عشر ذی الحجہ کے فضائل و مسائل

عبدالسلام صلاح الدین مدنی عبادات


الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلین أمابعد

نیکیاں کمانے، اللہ کی طرف سے خیرات و برکات، فیوض و افادات لوٹنے کے لیے اور اللہ کی قربت کے حصول کے لیے بے شمار مواقع میسر ہوتے ہیں۔ یہ بندۂ مؤمن پر اللہ رب ذو الجلال کا بے پناہ فضل و کرم ہے کہ اس نے بندۂ مؤمن کو پورے سال میں ایسے بیشتر مواقع عنایت فرمائے جن میں انسان اپنے رب کو خوش کرنے، جنت حاصل کرنے اور دنیا و آخرت کی کامیابیاں بٹورنے کی کوششیں کرتا ہے۔ اس کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کردیتا ہے، علمہ من علمہ و جھلہ من جھلہ۔
ابھی ماہِ رمضان المبارک کا مبارک مہینہ گزرا ہی ہے جس میں مرد مسلم نے (جسے توفیق ملی) خوب خوب عبادتیں کی، اپنے رب کو منانے کی کوشش کی، جنت کے حصول کے لیے سعیٔ بلیغ کی، اپنے گناہ دھلوانے کے لیے شبانہ روز ایک کردیا، قرآن کی تلاوت میں مشغول رہا، قیام اللیل کیا، دعائیں کیں، تہجد کا اہتمام کیا پھر اسی ماہ میں ایک رات ایسی بھی آئی جس کو پانے کے لیے خوب خوب محنت و ریاضت کی، جس میں عبادت کا ثواب ایک ہزار برس (۸۳ سال ۴ ماہ) کی عبادت کے برابر قرار دیا۔ جسے عرف شرع و عام میں لیلۃ القدر (شبِ قدر) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ پھر اللہ رب کریم نے ذی الحجہ کے دس دن ایسے عطا فرمائے جن میں عبادت و ریاضت، محنت و اطاعت کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ابوعثمان الہندیؒ فرماتے ہیں:
كانوا يعظمون ثلاث عشرات: العشر الأخير من رمضان، والعشر الأول من ذي الحجة، والعشر الأول من محرم.

’’سلف تین عشروں کو بہت عظیم سمجھتے تھے: (۱) رمضان المبارک کا آخری عشرہ (۲)ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور (۳) ماہِ محرم الحرام کا پہلا عشرہ۔‘‘ (دیکھیے: لطائف المعارف از ابن رجب ص۸۰)
آئندہ سطور میں اسی عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل و مسائل کا تذکرہ کرنے کی سعی کی جائے گی اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالی ہمیں ان دس دنوں میں زیادہ سے زیادہ اعمال صالحہ کی توفیق ارزانی فرمائے۔
عشرۂ ذی الحجہ افضل ہیں یا ماہِ رمضان کی آخری دس راتیں؟
اس کا جواب شیخ الاسلام بن تیمیہ نے بہت پہلے دے دیا تھا۔ فرماتے ہیں:
أيام عشر ذي الحجة أفضل من أيام العشر من رمضان، والليالي العشر الأواخر من رمضان أفضل من ليالي عشر ذي الحجة.(مجموع فتاوي ابن تيميه :25/154)

(ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن رمضان کے آخری دس دنوں سے افضل ہیں اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں ذوالحجہ کی دس راتوں سے افضل ہیں)

حافظ ابن القیم بیان کرتے ہیں:
وَإِذَا تَأَمَّلَ الْفَاضِلُ اللَّبِيبُ هَذَا الْجَوَابَ وَجَدَهُ شَافِيًا كَافِيًا ، فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ فِيهَا أَحَبُّ إلَى اللَّهِ مِنْ أَيَّامِ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ ، وَفِيهَا : يَوْمُ عَرَفَةَ ، وَيَوْمُ النَّحْرِ ، وَيَوْمُ التَّرْوِيَةِ ، وَأَمَّا لَيَالِي عَشْرِ رَمَضَانَ فَهِيَ لَيَالِي الْإِحْيَاءِ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يُحْيِيهَا كُلَّهَا ، وَفِيهَا لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ ، فَمَنْ أَجَابَ بِغَيْرِ هَذَا التَّفْصِيلِ لَمْ يُمْكِنْهُ أَنْ يُدْلِيَ بِحُجَّةٍ صَحِيحَةٍ (بدائع الفوائد: 3؍660، مجموع فتاوی ابن تیمیہ ۱۵؍۱۳۰)

(جب فاضل اور سمجھدار شخص اس جواب پر غوروخوض کرے گا تو وہ اسے شافی و کافی پائے گا کیونکہ ذوالحجہ کے دس دنوں کے علاوہ ایام کے اعمال اللہ تعالی کو دس ذوالحجہ کے اعمال سے زیادہ محبوب نہیں اور ان ایام میں یومِ عرفہ، یوم نحر اور یوم ترویہ بھی ہیں (جو خاص فضیلت کے حامل ہیں) اور رمضان کی آخری دس راتیں شب بیداری کی راتیں ہیں جن میں رسول اللہﷺ رات بھر عبادت کیا کرتے تھے اور ان راتوں میں شبِ قدر بھی۔ چنانچہ جو شخص اس تفصیل کے بغیر جواب دے گا اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ صحیح دلیل پیش کر سکے)
ذی الحجہ کا مہینہ حرمت کا مہینہ ہے
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ عِندَ اللَّهِ اثنا عَشَرَ شَهرًا فى كِتـٰبِ اللَّهِ يَومَ خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضَ مِنها أَربَعَةٌ حُرُمٌ ذ‌ٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ فَلا تَظلِموا فيهِنَّ أَنفُسَكُم (التوبہ:۳۶)

(بے شک اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہے جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس میں سے چار حرمت والے ہیں یہی سیدھا دین ہے سو ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔
نیز نبی کریمﷺ نے فرمایا:
“إن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم:ثلاث متواليات ذوالقعدة و ذوالحجة والمحرم و رجب مضرالذى بين جمادى و شعبان” (صحیح بخاری رقم:4662)

(زمانہ گھوم گھما کر (مہینوں کی ترتیب کی) اس ہیئت میں آگیا ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہے جن میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ تین مہینے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم لگاتار ہیں اور چوتھا مہینہ رجب جو جمادی (الآخرۃ) اور شعبان کے درمیان ہے)
ذی الحجہ کا مہینہ حج کا مہینہ ہے
اور اس ماہ کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اس ماہ میں حج کے جملہ شعائر ادا کیے جاتے ہیں جس میں دور دراز سے، قریب و دور سے کاخ و قصور سے پورے عالم سے مسلمانان مکہ مکرمہ کا قصد کرتے ہیں۔ جہاں قبولیت دعا، مغفرت ذنوب و سیئات، حصول رضائے الہی اور دخول جنت کے سارے سامان مہیا کیے جاتے ہیں۔ اور بندۂ مؤمن اپنے گھر لوٹتا ہے تو وہ اس طرح ہوجاتا ہے جیسے کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ (بخاری رقم:۱۵۲۱‘مسلم رقم(۱۳۵۰)من حدیث ابی ہریرۃ)

ذی الحجہ کے دس دن (عشرۂ ذی الحجہ) کی فضیلت و اہمیت اور اس کے مقام و مرتبہ کے لیے یہی کافی ہے رب کریم نے ان دس دنوں کی قسم کھائی ہے، فرمایا:
’’وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ‘‘ (الفجر)

(قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی)
اور بات سبھی جانتے ہیں کہ رب تعالی عظیم ہے اور ایسے ویسے امر کی قسم نہیں کھاتا بلکہ عظیم ذات عظیم چیزوں کی ہی قسم کھاتا ہے۔
مفسرین کی اکثریت کے قول کے مطابق ان دس راتوں سے مراد ذو الحجہ کی پہلی دس راتیں (دس دن) مراد ہیں۔ امام ابن کثیرؒ نے بھی اپنی تفسیر میں اسی کو صحیح کہا ہے۔ (دیکھیے: تفسیر طبری: ۱۱ ۵۳۱/إبن کثیر: ۱۴ ۳۳۸/ لطائف المعارف فیما لمواسم العام من الوظائف لابن رجب: ص 260)
(4)یہی دس دن ہیں جنھیں اللہ تعالی نے (أیام معلومات) قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْم بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ (الحج:۲۸)

(اور چند معلوم دنوں میں جو چوپائے جانور اللہ نے ان کو دیے ہیں ان پر اللہ کا نام لیں)
اکثر مفسرین کے نزدیک ایام معلومات سے مراد دی الحجہ کے دس دن ہیں۔ (دیکھیے: تفسیر ابن کثیر:؍۴۱۳)
(5) رسول اکرمﷺ کی گواہی:
حضور نبی کریمﷺ نے ان دنوں کو سب سے اعلیٰ و افضل، سال کے تمام دنوں میں سب سے بہتر اور عظیم قرار دیا ہے۔ پیغمبر اعظمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
((أَفْضَلُ أَيَّامِ الدُّنْيَا العَشْرُ – يَعْنِي: عَشْرَ ذِي الحِجَّةِ)) قِيلَ: وَلاَ مِثْلُهُنَّ فِي سَبِيلِ اللهِ؟ قَالَ: ((وَلاَ مِثْلُهُنَّ فِي سَبِيلِ اللهِ، إِلاَّ رَجُلٌ عَفَّرَ وَجْهَهُ بِالتُّرَابِ))

(دنیا کے افضل ترین دن ایام العشر (یعنی ذوالحجہ کے دس دن) ہیں۔ دریافت کیا گیا کہ کیا جہاد فی سبیل اللہ کے ایام بھی ان کے مثل نہیں؟ فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ میں بھی ان کی مثل نہیں سوائے اس شخص کے جس کا چہرہ مٹی میں لتھڑ جائے (یعنی وہ شہید ہو جائے)۔(صحیح الجامع رقم۱۱۳۳ )
نیز نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث میں وارد ہے، فرمایا:
أفضل أيام الدنيا أيام العشر (صحیح الجامع:۱۱۳۳)

(دنیا کے دنوں میں سب سے افضل دن ایام عشر (عشرۂ ذی الحجہ) ہیں)
(6)انہی دس دنوں کو نبیٔ کریمﷺ نے جہاد سے بھی افضل قرار دیا ہے الا یہ کہ کوئی بندہ اپنی جان مال میں سے کچھ بھی واپس لے کر نہ آیا ہو۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
ماالعمل فى أيام العشر أفضل منها في هذه قالوا:ولاالجهاد في سبيل الله؟قال:ولاالجهاد إلا رجل خرج يخاطر بنفسه وماله فلم يرجع بشيئ (بخاری:رقم:۹۶۹)

(ذوالحجہ کے دس دنوں سے افضل کوئی عمل نہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: جہاد بھی نہیں مگر وہ شخص جو اس حال میں نکلا کہ اس نے اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈالا پھر کچھ بھی ساتھ لے کر نہ پلٹا)
(۷)انہی دس دنوں میں یومِ عرفہ بھی ہے جس کے بارے میں نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ یَوْمٍ اَکْثَرَ مِنْ اَنْ یُعْتِقَ اللّٰہُ فِیْہِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ یَوْمٍ عَرَفَۃَ (مسلم رقم:۱۳۴۸)

(اللہ تعالیٰ جس قدر عرفہ کے دن لوگوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہے اس سے زیادہ کسی اور دن آزاد نہیں کرتا)
امام قرطبی فرماتے ہیں:
ما رؤي الشيطان يوماً هو فيه أصغر ولا أحقر ولا أدحر ولا أغيظ منه في يوم عرفة, وما ذاك إلا لما رأى من تنزل الرحمة وتجاوز الله عن الذنوب العظام [تفسير القرطبي 2/419]

(شیطان یومِ عرفہ کے علاوہ کسی اور دن میں اپنے آپ کو اتنا چھوٹا، حقیر، ذلیل اور غضبناک محسوس نہیں کرتا جتنا اس دن کرتا ہے۔ یہ محض اس لیے ہے کہ اس دن میں وہ اللہ کی رحمت کے نزول اور انسانوں کے گناہوں سے صرف نظر کا مشاہدہ کرتا ہے۔
البتہ بدر کے دن شیطان نے اس سے بھی بڑی شے دیکھی تھی۔ عرض کیا گیا یارسول اللہﷺ! یومِ بدر اس نے کیا دیکھا؟ فرمایا: ’’جبرئیل کو جو فرشتوں کی صفیں ترتیب دے رہے تھے‘‘۔ (مالک، عبدالرزاق۔ یہ روایت مرسل صحیح ہے)
(8)انہی دس دنوں میں ایک دن (یوم النحر) بھی کہلاتا ہے جس کے بارے میں نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا:
اِنَّ اَعْظَمَ الْاَیَّامِ عِنْدَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ یَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ یَوْمُ الْقَرِّ (صحیح ابو داؤد رقم:۱۷۶۵‘صحیح الجامع رقم:۱۰۶۴)

(اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں سب سے عظمت والا دن یومِ نحر (دس ذی الحجہ) ہے پھر یوم القر (یعنی اس سے اگلا گیارہ ذی الحجہ کا دن) ہے)
ایک وضاحت:
’’القر‘‘ قرار (ٹھہرنے، رکنے اور جم جانے) سے ہے۔ یہ ۱۱ویں ذی الحجہ ہے کیوں کہ اس میں لوگ منیٰ میں قیام کرتے ہیں۔ اس وجہ سے اسے ’’یوم القر‘‘ کہتے ہیں۔ (دیکھیے: صحیح الجامع ۱/۲۴۲)
(9)انہی دس دنوں میں امہات العبادات (نماز، روزہ، حج، عمرہ وغیرہ) مجتمع ہوتی ہیں:
حافظ ابن حجر ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:
ظاہری طور پر عشرہ ذی الحجہ کے امتیاز کا سبب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بڑی بڑی عبادتیں جمع ہوجاتی ہیں یعنی نماز، روزہ، صدقہ اور حج۔ ان کے علاوہ دیگر ایام میں ایسا نہیں ہوتا۔ (فتح الباری2/534)
ان دس دنوں میں میں انجام دیے جانے والے اہم اعمال و امور
(۱)ذکر و اذکار، تسبیح و تہلیل، تمجید و تقدیس:
جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
ما من أیام العمل الصالح فیهن أحب الی الله من هذہ الأیام العشرة، قالوا: یا رسول الله ولا الجهاد في سبیل اللہ؟ قال: ولا الجهاد في سبیل الله إلا رجل خرج بنفسه وما له فلم یرجع من ذلك بشيء (بخاری رقم: ۹۶۹)

(ان دس دنوں کے اعمال صالحہ جتنے اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں اتنے اور دِنوں کے نہیں یعنی ان دنوں کے اعمال نماز، روزہ، تسبیح، تہلیل، تکبیر اور صدقہ خیرات وغیرہ اللہ عزوجل کو بہت ہی محبوب ہیں لہٰذا ان دنوں میں بندگی و عبادت میں زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔
صحابہ نے عرض کیا کہ جہاد بھی ان دنوں کے اعمال صالحہ کے برابر نہیں ہوتا؟ فرمایا: جہاد بھی برابر نہیں ہوسکتا۔ ہاں وہ مجاہد جو جان مال لے کر جہاد کے لیے نکلے اور پھر کوئی چیز واپس نہ لائے یعنی خود بھی شہید ہوجائے اور مال بھی خرچ ہوجائے۔ ایسا جہاد ان دِنوں کے اعمال صالحہ کے برابر ہو سکتا ہے)
اللہ اکبر! اس حدیث مبارک پر غور و تامل کیجیے، ذرا تفکر و تدبر سے کام لیجیے کہ اس عشرہ کی کتنی بزرگی اور عظمت ہے کہ اللہ تعالیٰ جو بندہ کی ایک ایک نیکی کو اتنا محبوب رکھتا ہے کہ ایک ایک نیکی پر اس کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ ہزاروں گنا تک ثواب دیتا ہے۔ اس عشرہ کی نیکی کو بہت محبوب رکھتا ہے۔ یہ بحرِ رحمت کی موجیں ہیں جو عاجز بندہ کو اس کے بحرِ رحمت سے حظ وافر لینے کے لیے پکار رہی ہیں۔ کاش کہ انسان ایسے وقتوں کی قدر کرے اور کمربستہ ہو کر کچھ کمالے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ایسے وقتوں میں بحرِ رحمت میں غوط لگاتے ہیں۔
نیز نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
ما من عمل أزكى عند الله عز وجل، ولا أعظم أجراً من خير يعمله في عشر الأضحى۔ قيل: ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال: ولا الجهاد في سبيل الله عز وجل، إلا رجل خرج بنفسه وماله، فلم يرجع من ذلك بشيء (رواه الدارمي 1/357 وإسناده حسن كما في الإرواء 3/398، شرح مشکل الآثار رقم:۲۹۷۰)

نیز نبی کریمﷺ نے فرمایا:
ما من أیام أعظم عند الله سبحانه ولا أحب إلیه العمل فیهن من هذه الأیام العشر فأکثروا فیهن من التهلیل والتکبیر والتحمید
(أحمد:5446، والدارقطني في العلل:12/376 واللفظ لهما، والطحاوي في شرح مشكل الآثار:2971 باختلاف يسير)

شیخ احمد شاکر نے (مسند احمد:۷؍۲۲۴) کی تخریج کرتے ہوئے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
عشرہ ذی الحجہ سے بڑھ کر اللہ سبحانہ کے نزدیک اور کوئی دن نہیں ہیں اور ان دنوں کے اعمال جیسے اللہ کو پیارے ہیں اور کوئی عمل نہیں۔ لہٰذا ان دِنوں میں لا إلہ إلا اللہ، اللہ أکبر اور الحمد للہ کثرت سے پڑھنا چاہیے۔
(۲) نماز:
نماز دین کا ستون، مؤمنوں کی معراج، ایمان کی نشانی، میزانِ عمل، قربِ الہی کا ذریعہ، ہر عمل (توحید کے بعد) نماز تابع، جنت میں داخلہ کا عظیم سبب، گناہوں کے دھلنے دھلانے کا سبب، دنیا و آخرت کی ساری بھلائیوں کے سمیٹنے کا ذریعہ ہے۔ اس عشرہ میں بھی خصوصی طور پر نماز کی ادائیگی کا اہتمام ہونا چاہیے۔ ترکِ نماز تو ویسے بھی عظیم گناہ ہے اور اس عشرہ میں تو اس کے ترک کی شناعت و قباحت فزوں تر ہوجاتی ہے۔
(۳) صیام:
شریعتِ اسلامیہ میں عمومی طور پر روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ چنانچہ نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا:
من صام يومًا في سبيل الله، باعَد الله وجهَه عن النار سبعين خريفًا (بخاری رقم ۲۸۴۰‘مسلم رقم:۱۱۵۳)

(جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھا اللہ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت تک دور کردیتا ہے)
اور خصوصی طور پر عشرۂ ذی الحجہ کے نو دن کی فضیلت اور اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ کی بعض ازواجِ مطہرات سے مروی ہے:
کان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم تسع ذي الحجة ، ويوم عاشوراء ، وثلاثة أيام من كل شهر (ابو داؤد رقم:۲۴۳۷‘و صححہ الألبانی)

(رسول اللہﷺ ذی الحجہ کے نو روزے، عاشوراء کے دن کا روزہ، ہر مہینہ کے تین روزے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے)
(۴)یوم عرفہ کا روزہ:
یوم عرفہ کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے کیوں کہ اس دن رب کریم اپنے بندوں پر خصوصی نوازشات فرماتا ہے، جہنم سے گردنیں آزاد کرتا ہے، عام بخشش کا اعلان کیا جاتا ہے۔ نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِنْ النَّارِ ، مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ. وَإِنَّهُ لَيَدْنُو ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمْ الْمَلائِكَةَ. فَيَقُولُ : مَا أَرَادَ هَؤُلاءِ؟ (مسلم رقم:۱۳۴۸)

(یوم عرفہ کو اللہ تعالی سب سے زیادہ جہنم سے گردنیں آزاد فرماتا ہے اور اس دن وہ بندوں سے قریب ہوتا ہے۔ پھر فرشتوں کے سامنے فخر و مباہات فرماتے ہوئے عرض کرتا ہے: ان لوگوں کو کیا چاہیے؟
اللہ اکبر! غور فرمائیں کس قدر سخاوت کا دریا رواں ہوتا ہے، ان کو کیا چاہیے؟ اندازہ کیجیے ایک بندۂ مسلم کو کیا چاہئے؟ مغفرت! گناہوں سے بخشش! جہنم سے گلوخلاصی! رب کی مرضیات، جنت میں داخلہ اور اس کی لذتِ آشنائی وغیرہ وغیرہ۔
جہاں تک بات رہی روزہ کی تو اس کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا:
سُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ؟ فَقَالَ: يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ وَالبَاقِيَة (مسلم رقم:۱۱۶۲من حدیث أبی قتادہ)

(آپﷺ سے عاشوراء کے روزے سے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا: ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہ معاف مٹادیتا ہے)
علامہ مبارکپوری (صاحبِ تحفۃ الأحوذی) فرماتے ہیں:
امام نووی نے فرمایا کہ علماء کہتے ہیں: اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں۔ اگر صغیرہ گناہ اس کے پاس نہیں ہوں گے تو گناہِ کبیرہ میں تخفیف کردی جائے گی اور اگر گناہِ کبیرہ بھی نہ ہوں تو درجات بلند کیے جائیں گے۔ (دیکھیے: تحفۃ الأحوذی:۳؍۴۵۳)
اسی لیے یہودیوں نے ایک دن جناب عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ سے کہا:
امیر المؤمنین! قرآن میں ایک آیت ایسی ہے جسے آپ لوگ پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ اگر ہم یہودیوں کی جماعت میں ایسی آیت نازل ہوتی تو ہم اسے عید کا دن قرار دے لیتے (یعنی ہم جشن مناتے) عمر نے فرمایا: وہ کون سی آیت ہے؟یہودی نے کہا: الیوم أکملت لکم دینکم و أتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الإسلام دینا (المائدۃ:۳)
حضرت عمر نے فرمایا: ہم اس دن کو بھی جانتے ہیں جس دن یہ آیت اتری (جمعہ کا دن تھا) جہاں اتری اس جگہ کو بھی جانتے ہیں (عرفہ میں آپﷺ کھڑے تھے) (اس کے باوجود ہم اس دن کوئی جشن نہیں مناتے)۔ (دیکھیے: بخاری رقم:۴۵)
(۵)حج و عمرہ:
گناہوں کی مغفرت معافی، رب کی رضامندی و خوشی، جہنم سے گلوخلاصی اور جنت میں مقام اور لذتِ آشنائی میں حج و عمرہ کا جو اہم رول ہے وہ جگ ظاہر ہے، سب جانتے ہیں اور ہر فردِ مسلم اس کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ بہت سارے دل اس کی زیارت و دید کے لیے تڑپتے رہتے ہیں اور اس کے جو فضائل و مناقب ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں اور کتاب و سنت میں واضح و مبرہن ہیں جو اسی عشرے میں ادا کیے جاتے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
العُمْرَةُ إِلَى العُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا ، وَالحَجُّ المَبْرُورُ ، لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلاَّ الجَنَّةُ (بخاری رقم:۱۷۷۳‘مسلم رقم:۱۳۴۹)

(ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک (گناہوں کے لیے) کفارہ ہے اور مقبول حج کا ثواب جنت کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ (یعنی جنت ہی ہے)
(۶)دعاؤں کا اہتمام:
دعا کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کا اپنا مقام ہے، اس کی ضرورت بھی ہے اور فردِ مومن کے لیے عظیم سلاح بھی۔ دعاؤں سے تو کبھی غافل ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا دامن مضبوطی سے تھامے رہنا چاہیے۔
(۷)قیام اللیل:
قیام اللیل عظیم عبادت ہے۔ بزرگوں کی مبارک عادت رہی ہے، انبیاء ۔ علیہم السلام ۔ کی سنت رہی ہے، حقیقی اولیائے عظام کا وطیرہ رہا ہے، مومنوں کی شان ہے، بندگانِ نیک خو کی پہچان ہے۔ اس عشرہ میں بھی قیام اللیل کا اہتمام ہونا چاہیے۔ جناب سعید بن جبیر ۔ رحمہ اللہ ۔ فرمایا کرتے تھے:
لا تُطْفِئُوا سرجَكُم لياليَ العشرِ

(عشرۂ ذی الحجہ کی راتوں میں اپنے چراغ گل مت کیا کرو۔ (یعنی: راتوں میں جاگا کرو اور عبادت کرو)(دیکھیے: لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف:ص 585)
سبحان اللہ! یہ ہمارے اسلاف تھے جو مواسمِ خیرات تلاش کیا کرتے تھے۔
(۸)تکبیرات کا اہتمام:
اس عشرے میں تکبیرات کا اہتمام ہونا چاہیے اور خوب خوب ہونا چاہیے۔ بازاروں میں، دکانوں میں، مکانوں میں، جلوت میں، خلوت میں، ہر جگہ اور ہر مقام پر ہونا چاہیے۔ حضرات ابن عمر اور ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہما) ان دس دنوں میں بازار میں نکل جاتے اور بآواز بلند پکارتے تھے یہاں تک کہ بازار والے ان کی آواز سن کر تکبیرات بلند کرتے تھے۔ (دیکھیے: بخاری معلقا ۱؍۳۲۹، بصیغۃ الجزم، قبل حدیث رقم:۹۶۹) ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف (۲ ۱۶۴) میں اور امام بیہقی(۳؍۲۷۹:رقم۶۳۴۸) نے اسے موصولا ذکر کیا ہے۔ اور البانی نے اسے ارواء الغلیل (۶۵۱) میں صحیح قرار دیا ہے نیز حافظ ابن حجر کی تغلیق التعلیق(۲؍۳۷۷۔۳۷۸) بھی ملاحظہ کیا جائے۔ حافظ نے انتہائی نفیس بحث فرمائی ہے)
اس عشرہ میں تکبیرات کی عام طور پر دو قسمیں ہیں:
(۱)تکبیراتِ مطلق:
جو ذی الحجہ کے چاند نظر آنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور ایامِ تشریق کے آخری دن تک ممتد رہتا ہے۔ یہ تکبیرات صبح و شام، دن رات، کسی بھی وقت پڑھی جاسکتی ہیں۔ اس کا کوئی بھی وقت مقرر نہیں ہے۔
(۲)تکبراتِ مقید:
یوم عرفہ کی فجر کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے اور ایام تشریق کے آخری دن (۱۳ویں تاریخ ) کی عصر کی نماز کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔ یہ ہر نماز کے بعد پڑھی جاتی ہیں۔ (دیکھیے: فتاوی ابن باز ۱۳؍۱۷، الشرح الممتع للشیخ ابن عثیمین :۵؍۲۲۰۔۲۲۴) یہ حضرت عمر سے ثابت ہے۔ دیکھیے: ابن المنذر فی الأوسط رقم :۲۲۰۰، بیہقی رقم:۶۴۹۶) حضرت علی سے بھی ثابت ہے۔ (ارواء الغلیل:۳ ۱۲۵) حضرت ابن عباس سے بھی منقول ہے۔ دیکھیے:حاکم :۱ ۱۴۴۰ اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (بیہقی رقم ۶۴۹۸) امام نووی فرماتے ہیں: شہروں میں یہ لوگوں کی عادت رہی ہے۔ (دیکھیے: شرح النووی علی مسلم: ۶ ۱۸۰)
تکبیرات کے الفاظ:
تکبیرات کے مختلف الفاظ بسند صحیح ثابت ہیں۔ چند ایک کا تذکرہ مفیدِ مطلب ہوگا۔ ان شاء اللہ
(۱) اَللهُ أَكْبَرُ ، اَللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ

(دیکھیے: مصنف ابن ابی شیبہ:2/165-168، إرواء الغلیل:3/125۔ یہ الفاظ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے صحابی سے ثابت ہیں)
(۲)اللَّهُ أَكْبَرُ ، اللَّهُ أَكْبَرُ ، اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا

(دیکھیے: مصنف عبد الرزاق رقم:۲۰۵۸۱و سندہ صحیح، یہ حضرت سلمان فارسی سے مروی ہے)
(۳)الله أكبر كبيرا ، الله أكبر كبيرا ، الله أكبر وأجل ، الله أكبر ولله الحمد

(دیکھیے: مصنف ابن ابی شیبہ رقم:۵۷۷۳ و سندہ صحیح، یہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے)
(۹)قربانی:
اس عشرۂ ذی الحجہ کا ایک انتہائی مہتم بالشان عمل اللہ کے راستے میں قربانی کرنا ہے۔
جس طرح حاجیوں کے لیے صفا و مروہ کے درمیان ایک دوڑ نہیں بلکہ اس عظیم واقعہ کی طرف غماز ہے جس میں شدتِ پیاس سے ایک بچہ تڑپتا ہے، پانی کے لیے روتا بلکتا ہے اور ایک ماں (جو اپنے بیٹے سے ٹوٹ کر محبت کرتی ہے) بچے کی تڑپ اور اس کا سسکنا بلکنا اسے صفا و مروہ تک پانی کی طلب میں دوڑنے پر مجبور کردیتی ہے اسی طرح قربانی کا معاملہ بھی ہے۔ وہ باپ اپنی ساری محبت پدری کو قربان کرکے اللہ کی محبت میں ڈوب کر اپنے محبوب اور عزیز بیٹے کو راہِ الہی میں قربان کریتا ہے، زمین پر لٹا دیتا ہے، قربانی کی کوشش کرتا ہے، گردن پر چھری پھیرنے کی سعیٔ بلیغ کرتا ہے۔ اللہ اکبر! چھری تو حضرت اسماعیل کو ذبح نہ کرسکی مگر حضرت ابراہیم علیہما السلام نے امت کے لیے ایک شاندار اور قابل تقلید نمونہ (نمونۂ فرمانبرداری، اطاعت کیشی، جذبۂ قربانی) پیش کردیا جو رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے اسوہ ہوگیا۔ انسانی تاریخ میں ڈھوڈھنے سے بھی ایسی مثال نہیں ملتی۔
یہ بیٹے کی قربانی کیا تھی، ایک عمل تھا خواہشات کی قربانی کا، اللہ کی محبت میں اپنی ذات کی قربانی کا، اپنی انا کی قربانی کا، اپنے جذبات کی قربانی کا بلکہ یوں کہیے کہ اللہ کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا ؎
محبت چاہتی ہے پھر وہی بیٹے کی قربانی
لہذا ہمیں بھی اپنی ناجائز خواہشات، نفسانی شہوات، انا، خود سر جذبات کی قربانی پیش کرنے کی آج بھی ضرورت ہے، جیسے کل تھی۔
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے مگر آپﷺ کا وطیرہ رہا ہے۔ آپﷺ نے اپنی زندگی کے کسی بھی موڑ پر ترک نہیں فرمایا، سفر و حضر میں قربانی پیش کی اور اپنے عمل سے قربانی کی اہمیت کو اجاگر فرمایا۔ اس کی تعلیم دی، آپﷺ کے صحابہ کرام نے اسے برتا اور قربانی کرتے رہے۔
لہذا اس عشرے میں قربانی کا عمل بھی انتہائی بابرکت، باعثِ خیر و فلاح اور نجات و صلاح کا ذریعہ ہے اور عظیم ثواب کے سمیٹنے اور بٹورنے کا سبب بھی۔
اللہ کریم سے بہ تضرع و ابتہال دعا ہے کہ وہ ہمیں اس عشرے میں (بلکہ سال کے دیگر تمام ایام میں بھی) نیک اعمال کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے، ہمارے اعمال کو شرف قبولیت سے نوازے اور اپنی رضا کا باعث بنائے۔ آمین

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
2 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
ATIQURRAHMAN

بہت عمدہ
جزاکم اللہ احسن الجزاء آمین

منیر

جزاءکم اللہ خیرا واحسن الجزاء وبارکم اللہ فیکم