اسبابِ زوال امت

عبدالوحید عبدالقادر سلفی

سقوطِ غرناطہ یا سقوطِ اندلس اسلامی تاریخ کا ایسا سیاہ باب ہے جہاں سے مسلمانوں کی حکمرانی اور رعب ودبدبہ کا زوال شروع ہوتا ہے اور یورپ کی نشاة ثانیہ کا نیا دور افق عالم پر نمودار ہوتا ہے ۔ مسلمان اپنے ماضی سے سبق لینے کی بجائے باہمی خانہ جنگی اور تقسیم در تقسیم کی ڈگر پر قائم رہتاہے ، دوسری طرف یورپ اپنی عظمت رفتہ کی تلاش میں شب وروز علم وتحقیق کے میدان میں ترقی کرتا ہے ۔ مسلمانوں کے علمی سرمائے میں نقب زنی کرکے ان کے علمی کمالات کو اپنے نام سے منسوب کرتا جاتا ہے اور مسلمان آپسی خلفشار ، اختلاف وانتشار اور قتل وغارت گری کی نئی تاریخ رقم کرتے نہیں تھکتا ۔ بالآخر تاریخ کو وہ دن بھی دیکھنا پڑتا ہے جب خلافت عثمانیہ یا اسلامی خلافت کا آخری قلعہ بھی منہدم ہوجاتا ہے اور امت مسلمہ کی رہی سہی قوت وطاقت بھی دم توڑ دیتی ہے اور اس طرح دشمنان اسلام کا دیرینہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوجاتا ہے۔ اب مسلمانوں کی سیاسی ، اقتصادی ، تہذیبی اور تعلیمی یہاں تک کہ دینی رہنمائی کا خاکہ یورپ کے ایوانوں میں تیار کیا جاتا ہے۔
آخر اس ذلّت ورسوائی، تخلُّف وپسماندگی اور محکومیت کے اسباب کیا ہیں؟وہ امت جس نے تاریکی میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کو تہذیب وتمدن کا درس دیا انھیں انسانیت واجتماعیت اور انسانی معاشرت کے اصول وآداب سے مزین کیا۔ شرک وبت پرستی اور وحشت وبربریت کے ماحول میں سانس لینے والوں کو اللہ واحد سے جوڑا، بت پرستی اور طاغوتی نظام کا قلع قمع کیا، عرب وعجم کو اُن کی تخلیق کا مقصد سمجھایا اور پوری دنیائے انسانیت کی فلاح وبہبودی کے لیے دینی اور دنیاوی پیمانے پر جو کچھ ممکن ہوسکتا تھا اُس کا انتظام کیا پھر آخر ہم بحیثیتِ اُمّت اس مقام پرکیسے پہنچے جہاں ذلّت ورسوائی ، غلامی ومحکومیت اور انحطاط وزوا ل کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں؟
اِس خونچکاں داستاں اور تاریخ زوالِ اُمت کے بہت سارے اسباب ہوسکتے ہیں لیکن میں یہاں ان اسباب کو زیربحث لانا چاہوں گا جو کافی اہم اور مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔

پہلا سبب: خلافت اسلامیہ کا خاتمہ: 
جب سے رسالت محمدی کا سورج طلوع ہوا تب سے اسلامی خلافت کا سلسلہ جاری رہا اور دشمنانِ اسلام کو ہمیشہ سے یہ قلق رہا کہ جب تک مسلمانوں کا کوئی امیر ہوگا اتحاد ویگانگت کے اصول پرگامزن ہوں گے تب تک دشمن انھیں مغلوب نہیں کرسکتا اس لیے خلافت وامارت کی بنیاد کو کمزور کرنے کے لیے سازشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا جس کے لیے مسلمانوں کے درمیان سے ایمان فروشوں کو تیار کیا گیا جو خلافت کے قلعے میں نقب زنی کرتے رہے اور دیمک کی طرح اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے نفاق وارتداد کے تمام مرحلوں کو عبور کیا۔ مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ خلافت وامارت تمھاری آزادی کے لیے خطرہ ہے۔ انھیں قبائلی اور نسلی نعروں میں الجھا دیا گیا یہاں تک کہ مسلمانوں کو یہ احساس ہوچلا کہ ہماری مصیبتوں اور آزمائشوں کی اصل جڑ اسلامی خلافت ہی ہے اور اس طرح ان کے اندر خلیفہ کے خلاف خروج اور عناد کا جذبہ بڑھتا گیا اور بالآخر خود مختاری اور الگ الگ ریاست اور حدود کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا جسے حل کرنے کے لیے یورپ ثالثی بن کر نمودار ہوا ۔ اس طرح ایک طرف خلافت کا خاتمہ اور دوسری طرف مسلم ممالک کی تقسیم در تقسیم کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ انھیں احساس ہی نہیں ہوا کہ اسلامی خلافت کا جنازہ کب اٹھا اور اسرائیل کا قیام کیسے عمل میں آگیا؟!

دوسرا سبب: دین کو ملکی آئین ودستور سے الگ تھلگ کرنا:
جسے ہم دوسرے الفاظ میں عَلْمَانِیَت اور لادینیت سے تعبیر کرتے ہیں یعنی ملک کا دستور کتاب اللہ کی بجائے وضعی قوانین پر مبنی ہوگا اور جب سے شریعت کو انسان کی زندگی سے الگ کیا گیا اور اس پر انسانی خیالات وافکار کے محدود قوانین کا نفاذ شروع کیا گیا تب سے مصیبتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوااور اس کاز میں غیروں سے زیادہ خود مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان نام کے مسلمانوں ہی نے مسلمانوں کو وضعی قوانین کا امیر بنایا ۔ یورپ وامریکہ میں تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو باقاعدہ اس کے لیے ٹرینڈ کیا گیا تاکہ لادینیت پر مبنی دستور کو خوبصورتی کے ساتھ عوام کے ذہن میں اتار دیں اور دوسری طرف شرعی قوانین کی بات کرنے والوں کی آوازیں کچل دی جائیں تاکہ علمانیت (لا دینیت)کے راستے میں کوئی کھڑا نہ ہوسکے۔جبکہ اللہ تعالیٰ کا واضح الفاظ میں فرمان ہے: (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ) [سورۃ المائدۃ: ۴۴]۔’’اور جو اُس چیز سے فیصلہ نہ کریں جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں‘‘۔(وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ) [سورۃ المائدۃ: ۴۵]۔’’اور جو اُس چیز سے فیصلہ نہ کریں جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔ (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ) [سورۃ المائدۃ: ۴۵]۔’’اور جو اُس چیز سے فیصلہ نہ کریں جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔

تیسرا سبب: دشمن کے سامنے نفسیاتی مغلوبیت: 
آج ہم جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں وہ اُس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ ہم ہر چیز میں مرعوبیت کے شکار ہیں صرف فرد اور جماعت کی بات نہیں بلکہ مسلم حکومتوں تک کا یہی حال ہے جو بہت ہی خطرناک امر ہے۔ امیر شکیب ارسلان کہتے ہیں:
’’موجودہ دور میں مسلمانوں کے انحطاط کے اہم اسباب میں سے یہ ہے کہ ان میں خود اعتمادی کا فقدان ہے جو ایک نہایت ہی خطرناک سماجی مرض اور خبیث ترین روحانی آفات میں سے ہے اور جس قوم پر یہ مصیبت نازل ہوجائے اس کی فنا اور بربادی مسلم ہے‘‘۔
بلا شبہ نفسیاتی مرعوبیت کسی کینسر سے کم نہیں اور آج مسلمان بری طرح سے اس مصیبت سے دوچار ہیں اور دشمن اس کا پوری طرح فائدہ اُٹھا رہا ہے ، اب تو مسلمانوں کی اکثریت کا یہی ماننا ہے کہ ہم کبھی دشمن پر غالب نہیں آسکتے ، یورپ کے مقابلے میں ہم کبھی کھڑے نہیں ہوسکتے۔

چوتھا سبب: اسلامی اور عصری علوم میں مسلمانوں کی پسماندگی :
مسلمانوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ دینی اور دنیاوی علوم کے میدان میں جہالت وضلالت کے عمیق غار میں بھٹک رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں ہم کافی افراط وتفریط کے شکار ہیں ۔ ایک لمبی مدّت تک مسلمان یہ فیصلہ نہیں کرپا رہا تھا کہ وہ عصری علوم سیکھے یا نہ سیکھے ۔ ان علوم سے ر وکنے کے لیے فتوے بھی دیے گئے اور اس سے دور رکھنے کے لیے پورا جتن بھی کیا گیااور جب لوگوں کو ہوش آیا کہ دینی علوم کے ساتھ دنیاوی علوم بھی ہمارے لیے ضروری ہیں اور کسی طرح علوم اسلامیہ کے ساتھ علوم عصریہ کے حصول کے لیے مزاج بنا تب تک کافی تاخیر ہوچکی تھی اور ایسا بھی نہیں کہ علوم اسلامیہ کی ترویج واشاعت کے لیے تمام مسلم ممالک نے متحدہ کوششیں کیں بلکہ زیادہ تر انفرادی کوششوں کے نتیجے میں اسلامی علوم پروان چڑھے اور امت مسلمہ کو جس طرح صحیح دینی علوم اور رہنمائی کی ضرورت تھی اس میں بہت کوتاہی ہوئی اور اس طرح عقیدۂ توحید اور دین خالص کے مقابلے میں شرک وبت پرستی ، اوہام وشخصیت پرستی نیز تصوّف وطریقت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ اصل دین پس پردہ رہ گیا اور دنیا نے تصوّف وطریقت ہی کو اصل اسلام تصوّر کیا۔
نتیجتاً دینی علوم کی نشرو اشاعت اور معاشرے کی صحیح دینی خطوط پر رہنمائی میں ہم ناکام ہوئے اور عصری علوم کا تب تک ہمارے درمیان سے جنازہ ہی نکل چکا تھا اور آج بھی حال یہ ہے کہ ہم کسی معتدل اور مناسب فیصلے تک نہیں پہنچ پائے ہیں الّا من رحم ربک۔

پانچواں سبب: مغرب اور مغربی تہذیب کو اُسوہ بنانا:
آج صورت حال یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی تعظیم وتمجید کرنے والے اس قدر غلو کے شکار ہیں کہ دن رات اس کی قصیدہ خوانی کرتے ہیں ۔ یورپ وامریکہ کی زیارت ان کی زندگی کے سب سے حسین لمحات ہوتے ہیں اور وہاں کی چکاچوند زندگی کو کامیابی کی معراج تصوّر کرتے ہیں۔ ایسی سوچ وفکر کے حاملین بڑی تعداد میں ہم مسلمانوں میں موجود ہیں۔ انھیں دین وشریعت اور اسلامی قوانین اور ماحول سے اتنی اِبا اور نفرت ہے کہ انھیں دین اسلام صرف دقیانوسیت اور تشدّد کا مرقع محسوس ہوتا ہے۔
بہت ہی خطرناک صورت حال ہے مسلم ممالک ہر چیز میں انھیں اُسوہ اور قُدوہ تصوّر کرتے ہیں اور ان تمام اچھی اور بُری چیزوں کو اپنانا اپنے لیے فخر ومُباہات ، عروج وترقّی اور جدیدیت کی آخری منزل شمار کرتے ہیں۔ اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ اسلامیات کی پڑھائی اور اس کی سرٹیفکیٹ برطانیہ اور امریکہ میں حاصل کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔
ہمیں ان کی تعلیم وترقی کا انکار نہیں ، ان کے سائنسی انکشافات اور ٹیکنالوجیکل ایجادات سے بھی آنکھیں چرانا ممکن نہیں لیکن کیا بحیثیت مسلم اور موحد ہم اپنی شریعت کو پس پُشت ڈال دیں اور ان کے انڈسٹریل اصنام کی پوجا شروع کردیں؟ کیا مغرب کا ہر عمل ہمارے لیے قابل تقلید ہے؟ یہ نفسیاتی ہزیمت امت مسلمہ کے لیے بہت خطرناک اور تباہ کن ہے بلکہ یوں کہیں کہ آج امت مسلمہ کے نوجوان مغربیت کے سیلاب میں اس طرح بہہ رہے ہیں کہ انھیں اسلامی تربیت سے جوڑنا محال سا لگنے لگا ہے۔

چھٹا سبب: اصلاح وترقی کے نام پر فساد:
قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے اسی پس منظر میں منافقین کی نقاب کشائی کرتے ہوئے فرمایا: (وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْض، قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ) [سورۃ: البقرۃ ۱۱]۔’’اور جب اُن (منافقین) سے کہا جاتا ہے : زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں: بے شک ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں‘‘۔
آج مسلم معاشرےمیں اصلاح وترقی کے نام پر اختلاطِ مرد وزن ، بے پردگی ، کلچرل سرگرمیاں ، اباحیت اور مغربی لائف اسٹائل کو اس قدر بڑھاوا مل رہا ہے کہ الأمان والحفیظ۔اگر معاشرے کے غیور افراد اس کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں اور شرعی حل پیش کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کو متشدّد ، دقیانوس ، جدیدیت اور ترقی کا دشمن باور کراکے انھیں دبا دیا جاتا ہے اور ان کے خلاف ایسا ماحول بنایا جاتا ہے کہ لوگ ان کو شک اور نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔آج اسی اصلاح وترقی کے نام پرمصر کا جامعہ ازہر اور تیونس کا جامعہ زیتونہ اسلامی دھارے سے کٹ کر غیر اسلامی افکار ونظریات کی بھینٹ چڑھ گیاہے اور یہ سمّ قاتل دھیرے دھیرے پورے معاشرے کو مسموم کر رہا ہے۔
اب تو اسلامی عقائد پر اصلاح کے نام سے باقاعدہ مُنظّم طریقہ پر حملے شروع ہوچکے ہیں اور اسلامی درس گاہوں پرعرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔

ساتواں سبب : اختلاف وانتشار کے باوجود دشمنوں کا باہمی اتحاد: 
آج امت مسلمہ کا حال یہ ہے کہ وہ اتحاد واتفاق سے کوسوں دور ہے ، چند ممالک بیٹھ کر اپنے مشترکہ مسائل پر بھی اتفاق نہیں کر پا تے۔ قراردادیں پاس کرتے ہیں ، قلم وقرطاس کا خوب استعمال بھی ہوتا ہے ، مگر عملاً امت مسلمہ کے حق میں کچھ نہیں ہوتا اسی لیے آج ہر محاذ پر لاچار اور مجبور ہیں اور غیروں کے اشارے پر رقصاں ہیں ۔ کفّار اپنے تمام تر باہمی اختلاف وانتشار کے باوجود جب کفر اور اسلام کا معاملہ ہوتا ہے تو’’ الکُفرُ مِلّۃٌ واحدۃٌ‘‘ کی عملی تصویر بن جاتے ہیں۔ ان کے پاس اپنے سیاسی ، معاشی ، تعلیمی اور دیگر اُمور کے حل کے لیے کامیاب ادارے اور تنظیمیں موجود ہیں مگر مسلم ممالک آج بھی انہی کے نوالے پر قناعت کر رہے ہیں ۔ اگر مسلمانوں کے درمیان باہم ٹھن جائے تو کوئی امریکہ کی پناہ میں ہوتا ہے تو کوئی روس کی۔ غرضیکہ ضمیر وظرف کا بُحران اور بے حسی اتنی عام ہوچکی ہے کہ اپنے ہی بھائیوں کے خلاف محاذ کھولنا ، پیٹھ پر وار کرنا اور اُن سے برسرِ پیکار رہنا ان کا مشغلہ بن چکا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ امریکہ ، یورپ اور روس وغیرہ سے اپنی مضبوط ومستحکم دوستی کا حوالہ دے کر اپنے ہی بھائیوں کو تہ تیغ کرایا جاتا ہے۔
بھلا بتائیے! آخر ایسی امّت پر اللہ کی مدد کیسے آئے؟ آخر یہ امت ہوش کے ناخن کب لے گی؟ اور ان میں توکل علی اللہ اور صبر وثبات اور باہمی اتحاد کا جذبہ کیسے بیدار ہوگا؟؟
مذکورہ اسباب کے علاوہ امت کی ہزیمت وپسماندگی کے اور بھی اسباب وعوامل ہیں مثلاً مسلمانوں کے خلاف مُستشرقین کی صف آرائی اور خود مسلمانوں میں سے میر وصادق کا وجود ، قابل اتباع اچھی صفات کے حاملین علماء وقائدین کا فقدان ، نوجوان نسل میں انحراف واباحیت کا بلویٰ اور تربیت کافقدان ، مسلمانوں کے درمیان ایسے لوگوں کا وجودجو اپنے دین وامت کے لیے خائن اور نفاق کے علبردار ہیں ،مسلم معاشرے میں عصبیت اور قبائلی بنیادوں پر امتیازی سلوک ۔
مذکورہ تمام اسباب کے ساتھ ساتھ بزدلی اور خوف کا یہ عالم ہے کہ مسلمان دنیا سے پوری طرح چمٹ گئے ہیں اورانھیں آخرت کی کوئی فکر نہیں ہے نیز موت سے فرار کے لیے سب کچھ لگانے کو تیار ہیں۔
اس لیے مسلمانو ! اگر اب بھی نہ جاگے تو تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔اللہ نے فرمایا: (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ، وَاِذَآ اَرَادَاللّٰہُ بِقَوْمٍ سُوْٓءً ا فَلاَ مَرَدَّ لَہٗ ، وَمَالَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ) [سورۃ الرعد: ۱۱]۔’’بے شک اللہ اُس چیز(نعمت) کو نہیں بدلتا جو قوم کے ساتھ ہے یہاں تک کہ وہ اُس چیز(اطاعت) کو بدل دیں جو اُن کے دلوں میں ہے ، اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ برائی (عذاب)کا ارادہ کرلیتا ہے تو اسے دفع نہیں کیا جاسکتا اور اس کے سوا ان کا کوئی ولی نہیں ہے‘‘۔

نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں شیخ ناصر بن سلیمان العُمر کے مقالے ’’أسبابُ تخلُّف المسلمین‘‘ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔

آپ کے تبصرے

3000