علمائے ہندوپاک کے تراجم میں جن کتابوں کو مرجع اور مصدر کی حیثیت حاصل ہے، ان میں ایک اہم کتاب ’’تذکرہ علمائے حال‘‘ بھی ہے۔ اس کتاب کا اصل نام ’’تطییب الاخوان بذکر علماء الزمان‘‘ ہے۔ اس کے مصنف مولانا محمد ادریس نگرامی ہیں۔ کتاب کی اولین اشاعت مطبع منشی نولکشور، لکھنؤ سے۱۸۹۷ء میں عمل میں آئی۔کتاب کے کل صفحات ۱۰۲ ہیں اور مصنف سمیت کل ۴۲۷ علماء کا تذکرہ اس میں کیا گیا ہے۔
مصنف نے کتاب پر اپنے مقدمے میں اس کتاب کی تصنیف کا پس منظر تفصیل سے بیان کیا ہے۔ مختلف مسالک کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے جب مولانا شاہ سید محمد علی کانپوری کی کوششوں سے مجلس ندوۃ العلماء کی بنیاد پڑی تو انہی کی ہدایت پر مصنف نے موجودہ علماء کے حالات قلم بند کرنے کا ارادہ کیا اور اس کے لیے انھوں نے مختلف ریاستوں اور شہروں کے علماء کو ان کے حالات معلوم کرنے کے لیے سیکڑوں خطوط لکھے۔ مصنف نے کتاب کے مقدمے میں ہی ایسے سترہ (۱۷) علماء کے اسمائے گرامی اور ان کے تائیدی کلمات کا تذکرہ کیا ہے جنھوں نے اس طرح کی کتاب کی اہمیت وضرورت کا اظہار کیا ہے اور مصنف کی حوصلہ افزائی کی ہے۔مصنف کو شکایت ہے کہ بہت سے علماء نے اپنے تراجم نہیں لکھے بلکہ خط کا جواب بھی نہیں دیا۔ جن علماء نے اپنے تراجم مصنف کو لکھ بھیجے، ان کے سوانحی خاکے کتاب کی زینت ہیں۔
ان تراجم کی خاص اہمیت اس لیے ہے کہ یہ خود علماء یا ان کے تلامذہ اور منتسبین کے فراہم کردہ ہیں۔ ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور بطور حوالہ ان کو نقل بھی کیا جاسکتا ہے۔ دوسروں کے فراہم کردہ تراجم میں مبالغہ آرائی عام طور پر دیکھنے کو ملتی ہے جو بسااوقات شخصیت کا حقیقی تعارف نہیں کراپاتی۔ اس طرح کی کمزوریوں اور کمیوں سے بڑی حد تک یہ کتاب پاک ہے۔
کتاب کی تصنیف اور اس کی اشاعت پر۱۲۳؍سال بیت چکے ہیں، کاش ہر چالیس پچاس سال بعد اس طرح کی کتابوں کی تصنیف کا سلسلہ جاری رہتا تو ہمیں اسلامیان ہند کی تاریخ کی معرفت میں بہت آسانی ہوتی۔ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہمارا کوئی نوجوان اسکالر اٹھے اور وہ محنت کرکے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کے تراجم اسی طرح جمع کردے اور پھر یہ سلسلہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔
کتاب کی ترتیب ابجدی ہے۔ اس میں کئی ایک اہل حدیث علماء کے تراجم موجود ہیں، جن میں چند مشہور علماء کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں:
مولانا ابومحمد ابراہیم آروی(ص:۸،۹)، مولانا تلطف حسین صدیقی(ص:۲۰)، مولانا شیخ حسین عرب محدث،(ص:۲۲)، مولانا سید ذوالفقار احمد بھوپالی(ص:۲۵)، مولانا محمد شمس الحق عظیم آبادی(ص:۳۱)، مولانا عبدالجبار امرتسری(ص:۳۶)، مولانا عبدالجبار عمرپوری(ص:۳۶،۳۷)، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری(ص:۴۲،۴۳)، مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی(ص:۵۲)، مولانا حافظ عبداللہ غازیپوری(۵۲،۵۳)، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی(ص:۵۵،۵۶)، مولانا محمد اشرف عظیم آبادی(ص:۷۳)، مولانا محمد بشیر سہسوانی(ص:۷۵)، مولانا محمد حسین بٹالوی(ص:۷۷)، مولانا شاہ محمد سلیمان پھلواروی(ص:۷۹)، مولانا سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی(ص:۹۲،۹۳)، مولانا حکیم نصیرالحق عظیم آبادی(ص:۹۴)، مولانا وحید الزماں حیدرآبادی(ص:۹۶)۔
یہاں میں نے پوری کتاب پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد یہ فہرست پیش کی ہے۔ کتاب میں مذکور تمام علمائے اہل حدیث کا احاطہ نہیں کیا ہے، ویسے اس میں کئی ایک سہسوانی علمائے اہل حدیث کے بھی تذکرے ہیں اور علماء کے تراجم تحریر کرتے ہوئے اگر کسی کا تلمذ سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے ہے تو مصنف نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔انھوں نے سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی کا ترجمہ نسبتاً تفصیل سے لکھا ہے اور ان کے ستر (۷۰) تلامذہ کے اسمائے گرامی تحریر کیے ہیں۔
اس وقت ہماری جماعت میں کئی ایک اہل قلم علمائے اہل حدیث کا تذکرہ لکھنے میں مصروف ہیں اور کئی ایک حضرات تاریخ اہل حدیث پر دستاویزی کتابیں ترتیب دے رہے ہیں، چوں کہ یہ کتاب اب کہیں ملتی نہیں، اس لیے مناسب ہوگا کہ حالیہ کتابوں میں کسی ایک کتاب میں مولانا محمد ادریس نگرامی کے تحریر فرمودہ یہ تراجم من وعن شامل کردیے جائیں تاکہ ان سے استفادہ عام ہوسکے۔ مولانا عبدالحکیم عبدالمعبود مدنی صاحب نے تاریخ اہل حدیث (افکار، شخصیات اور امتیازات) کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اور جس کی اب تک تین جلدیں شائع ہوچکی ہیں، بہتر ہوگا کہ ’’تذکرہ علمائے حال‘‘ میں جن علمائے اہل حدیث کا ذکر ہے، ان کو آنے والی کسی جلد میں شائع فرمادیں۔
ما شاء اللہ ایک اہم مرجع کی طرف رہنمائی ہوئی۔ دعا ہے کہ شیخ ایسے ہی لکھتے رہیں اور ہمیں مستفید کرتے رہیں!!