شیخ ضیاء الرحمن اعظمی حفظہ اللہ: دو ملاقاتیں اور کچھ باتیں

آصف تنویر تیمی تاریخ و سیرت

مدینہ یونیورسٹی میں رہتے ہوئے مسجد نبوی کے دروس کے علاوہ شیخ ضیاء الرحمن اعظمی حفظہ اللہ سے دو بار خصوصی طور پر ملنے کا موقع ملا۔ یقینا ان سے مل کر اور بہت سارے علمی مسائل کی معلومات حاصل کرکے خوشی ہوئی۔
پہلی ملاقات برادر گرامی قدر ڈاکٹر معراج عالم تیمی مدنی حفظہ اللہ کے ساتھ ان کے گھر پر ہوئی۔ ملنے کا وقت پہلے طے تھا۔ میرے اور شیخ معراج عالم تیمی کے علاوہ چند اور بھی طلبہ تھے جن کا نام اس وقت میرے ذہن میں نہیں۔
ان کی رہائش گاہ پر تقریبا دس بجے دن کے بعد پہنچے۔ شیخ ضیاء اندرون خانہ تھے، کچھ منٹوں میں ہم لوگوں سے ملنے مہمان خانے میں تشریف لائے۔ یہ مہمان خانہ کیا!در اصل ان کا دار المطالعہ تھا۔ چاروں طرف کتابوں سے بھری الماریاں، اسکالرز اور خود کے کام کرنے کے لیے کرسیاں اور میز۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کی شہرہ آفاق کتاب” الجامع الکامل” زیر طباعت یا آخری مرحلے میں تھی۔ ہر کس وناکس کو حدیث پر اس دستاویزی کتاب کی آمد اور اس سے استفادے کا انتظار تھا۔ شیخ موصوف نے قدرے تفصیل سے مذکورہ کتاب کی تصنیف کے مراحل اور اپنی کوششوں کو بیان کیا۔ اور انھوں نے حدیث کے اس عظیم ذخیرے کو جمع کرنے میں جو قربانیاں دیں اس کی طرف بھی اشارہ کیا۔
شیخ ضیاء (محبت سے ہم طلبہ انھیں اسی نام سے موسوم کرتے ہیں) نے یہ بھی بتلایا کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے شعبہ حدیث کے ہیڈشپ سے سبکدوش ہونے کے بعد کئی خلیجی ملکوں سے انھیں تدریس اور تحقیق کا آفر ملا، تمام تر سہولیات کی یقین دہانی کرائی گئی مگر انھوں نے محض خدمت حدیث کی خاطر تمام دنیاوی آرائشوں کو نظر انداز کیا اور مستقل مزاجی اور یکسوئی کے ساتھ حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت پر معمور رہے۔ کھانے پینے اور ضرورت بھر سونے کے علاوہ ان کا سارا کا سارا وقت حدیثوں کی تنقیح وتشریح اور جمع کرنے میں لگتا۔ وقت کی پابندی اور فن حدیث سے سچی محبت کا ہی نتیجہ ہے کہ انھوں نے مسلسل کئی سالوں کی محنت شاقہ سے حدیث کے میدان میں وہ کارنامہ انجام دیا جس کی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔ سابقہ تمام کتبِ حدیث سے صحیح حدیثوں کو جمع کرنا، سند اور متن پر غور وفکر کرنا، فقہی ابواب کے تحت اکٹھا کرنا معمولی کام نہیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ وہی لوگ بہتر لگاسکتے ہیں جو علوم حدیث کی باریکیوں اور نزاکتوں سے واقف ہیں۔ میرا تو یہ ماننا ہے کہ دنیاوی اسباب ووسائل کے اختیار کے باوجود جب تک اللہ کی توفیق مزید نہ ہو ایسا عظیم کام نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ نے دکتور ضیاء کو اخلاص کی دولت سے مالا مال کیا، شہر رسول کی سکونت ملی، اچھے رفقاء واحباب اور شاگردان ملے اور باری تعالی کی خصوصی توفیق ملی جس کی بنیاد پر انھوں نے صرف الجامع الکامل ہی نہیں بلکہ متعدد قیمتی علمی کتابیں سپرد قلم کیں جن سے اہل فن استفادہ کرتے اور دعا دیتے ہیں۔ شائقین حدیث اور فرق وادیان کے لیے ان کی جملہ تصنیفات انمول تحفہ ہیں۔
دکتور ضیاء حفظہ اللہ سے دوسری خصوصی ملاقات کا شرف جامعہ اسلامیہ کے”باب خلفی” (یونیورسٹی کے طلبہ کے مابین یہ دروازہ کافی مشہورہے، طلبہ مسجد نبوی اور دوسری جگہوں پر آنے جانے کے لیے اسی گیٹ کا زیادہ تر استعمال کرتے ہیں) پر ہوا۔ کسی طالب علم سے پتہ چلا کہ شیخ کسی کام سے یہاں پر اپنی گاڑی میں موجود ہیں۔ چند طلبہ شرف لقا کے لیے جارہے تھے میں بھی ساتھ ہولیا۔ علیک سلیک بعد مختصر مفید باتیں ہوئیں جو سب کے لیے تھیں۔
شیخ جامعہ اسلامیہ مدینہ کے شعبہ حدیث کے لکچرر اور ہیڈ رہ چکے تھے۔ اکثر ذمہ داران اور کارکنان ان کی شخصیت سے واقف تھے۔ اگر وہ چاہتے تو مین گیٹ سے آکر اپنی ضرورت پوری کرسکتے تھے۔ وہاں موجود طلبہ نے کہا بھی کہ شیخ! آپ صدر دروازہ سے بھی آسکتے تھے، اس کے جواب میں انھوں نے کہا: مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں اپنے بارے میں کچھ بتانے جاؤں، اپنا تعارف پیش کروں، دربان بدلتے رہتے ہیں، اسی لیے باب خلفی سے آگیا۔
یہ ہے اپنے وقت کے ایک عظیم محدث اور مدرس کا تواضع۔ اگر ہم میں سے کوئی ہوتا تو پتا نہیں کتنی شیخی بگھارتا، اپنی ذات کو نکھارنے اور ذمہ داران سے لے کر کارکنان تک پر رعب جمانے کے لیے کتنی سطحی کوشش کرتا مگر دکتور ضیاء نے ایسا کچھ کیے بغیر ہی اپنا کام کرنے کا مزاج بنایا تھا۔ اسی لیے انھیں مختصر مدت میں وہ کامیابیاں ملیں جنھیں دیکھ کر سلف کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ یقینا تواضع انسان کو بلندی اور احترام عطا کرتا ہے۔
ہم لوگوں ہی کے زمانے میں مسجد نبوی سے قرار منظور ہوا کہ شیخ محترم کو مدرس حرم نبوی کی کرسی پر فائز کیا جائے۔ یقینا یہ شرف اور بلندی رتبہ کی بات ہے۔ شیخ کے درس کا آغاز “الباعث الحثیت” سے ہوا۔ جوق در جوق ہندوستانی اور غیر ہندوستانی طلبہ کا ہجوم ان کے درس میں شامل ہوتا۔ عجم سے زیادہ عرب نے ان کے علم وفضل سے استفادہ کیا۔ کچھ درسوں میں مجھے بھی شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔ درس کا انداز بالکل سادہ اور نرالا تھا۔ ایک ایک جملہ علم سے معطر ہوتا تھا۔ الحمد للہ اس وقت سے آج تک حرم نبوی کی کرسی ان کے درس کی امین رہی (اللہ اس کے بدلے انھیں شفائے عاجل اور کامل عطا فرمادے)
شیخ کی مشہور تصنیفات میں سے چند کے اسماء درج ذیل ہیں جن سے ان کے علمی رسوخ کا پتہ چلتا ہے اور طلبہ کو بھی ان کتابوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے:
1- اليهودية والمسيحية وأديان الهند
2-فصول في أديان الهند…
3-الجامع الكامل في الحديث الصحيح الشامل
4-أبوهريرة رضي الله عنه في ضوء مروياته
5-السنن الصغرى للبيهقي
6-المدخل إلى السنن الصغرى للبيهقي
7-ثلاثة مجالس من أمالي ابن مردوية
8-دراسات في السنة النبوية
9-صلاة التراويح
10-صلاة الجماعة
11-صلاة المسافر
12-فتح الغفور في وضع الأيدي على الصدور
13-معجم مصطلحات الحديث
14-الرازي وتفسيره
15-تحقيق أقضية الرسول عليه الصلاة والسلام لابن الطلاع

ان کے علاوہ بھی اردو اور ہندی زبان میں شیخ کی مختصر اور مفصل تحریریں موجود ہیں جن سے علماء اور طلبہ اپنی علمی تشنگی بجھاسکتے ہیں۔
اللہ شیخ حفظہ اللہ کی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کو صحت کامل اور عاجل عطا کرے۔ آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
ابو حسان مدنى

شیخ حفظہ اللہ نے ایک ملاقات میں بیان کیا کہ انہوں نے ہندی میں قرآن کی تفسیر لکھی ہے جو عرصہ ہوا مجمع ملک فہد کی تحویل میں ہے لیکن اس کی طباعت میں غیر معمولی تاخیر ہورہی ہے۔