اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

رشید سمیع سلفی

تجزیہ و تحلیل عقل و فکر کی ذہنی ریاضت کا نام ہے، احوال وظروف کی نباضی اور آثار وقرائن کی دیدہ ریزی مبصر کو ایسے حقائق سے روبرو کراتی ہے جن سے ظاہر بین نگاہیں محروم ہوتی ہیں، لیکن ذہن رسا کو ایک منطقی نتیجے تک پہنچنے کے لیے اعتدال وانتہا کے درمیان کی حد فاصل کا ادراک بھی ہونا چاہیے، وگرنہ اندھیرے میں تیر چلانا اور ریت کے گھروندوں پر اترانا فراست اور دانشوری نہیں ہے۔ بہتیرے لوگ اس فکری مشق کے ذریعے صحیح نتیجے تک پہنچتے ہیں، وہ غیرمعمولی حالات کے تانے بانے میں پوشیدہ رموز کو پالیتے ہیں، ان سے ارباب نظر نہ صرف مستفید ہوتے ہیں بلکہ ان کی رہنمائی انسانیت کو قبل از وقت ممکنہ نشیب وفراز سے آگاہ بھی کرتی ہے، اس کی مثالیں تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں۔ تقسیم کے واقعے پر مولانا آزاد رحمہ اللہ کے تجزیے اور پیش گوئیاں آج حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں، ان کا ہر تجزیہ مسلمہ صداقت بن چکا ہے، اسی بنا پر وہ بزبان خود کہتے تھے کہ تم پانی اور کیچڑ کو دیکھ کر کہتے ہو کہ بارش ہوئی ہے میں ہواؤں میں سونگھ لیتا ہوں کہ بارش ہونے والی ہے۔

تاریخ ایسی ذکی الحس ہستیوں سے بھری پڑی ہے جن کی نگاہ بصیرت مستقبل کے تیور اور ممکنہ تبدیلیوں کو تاڑ لیتی تھی، انھوں نے اپنی مجتہدانہ بصیرت سے قوم وملت کو فیض پہنچایا، خطروں سے آگاہ کیا، لیکن ماضی میں یہ جسارت وہی اذہان کرتی تھیں جو اس کی اہل ہوتی تھیں۔ لیکن موجودہ دور میں فقہ الواقع کے نام نہاد مجتہدین نے منظر نامہ یکسر تبدیل کردیا ہے، اب سطحی اندازوں اور بے بنیاد واہموں کو تجزیہ اور پیش گوئی کے نام پر صفحات پر انڈیلا جارہا ہے، آئے دن لوگ سستی شہرت کے لیے اپنے خام تجزیوں کی بنا پر ایسی پیشین گوئیاں کررہے ہیں کہ انسان حیران وششدر رہ جائے، پھر اسے حقیقت پر محمول کرکے شیئر در شیئر دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچا دیاجاتا ہے، زیادہ تر تحریریں سنسنی خیز اور دور از کار خدشات پر مبنی ہوتی ہیں، موہوم خدشات کے سائے میں لوگ حالات کو اسی تناظر میں دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ ایسی تحریریں کہیں نہ کہیں منطقی طور پر ایسے مخدوش حالات وخطرات کے لیے راہ ہموار کرتی ہیں جو وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتے، جان لیجیے کہ یہ معاملہ ان فقہی مسائل سے میل کھاتا ہےجو واقع تو نہیں ہوتے لیکن ان کا حکم قبل از وقت ہی بیان کردیا جاتا ہے، جس سے شریعت منع کرتی ہے۔ بعینہ ہم نے ایسے دور از کار اور خوفناک قسم کے بعیدالوقوع تجزیے بھی پڑھے ہیں جن پر ماہ وسال کی گرد جم گئی ہے، اب تجزیہ کاروں کی وہ پیش گوئیاں شرمندہ تکمیل ہونے سے رہیں، لیکن ان کے منفی اثرات کی قیمت کون ادا کرے گا جو اس تجزیے کے نتیجے میں انسانی دل ودماغ اور صحت کو لاحق ہوئے اور اس جھوٹ کا خمیازہ کون بھرے گا جس نے ذہنوں کو گمراہ کیا اور خوف کی نفسیات کا انسانوں کو مریض بنایا، مایوسی کی وہ کہر کیسے چھٹے گی جس کا پیدا ہونا فطری تھا۔ ضروری تھا کہ وقت آنے پر ایسی تحریروں کو منظر عام پر لا کر ان کے جھوٹ اور غلط بیانی کو بے نقاب کیا جاتا، اس پر رد لکھا جاتا، لیکن وقت گذرنے پر کوئی بھی ان کی خبر نہیں لیتا ہے۔

یہ ایک فیشن بن چکا ہے کہ کسی مضطرب دماغ کو شرارت سوجھتی ہے اور وہ دریا کی خاموش سطح پر ہلچل برپا کرجاتا ہے، اپنے مفروضات کی بنیاد پر انسانوں کے مستقبل کا فیصلہ سنانے لگتا ہے اور اپنے لایعنی وساوس کے لیے ذخیرۂ احادیث کو بھی مشق ستم بنانے سے نہیں چوکتا۔ جی ہاں سیاسی مقاصد اور دنیوی جولان گاہوں سے نکل کر یہ مخصوص داؤ پیچ دینی حقائق پر بھی ہاتھ صاف کرنے لگتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب اوبامہ امریکہ کا صدر چن کر آیا تھا تو ایک ایسی ہی دھماکہ خیز تحریر منظر عام پر آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ یہ وہی حبشی ہے جو خانۂ کعبہ کو منہدم کرے گا اور جس کی پیش گوئی حدیثوں میں کی گئی ہے۔ پھر بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ حدیث میں بیان کیے گئے علامات کو نہ صرف اوبامہ کی شباہت پر چسپاں کیا گیا تھا بلکہ اس کے شجرہ نسب کو بھی کھینچ تان کر متعلقہ مفہوم تک پہنچا دیا گیا تھا۔ پھر کیا تھا مضمون کی کاپیاں کار ثواب سمجھ کر بانٹی جارہی تھیں تاکہ خانۂ خدا کو انہدام سے بچایا جاسکے۔

دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ عراق و افغانستان پر امریکی حملے کو فقہ الواقع کے اکسپرٹ پورے یقین کے ساتھ قرب قیامت کی جنگوں پر محمول کررہے تھے اور کتاب الملاحم کی حدیثوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر ان واقعات پر چسپاں کررہے تھے۔ ابھی کورونا بحران کے دور میں ویکسین کے حوالے سے جس انداز کی تحریریں اور تجزیے سوشل میڈیا پر گردش کررہے تھے اور ویکسین میں چپ کی بات کہہ کر ایک ہولناک دجالی نظام کی آمد آمد کی بات کہی جارہی تھی، اسے پڑھ کر محسوس ہورہا تھا کہ یہ لوگ دجال کا تفصیلی انٹرویو لے کر یہ سطور سپرد قلم کررہے ہیں۔ اب پتہ نہیں وہ خفیہ چپ کہاں کہاں پہنچائی جارہی ہے کیونکہ ہر ملک ویکسین کی تیاری میں لگا ہوا ہے، بیماری کو خطرناک سازش کہہ کر جس طرح کے انکشافات کیے جارہے تھے وہ پڑھ کر پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی محسوس ہورہی تھی۔ ملک کو اسپین بنانے کی بات اور ایک طویل مسلم نسل کشی کے خطرناک منصوبے تو پرانے ہوگئے، سی اے اے اور این آر سی پر بھی یہ طبقہ اپنا مخصوص راگ الاپ رہا ہے اور چیزوں کو بڑھا چڑھا کر دکھا رہا ہے۔ دراصل ایک طبقہ ہے جو اپنے مخصوص عینک سے ہر واقعے کو دیکھتا ہے، سنسنی خیز انکشافات کے ذریعہ اپنے تیز طرار قلم اور سیاسی بالغ نظری اور بصیرت کا لوہا منوانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ملکی و عالمی سیاست کے اصل کھلاڑی ہم ہیں باقی لوگ حیض ونفاس طہر وغسل کے مفتی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کی فکری تفریح اور قلمی شوخی کی کھلی اجازت ہے؟ یا اس کے کچھ حدود اور معیار بھی ہیں؟ کیاصحافتی ضابطوں کا اطلاق اس قسم کی تحریروں پر نہیں ہوتا؟ کیا صحیح اور غلط اور سچ جھوٹ کا اعتبار اس کوچے میں نہیں پایا جاتا؟ یا پھر ہر کوئی اپنے وساوس اور ہوائی خیالات کو دانشوری اور پیش گوئی کے نام سے جگہ جگہ انڈیلنے میں آزاد ہے۔ کیا صحافتی اخلاقیات میں قلم کے لیے حزم واحتیاط کا درس نہیں ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بھی ہر قید و بند سے آزاد بدنام زمانہ میڈیا کے نقش قدم پر چلنے لگے ہیں اور خدمت انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر کسب دنیا، سستی شہرت اور مکر وفریب کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے۔
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خُوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا

آپ کے تبصرے

3000