آنلائن تعلیم کی مخالفت کیوں؟

صفی اللہ محمد الأنصاری تعلیم و تربیت

حالات و ظروف کی نزاکت کے پیش نظر کچھ مدارس و جامعات کی طرف سے آنلائن تعلیم اور کلاسیز کا بندوست کیا جا رہا ہے، تدریب و ٹریننگ کا مرحلہ جاری ہے جو کہ اپنے آپ میں ایک قابل ستائش قدم ہے۔ مگر یہ وقتی کاوش درس نظامی کا مستقل متبادل نہیں ہے بلکہ انتہائی مجبوری اور کوئی آپشن نہ ہونے کی حالت میں ہے تاکہ Some thing is better than nothing [کچھ نہ سے کچھ بہتر ہے] کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے طلبہ کے تعلیمی سلسلے کو برقرار رکھا جاسکے تآنکہ حکومت کی جانب سے کوئی مثبت ہدایت جاری کی جائے۔
مگر اس کے باوجود کچھ علماء و مشائخ اور دوست و احباب اس کی پرزور مخالفت کرتے نظر آرہے ہیں جو کہ میرے خیال سے درست پہلو نہیں ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ آنلائن تعلیم ہمارے مدارس و جامعات کے انوائرنمنٹ میں ایک دشوارکن مرحلہ ہے بلکہ پرائمری درجات کے لیے کچھ زیادہ ہی مسئلہ ہے، جس پر کچھ زاویوں سے بات کی جاسکتی ہے لیکن جب حالات بد سے بد تر ہیں، بروقت تعلیمی معاہدہ و مراکز کے کھلنے کی کوئی امید نہیں ہے ایسے میں کچھ لوگ ہمت جٹا کر مسئلے کا کوئی حل نکالنا چاہتے ہیں اور طلبہ کو اداروں سے جوڑے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا تعلیمی نقصان نہ ہو۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ ایسے وقت میں مطلقا مخالفت کرنا دانشمندی ہے۔
ہندوستان میں انگریزوں کے تسلط کے بعد ان کی مخالفت کرتے ہوئے ابتدا میں کچھ علماء نے انگریزی زبان کو حرام قرار دے دیا تھا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ اس لیے جذبات اور عجلت میں کوئی فیصلہ صادر کرنا حکمت و دانشمندی کا تقاضہ نہیں ہے۔
جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر نیپال، جامعہ محمدیہ منصورہ اور جامعہ سلفیہ وغیرہ نے بھی آنلائن تعلیم کا اعلان کیا ہے ایسے نازک حالات میں ہم ان کے اس اقدام کی تائید اور قدر کرتے ہیں اور باقی جامعات کے منتظمین سے اس قسم کی شروعات کی امید رکھتے ہیں۔ ہمارے غیر مجرب اساتذہ کے لیے گرچہ یہ سلسلہ عجیب لگ رہا ہے اور ایک نئی چیز لگ رہی ہے مگر اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایک زمانے سے اوپن یونیورسٹی اور آنلائن ایجوکیشن سے دنیا مستفید ہو رہی ہے اور خود سعودی عرب کی کئی یونیورسٹیوں میں “التعليم عن بعد” کا سسٹم موجود ہے اور ہم ہیں کہ ایسے حالات میں بھی شدت سے اس کی مخالفت کرنے پر مصر ہیں۔
دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ہمارے کچھ نیپالی علماء و طلباء ZOOM کے ذریعہ فری “آنلائن نیپالی لینگویج” سیکھ رہے ہیں جو کہ محترم عرفان پوکھریل کی ایک بہترین اور کامیاب کوشش ہے، اسی طرح سے بہت سارے علماء و حفاظ بچوں کو آنلائن ایجوکیشن اور حفظ قرآن کے لیے جوڑ رہے ہیں بطور مثال شیخ پرویز عالم مدنی حفظہ اللہ کی فیسبک پروفائل کا وزٹ کرسکتے ہیں جس میں حافظ مطیع اللہ سلفی کے ذریعہ بچوں کی تعلیمی مشق کے زوم ویڈیوز موجود ہیں۔
اور ویسے بھی آج کل میٹیگیں، کانفرنسیز، ڈیبیٹس اور مشاعرے وغیرہ آنلائن ہو رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حالات و ظروف کے اعتبار سے آنلائن تعلیم وقت کی اہم ضرورت اور بہت بڑا چیلنج ہے جس کا مقابلہ کرنے ہی میں بہتری اور کامیابی ہے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چھوٹے بچوں کو گھر کے ذمہ داران خود پڑھائیں یا ٹیوشن وغیرہ کے ذریعہ کسی کے سپرد کردیں اور بڑے بچوں کو آنلائن ایجوکیشن سے جوڑے رکھیں جب تک حالات سازگار نہیں ہوتے۔ اس لیے آنلائن تعلیم کی افادیت سے انکار اور بے جا مخالفت سے بچنا چاہیے اور اگر اعتراض و مخالفت کرنی ہی ہے تو سرکار کی کریں جس نے معابد و مراکز کے علاوہ تمام چیزوں کے افتتاح کی تقریبا اجازت دے دی ہے۔ نہ کہ ان اداروں کی مخالفت کریں جو ان نامساعد حالات میں بھی کچھ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000