے اللہ کو رازق تسلیم کرنے کی بجائے، اپنے ہی جیسے اونچے منصب کے حامل انسانوں کو رزاق سمجھ لیا ہے۔ توحید کی بعض ٹیکنکل اور لفظی بحثوں نے اس کے مفید اور دیرپا اثرات ہمارے ذہن وفکر سے زائل کردیے ہیں۔ قرآن میں اللہ کا حکم یہ ہے کہ صرف مجھی سے ڈرو۔ موت اور زندگی میرے ہاتھ میں ہے، عزت وذلت کا واسطہ بھی مجھی سے ہے اور کائنات کے ذرے ذرے پر صرف میرا ہی حکم چلتا ہے۔ اللہ رب العالمین ہے، سارے اسمائے حسنی اسی کے لیے ہیں۔
اللہ کی ذات اور صفات کو صحیح معنوں میں سمجھ لینے والا انسان عظیم بن جاتا ہے، وہ کسی سے خوف زدہ ہوکر صداقت اور راست بازی کی راہ سے منحرف نہیں ہوتا، مستقبل کے اندیشے اسے حق وانصاف سے باز نہیں رکھتے اور وہ تمام انسانوں کو اللہ کا بندہ سمجھ کر ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، اللہ طاقت دیتا ہے تو کمزوروں پر ظلم نہیں کرتا، اللہ دولت دیتا ہے تو غرباء ومساکین کو نظر حقارت سے نہیں دیکھتا اور اللہ علم سے نوازتا ہے تو بے علموں کی جاہلانہ باتوں سے کبیدہ خاطر نہیں ہوتا بلکہ آگے بڑھ کر انھیں سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ توحید کی یہ چمک اور اس کے یہ اثرات پیدا کیے بغیر صحیح اسلامی ذہن وجود میں نہیں آسکتا۔
عقیدہ رسالت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنی مرضی بتانے کا ایک ذریعہ خود طے کردیا ہے۔ وہ ذریعہ تمام غلطیوں سے پاک اور محفوط ہے، اس میں کسی طرح کا کوئی اشکال نہیں ہے اور نہ اس ذریعے سے ملنے والی تعلیم میں کسی شک وشبہ کی گنجائش ہے۔ دنیا میں ہمارے تمام عملی رویوں کی روپ ریکھا کیا ہوگی، وہ رسول گرامیﷺ نے اپنے اسوے سے واضح فرمادیا ہے لیکن عقیدہ رسالت کو عشق ومحبت کے نام سے جن جن وادیوں کی سیر آج کرائی جارہی ہے، وہ ہیروورشپ تو ہوسکتی ہے لیکن اس سے نہ اتباع سنت کا صحیح جذبہ پیدا ہوسکتا ہے اور نہ اسوۂ نبوی اور سیرت نبوی کے تمام چھوٹے بڑے مظاہر سے ذہنی وفکری مناسبت ہوسکتی ہے۔اپنے مخالفین کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہو، اس کی تعلیم اگر ہم نے سیرت نبوی سے حاصل کی ہوتی تو مسلکی جنگ وجدال کی وہ کرب ناک صورت حال نہ ہوتی جس نے ہمارے دلوں کو پتھر بنادیا ہے۔ جب دل ایک مرتبہ پتھر بن جاتا ہے تو اس کا رویہ اپنوں کے ساتھ بھی وہی ہوتا جو غیروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے فقہی مسائل سے تعلق رکھنے والی احادیث ہمارے مطالعہ وتوجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں، اخلاقیات سے متعلق احادیث ہمارے مطالعہ میں آتی تو ہیں لیکن ان کے اثرات سے ہمارے کردار وعمل کی دنیا ویران ہے۔ صحیح اسلامی مزاج وذہن کی تشکیل میں سنت نبوی کا کردار بہت اہم ہے لیکن انفرادی اور اجتماعی تربیت کے لیے ان کا استعمال شاذونادر ہی کیا جاتا ہے۔
غور کرنے کی بات ہے کہ کیا آج عقیدۂ رسالت کی روح ملت کے اندر کارفرما ہے؟ کہیں ائمہ وعلماء کی تقلید اور ان کے حوالے کے ساتھ اسلام کو سمجھانے کی کوشش ہورہی ہے تو کہیں نبی اکرمﷺ کے حسن وجمال کے تذکروں سے محفلیں آراستہ کی جاتی ہیں اور نعت گوئی اور میلاد خوانی میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔ عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاقیات میں نبی اکرمﷺ کی سنتوں کی تلاش وتحقیق کو بعض حضرات نے نعوذباللہ ضلالت اور گمراہی بتا رکھا ہے اور تحفظ سنت کے نام سے سنت نبوی کو پامال کرنے کی ایک منظم مہم چلا رکھی ہے۔ سنت کی آئینی حیثیت تسلیم کرنے کے باوجود بعض حضرات یہ کہہ کر اس میں شکوک وشبہات پیدا کردیتے ہیں کہ آخر سنت بھی تو انسانی کوششوں کے نتیجے میں مدون ہوکر ہمارے سامنے آئی ہے۔ یہ رویہ بھی کافی افسوس ناک ہے کہ کچھ لوگ سنت نبوی کی اہمیت تو سمجھتے ہیں لیکن اسے معاملات دنیا میں دخل دینے کی اجازت نہیں دیتے۔ دنیا کو اپنی خواہش کے مطابق جیتے ہیں اور ان کی پیشانی سنت نبوی کے تاج سے آراستہ ہوتی ہے۔ سنت نبوی کو اپنی خواہش کے مطابق کئی ایک خانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ اپنے مخالفین کو چت کرنے کے لیے سنت کا جو آئینہ دکھایا جاتا ہے، اس میں اپنا چہرہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ رسول گرامیﷺ کی احادیث اور آپ کی سنتوں کا دائرہ عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاقیات تک وسیع ہے، زندگی کا کوئی گوشہ اس کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ امت میں مسالک اور فرقوں کے ظہور واستیعلا نے سنت نبوی کو بھی کئی ایک خانوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ہر مسلک اور ہر فرقے نے اپنی اپنی خواہش کے مطابق سنتوں کا انتخاب کرلیا ہے اور شب وروز انہی کی اشاعت میں مصروف ہیں۔
عقیدۂ آخرت ایک خدائی پہرے دار تھا جو ہمارے دلوں پر اس لیے متعین کیا گیا تھا کہ ہم ہمیشہ چوکنے رہیں اور آخرت کے حساب کتاب کا خیال کبھی دل ودماغ سے محو نہ ہونے پائے لیکن آخرت فراموشی آج اپنے عروج پر ہے۔مساجد، مدارس، پرائیویٹ عصری تعلیمی اداروں، دینی اور ملی تنظیموں اور رفاہی خدمات کے اداروں میں جو خیانت ہورہی ہے، اس سے کہیں لگتا ہے کہ خائن کے اندر آخرت کا خوف ہے اور وہ آخرت کے حساب کتاب سے لرزہ براندام ہے۔ آخرت فراموشی نے ہمیں درہم ودینار کا بندہ بنادیا ہے۔ اپنی اسی دنیا کو ہم سب کچھ سمجھنے لگے ہیں اور آخرت کی فکر فراموش کرچکے ہیں۔ صحیح اسلامی ذہن ومزاج کی تشکیل ممکن نہیں ہے جب تک آخرت میں جواب دہی کا اسلام کا مطلوبہ احساس پیدا نہ ہو۔
(۴)ایک خاص نیا لٹریچر وجود میں لانا
مولانا ابوالکلام آزاد کی کتب بینی اور ان کے مطالعہ کی نوعیت کا اندازہ ان حواشی سے کیا جاسکتا ہے جو انھوں نے اپنی زیر مطالعہ کتابوں پر تحریر کیے تھے اور جسے سید مسیح الحسن نے ’’حواشی ابوالکلام آزاد‘‘ کے نام سے مرتب کردیا ہے۔ صفحات کی تعداد ۵۸۶؍ہے۔ عربی، فارسی، اردو اور انگریزی کی یہ چند کتابیں ہیں اور ایک خاص وقفے میں زیر مطالعہ رہنے والی ہیں۔ اپنے دور میں دینی لٹریچر سے ان سے بڑا واقف کار کون ہوسکتا ہے لیکن ان کی تجویز یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جس قسم کے ذہن ومزاج کے افراد ہمیں تیار کرنے ہیں، اس کے لیے موجودہ لٹریچر کافی نہیں ہے بلکہ ایک خاص قسم کی کتابیں تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
گردوپیش کے حالات پر نظر رکھنے والا شخص بھلا ایسی کتابوں سے کیسے مطمئن ہوسکتا ہے جن میں ماضی میں زیر بحث آنے والے مسائل پر طول طویل بحثیں کی گئی ہوں اور جن مسائل کی موجودہ نسل کو کوئی ضرورت نہ ہو۔ توحید کے موضوع پر لکھی گئی کتاب میں معتزلہ کے افکار وخیالات کی تردید کی جائے تو اس سے وہ نسل کیا فائدہ اٹھائے گی جسے اللہ کے وجود میں شبہات لاحق ہیں۔ ہم رازی، کشاف اور بیضاوی کے متکلمانہ قیل وقال کی تفہیم کراکے اس نسل کی ذہن سازی کیسے کرسکتے ہیں جو کائنات اور اس کے مظاہر کو ایک اتفاقی حادثہ سمجھے بیٹھا ہے۔ آج جس نوعیت کے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کا ہماری نسل کو سامنا ہے، وہ اپنی الجھنوں کا جواب ماضی کے فقہی سرمایہ سے کیوں کر پاسکتی ہے۔ مختلف مسالک میں پائے جانے والے اختلافات کی تفہیم، تائید وتردید کے لیے جو مناظرانہ کتابیں تحریر فرمائی گئی ہیں، ان سے اس نسل کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے جو مثبت انداز میں اسلام اور اس کے جملہ مسائل کو سمجھنا چاہتی ہے۔ دینی کتابوں کے فقہی مباحث جس طرح دسیوں متضاد اقوال سے آراستہ کرکے ترتیب دیے جاتے ہیں، ان کو پڑھ کر کیا آج کا نوجوان جو سائنسی مزاج کا حامل ہے، کچھ حاصل کرسکے گا بلکہ ایک ہی مسئلے میں متضاد اقوال دیکھ کر وہ اسلام سے قریب ہونے کی بجائے اس سے دور ہوجائے گا۔ ہماری تقریر ہو یا تحریر اس میں متعین موضوع پر مواد تو کم ہوتا ہے، تمہید ہی میں ہم اپنے قاری کو تھکا دیتے ہیں۔ سیمینار یا محاضرے کے لیے موضوع دیا جائے کہ فلاں جامعہ میں طریقہ تدریس حدیث یا فلاں شخصیت کی قرآنی خدمات پر مقالہ پیش کیجیے تو ہم اپنے مقالے کا آغاز حدیث کی عظمت اور اس کی تشریعی حیثیت سے کرتے ہیں اور کتاب الٰہی کی فضیلت وعظمت سے تمہید اٹھاتے ہیں۔ اتنا بھی شعور نہیں ہوتا کہ جس موضوع پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی ہے اور اس کے لیے ایک محدود وقت دیا گیا ہے، اس میں اپنی بات مکمل کرلیں۔ لاکھوں اور ہزاروں روپے صرف کرکے ہمارے دینی ادارے اور اسلامی تنظیمیں سیمینار منعقد کرتی ہیں لیکن شاید کسی ایک میں بھی مقالہ نگار اپنا مقالہ مکمل نہیں پڑھ پاتا اور اسے دوتین منٹ میں اپنی بات ختم کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ اس طرح کی ہماری علمی سرگرمیاں ایک تماشہ بن کر رہ گئی ہیں۔ وقت اور سرمایہ کی بربادی کی اس سے زیادہ بدترین صورت اور کیا ہوسکتی ہے۔
(۵) تعلیم وتربیت
مولانا آزاد کی تجویز کی آخری شق تعلیم وتربیت ہے۔ اسی تعلیم وتربیت کے نتیجے میں وہ دماغ وفکر وجود میں آئے گا اور اسی سے صحیح اسلامی ذہن ومزاج کی تشکیل ہوگی جس کی نشاندہی اوپر کی جاچکی ہے اور پھر وہ نیا لٹریچر سامنے آئے گا جس کی آج دنیا کو ضرورت ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا آزاد مسلمانوں کے ان اداروں سے بہت زیادہ مطمئن نہیں ہیں جن میں نئی نسل کی تعلیم وتربیت کا انتظام ہے۔ مولانا آزاد کی بعض دوسری تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دینی مدارس کے نصاب میں خاصی بڑی تبدیلی کے داعی اور متمنی تھے۔ دور جدید میں جس دینی رہنمائی کی ضرورت ہے اور اس کے لیے جو تعلیم وتربیت مطلوب ہے، وہ ہمارے مدارس میں موجود نہیں ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ مولانا کی اس تحریر پر تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزرگیا لیکن صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ نئی نسل کی تعلیم وتربیت کے لیے جس جامع نصاب تعلیم کی ضرورت ہے، جس قسم کے مخلص اساتذہ مطلوب ہیں اور جس نوع کی انتظامیہ ضروری ہے، اس کے لیے ہم نہ کوشش کرتے ہیں اور نہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ تعلیم وتربیت کے اداروں کی اصلاح ایک دینی وملی فریضہ ہے، تعلیم وتربیت کے ادارے کاروبار نہیں ہیں اور نہ معلمی کسی مجبوری کے پیشہ کا نام ہے۔ تجارت کے لیے اور نفع کمانے کے لیے دنیا میں بہت سارے کام ہیں، اسی طرح اہل وعیال کی گزربسر کے لیے مختلف پیشوں کے ذریعے دولت حاصل کی جاسکتی ہے لیکن جس استاذ کو بچوں کی تعلیم وتربیت سے زیادہ اپنے مشاہرے کی فکر ستائے اور جو انتظامیہ تعلیمی اداروں کو دولت کمانے کی مشین سمجھ لے، اسے ملت کی نسلوں پر ترس کھانا چاہیے، ورنہ آخرت میں جواب دہی بڑی سخت ہوجائے گی۔
سادگی، قناعت پسندی، امانت داری، حق وانصاف اور عدل ومساوات جو اسلامی تعلیمات میں سرفہرست ہیں، اگر فارغین مدارس میں یہ اوصاف حمیدہ مفقود ہیں تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ کمیاں کہاں ہیں اور پانی کہاں مررہا ہے۔
کاش مولانا آزاد کی اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوئی سبیل پیدا ہوجائے اور نئی نسل میں کوئی ایسا گروہ وجود میں آجائے جو مولانا کے ان خوابوں کی تعبیر بن جائے۔ بات کافی طویل ہوگئی، سمع خراشی کے لیے معذرت۔ مجھے امید ہے کہ تشریح خواہ کتنی ہی ناگوار خاطر ہو لیکن متن آزاد پر آپ ضرور غور فرمائیں گے اور اس کی روشنی میں جماعت اہل حدیث کو متحرک وفعال بناکر اسے ملت کے لیے زیادہ سے مفید بنانے کی کوشش کریں گے۔
مولانا کے مضمون پر کوئی تبصرہ کرنا میرے لئے تو سورج کو چراغ دکھانا ہے پر ایک سوال میرے ذہن میں اچھل رہا ہے اسے عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں اور وہ سوال کچھ یوں ہے: مولانا آزاد نے بحیثیت وزیر تعلیم ہندوستان کو نیا ذہن ودماغ عطا کرنے اور ہندوستانیوں کی فکر ونظر کو فروغ دینے کے لئے بہت سارے اقدامات کئے اور اعلی تعلیم کو استحکام دینے کی غرض سے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نیز دوسرے کئی تعلیمی اداروں کا سنگ بنیاد ڈالا اور اس طرح ایک نئی صبح کا آغاز کیا تاہم ہندوستانی مدارس میں تبدیلی… Read more »