وضو میں ناک اور منہ میں پانی ڈالنے کا طریقہ

فاروق عبداللہ نراین پوری فقہیات

وضو میں ناک اور منہ میں پانی ڈالنے کے متعلق احادیث نبویہ میں دو طریقے مذکور ہیں۔
پہلا طریقہ: ایک چلو پانی لیا جائے اور اس کا کچھ حصہ ناک میں اور کچھ حصہ منہ میں داخل کیا جائے۔ ناک کے لیے الگ اور منہ کے لیے الگ چلو سے پانی نہ لیا جائے۔
عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریقہ بیان کیا ہے: “مضمض واستنشق من كفة واحدة” (ناک اور منہ میں ایک چلو سے پانی ڈالا) جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح (حدیث نمبر 191) میں روایت کی ہے۔ اور اس پر باب باندھا ہے: باب من مضمض واستنشق من غرفة واحدة۔
آگے حدیث نمبر (199) میں عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ثم أدخل يده في التور، فمضمض واستنثر ثلاث مرات من غرفة واحدة۔ (پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا اور ایک چلو سے تین بار کلی کی اور ناک دھویا)
اس حدیث کو امام مسلم نے بھی اپنی صحیح (1/210، ح235) میں روایت کیا ہے۔
اس متفق علیہ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا طریقہ بالکل واضح ہے کہ آپ نے ناک اور منہ کے لیے ایک چلو پانی کا ہی استعمال کیا، منہ کے لیے الگ اور ناک کے لیے الگ پانی نہ لیا۔
دوسرا طریقہ: ناک اور منہ کے لیے الگ الگ پانی لیا جائے۔ ایک ہی چلو سے دونوں میں پانی نہ داخل کیا جائے۔
اس سے متعلق دو حدیثیں وارد ہیں:
پہلی حدیث: عمرو بن کعب الہمدانی سے مروی ہے، فرماتے ہیں: “دخلتُ – يعني: على النبي صلى الله عليه وسلم- وهو يتوضَّأ والماءُ يسيلُ مِن وجهِهِ ولحيتهِ على صَدرِهِ، فرأيتُه يَفصِلُ بينَ المَضمَضَةِ والاستِنشاق”۔ [سنن أبي داود:1/97، حدیث نمبر 139]
(میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ وضو کر رہے تھے اور آپ کے سینے پر چہرے اور داڑھی سے پانی بہہ رہا تھا، میں نے دیکھا کہ آپ ناک اور منہ کے لیے الگ الگ پانی لے رہے ہیں)
یہ روایت لیث بن ابی سلیم کے ضُعف اور مصرف کی جہالت کی بنا پر ضعیف ہے۔ امام نووی نے اسے بالاتفاق ضعیف قرار دیا ہے، لہذا یہ قابل عمل نہیں۔ [دیکھیں: تهذيب الأسماء واللغات:2/ 75 اور التلخيص الحبير لابن حجر:1/ 201]۔
دوسری حدیث: شقیق بن سلمہ فرماتے ہیں: “رَأَيْتُ عَلِيًّا وعُثْمَان توضَّآ ثَلاثًا ثَلاثًا” ثُمَّ قَالا: “هَكَذَا تَوَضَّأَ النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” وَذَكَرَ أَنَّهُمَا أَفْرَدَا الْمَضْمَضَةَ وَالاسْتِنْشَاقَ”
(میں نے علی اور عثمان کو دیکھا، انھوں نے اعضائے وضو کو تین تین دفعہ دھویا پھر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح وضو کیا تھا۔ اور (شقیق نے) بیان کیا کہ ان دونوں نے کلی علیحدہ کی تھی اور ناک میں علیحدہ پانی ڈالا تھا)
اسے ان الفاظ کے ساتھ ابن ابی خیثمہ رحمہ اللہ نے ”تاریخ کبیر“ (3/187، حدیث نمبر4419) میں روایت کیا ہے۔
ان کے تلامذہ کی ایک جماعت نے ان سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ جن میں سے اکثریت کے یہاں مضمضہ اور استنشاق کا طریقہ مذکور نہیں ہے۔ صرف علی بن الجعد اور بشر بن المفضل کی روایت میں مضمضہ اور استنشاق کے لیے الگ پانی لینے کا ذکر ہے۔ اور ان کی روایتوں میں بھی اختلاف ہے جس کی تفصیل پیش ہے:
اولا: علی بن الجعد بن عبید الجوہری کی روایت:
ابن ابی خیثمہ نے تاریخ کبیر (3/ 187) میں ان سے براہ راست روایت کیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں: “رأيت عليا وعثمان توضآ ثلاثا ثلاثا” ثم قالا: “هكذا توضأ النبي صلى الله عليه وسلم” وذكر أنهما أفردا المضمضة والاستنشاق”
اس روایت میں مضمضہ اور استنشاق کے لیے الگ الگ پانی لینے کا ذکر موجود ہے۔
لیکن یہی حدیث علی بن الجعد سے ان کے دو اور شاگرد موسی بن ہارون اور ابن ابی داود بھی روایت کرتے ہیں اور مضمضہ اور استنشاق کے لیے الگ پانی لینے کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ ان کے الفاظ ہیں: “عن عثمان، وعلي، أنهما توضآ ثلاثا ثلاثا، ثم قالا: هكذا توضأ رسول الله صلى الله عليه وسلم”۔
موسی بن ہارون سے طبرانی نے مسند الشامیین (1/107، ح161) میں روایت کیا ہے۔ اور ابن ابی داود سے طحاوی نے شرح معانی الآثار (1/29، ح119) میں۔ اور دونوں کی سند صحیح ہے۔
نیز ابن ابی خیثمہ کی روایت میں علی اور عثمان رضی اللہ عنہما دونوں کی طرف اسے منسوب کیا گیا ہے۔ جب کہ ابو القاسم البغوی نے اپنے جزء (ص68، ح32) میں اور ان کے ہی طریق سے ضیاء مقدسی نے اپنے “مختارہ” (1/472، ح347) میں ان (علی بن الجعد) سے روایت کیا ہے اور صرف عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف اسے منسوب کیا ہے۔
ثانیا: بشر بن المفضل کی روایت:
ابن ابی خیثمہ نے علی بن الجعد کی روایت کے فورا بعد اسے بشر بن المفضل کے طریق سے بھی روایت کیا ہے۔ فرماتے ہیں: “حدثنا عبيد الله بن عمر، قال: حدثنا بشر بن المفضل، عن ابن ثوبان، عن عبدة بن أبي لبابة، عن شقيق، عن عثمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله”.
هكذا قال شقيق: رأيت عثمان بن عفان وعلي بن أبي طالب. (التاريخ الكبير لابن أبي خيثمة 3/187)

لیکن ابن ابی خیثمہ نے جس طریق سے روایت کیا ہے اسی طریق سے ابو یعلی الموصلی نے بھی اسے روایت کیا ہے اور ان کی روایت میں مضمضہ اور استنشاق کے لیے الگ الگ پانی لینے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ابو یعلی فرماتے ہیں: “حدثنا عبيد الله، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان، حدثني عبدة بن أبي لبابة، قال: سمعت شقيق بن سلمة، يقول: رأيت عليا يتوضأ ثلاثا ثلاثا، وقال: «هكذا توضأ رسول الله صلى الله عليه وسلم»” (مسند أبي يعلى الموصلي 1/ 432، ح572)
لہذا دونوں کی روایت میں مضمضہ اور استنشاق کے لیے الگ الگ پانی لینے کا ذکر راجح قرار نہیں پاتا۔ نیز ان دونوں کے علاوہ عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد نے ان سے یہ حدیث روایت کی ہے اور کسی نے مضمضہ اور استنشاق کے لیے الگ الگ پانی لینے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
1 – عاصم بن علی:
ان سے ابو عبید القاسم بن سلام نے الطہور (ص167، ح81) میں روایت کیا ہے۔ اس کی سند حسن ہے۔
2 – الولید بن مسلم الدمشقی:
ابن ماجہ (1/265، ح413) نے محمود بن خالد الدمشقی کے واسطے سے ان سے روایت کیا ہے۔ ولید بن مسلم معروف مدلس ہیں اور انھوں نے عنعنہ سے روایت کیا ہے۔
3 – ابو نعیم الفضل بن دکین:
ان سے ابو الحسن بن سلمہ (دیکھیں: سنن ابن ماجہ 1/265) نے ابو حاتم رازی کے واسطے سے اور ابو زرعہ رازی (الفوائد المعللہ: ص173، ح146) نے براہ راست روایت کیا ہے۔ اور اس کی سند صحیح ہے۔
4 – موسی بن داود:
ان سے بزار (مسند: 2/51، ح394) نے محمد بن المثنی کے واسطے سے روایت کیا ہے۔ اس کی سند حسن ہے۔
5 – الہیثم بن جمیل:
ان سے طحاوی نے شرح معانی الآثار (1/29، ح120) میں احمد بن یحی الصوری کے واسطے سے روایت کیا ہے۔ لیکن احمد الصوری کا ترجمہ مجھے نہیں ملا۔
6 – غصن بن اسماعیل الانطاکی:
ان کے طریق سے ابو محمد المخلدی نے (الفوائد المنتخبة من أصول مسموعات المخلدي انتخاب البحيري- مخطوط (ص: 178) میں روایت کیا ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔
ان تمام شاگردوں کے الفاظ اس طرح کے ہیں: عن شقيق بن سلمة، قال: رأيت عثمان، وعليا يتوضآن ثلاثا ثلاثا، ويقولان: هكذا كان وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم۔
کسی نے بھی اپنی روایت میں مضمضہ اور استنشاق کے لیے الگ الگ پانی لینے کا ذکر نہیں کیا ہے جیسا کہ علی بن الجعد اور بشر بن المفضل کی بعض روایات میں ملتا ہے۔
اسی طرح ابو داود طیالسی (مسند: 1/146، ح171) نے بھی اسے عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان سے روایت کیا ہے اور ان کی روایت میں بھی مضمضہ اور استنشاق کے لیے الگ الگ پانی لینے کا ذکر نہیں ہے۔ لیکن انھوں نے صرف علی رضی اللہ عنہ کی طرف اسے منسوب کیا ہے، عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف نہیں۔
لہذا ان تمام طرق کو جمع کرنے کے بعد بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ ابو وائل شقیق بن سلمہ کی روایت میں مضمضہ اور استنشاق کے لیے الگ الگ پانی لینے کا لفظ ثابت نہیں ہے۔ ابن ابی خیثمہ کی روایت میں کسی نہ کسی سے غلطی ہوئی ہے، چاہے عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان کے شاگردوں (علی بن الجعد اور بشر بن المفضل) سے ہو، یا ان دونوں کے شاگردوں سے، یا خود ابن ثوبان سے۔ واضح ہو کہ ابن ثوبان گرچہ حسن الحدیث ہیں لیکن ان کے حفظ وضبط کے متعلق محدثین نے کلام بھی کیا ہے، حافظ ابن حجر ایک جگہ فرماتے ہیں: “مختلف في توثيقه” [فتح الباري (6/98]
اور ایک جگہ فرماتے ہیں: “مختلف في الاحتجاج به” [تغليق التعليق:3/446]
جہاں ایک جماعت نے ان کی توثیق کی ہے وہیں بعض نے ان پر کلام بھی کیا ہے۔ امام احمد نے ان کی احادیث میں “مناکیر” کے پائے جانے کی بات کی ہے۔ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم:5/ 219]
اور ابو حاتم رازی نے آخری زندگی میں ان کے اختلاط کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ [تہذیب الکمال:16/17]
حافظ ابن حجر ان کے متعلق فرماتے ہیں: “صدوق يخطئ ورمي بالقدر وتغير بأخرة”. [تقريب التهذيب:ص 337]
اس لیے گرچہ کم ہی ہو لیکن ان سے بھی غلطی کا احتمال ہے۔ بہر حال جن سے بھی غلطی ہوئی ہو لیکن ہوئی ہے، اور اس حدیث کے تمام طرق کو جمع کرنے اور ان کے بیان کردہ الفاظ کو دیکھنے کے بعد یہ چیز واضح نظر آتی ہے۔
یہاں بعض حضرات نے عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان کے اصحاب کے مابین اس کے الفاظ کے اختلاف کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے قابل قبول کہنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ علی بن الجعد اور بشر بن المفضل ثقہ ہیں اس لیے ان کی زیادتی مقبول ہے۔ حالانکہ ثقہ کی زیادتی مطلقا قابل قبول ہو یہ کبھی محدثین کا منہج نہیں رہا ہے۔ یہ بعض حضرات کا شاذ منہج ہے۔ محدثین قرائن کے حساب سے ترجیح دیتے ہیں اور زیادتی کے قبول یا رد کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ علل کی کتابیں ان مثالوں سے بھری ہوئی ہیں۔
علامہ علائی نے اپنی کتاب ”نظم الفرائد لما تضمنہ حدیث ذی الیدین من الفوائد“ میں اسے بہترین انداز میں بیان کیا ہے، فرماتے ہیں:
“أئمة الحديث المتقدمون منهم: كيحيى بن سعيد القطان وعبد الرحمن بن مهدي، ومن بعدهم كعلي بن المديني، وأحمد بن حنبل، ويحيى بن معين وهذه الطبقة، وكذلك من بعدهم: كالبخاري، وأبي حاتم وأبي زرعة الرازيين، ومسلم، والنسائي، والترمذي وأمثالهم، ثم الدارقطني، والخليلي، كل هؤلاء يقتضي تصرفهم من الزيادة قبولاً ورداً الترجيح بالنسبة إلى ما يقوى عند الواحد منهم في كل حديث، ولا يحكمون في المسألة بحكم كلي يعم جميع الأحاديث وهذا هو الحق والصواب “. [نظم الفرائد: ص376-377]

اور ایک جگہ فرماتے ہیں: “إنّ الجماعة إذا اختلفوا في إسناد حديث كان القول فيهم للأكثر عدداً أو للأحفظ والأتقن…، فإن تفارقوا واستوى العدد فإلى قول الأحفظ والأكثر اتقاناً، وهذه قاعدة متفق على العمل بها عند أهل الحديث”. [نظم الفرائد:ص367]
ثقہ راوی سے بھی غلطی ہوسکتی ہے اور محدثین کرام نے بہت ساری احادیث میں ثقہ روایوں کی بعض غلطیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک مضمون ”إزالة الوله عن وهَم الحافظ الثقة“ میں میں نے اسے ذکر کیا ہے جو کہ الاقلام الحرہ میں نشر ہوا ہے۔ اس پورٹل میں میری اور بھی کئی حدیثوں کی تخریج میں اس کی مثالیں آپ کو مل جائیں گی۔ مثلا: «هل تسوك النبي صلى الله عليه وسلم وهو صائم؟», «هل أمر عمر بن الخطاب رضي الله عنه في عهده بقيام رمضان بعشرين ركعة؟», «هل قيام رمضان يكفر الذنوب المؤخرة مع المقدمة؟»
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ علی بن الجعد کی روایت کے متعلق فرماتے ہیں: “أشك في ثبوت ذكر المضمضة والاستنشاق في هذا الحديث”۔
(اس حدیث میں مضمضہ اور استنشاق کے ثابت ہونے میں مجھے شک ہے) [ضعيف أبي داود:1/45]
بلکہ حافظ ابن حجر اور شیخ البانی رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ سے اس کے برخلاف مروی ہے۔ [التلخيص الحبير:1/ 203، ضعیف ابی داود:1/44]
ان کا اشارہ علی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی طرف ہے جس میں ایک ہی چلو سے ناک اور منہ کے لیے پانی لینے کا ذکر ہے۔ جسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔ فرماتے ہیں: حدثنا مسدد، حدثنا أبو عوانة، عن خالد بن علقمة، عن عبد خير، قال: أتانا علي رضي الله عنه وقد صلى فدعا بطهور، فقلنا ما يصنع بالطهور وقد صلى، ما يريد إلا ليعلمنا، فأتي بإناء فيه ماء وطست، فأفرغ من الإناء على يمينه، فغسل يديه ثلاثا، ثم تمضمض واستنثر ثلاثا، فمضمض ونثر من الكف الذي يأخذ فيه،…الحدیث ۔ [سنن أبي داود:1/27، ح111]
(عبد خیر کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ ہمارے ہاں تشریف لائے اس حال میں کہ وہ نماز پڑھ چکے تھے، انھوں نے وضو کے لیے پانی منگوایا تو ہم نے کہا کہ وہ پانی کا کیا کریں گے، جب کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں، یہ شاید ہمیں سکھانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ایک برتن میں پانی لایا گیا اور ساتھ ایک تسلا (کھلا برتن) بھی تھا۔ انھوں نے برتن سے اپنے دائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور ہاتھوں کو تین بار دھویا، پھر تین بار کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر جھاڑا، آپ نے اسی چلو سے کلی کی اور ناک جھاڑی جس میں کہ پانی لیا تھا۔۔۔الحدیث)
شیخ البانی اور شعیب ارنووط وغیرہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
خلاصہ کلام: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مضمضہ اور استنشاق کا جو طریقہ متفق علیہ حدیث سے ثابت ہے وہ یہ کہ منہ اور ناک کے لیے ایک چلو پانی ہی کا استعمال کیا جائے، منہ کے لیے الگ اور ناک کے لیے الگ پانی نہ لیا جائے، کیونکہ الگ الگ پانی لینے والی کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم
علامہ ابن القیم فرماتے ہیں:
“كَانَ يَصِلُ بَيْنَ الْمَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ، فَيَأْخُذُ نِصْفَ الْغَرْفَةِ لِفَمِهِ وَنِصْفَهَا لِأَنْفِهِ، وَلَا يُمْكِنُ فِي الْغَرْفَةِ إِلَّا هَذَا”

(آپ صلی اللہ علیہ وسلم مضمضہ اور استنشاق ملاکر کرتے، پس آدھا چلو پانی منہ کے لیے اور آدھا چلو پانی ناک کے لیے لیتے، ایک چلو پانی میں اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت ممکن نہیں ہے)
نیز فرماتے ہیں: “لَمْ يَجِئِ الْفَصْلُ بَيْنَ الْمَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ فِي حَدِيثٍ صَحِيحٍ الْبَتَّةَ” [زاد المعاد:1/185]
(کسی بھی صحیح حدیث میں مضمضہ اور استنشاق کے لیے الگ الگ پانی لینے کی بات نہیں آئی ہے)
اسی طرح کی بات امام نووی نے بھی کہی ہے۔ [المجموع:1/360]
اور شیخ البانی فرماتے ہیں:
“وأما الفصل؛ فلم يثبت فيه حديث أصلًا” [ضعيف أبي داود:1/45]
(الگ الگ پانی لینے کے متعلق کوئی حدیث ثابت نہیں ہے)

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Md Mursalin

جزاک اللہ خیرا ۔ زادک اللہ فی العلم العمر۔