عالم اسلام میں خلافت عثمانیہ کا دور ملت اسلامیہ کے عروج کا زمانہ تسلیم کیا گیا ہے، جس میں مسلمانوں نے حرب و فن میں بلکہ ہر شعبہ میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ تقریباً ۶۰۰ سال پر مشتمل یہ سنہری دور ہمارے لیے بہت سی تاریخی باقیات چھوڑ گیا۔ گو آج خلافت نہیں مگر ملت اسلامیہ کے دلوں میں اس کی عظمت و محبت آج بھی ہے، ترکوں کے کچھ تاریخی ورثے اب بھی حجاز مقدس میں محفوظ ہیں، مدینہ میں عنبریہ کا ایک علاقہ ہے، یہاں ریلوے سٹیشن ہے جو عثمانی سلطان عبد الحمید ثانی نے بنوایا تھا، استنبول سے مدینہ تک ریلوے لائن بچھائی گئی تھی، بابِ عنبریہ کے ساتھ سیاہ گنبدوں والی خوبصورت عنبریہ مسجد بھی عثمانی تعمیرات میں سے ہے، جو عثمانیوں کی یاد دلاتا ہے، فن تعمیر کمال ہے، ہر نقش اپنے آپ میں بے مثال ہے۔
بعض تاریخی روایتوں کے مطابق شریف مکہ اور خلیفہ وقت کے درمیان بہت سے اختلافات ہوگئے تھے، اور یہ ریلوے لائن جو کہ مکہ اور طائف تک بچھائی جانی تھی اس کا کام یہیں رک گیا تھا اور نامکمل رہا، عرب بدوؤں اور ترک کے درمیان تعلقات کی خرابی کے چلتے یہ ادھوری رہی، صحرائی ریتوں کے درمیان سخت پتھریلی سرزمیں میں یہ ریلوے لائین بچھائی گئی تھی جہاں کئی مقامات پر اس کے سٹیشن بنائے گئے تھے جن کی نشانیاں آج بھی موجود ہیں جیسے العلا کی سرزمین میں موجود کچھ اسی طرز کا بنا ہوا ریلوے ٹریک ہے، عین زوال کی جہاں بہت سی وجوہات ہیں وہی ایک وجہ یہ بھی مانی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سلع پہاڑی پر موجود حفاظتی دستہ کے لیے چوکیاں بھی موجود ہیں جہاں سے شہر کی نگرانی کی جاتی تھی، اور ان کی پختگی اس بات کی دلیل ہے کہ امن و امان کے قیام کی کوششیں بھی اعلی درجہ کی ہوتی تھیں۔ سورماؤں نے حجاز مقدس کا شرف اور اس کی عظمت دگرگوں ہر دور میں جاری رکھی مگر اتراک کو اس سے خاص نسبت تھی، کیونکہ ان کے یہاں تصوف اور روحانیت بنسبت دیگر قوموں کے اولویت رکھتی تھی۔
اسی طرح کئی عسکری قلعے بھی محفوظ ہیں جو دولت عثمانیہ کے آخری دور میں بنائے گئے تھے، جن میں سے ایک العیون روڈ کی طرف ہے، دوسرا احد پہاڑ کے دامن میں ہے، تیسرا وادی عقیق کے کنارے پر ہے، وہیں سلطان سلیم اوّل نے مدینہ کے چاروں طرف ایک سلسلہ وار دیوار کھڑی کی تھی جو مدینہ کو ایک محفوظ قلعہ کی شکل میں دکھاتی تھی۔ آج بھی اس وقت کی تصویریں موجود ہیں، کچھ باقیات ہیں، کچھ وقت کے ساتھ ساتھ مٹ چکی ہیں اور کچھ امراء و خلفاء کے تسلط کے بعد ناپید ہوچکی ہیں مگر آج بھی جو تاریخی ورثہ ہمارے پاس محفوظ ہے وہ نشان عبرت بھی ہے اور نشان قوت بھی۔ زمانہ کی بدلتی کروٹوں کے ساتھ نسل نو نیا پیام زندگی لکھ رہی ہے مگر اسلاف کی میراث کا جہاں پاس رکھا جاتا ہے وہاں کامیابی مقدر ہوتی ہے، اور جہاں گلوبلائزیشن میں ضم ہوکر فکری و مادی طور پر مفلوج بنا جاتا ہے وہاں امت کے ہاتھ سے دین بھی جاتا ہے اور دنیا بھی جاتی ہے۔
اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی
نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی
آپ کے تبصرے