شیخ مقیم فیضی حفظہ اللہ: ایک باکمال خطیب وادیب

آصف تنویر تیمی تاریخ و سیرت

اب تک کی مختصر سی زندگی میں جن اعاظم کو دیکھنے، سننے اور ان کے علم واخلاق سے سیکھنے کا موقع ملا، ان میں ایک اہم نام ہمارے ممدوح شیخ مقیم فیضی حفظہ اللہ وشفاہ کا ہے۔ ان سے میری پہلی ملاقات 2005 میں “المعهد العالي للتخصص في الدراسات الإسلامية” ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی میں ہوئی جب میں جامعہ امام ابن تیمیہ سے فراغت کے بعد وہاں داخلہ لینے گیا۔ یہ معہد کا دوسرا شاندار تعلیمی سال تھا۔ نہایت لائق وفائق اساتذہ یہاں تخصص کے طلبہ کو درس دیتے تھے۔ اساتذہ میں شیخ عطاءالرحمن مدنی (صاحب دریا میں چھلانگ، حال مقیم بہار)، شیخ عبدالمعید مدنی (علی گڑھ)، رفیق احمد سلفی (دار الدعوة، دہلی)، شیخ ریاض احمد سلفی (دار الدعوة، دہلی)، شیخ جمیل احمد مدنی (مفتی مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند)، ڈاکٹر ابو الحیات اشرف (مشہور کالم نگار، دہلی)، شیخ شاہد اقبال سنابلی (بہار) وغیرہ کے علاوہ درجنوں کی تعداد میں یونیورسٹیوں کے پروفیسران گاہے بہ گاہے معہد تشریف لاتے۔
آج بھی مرکزی جمعیت اہل حدیث کے زیر نگرانی معہد جاری ہے۔ اساتذہ اور ذمہ داران میں تبدیلی آچکی ہے لیکن تا حال یہ دو سال کا کورس دعوت اور فتوی نویسی کے میدان میں کام کرنے والے طلبہ اور دعاة کے لیے مفید ہے۔ میں نے مکمل دو سال معہد کا پورا کیا اور میرے ساتھ مختلف ریاست کے طلبہ نے شعبہ دعوت وافتاء سے سندِ فراغت حاصل کی۔
جب تک میں معہد میں زیر تعلیم رہا، پابندی سے صبح گیارہ اور بارہ بجے کے درمیان شیخ مقیم فیضی (شفاہ اللہ) معہد آفس پہنچتے۔ طلبہ، ذمہ داران اور اساتذہ کا جائزہ لیتے، مفید مشورے دیتے۔ گھنٹہ دو گھنٹہ گزار کر پھر اہل حدیث منزل (جامع مسجد) کے لیے روانہ ہوجاتے۔ واضح رہے اس وقت موصوف مرکزی جمعیت کے نائب ناظم کے عہدہ پر فائز تھے۔ اللہ نے غیر معمولی تنظیمی صلاحیت سے انھیں نوازا ہے۔ کم وبیش چار سالوں تک میرا ان سے سیدھا تعلق رہا مگر اس دوران کبھی ان کو مغموم، سست یا بلا عذر آفس سے غائب ہوتے نہیں پایا۔ جب تک مرکز میں رہے ہر شعبہ کو انھوں نے منظم اور فعال رکھا، ہر شعبہ کی فائلیں ان کے آفس میں قرینے سے رکھی ہوتیں۔ ان کے مرکز پہنچتے سارے لوگ چاق وچوبند اور اپنے کام میں مصروف ہوجاتے۔ کارکنان کے دلوں میں ان کا رعب پایا جاتا تھا۔ سب سے ان کے کام اور ذمہ داری کے بارے میں استفسار کرتے اور حسب ضرورت اصلاح کرتے۔ جب تک آفس میں موجود ہوتے کسی کو بلا ضرورت ادھر ادھر آنے جانے کی جرأت نہ ہوتی۔ اللہ نے ظاہری اور باطنی دونوں طرح کے حسن سے انھیں نوازا ہے۔ طبیعت میں نفاست شروع سے رہی۔ کرتا، پاجامہ اور مولانا آزاد والی ٹوپی، لمبے چوڑے بدن پر خوب جمتی، دیکھنے والے دیر تک دیکھتے۔ کچھ دنوں تک دلی جیسے بھیڑ بھاڑ والے شہر میں اسکوٹی سے شاہین باغ (اپنی رہائش) سے مرکز پہنچتے۔ اللہ نے بڑا جگر انھیں عطا کیا ہے۔ گھبرانا اور ڈرنا انھوں نے نہیں سیکھا، ان کی شخصیت صبر اور عزیمت کا پہاڑ نظر آتی ہے۔
مجھے دہلی میں رہنے اور مرکز سے جڑے ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ کئی بڑے شہروں کا سفر کرنے کا موقع ملا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی کو آزمانا اور اس کی حقیقت کو جاننا ہو تو اس کے ساتھ سفر کرلو۔
غالبا 2008 میں ایک ماہ کا مسلسل سفر ان کے ساتھ میں نے کیا۔ شاید ہی مہاراشٹر کا کوئی بڑا شہر ہو جہاں میں ان کے ساتھ ماہِ رمضان میں نہ گیا ہوں۔ اس دوران ان کی شخصیت میں مجھے بے شمار خوبیاں نظر آئیں جن میں سے چند کو ذیل کے سطور میں اختصار کے ساتھ لکھ رہا ہوں:
1-ذوق خطابت: اب تک جن مشاہیر خطبا کو مجھے سننے اور ان سے ملنے کا اتفاق ہوا، ان میں شیخ مقیم فیضی حفظہ اللہ کا قد سب سے اونچا ہے۔ ان کی تقریر سے عوام، علماء، طلبہ اور اسکالرز سب یکساں استفادہ کرتے ہیں۔ جب تک وہ دہلی میں رہے پابندی سے اہل حدیث کمپلیکس کی عالیشان مسجد میں خطبہ جمعہ دیتے رہے۔ لوگ ان کے خطبہ سے اتنے متاثر تھے کہ سَو سَو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے کمپلیکس کی مسجد پہنچ جاتے اور جمعہ کے بعد بھی آفس جاکر شیخ محترم سے استفادہ کرتے۔ شیخ کی تقریر کتاب وسنت کےدلائل، سچے واقعات، حالات کے تقاضے کے عین مطابق ہوتی۔ آواز کی گھن گرج اور زبان وبیان کی چاشنی تو ان کی تقریر کی خاص پہچان ہے۔ جمعہ کا خطبہ ہو یا بڑی بڑی کانفرنسیں یا سیمینار جب مائک پکڑتے تو سارے لوگ دیوانہ وار ان کی طرف ہمہ تن گوش ہوجاتے۔ آپ عربوں کی تقریروں کا ترجمہ بھی شاندار طریقے سے کرتے۔ نظامت کا فریضہ بھی خوش اسلوبی سے نبھاتے۔ یعنی فن خطابت کے مختلف گوشوں میں آپ اپنی مثال نہیں رکھتے ہیں۔ (اللہ ان کو صحت یاب فرما دے تاکہ ہم لوگ پھر سے ان کے علم وفن سے استفادہ کرسکیں)
2-ذوق صحافت: شيخ حفظہ اللہ بحیثیت داعی اور خطیب جنوب سے لے کر شمال تک کے کئی شہروں میں رہے۔ جہاں رہے اپنی بے پناہ صلاحیت سے لوگوں کو متاثر کیا۔ ساتھ ہی خطابت کے ساتھ صحافت سے بھی منسلک رہے۔ کئی کتابوں کا ترجمہ کیا۔ ملک کے مختلف ماہناموں میں لکھتے رہے۔ دینی موضوعات کے علاوہ ادبی تحریریں بھی لکھیں، آپ کا سفرنامہ قابل مطالعہ ہوتا ہے۔ آپ جس موضوع پر لکھیں ادب کی بھرپور مٹھاس آپ کی تحریر میں موجود ہوتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمیشہ آپ کے زیر مطالعہ اچھے مصنفین رہے۔ دینی موضوعات پر بھی انہی مصنفوں کو پڑھا جن کو زبان پر عبور حاصل ہوتا۔ آپ کی متعدد کتابیں مرکزی جمعیت اور صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی سے شائع شدہ ہیں۔ اس کے علاوہ پندرہ روزہ جریدہ ترجمان میں آپ کے قیمتی مقالات موجود ہیں۔
3-ذوق مطالعہ: چونکہ میں شیخ محترم کے ساتھ مرکزی جمعیت میں فریق عمل بھی رہا اور ریفریشر کورس میں ان کے محاضرات کا شاگرد بھی۔ اس لیے میں اس بات کا شاہد ہوں کہ آپ نے کبھی اپنا رشتہ کتابوں سے نہیں توڑا۔ تنظیمی امور سے جیسے فرصت پاتے محو مطالعہ ہوجاتے۔ عام طور پر اپنے میز پر اپنے ذوق کے مطابق مختلف موضوعات کی اہم کتابیں رکھتے اور ان کا مطالعہ کرتے رہتے۔
4-ذوق عبادت: ایک زمانہ تھا کہ دہلی میں مرکزی جمعیت کے افراد کے مابین اختلاف پایا جاتا تھا۔ آپس میں خوب کہا سنی ہوتی، غصے میں جو سُو لوگ ایک دوسرے کو لکھتے اور کہتے۔ اسی زمانے میں شیخ مقیم فیضی (شفاہ اللہ) کو بھی خوب لتاڑا گیا۔ ان کی ذات کو نشانہ بنایا گیا۔ (خیر اللہ کی توفیق اور جماعت کے باشعور افراد کی جہد مسلسل سے اب سارے اختلافات قصہ پارینہ بن چکے ہیں) لوگوں کی رائے شیخ مقیم فیضی حفظہ اللہ کے تعلق سے جو بھی رہی ہو مگر میں نے ان کو سفر وحضر میں عبادت گزار پایا۔ بس ہو یا ٹرین، سفر کی کتنی ہی تھکاوٹ کیوں نہ ہو مگر ان سے نماز فوت ہوجائے، یا بلا پڑھے سو جائیں یہ ممکن نہیں۔ رمضان کے مہینے میں رات بھر بیدار رہتے مگر فجر پڑھ کر ہی سوتے۔ بس اور ٹرین کے سفر میں وقت پر نماز پڑھنے کی عادت ان کی شروع سے رہی ہے۔
5- تنظیمی صلاحیت: اوپر میں عرض کرچکا ہوں کہ دیگر صلاحیتوں کے علاوہ اللہ عز وجل نے آپ کو غیر معمولی تنظیمی صلاحیت عطا کی ہے۔ آپ جہاں رہے جماعت کے امین رہے۔ جماعت کی خدمت کو اپنی زندگی کا شعار بنائے رکھا۔ اپنی صلاحیت سے مرکزی اور صوبائی جمعیتوں کو فائدہ پہنچایا۔ آپ نے جمعیت سے نوجوانوں خاص طور سے یونیورسٹیوں کے طلبہ کو جوڑنے کی کامیاب کوشش کی۔ میڈیا سیل کو مستحکم اور منظم کیا۔ صوبائی اکائیوں کو مرکز سے پروئے رکھا۔ جہاں جہاں انتشار تھا اپنی صلاحیت سے اس کی شیرازہ بندی کی۔
6-طلبہ اور دوستوں کا خیال: عام طور پر بڑے لوگ اپنے اسٹیٹس کے لیے اپنے شاگردوں اور رفقاء کو کنارے لگا دیتے ہیں۔ ان کا خیال نہیں کیا جاتا، ان کو حاشیہ پر ڈال دیا جاتا ہے، کھانے پینے میں ان کو ساتھ نہیں لیا جاتا ہے۔ مگر میں نے شیخ مقیم کو اس سے مختلف پایا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ شیخ مقیم پان اور مٹھائی کے بے حد شوقین تھے۔ ان کے احباب کو بھی بہتر پتہ تھا شیخ کس چیز کے شیدائی ہیں، چنانچہ ان کے طبیعت کے مطابق خاطرداری کی جاتی۔ جماعت کے برزگوں اور نوجوانوں میں آپ بے حد مقبول تھے۔ ممبئی، پونہ، احمد نگر، اورنگ آباد، گلبرگہ، نانڈیر، ناسک، شولا پور وغیرہ شہروں میں آپ کے بے شمار متعلقین اور محبین ہیں۔ دوران سفر جہاں آپ کی دعوت ہوتی مجھے اپنے ساتھ رکھتے۔ بسا اوقات میزبان سے کہتے: مولانا کو کھلائیے، جناب دبلے پتلے ہیں، بہت کم کھاتے ہیں۔ میں ان کی بات سن کر ہنستا اور پیٹ بھر کھا کر اپنے اللہ اور اپنے میزبان دونوں کا شکریہ ادا کرتا۔
آپ کو تقریر کرنے میں بڑا مزہ آتا ہے، میں نے دیکھا کہ جب آپ مرکزی جمعیت کے نائب ناظم تھے تو رمضان میں پورے مہاراشٹر کا دورہ کرتے اور آخری عشرہ ممبئی میں گزارتے اور شاید ہی کوئی ایسی رات ہو جس میں آپ دو تین تقریر مختلف مسجدوں میں نہ کرتے ہوں۔ پھر بھی وہی چستی وہی پھرتی۔ مرکز کے لیے تعاون کے حصول کا وہی جذبہ، کم ہونے کا نام ہی نہ لیتا۔ سیکڑوں لوگ تو محض آپ کی خطابت سے مرعوب ہوکر لاکھوں میں مرکز کو تعاون پیش کرتے۔
یہ چند خوبیاں سردست میرے ذہن میں تھیں جن کو قلمبند کیا، ویسے ان کی ذات خوبیوں سے پُر ہے۔ خامی اور کمی کس میں نہیں ہوتی لیکن ہم محاسن کو اخذ کرتے ہیں اور اسی میں ہماری بھلائی بھی ہے۔
اس وقت ہمارے شیخ مقیم فیضی حفظہ اللہ شدید بیمار ہیں۔ موذی قسم کے مرض سے دوچار ہیں، اس سے قبل کئی آپریشن ہوچکا ہے، لیکن اس وقت وہ کافی کمزور ہوچکے ہیں، مرض کا حملہ زبردست ہے۔ چنانچہ آپ سب سے دعا کی گزارش ہے۔
اللہ ان کو شفائے کامل وعاجل عطا فرمائے۔

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
Mahmood Ahmad

لا بأس طهور إن شاء اللہ
أسئل الله العظيم رب العرش العظيم أن يشفيه شفاء كاملا عاجلا لا يغادر سقما.
اللہ رب العزت آپ کو مکمل طور پر شفایاب فرمائے اور ایسی صحت عطا فرمائے کہ دوبارہ کوئی مرض عود کر نہ آئے.
آمين يارب العالمين

Shafeeq Ahmad Nadvi

الله سبحانه وتعالى أستاذ محترم كو جلد از جلد شفاء كامله عاجله عطا فرما ئے.. آمین ثم آمین

محمد رضوان سلفى مديرجامعة خديجة الكبرى،پورنیہ،بہار

آمین ، یا ربّ العالمین ۔شیخ مقیم صاحب پر مرض کا زبردست حملہ ہے جان کر بڑا افسوس ہوا ، شیخ آصف تنویر تیمی صاحب نے ان کی حیات وخدمات کے بعض گوشوں پر اچھی روشنی ڈالی ہے ۔جزاہ اللہ خیراً۔خاکسار جامعة الملك سعود ریاض کے ماتحتی ادارہ “معهد اللغة العربية لغير الناطقين بها”میں دو سال(91-1990) شیخ مقیم فیضی -شفاہ اللہ- کا رفیقِ درس رہا۔ان کو وہاں بھی ویسا ہی پایا ۔جمعیت اور جماعت سے وابستگی میں بلدِ حرمین شریفین میں بھی کوئی کمی نہیں تھی ۔شیخ عبد المالک مجاہد مدیر عالمی شہرت یافتہ مکتبہ دار السلام ریاض کی سرپرستی… Read more »