کل حمد، کل تعریف اور کل شکر اس ذات واحد کے لیے ہے جس کی صفت رحمانی نے انسان کو بیان کا وصف عطا کیا اور قلم کے ذریعہ علم کو سکھایا۔ اسی ذات نے اس عالم رنگ و بو کو بنایا، ستاروں اور چاند کے درمیان منزلیں مقرر کیں، آسمان پر ستاروں کو آویزاں کیا اور وہی ہے وہ ذات جس نے انسانوں کو اس دنیائے فانی کے اندر وجود بخشا اور انسانوں کی رشد و ہدات اور فوز و فلاح کے لیے انبیاء و رسل کا ایک سلسلہ شروع کیا جو نوح علیہ السلام سے لے کر ہمارے آخری نبی محمدﷺ پر ختم ہوتا ہے۔
اللہ رب العالمین کا یہ اصول رہا ہے کہ جب جب اقوام راہ مستقیم سے بھٹکتی ہیں تو ان کو سیدھی راہ پر چلانے کے لیے انبیاء ورسل کو مبعوث کرتا رہا ہے تاکہ وہ بھٹکتی انسانیت کو صحیح راہ دکھاسکیں اور اللہ کے بتائے طریقوں سے ان کو آگاہ کریں:
وَلَقَدۡ بَعَثۡنَا فِی كُلِّ أُمَّةࣲ رَّسُولًا أَنِ ٱعۡبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱجۡتَنِبُوا۟ ٱلطَّـٰغُوتَۖ [سورة النحل 36]
(ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو)
اسی بنا پر جب عالم عرب کفر و شرک میں ڈوبا ہوا تھا، لڑکیوں کو باعث ننگ و عار سمجھا جاتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو غار حرا میں اقراء باسم ربک کہہ کر پکارا اور نبوت کے منصب پر سرفراز کیا، آپﷺ کو تمام انبیاء و رسل پر فوقیت عطا کی، آپﷺ کو اکرم اور افضل بنایا اور آپﷺ کے طریقے کو عظمت و قیاس کا معیار قرار دیا۔ آپﷺ ہمہ وقت اپنی امت کی ہدایت اور سعادت کے خواہش مند رہتے تھے جیسا کہ قرآن نے اس کی وضاحت کی ہے:
لَقَدۡ جَاۤءَكُمۡ رَسُولࣱ مِّنۡ أَنفُسِكُمۡ عَزِیزٌ عَلَیۡهِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیصٌ عَلَیۡكُم بِٱلۡمُؤۡمِنِینَ رَءُوفࣱ رَّحِیمࣱ [سورة التوبة 128]
(تمھارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف ﻻئے ہیں جو تمھاری جنس سے ہیں جن کو تمھاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمھاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے تئیں فکرمندی کی ایک ادنی مثال یہ ہے کہ آپ نے دعا کو آخرت کے لیے رکھا ہے کہ جس دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا جیسا کہ ترمذی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہر نبی کی ایک دعا مقبول ہوتی ہے اور میں نے اپنی دعا اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ کر رکھی ہے”
اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ بھلائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی کریں:
هَلۡ جَزَاۤءُ ٱلۡإِحۡسَـٰنِ إِلَّا ٱلۡإِحۡسَـٰنُ (الرحمن :60)
تو جس طرح نبیﷺ نے ہمارے ساتھ بھلائی کی ہے اور احسان کیا ہے تو ہمارا یہ حق بنتا ہے کہ ہم ان کے ساتھ بھی بھلائی کریں یعنی ان پر درود بھیجیں، اس لیے کہ نبیﷺ پر درود بھیجنا نجات کے وسائل میں سے ہے، نیز بہترین بدلہ، عظیم عبادت، خالص نیکی اور وقت کا بہترین استعمال ہے۔ علاوہ ازیں اس سے نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے، درجات بلند ہوتے ہیں، گناہ کے لیے کفارہ کا سبب اور رنج و الم اور غموں کا مداوا ہے، نیز اللہ کی طرف سے دس گنا رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ جیسا کہ نسائی کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
جس آدمی نے میرے ذکر کے وقت مجھ پر درود بھیجا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دیتا ہے، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور دس درجات بلندی عطا کرتا ہے۔
آپﷺ اللہ رب العالمین کے نزدیک سب سے مکرم ہیں یہی وجہ ہے کہ ایمان باللہ اور ایمان بالرسول لازم و ملزوم ہیں گویا اللہ کی اطاعت رسول کی اطاعت، اللہ سے محبت رسول سے محبت ہے۔ اس لیے کہ توحید کی گواہی شعار اسلام، امن و امان کی علامت اور اذان کا وہ جملہ ہے جو مسجد کے میناروں سے روزانہ موذن کی زبان سے سنا جاتا ہے۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ اشھد ان محمدا رسول اللہ۔ شاعر رسول حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قول:
وضمَّ الإلهُ اسمَ النبيّ إلى اسمهِ
إذا قَالَ في الخَمْسِ المُؤذِّنُ أشْهَدُ
وشقّ لهُ منِ اسمهِ ليجله
فـذو العرشِ محمودٌ، وهـذا مـحمدُ
چنانچہ ہمارے اوپر نبیﷺ کے واجبی حق میں سے ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درود و سلام کا اہتمام کریں، جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلَـٰۤىِٕكَتَهُۥ یُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِیِّۚ یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ صَلُّوا۟ عَلَیۡهِ وَسَلِّمُوا۟ تَسۡلِیمًا [سورة الأحزاب 56]
اور آپﷺ پر صبح و شام، خصوصا جمعہ کے دن درود کی کثرت بہترین اذکار میں سے ہے، آپﷺ کی اتباع کرنے والوں کے لیے شعار اور علامت ہے۔ جیسا کہ احادیث میں اس کی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ اللہ رب العالمین نبیﷺ پر درود بھیجنے والوں کے ثواب میں اضافہ کرتا ہے، ان کی تکریم کرتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے نبیﷺ کو سنا، آپ فرما رہے تھے:
جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جیسے وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ (صحيح مسلم)
عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ ؛ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ”
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جمعہ کا دن تمھارے بہترین دنوں میں سے ہے، لہٰذا اس دن میرے اوپر کثرت سے درود (صلاۃ) بھیجا کرو، اس لیے کہ تمھارے درود مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں۔ (ابوداؤد)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بخیل کہا جو آپ پر درود نہیں بھیجتا ہے جیسا کہ ترمذی کی روایت ہے:
عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “الْبَخِيلُ الَّذِي مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور پھر بھی وہ مجھ پر صلاۃ (درود) نہ بھیجے“۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ شخص مجھ پر درود نہ بھیجے۔“ (ترمذی)
مذکورہ نصوص اس بات پر دال ہیں کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں عنداللہ ان کی تعریف ہو، ان کے درجات بلند ہوں، فرشتے ان کا ذکر خیر کریں تو ان کو چاہیے کہ اپنے قلوب کو زندہ کریں، نبیﷺ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہر حال اور ہر وقت کثرت سے درود کا اہتمام کریں، بالخصوص جب گفتگو کے دوران آپﷺ کا ذکر ہو، اس لیے کہ نبیﷺ پر درود بھیجنے کے بہت سارے فوائد ہیں جن کا احصا و شمار ممکن نہیں۔ نبیﷺ پر درود بھیجنا زمان و مکان کے ساتھ خاص نہیں ہے لیکن بعض اوقات جیسے کہ جب زبان سے آپﷺ کا نام لیا جائے یا اذان کے وقت اس کو سنا جائے تو ایسی صورت میں درود بھیجنا لازم ہے۔ نبیﷺ پر درود بھیجنے کے تعلق سے متعدد صیغے وارد ہیں، تمام کے تمام ہی کافی اور مطلوب ہیں۔ جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں تھے کہ رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لائے۔ چنانچہ بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے تو ہم آپ پر درود کیسے بھیجیں؟ انھوں نے کہا: اس پر رسول اللہﷺ خاموش ہوگئے حتیٰ کہ ہم نے تمنا کی کہ انھوں نے آپ سے یہ سوال نہ کیا ہوتا، پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہو: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَالسَّلَامُ كَمَا قَدْ عَلِمْتُمْ “۔ (صحيح مسلم)
أَبُوحُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُمْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ”۔
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول! ہم آپ پر درود کیسے بھیجیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (صحيح البخاری)
ضرورت اس بات کی ہے ہم اپنے وقت کا صحیح استعمال کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر وقت خصوصاً بروز جمعہ کثرت سے درود کا اہتمام کریں۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ماشاء الله… بارك الله فيك وأحسن الله إليك….
کافی اہمیت کے حامل مضمون ہے’ہر مسلمان کی ضرورت ہے۔۔
صلى الله عليه وسلم