قربانی کے فضائل و مسائل

عبدالسلام صلاح الدین مدنی عبادات


الحمد لله رب العالمين و الصلاة و السلام على أشرف الأنبياء و المرسلين و من تبعهم بإحسانٍ إلى يوم الدين

قربانی کا معنی:
اونٹ، گائے، بیل، خصی، بکری میں جو عید الأضحی اور ایام تشریق میں بطور تقرب إلی اللہ ذبح کیا جاتا ہے اسے قربانی کہا جاتا ہے۔ (فقہ السنة ازسيد سابق:3/195) فیروز اللغات میں لکھا ہے کہ قربانی وہ جانور ہے جو اللہ راستے میں کیا جائے۔ (فیروز اللغات ص ۹۵۳)
قربانی کی حکمت:
قربانی ایک عظیم عمل ہے جو بہت ساری حکمتوں کے پیش نظر انجام دیا جاتا ہے۔ مثلا:
(۱) قربانی اللہ کے تقرب کے حصول اور ثواب الہی کے لیے دی جاتی ہے: فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ [الكوثر:۲]

پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔نیز اللہ تعالی نے فرمایا: قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [الأنعام:۱۶۲]

ترجمہ:آپ کہہ دیجیے کہ میری نماز،میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ کے لیے ہے۔
(۲) امام الموحدین حضرت ابراہیم اور امام الأنبیاء جناب محمد ﷺکی سنت کے طور پر بھی دی جاتی ہے۔ (و فدیناہ بذبحِ عظیم) [الصافات:۱۰۷]

(۳) اپنے اہل و عیال پر بقر عید کے دن توسیع کے لیے بھی قربانی پیش کی جاتی ہے۔

(۴) غرباء، فقراء، مساکین، محتاجگان اور ضرورت مندوں پر صدقہ و خیرات کرنے کے لیےبھی قربانی پیش کی جاتی ہے۔

(۵) شکرانے کے طور پر بھی قربانی دی جاتی ہے۔اللہ نے فرمایا: فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [سورہ الحج: ۳۶]

ترجمہ: اس سے کھاؤاور ضرورت مندوں اور محتاجوں کو کھلاؤ، اسی طرح ہم نے انھیں تمھارے لیے تابع کر دیا تاکہ تم شکر گزاری کرسکو۔
قربانی کے دن کی فضیلت:
بہت سارے واعظین، مقررین اورخطباء ذی الحجہ آتے ہی قربانی کی فضیلت بیان کرتے ہیں۔ ابن العربی المالکی فرماتے ہیں:’’قربانی کی فضیلت میں کوئی بھی صحیح حدیث وارد نہیں ہوئی ہے۔ (عارضۃ الأحوذی ۶؍۲۲۸/ تحفۃ الأحوذی:۵؍۶۲) تاہم قربانی کا دن انتہائی اہم، عظیم اور قابل صد رشک دن ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: إن أعظم الأيام عند الله تعالى يوم النحر ثم يوم القر [ابوداود ۱۷۶۵، مسند احمد:۳۱/ ۴۲۷، ابن خزیمہ۲۸۶۶، ۲۹۱۷، ۲۹۶۶، مستدرک حاکم۴/ ۲۲۱]

ترجمہ: اللہ تعالی کے نزدیک سب سے بڑا دن قربانی کا دن ہے پھر منی میں ٹھہرنے کا پہلا دن ہے)اور قربانی کا دن اس لیے بھی انتہائی اہم اور مہتم بالشان ہے کہ اس دن عید کی نماز کے ساتھ ساتھ اللہ کی بارگاہ میں اپنی گاڑھی کمائی سے خرید کر رضائے الہی کی خاطر ایک بندۂ مومن مہنگا سے مہنگا جانور قربان کرتا ہے اور اس لیے بھی قربانی کے ایام اللہ کے یہاں فضیلت مآب ہیں کہ ان دنوں میں کھانے پینے کے ساتھ ساتھ اللہ کریم کا خوب خوب ذکر کیا جاتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: أيام التشريق أيام أكل وشرب، وفي رواية: وذكر لله[صحیح مسلم:۱۱۳۱]

اور اس لیے بھی یہ ایام انتہائی عظیم ہیں کہ ان ایام میں بکثرت ذکر بجالانے کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا: واذكروا الله في أيام معدودات [البقرة:۲۰۳]

(چند دنوں میں اللہ کا ذکر کیا کرو) میں مذکورہ ایام معدودات بھی ىہى ہیں اس میں کوئی اختلاف نہیں ہےجیسا کہ کئی مفسرین نے نقل فرمایا ہے۔

قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے:

قربانی کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے، اس کے پس منظر پر تامل فرمائیے تو آپ کو بخوبی پتہ چلے گا کہ اس کا سرا حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے سے ملتا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سےذبح کرنے کی بات کہی تو بلا تردد و تامل حضرت اسماعیل علیہما السلام تیار ہوگئے اور کسی پس و پیش کا اظہار نہیں کیا۔اللہ تعالی کو ان دونوں فرمانبردار باپ بیٹے کی ادا اس قدر بھائی کہ رہتی دنیا تک کے لیے اسےسنت بنادیا۔ (سورۂ صافات آیت: ۹۹ سے ۱۰۸ کا مطالعہ ترجمہ و تفسیر کے ساتھ کیجیے، بہت سے راز سربستہ وا ہوں گے اور اطاعت و فرماں برداری کی بہت ساری گرہیں کھلیں گی)

شیخ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’مفسرین کے درمیان اس بابت اختلاف ہے کہ ذبیح کون ہے؟اسماعیل علیہ السلام یا اسحاق علیہ السلام؟ امام ابن جریر نے حضرت اسحاق علیہ السلام کو اور ابن کثیر اور اکثر مفسرین نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح قرار دیا ہےاور یہی بات صحیح ہے۔امام شوکانی نے اس میں توقف اختیار کیا ہے،تفصیل کے لیے دیکھیے تفسیر فتح القدیر اور تفسیر ابن کثیر۔‘‘ [احسن البیان ص ۱۶۶۳]

قربانی کا حکم:
قربانی کے حکم کے تعلق سے علمائے اسلام میں اختلاف رہا ہے کہ قربانی واجب ہے یا سنتِ مؤکدہ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ ائمہ ثلاثہ اور جمہور اہل علم کے یہاں قربانی سنتِ مؤکدہ ہے۔ حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہما) فرمایا کرتے تھے: ھی سنۃ و معروف۔

ترجمہ: یہ سنت ہےاور اسلام میں ایک معروف چیز ہے۔(بخاری:۵۵۴۵) امام ترمذی فرماتے ہیں: اہل علم كے نزديک اسى پر عمل ہے كہ قربانى واجب نہيں ہے بلكہ رسول اللہ ﷺ كى سنتوں ميں سے ايك سنت ہے اور اسى پر عمل كرنا مستحب ہے اور امام سفيان ثورى اور امام ابن مبارک بھی اسى كے قائل ہيں۔ [ترمذى: بعد الحديث رقم:۱۵۰۶] حضرات ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہما) کبھی کبھار قربانی اس خوف سے چھوڑ دیا کرتے تھے کہ اسے واجب نہ قرار دیا جائے۔ [طبرانی رقم: ۳۰۵۸، بیہقی رقم: ۱۹۵۰۸، ارشاد الفقیہ: ۱ ۳۵۲] میں ابن کثیر نے اس کی سند کو جید کہا ہے جبکہ علامہ البانی نے [ارواء الغلیل: ۴؍۳۵۵ رقم: ۱۱۳۹] میں صحیح قرار دیا ہے جو اس بات کی قوی دلیل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے۔ اور دلائل کا جائزہ لینے کے بعد راجح اور قوی یہی معلوم ہوتا ہے کہ قربانی سنتِ مؤکدہ ہے۔ ہاں اگر کسی نے قربانی کے لیے نذر مانی ہےتو ایسی صورت میں اس پر واجب ہوگی جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: یوفون بالنذر [سورۂ الدہر:۷]

ترجمہ: نذر پوری کرتے ہیں۔ نیز نبی کریمﷺ نے فرمایا: مَن نَذَرَ أن يُطيعَ اللهَ فلْيُطِعْه، ومَن نَذَرَ أن يَعْصِيَه فلا يَعْصِه [بخاری رقم:۶۶۹۶]

ترجمہ:جس نے اللہ کی اطاعت کے لیے نذر مانی تو اسے اپنی نذر پوری کرنی چاہیےاور جس نے معصیت کی نذر مانی تو وہ اللہ کی معصیت نہ کرے۔ [فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ۹؍۴۱۳]

سب سے افضل اور بہتر قربانی:

وہ جانور ہےجسے نبیٔ کریمﷺ نے ذبح فرمایا: نبی کریم ﷺ نے سینگ دار چتکبرا دو مینڈھے قربانی کے لیے ذبح کیے۔ آپﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور ذبح کرتے وقت ’بسم اللہ اللہ اکبر‘

کہا اور اپنا پاؤں ان کے پہلو پر رکھا۔ [بخاری: رقم ۵۵۶۵/ مسلم رقم: ۱۹۶۶] اس سے معلوم ہوا کہ سب سے افضل قربانی سینگ دار چتکبرے مینڈھے کی قربانی ہے، کیوں کہ آپﷺ ہمیشہ افضل چیز کا انتخاب فرماتے تھے ۔

قربانی کے جانور کو موٹا کرنا:
قربانی کے جانور کو موٹا کرنا، اسے خوبصورت بنانا، اسے کھلا پلا کر موٹا فربہ کرنا، تعظیم شعائر اللہ میں سے ہےجسے تقویٔ الہٰی کہا گیا ہے۔ یہی بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (و من یعظم شعائر اللہ فإنہا من تقوی القلوب) کی تفسیر میں فرمائی ہے۔ [تفسیرِ طبری :۱۷۱۵۶] صحابۂ کرام قربانی کے جانور کو خوب فربہ کرتے تھے،اس کی نشو و نما میں خوب خوب حصہ لیتے تھے۔حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں: كُنَّا نُسَمِّنُ الْأُضْحِيَّةَ بِالْمَدِينَةِ، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُسَمِّنُونَ [بخاری بعد حدیث رقم: ۵۲۵۷]

ترجمہ: ہم لوگ مدینہ میں قربانی کے جانور کو خوب موٹا کرتے تھے اور مسلمان (یعنی تمام صحابہ) موٹا فربہ کرتے تھے۔

قربانی کا جانور جتنا مہنگا ہواس قدر افضل اور اعلی ہوگا جیسا کہ نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا: أغلاها ثمناً وأنفسها عند أهلها۔

ترجمہ:سب سے بہتر وہ جو قیمت کے اعتبار سے مہنگا اور اس گھر والوں کے یہاں نفیس ہو۔ [بخاری رقم: ۲۵۱۸] امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں: انسان کے نزدیک قربانی کا جانور دیکھنے میں جتنا اچھا لگے گا، اللہ کے نزدیک اتنا ہی بہتر ہوگا۔ [صحیح ابن خزیمہ رقم:۱۴۲۹۱]

سعودى مجلس افتا كا فتوى:
قربانی کے بہتر اور افضل ہونے کے تعلق سے مملکتِ سعودی عرب کی مجلس افتا کا فتوی ملاحظہ فرمائیں: قربانيوں ميں افضل اونٹ، پهر گائے پهر بكرى اور پهراونٹنى يا گائے كى قربانى ميں شركت ہے كيونكہ آپ ﷺ نے جمعہ كے متعلق فرمايا:

“جو پہلى گھڑی ميں (مسجد ميں) گيا گويا كہ اس نے اونٹ كى قربانى كى، اور جو دوسرى گھڑی ميں گيا گويا كہ اس نے گائے كى قربانى كى، اور جو تيسرى گھڑی ميں گيا گويا كہ اس نے سينگ والے مينڈهے كى قربانى كى اور جو چوتھی گھڑی ميں گيا گويا كہ اس نے ايك مرغى كى قربانى كى اور جو پانچويں گھڑی ميں گيا گويا كہ اس نے ايك انڈا قربان كيا‘‘۔

اس حديث ميں محل شاہد اللہ تعالىٰ كى طرف تقرب ميں اونٹ، گائے اور بھیڑ بكريوں كے درميان ايك دوسرے پر فضيلت كا وجود ہے اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ قربانى اللہ تعالىٰ كا قرب حاصل كرنے كا بہت بڑا ذريعہ ہے اور اونٹ قیمت، گوشت اور نفع كے لحاظ سے سب سے زيادہ ہے۔ ائمہ ثلاثہ يعنى امام ابوحنيفه، امام شافعی اور امام احمد بھی اسى كے قائل ہيں اور امام مالک نے فرمايا كہ (قربانى ميں) افضل بھیڑ کا کھیرا ہے پھر گائے اور پھر اونٹ ہے كيونكہ نبى ﷺ نے دو مينڈھے قربان كيے اور آپ ﷺ صرف افضل كام ہى كرتے تھے۔ اس كے جواب ميں يوں كہا جا سكتا ہے كہ يقينا آپ ﷺ بعض اوقات غير افضل كام كو بھى امت پر نرمى كرنے كى غرض سے اختيار فرما ليا كرتے تھے كيونكہ وہ آپ كى اقتدا كرتے تھے اور آپ يہ پسند نہيں كرتے تھے كہ ان پر مشقت ڈاليں ليكن آپ ﷺ نے اونٹ کو گائے اوربھیڑ بكريوں پر فضيلت بيان كر دى ہے جيسا كہ ابھی پیچھے گذرا ہے- واللہ اعلم [فتاوىٰ اسلاميہ :۲؍۳۲۰]

قربانی کی شرائط:

کسی بھی عمل کے لیے شرائط ہوتی ہیں۔جب تک انھیں بجانہ لایا جائےاللہ وہ عمل قبول نہیں کرتا۔ قربانی کے شرائط میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

نیت:

نیت کا خالص ہونا،اسے اللہ کے لیے خاص اور خالص کرنا قربانی کی قبولیت کی سب سے عظیم شرط ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا: قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ [الانعام: 162]

ترجمہ:آپ فرما دیجیے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔

تقوی و للہیت سے سرشار ہوکر قربانی کی جائے:

اللہ نے تعالی ہر عمل میں تقوی کے مقصد کو سب سے مقدم رکھا ہےاور وہی عمل قبول کرتا ہے جو تقوی سے سرشار ہوکر انجام دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: إنما یتقبل اللہ من المتقین [المائدۃ:۲۷]

حلال مال سے قربانی کیا جائے :
قربانی کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ اسے حلال مال سے خریدا گیا ہو۔حرام مال سے خریدا گیا مال ذبح کرنے سے قربانی قبول نہیں ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ [البقرة:172]

ترجمہ:اے مومنو!ہم نے جو تم کو پاکیزہ مال دیا وہی کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو،اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔نیزنبیٔ کریمﷺ نے فرمایا: أيها الناس إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا [مسلم رقم:۲۳۴۶]

ترجمہ:اے لوگو! بے شك اللہ تعالىٰ پاك ہے اور صرف پاكيزہ چيز كو ہى قبول كرتا ہے۔

قربانی سنت کے مطابق ہو:

چنانچہ اگر کسی نے قربانی وقت سے پہلے کرلی تو اس کی قربانی قبول نہیں ہوگی،جیسا کہ نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا: عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: ضَحَّى خَالٌ لِي يُقَالُ لَهُ أَبُو بُرْدَةَ قَبْلَ الصَّلاةِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : شَاتُكَ شَاةُ لَحْمٍ [بخاری رقم: ۵۵۶۰ مسلم رقم:۱۹۶۱]

ترجمہ: حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ میرے ماموں ابو بردہ نے نمازِ عید سے پہلے ہی قربانی کرلی تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمھاری یہ بکری گوشت والی بکری ہے۔(یعنی یہ قربانی گوشت کھانے کے لیے کیا تھا) اس بات پر ابن منذر نے [الإجماع:۱؍۶۰] میں، ابن عبد البر نے [التمہید:۲۳؍۱۹۶] میں اور قرطبی نے [تفسیر قرطبی ۱۲؍۴۳] میں اجماع نقل فرمایا ہے)

قربانی انہی جانور کی جائز ہوگی جو بھیمۃ الأنعام میں سے ہو۔ بھیمۃ الأنعام میں اونٹ، گائے، بکری شامل ہے۔

قربانی کے جانور کے لیے عمر کا اعتبار:

شریعتِ مطہرہ نے قربانی کے جانور کے لیے عمر کا اعتبار کیا ہے۔اس کے بغیر جو قربانی کرے گاقبول نہیں ہوگی۔چنانچہ نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا: لا تذبحوا إلا مسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن [مسلم رقم :۱۱۷]

ترجمہ: مُسِنّہ ہى ذبح كرو، الا يہ كہ تم پر تنگى ہو تو بھیڑ كا کھیرا ذبح كر لو۔ چنانچہ اونٹ ۵ سال میں، گائے دوسال میں اور بکری ایک سال میں دانتا ہوتا ہے،یہ عمومی رواج ہے [الشرح الممتع: ۷؍۴۲۵‘ فتاوی اللجنۃ الدائمہ: ۱۱؍۴۱۴۔۴۱۵]

مسنۃ کی تعریف:

امام نووی مُسنہ کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قال العلماء: المسنة هي الثنية من كل شيء من الإبل والبقر والغنم فما فوقها، وهذا تصريح بأنّه لا يجوز الجَذَع من غير الضأن في حال من الأحوال، وهذا مجمع عليه على ما نقله القاضي عياض‘‘[شرح النووی:۱۱۷؍۱۳]

ترجمہ: مُسنَّہ اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری میں سے دو دانتا یا اس سے بڑی عمر کا ہونا چاہیے۔ قاضی عیاض کے قول کے مطابق اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔

امام شوکانی فرماتے ہیں:
’’علماء کہتے ہیں: مُسنہ اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری میں سے دو دانتا یا اس سے بڑی عمر کا جانور ہوتا ہے اور حدیث میں صراحت ہے۔ [نیل الأوطار:۵؍۱۲۰] یہ واضح ہونا چاہیے کہ حدیث یا لغت میں جہاں (المسنۃ یا الثنی) کے الفاظ آئے ہیں ان میں کوئی فرق نہیں، یہ مترادف الفاظ ہیں یعنی وہ جانور جس کے اگلے دو دانت گر گئے ہوں۔ لہذا اگر دو دانتا جانور مل جائے تو اسی کی قربانی کی جائے گی [سبل السلام از امیر صنعانی: ۴؍۱۳۵۶] اگر دو دانت کا جانور نہ ملے، اس کی حصولیابی مشکل ہوجائے تو بھیڑ کے کھیرے کی قربانی جائز ہوگی جس کی طرف حدیث میں اشارہ بلکہ صراحت موجود ہے۔

بھینس کی قربانی:
بھینس کی قربانی کے بارے میں علمائے اسلام کے مابین شدید اختلاف رہا ہے۔خود علمائے اہل حدیث میں اختلاف پایا جاتاہے۔ چنانچہ بعض اسے صحیح قرار دیتے ہیں،مثلاً علامہ ثناء اللہ امرتسری [فتاوی ثنائی :۱؍۵۲۰]جیسے کبار علمائے اہل حدیث سرفہرست ہیں جبکہ دوسری طرف بعض علمائے اہل حدیث بڑی شدت سے اس کا انکار کرتے ہیں جن میں حافظ عبد اللہ روپڑی [فتاوی اہل حدیث ۲؍۴۲۶۔۴۲۷]جیسے کبار علمائے اہل حدیث شامل ہیں۔عصرِ حاضر کے بعض محققین بھی اس میں سرفہرست ہیں۔برادرم عنایت اللہ سنابلی مدنی نے اس کے جواز کے متعلق ایک کتابچہ(بھینس کی قربانی: ایک علمی جائزہ) بھی ترتیب دیا ہے،جس میں اس کے جواز کو ثابت کیا گیا ہے۔دونوں فریق اپنے اپنے انداز سے دلائل پیش کرتے ہیں۔ جن حضرات نے اسے لغوی اعتبار سے (نوع من البقر) صحیح گردانا انھوں نے اس کی قربانی کے جواز کا فتوی صادر فرمایا اور جنھوں نے بہیمۃ الأنعام کو قرآن کی توضیح و تصریح کے مطابق یہ سمجھا کہ قرآن میں تو باقاعدہ بہیمۃ الأنعام کی صراحت کردی گئی ہے، لہذا انہی موسوم بہیمۃ الأنعام کی قربانی ہوگی، انھوں نے بھینس کی قربانی کو غیر مشروع و غیر مسنون قرار دیا۔ ذاتی طور پر میرا میلان اس کے جواز کی طرف ہے۔ اور یہی قول راحج معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ قرآن و حدیث کو بغیر لغت کے نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔البتہ مجھے اس پر اصرار نہیں، جسے جو دلائل وزنی معلوم ہوں اسے اس پر عمل کرنا چاہیے اور اس موضوع پر شدت اختیار نہیں کرنا چاہیے۔

بے نمازی کی قربانی:
آج کے اس دور میں جس بے رحمی(!!) سے انتہائی شاطرانہ (!!!) طور پر نماز ترک کی جارہی ہے، انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے،اور ایسے ہی لوگ عیدین کے لیے سب سے آگے رہتے ہیں جو نماز و روزہ کی ادائیگی میں پیچھے رہتے ہیں اور عام مشاہدہ یہی ہے کہ قربانی کا سب سے مہنگا جانور وہی خریدتے ہیں اور فخر و مباہاۃ سے کام لیتے ہیں اور غرباء و مساکین کے دلوں کو پاش پاش کرنے کی سعیٔ منحوس کرتے ہیں۔حالانکہ ان کی قربانی مشکوک، مشتبہ اور راجح ترین قول کے مطابق درست نہیں ہے۔کیوں کہ اللہ تعالی نے فرمایا:فصل لربک وانحر (نماز پڑھو اور قربانی کرو) یہاں گوکہ معنی یہ ہے کہ پہلے نماز پڑھوپھر قربانی کرو۔مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نماز پڑھو اور قربانی کرو یعنی جو نماز نہیں پڑھتا اسے قربانی کا کوئی حق نہیں ۔

قربانی کا وقت:
قربانی کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ وقت پر ذبح کیا جائے،چنانچہ اگر کسی نے وقت سے پہلے قربانی کرلی تو اس کی قربانی قبول نہیں ہوگی۔جیسا کہ مذکورہ حدیث میں بیان ہوا۔

قربانی کس دن افضل؟
یقینا قربانی کا دن سب سے افضل دن وہ ہے جسے یوم النحر کہا جاتا ہے (یعنی قربانی کا دن) جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: إن أعظم الأيام عند الله تعالى يوم النحر ثم يوم القر [ابو داود:۱۷۶۵، مسند احمد: ۳۱/ ۴۲۷، ابن خزیمہ: ۲۸۶۶، ۲۹۱۷، ۲۹۶۶، مستدرک حاکم: ۴/ ۲۲۱]
ترجمہ: اللہ تعالی کے نزدیک سب سے بڑا دن قربانی کا دن ہے پھر منی میں ٹھہرنے کا پہلا دن ہے۔اور اس لیے بھی کہ اسی دن نبیٔ کریمﷺ نے اپنی قربانی اللہ کی راہ میں پیش فرمائی اور اس لیے بھی کہ یہی (یوم النحر) ایام قربانی میں سب سے پہلا دن ہوا کرتا ہے۔

ذبح کرتے وقت کیا کہنا چاہیے؟
ذبح کے وقت کی دعا یہ ہے:
إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفاً وما أنا من المشركين، إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلك أمرت وأنا من المسلمين
پھر جب ذبح کرنے لگتے تو کہتے: باسم الله والله أكبر، اللهم هذا منك ولك
بعض علماء نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہےاور لکھا ہےکہ بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر قربانی کرنی چاہیے۔ لیکن محققین علماء نے اسے صحیح کہا ہے،جن میں سرفہرست استادِ گرامی شیخ محفوظ الرحمن فیضی (سابق شیخ الجامعہ جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو ناتھ بھنجن، یوپی) آتے ہیں۔ [سنن ابو داؤد حدیث نمبر:۲۸۰۵/ شیخ محفوظ الرحمن فیضی کی کتاب :چند مضامین فیضی ص؍۱۲۱۔۱۲۷]

افضل یہ ہے کہ انسان خود ذبح کرے:
اگر کسی کو وکیل بنادے تو بھی جائز ہے۔ نبیٔ کریمﷺ نے خود اونٹ (نحر) ذبح کیے، باقی کو ذبح کرنے کے لیے حضرت علی کو مقرر فرمایا جو اس بات کی دلیل ہے کہ کسی دوسرے کو بھی ذبح کرنے کے لیے مقرر کیا جا سکتا ہے۔ [حج سے متعلق حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی لمبی حدیث مسلم رقم: ۱۲۱۸]

قربانی کا جانور بیچا نہیں جا سکتا ہے:
اگر کسی نے کوئی جانور قربانی کے لیے خریداتو اس کا بیچنا قطعی جائز نہیں ہوگا۔ [مسلم رقم:۴۲۲۴] ہاں اگر کوئی اس جانور سے بہتر، افضل، موٹا اور فربہ خریدنے کی نیت سے بیچنا چاہے تو اس کی گنجائش ہوگی۔ کیوں کہ یہ افضل قربانی کی طرف پیش رفت شمار ہوگی اور افضل قربانی بہر حال اہم ہے۔
قربانی کے جانور کے لیے بے عیب ہونا ضروری ہے:
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
أربع لا تجوز في الأضاحي: العوراء البيّن عورها، والمريضة البيّن مرضها، والعرجاء البيّن ظلعها والكسير التي لا تنقي[ابوداؤد رقم:۲۸۰۲/ارواء الغلیل میں البانی اسے صحیح کہا ہے:۱۱۴۸]
ترجمہ:چار جانور قربانى ميں جائز نہيں : واضح طور پر آنكھ كا كانا، ايسا بيمار جس كى بيمارى واضح ہو،ایسا لنگڑا جس كا لنگڑا پن ظاہر ہواور ايسا كمزور جس ميں چربى ہی نہ ہو۔یہاں بطور فائدہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی ایک تقسیم ذکر کرنا مناسب خیال کرتا ہوں۔شیخ فرماتے ہیں،جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
’’عیوب کی تین قسمیں کی جا سکتی ہیں:
پہلی قسم: جس کی دلیل سنت میں واضح طور پر موجود ہےیعنی ایسا کانا جس کا کانا پن واضح ہو،ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو،ایسا لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہواور ایسا کمزور جس میں کوئی چربی نہ ہو۔ان عیوب پر واضح نص موجود ہے کہ ان کی قربانی جائز نہ ہوگی۔جو عیوب ان جیسے ہوں گےیا اس سے اوپر تو ان کو انہی پر قیاس کیا جائے گا۔
دوسری قسم :جن جانوروں کی قربانی ناجائز ہونے کی ممانعت وارد ہوئی ہے،جو عیوب ان کے کان یا سینگ میں ہوتے ہیں چاہے سینگ ٹوٹا ہواہو یا کان پھٹا ہوا ہو چاہے لمبائی میں یا چوڑائی میں یا آدھے سے کم کٹا ہوا ہو،ان کے جائز نہ ہونے کے تعلق سے حضرت علی کی روایت موجود ہے ۔لیکن یہ ممانعت کراہت پر محمول ہوگی،کیوں کہ چار عیوب کو محصور کرنے والی حدیث موجود ہےکہ ان عیوب والے جانور کی قربانی جائز نہ ہوگی۔
تیسری قسم:وہ عیوب جن کے متعلق ممانعت تو وارد نہیں ہے البتہ وہ (عیوب) سلامتی میں قادح ضرور ہیں۔تو ان عیوب سے قربانی کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گااور نہ ہی ان کی قربانی مکروہ ہوگی اور نہ ہی حرام گوکہ لوگوں کے یہاں انھیں معیوب سمجھا جاتا ہو۔جیسے ایسا کانا جس کا کاناپن واضح نہ ہونیز ایسا جانور جو معمولی لنگڑاتا ہویاجس کا دانت ہلکا سا ٹوٹا ہواہو۔چنانچہ یہ عیب تو ہیں مگر ایسے عیوب نہیں کہ جو قربانی کے جائز ہونے میں رکاوٹ ہوں اور نہ ہی یہ عیوب کراہیت کو ثابت کرتے ہیں۔کیوں کہ ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہےاور اصل چیز براءت ہے۔‘‘ [شیخ ابن عثیمین کی الشرح الممتع ۷؍۴۴۰] لہذا معمولی عیب دار جانور کی قربانی باتفاق درست ہے۔ [سبل السلام ۴؍۱۳۵۶، عون المعبود:۸؍۱۸]
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ والْأُذُنَ، ولَا نُضَحِّيَ بِعَوْرَاءَ ، ولَا مُقَابَلَةٍ ، ولَا مُدَابَرَةٍ ، ولَا خرقاء ، ولَا شَرْمَاءَ [ابو داؤد رقم:۲۸۰۴/ترمذی رقم:۱۴۹۸/نسائی رقم :۴۳۷۸/و سندہ حسن]
ترجمہ: رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم قربانی کے جانور کی آنکھ کان اچھی طرح سے دیکھ لیں۔اور ہم ایسے جانور کی قربانی ہرگز نہ کریں جس کے کان آگے سے کٹ کر لٹکے ہوں،یا پیچھے سے کٹ کر لٹکے ہوں۔ایسا جانور جس کے کان طول و عرض میں پھٹے ہوں اور ایسا جانور جس کے کان میں گول سوراخ ہو‘‘۔
حاملہ جانور کی قربانی جائز ہے:
اس میں کوئی حرج نہیں ہے،حضرت ابو سعيد سے روايت ہے وہ كہتے ہيں كہ ميں نے رسول اللہ ﷺ سے پيٹ كے بچے كے متعلق سوال كيا تو آپ ﷺ نے فرمايا “اگر تم چاہو تو کھالو اور مسدد كہتے ہيں كہ ہم نے كہا اے اللہ كے رسول! ہم اونٹنى، گائے اور بكرى ذبح كرتے ہيں تو ہم اس كے پيٹ ميں بچہ پاتے ہيں كيا ہم اسے پھینک ديں يا اسے کھاليں؟ آپ ﷺ نے فرمايا: “اگر تم چاہو تو اسے کھالو كيونكہ اس كا ذبح اس كى ماں كا ذبح كرنا ہى ہے۔ [ابو داود: ۲۸۲۷، یہ حدیث حسن درجے کی ہے۔ نیز دیکھیے: مسند احمد:۳ ۴۳/ صحیح ابن حبان رقم:۵۸۸۹] یہی فتوی علامہ محمد بن إبراہیم آل الشیخ کا تھا، فرماتے ہیں: ’’حاملہ بکری کی قربانی درست ہے،جس طرح سے دوسرے جانور کی قربانی جائز ہے۔شرط یہ ہے کہ وہ عیوب سے پاک ہوجن سے قربانی کے جانوروں کا پاک ہونا ضروری ہے۔ [فتاوی و رسائل محمد بن إبراہیم آل الشیخ ۶؍۱۲۷]
اس صحيح حديث سے معلوم ہوا كہ حاملہ جانور خواہ اونٹنى ہو، گائے ہو يا بكرى ہو اسے قربانى كے ليے ذبح كيا جاسكتا ہے اور اس كے پيٹ كے بچے كو ذبح كيے بغير کھانا درست ہے۔امام خطابی فرماتے ہیں:’’یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مذبوحہ جانور کے بچے کو کھانا جائز ہے،بشرطیکہ کہ اس کی ماں کو ذبح کیا گیا ہو خواہ بچے کو دوبارہ ذبح نہ ہی کیا جائے [عون المعبود:۸؍۳۴۔۳۵]ليكن اگر طبعى كراہت كے پيش نظر اسے پھینک ديا جائے تب بھی كوئى حرج نہيں كيونكہ نبى ﷺ نے صحابہ كو لازمى طور پر پيٹ كا بچہ کھانے كا حكم نہيں ديا بلكہ اسے ان كى طبيعت و چاہت پر ہى معلق رکھا۔
علاوہ ازیں جو حضرا ت اس کی کراہت کی بات کرتے ہیں،یا اسے ناپسند کرتے ہیں،یا اسے حرام و مکروہ سمجھتے ہیں،وہ سراسر غلطی پر ہیں۔یہ انسان کی طبیعت پر موقوف و منحصر ہے چاہے تو کھالے اور اگر طبیعت پر ناگوار گزرے تو اسے چھوڑ دے ،کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
ذبح کرنے کے آداب:
شریعت مطہرہ میں آداب و اخلاق کا عظیم مقام ہےاور اسلام رحمت و عطوفت و شفقت بھرا احسان آموز دین ہے،اس کی تعلیمات کے ہر ہر عنصر سے احسان اور خوش اسلوبی مترشح ہوتی ہے۔قربانی کرتے وقت بھی چند اہم تعلیمات کا خیال رکھا جانا چاہیے،جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔چند آداب ملاحظہ فرمائیں:۔
(۱) جانور کو ذبح کرنے سے پہلے چھری کو خوب تیز کر لیا جائے۔ [مسلم رقم:۱۹۵۵]
(۲) جانور کے سامنے چھری تیز نہ کیا جائے۔ [صحیح الترغیب رقم۱۰۹۰]
(۳) جانور کو قبلہ رخ کرلینا بھی محبوب عمل ہے اور آداب میں شامل ہے۔ [ابو داؤد رقم ۲۷۹۵ٰ سندہ صحیح]
(۴) اونٹ کے علاوہ دوسرے جانور کو لٹاکر ذبح کرنا۔ [مسلم رقم ۱۹۶۷]
(۵) ذبح کرتے وقت ذبیحہ کے پہلو پر قدم رکھنا۔ [بخاری رقم ۵۰۵۸/ مسلم رقم:۱۹۶۶]
(۶) جانور ذبح کرنے سے پہلے دعا پڑھنا۔ [ابوداؤد رقم: ۲۷۹۵]
(۷) اونٹ کو کھڑے کھڑے نحر کرنا۔ اللہ تعالی کے فرمان فاذکروا اسم اللہ علیہا صوافّ [الحج :۳۶] کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ صوافّ کی تفسیر (قیاما) ہے، یعنی اونٹ کو کھڑے کھڑے نحر کرنا۔ [بخاری کتاب الحج باب نحر البد قائما] نبیٔ کریمﷺ کے عمل کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب آپﷺ نے اونٹ ذبح کیے تو کھڑے نحر فرمایا تھا۔ [بخاری رقم:۱۷۱۲/ابوداؤد رقم:۱۷۹۶]
(۸) قربانی کے وقت اگر بسم اللہ کہنا بھول جائے تو کوئی حرج نہیں، کیوں کہ اللہ نے بھول چوک معاف فرمادیا ہے۔ [ابن ماجہ رقم:۲۰۴۳، و سندہ صحیح]
ذبح کرتے وقت اگر جانور کی گردن علیحدہ ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔ [بخاری قبل رقم:۵۵۱۰]
عيدالاضحى اور اس كے بعد تين دن یعنى تيرہ 13/ذو الحجہ كى شام (مغرب تک) تک قربانى كى جاسكتى ہے كيونكہ عيد الاضحى كے بعد 11،12،13 ذو الحجہ كے دنوں كو ايام تشريق كہتے ہيں۔ [تفسير احسن البيان: ص82، نيل الاوطار: ج3/ص490]
اور تمام ايام تشريق كو ذبح كا دن قرار ديا گيا ہے اس كى دليل مندجہ ذيل حديث ہے: (عن جبير بن مطعم عن النبي صلی اللہ علیہ و سلم :كل أيام التشريق ذبح)
ترجمہ: تمام ايام تشريق ذبح كے دن ہيں۔ [احمد رقم:۱۶۷۹۷/ طبراني رقم:۱۵۸۳/ بیہقی رقم:۱۰۵۲۵/ صحيح ابن حبان :۳۸۴۲/ صحيح الجامع الصغير :۴۵۳۷]
ایام تشریق کی راتوں میں بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ [المغنی ابن قدامہ :۹؍۴۵۴/ نووی کی کشف القناع:۳؍۱۰]
اگر کسی کے پاس وقتی طور پر پیسے نہ ہوں اورقرض لے کر قربانی دینے کی نوبت آجائے جسے بعد میں ادا کرنے کی امید ہو تو قرض لے کر قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایسا کرنا ضروری نہیں مگر بہتر ضرور ہے۔[مجموع فتاوی ابن تیمیہ ۲۶؍۳۰۵]
اونٹ میں دس اور گائے میں سات سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں:
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ [مسلم رقم:1318]

نیز نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا:
كنَّا معَ رسولِ اللهِ صلَّى الله عليْهِ وسلَّمَ في سفرٍ، فحضرَ الأضحى، فاشترَكنا في الجزورِ عن عشرةٍ، والبقرةِ عن سبعةٍ [ابن ماجہ رقم:۲۵۵۳ٰ و صححہ الألبانی]

ترجمہ: ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر میں تھے،عید الأضحی آگئی تو ہم اونٹ میں دس آدمی شریک ہوگئے اور گائے میں سات آدمی۔یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اونٹ میں دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں،مگر ایسا ضروری نہیں۔کچھ لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ ان کی غلط فہمی ہے۔

پورے گھر والے کی طرف سے ایک بکری کافی ہے:
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كَانَ الرَّجُلُ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ يُضَحِّي بِالْشَّاةِ عَنْهُ ، وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ [ترمذی رقم:۱۵۰۵/ابن ماجہ رقم:۳۱۴۷/
علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے]

ترجمہ: نبیٔ اکرمﷺ کے زمانے میں ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے پورے گھر والے کی طرف سے ایک بکری کی قربانی دیا کرتاتھا،چنانچہ وہ خود کھاتے تھے اور دوسروں کو بھی کھلاتے تھے۔لہذا ایک بکری ایک گھر کی طرف سے کافی ہے گوکہ اس گھر میں ۱۰۰ سو سے زائد افراد ہوں۔ [الشرح الممتع ۵؍۲۷۵‘ فتاوی اللجنۃ الدائمہ:۱۱؍۴۰۸]
عورتیں بھی قربانی کرسکتی ہیں:
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کو قربانی کرنے کا حکم دیتے تھےاور وہ اپنے ہاتھوں سے قربانی کیا کرتی تھیں۔ [بخاری قبل رقم :۵۵۵۹/ مصنف ابن ابی شیبہ رقم: ۸۱۶۹/ فتح الباری ۱۰؍۲۵] جو لوگ عورتوں کے ذبح کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں وہ سراسر غلطی پر ہیں اور اسوۂ صحابہ سے دور۔

جو قربانی کا ارادہ رکھے وہ اپنے بال، ناخن، چمڑے میں سے کچھ بھی نہ لے:
جیسا کہ نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا:
إذا رأيتم هلال ذي الحجة وأراد أحدكم أن يضحي فليمسك عن شعره وأظفاره[مسلم :۳۶۵۵]
ترجمہ:جب تم ذو الحجہ كا چاند ديكھ لو اور تم ميں سے كوئى قربانى كا ارادہ ركهتا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن كاٹنے سے رك جائے۔ اگر کسی نے اپنے بال ناخن کاٹ لیے(چاہے عمدا کاٹے یا سہوا) تو اسے توبہ و استغفار کرنا چاہیے،اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگااور نہ ہی اسے فدیہ دینا ہوگا۔ [المغنی از ابن قدامہ :۹؍۴۳۷/مرداوی کی الانصاف:۴؍۸۰] یہ حکم صرف ان کے لیے ہے جو قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں۔جن کی طرف سے قربانی نہیں ہوگی ان پر یہ پابندی نہیں ہے۔نیز یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ اگر کسی کا ارادہ بعد میں قربانی کرنے کا بنا اور اس نے ناخن بال عشر ذی الحجہ میں کاٹ لیے تھے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ان شاء اللہ
قربانی کے گوشت کی تقسیم کا مسئلہ:
بعض علما نے كہا ہے كہ قربانى كا گوشت تقسيم كرنے كا افضل طريقہ يہ ہے كہ گوشت كے تين حصے كيے جائيں۔ ايك حصہ خود کھايا جائے، دوسرا حصہ اپنے اقربا اور دوست احباب وغيرہ كو کھلا ديا جائے اور تيسرا حصہ غرباء و مساكين ميں تقسيم كر ديا جائے۔ امام احمد بھی اسى كے قائل ہيں۔ ان حضرات كى دليل ابن عمر سے مروى يہ قول ہے كہ انھوں نے كہا كہ:
’’قرباني كا تيسرا حصہ تمھارے ليے ہے اور تيسرا حصہ تمھارے گهر والوں كے ليے ہے اور تيسرا حصہ مساكين كے ليے ہے‘‘ [مزيد تفصيل كے لیے دیکھیے: المغنى لابن قدامہ :۹؍۳۷۹]
اگر چہ علما نے اس تقسيم كو افضل كہا ہے ليكن يہ تقسيم ضرورى نہيں ہے بلكہ حسب ِضرورت، حالات كے مطابق بھی گوشت تقسيم كيا جاسكتا ہے يعنى اگر فقراء ومساكين زيادہ ہوں تو زيادہ گوشت صدقہ كر دينا چاہيے اور اگر ايسا نہ ہو بلكہ اكثر وبيشتر لوگ خوشحال ہوں تو زيادہ گوشت خودبھی استعمال كيا جاسكتا ہے اور اسى طرح آئندہ ايام كے ليے ذخيرہ بھی كيا جاسكتا ہے كيونكہ قرآن ميں مطلقاً قربانى كا گوشت کھانے اور کھلانے كا حكم ديا گيا ہے جيسا كہ ارشادِ بارى ہے:
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ‌ اللَّـهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ‌ ۖ فَاذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ‌[الحج: ۳۶]

“قربانی کے اونٹ ہم نے تمھارے لیے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمھیں نفع ہے۔ پس انھیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں اسے (خود بھی) کھاؤ اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔
ايک اور آيت ميں ہے كہ’’اپنے فائدے حاصل كرنے كے ليے آجائيں اور ان چوپايوں پر جو پالتو ہيں،ان مقررہ دنوں ميں اللہ كا نام ياد كريں۔ پس تم خود بھی کھاؤ اور فقيروں كو کھلاؤ۔‘‘
درج بالا آيات سے معلوم ہوا كہ حسب ِضرورت قربانى كا گوشت کھایا اور کھلایا جاسكتا ہے، البتہ تين دن سے زيادہ ذخيرہ كرنے سے رسول اللہ ﷺ نے خاص مصلحت كے تحت ابتداے اسلام ميں منع فرما ديا تھا جيسا كہ ايك حديث ميں ہے كہ: “حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روايت ہے كہ نبى ﷺ نے فرمايا: كوئى بھی اپنى قربانى كا گوشت تين دن سے اوپر نہ کھائے۔” [مسلم رقم:۵۱۰۰]
ليكن پھر اس كى اجازت دے دى تھی جيسا كہ ايك دوسرى حديث ميں ہے كہ حضرت سلمہ بن اكوع رضی اللہ عنہ سے روايت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:”تم ميں سے جو قربانى كرے تيسرے دن كے بعد اس كےگھر میں اس ميں سے كوئى چيز باقى نہ ہو۔ پس اگلے سال صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ كے رسول ﷺ! كيا اس سال بھی ہم اسى طرح كريں جس طرح ہم نے گذشتہ سال كيا؟ آپ ﷺ نے فرمايا :کھاؤ اور کھلاؤ اور ذخيرہ كرو۔ بے شك اُس سال لوگ مشقت ميں تھے تو ميں نے ارادہ كيا كہ تم ان كى مدد كر دو۔[بخارى رقم:۵۵۶۹]
مذكورہ دلائل سے يہ بات ثابت ہو جاتى ہے كہ قربانى كے گوشت كے تين يا دو حصے کرکے تقسيم كرنا ضرورى نہيں بلكہ حالات كے مطابق كسى بھی طريقے سے گوشت کھایا اور کھلایا جاسكتا ہے اور ذخيرہ اندوزی بھی کی جا سکتی ہے۔
امام ابن قدامہ رحمه الله فرماتے ہیں:
’’تين دنوں سے زيادہ قربانيوں كا گوشت ذخيرہ كرنا جائز ہے۔‘‘[المغنى :۹؍۳۸۱]

قربانی کا گوشت کفار کو دیا جا سکتا ہے:
قربانی کے اہم مسائل میں ایک مسئلہ قربانی کے گوشت کو کافروں کو دینے سے متعلق ہے کہ کیا قربانی کا گوشت کافروں کو جو مانگنے آتے ہیں دیا جاسکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قربانی کا گوشت انھیں بلاشبہ دیا جا سکتا ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا:
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [الممتحنۃ:۸]

ترجمہ:اللہ تعالی تمھیں ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے جنگ نہیں لڑتے اور تمھیں تمھارے گھروں سے بے دخل نہیں کرتے، بےشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ابن قدامہ فرماتے ہیں:
یہ بھی جائز ہے کہ اس [قربانی کے گوشت] سے کافر کو بھی کھلایا جائے۔کیونکہ یہ نفلی صدقہ ہے، اس لیے یہ ذمی اور قیدی کو کھلانا جائز ہے، جیسے کہ دیگر صدقات انھیں دیے جا سکتے ہیں۔ [المغنی ۹؍۴۵۰/فتاوی اللجنۃ الدائمہ:۱۱؍۲۴۲/مجموع فتاوی ابن باز :۱۸؍۴۸]
قربانی کا گوشت خود کھانا ضروری نہیں ہے:
بعض لوگ جو ایسا سمجھتے ہیں وہ درست نہیں ہے۔ قربانی کرنے والا اگر نہ چاہے تو کھانا ضروری نہیں ہے۔
قربانی کے گوشت سے روزہ افطار کرنے کا عقیدہ درست نہیں ہے:
البتہ یہ آپﷺ کا معمول تھا کہ عید الأضحی کے لیے بغیر کھائے پیے نماز عید کے لیے نکلتے تھے اور گوشت سے کھانے کی ابتدا فرماتے تھے۔کلیجے سے کھانے کی ابتدا بھی کوئی ضروری نہیں۔ [مجموع فتاوی و رسائل شیخ محمد بن عثیمین ۱۶؍۱۲۰]

نبیٔ کریمﷺکی طرف سے قربانی کرنا بدعت ہے:
صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم سے زیادہ کسی کو بھی آپ سے محبت نہیں ہوسکتی ہے۔اس کے باوجود ان میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا ہے،نہ ہی کسی صحیح اور صریح حدیث سے ایسا ثابت ہےجو اس کے بدعت ہونے کی واضح دلیل ہے۔اس تعلق سے جو حدیث مروی ہے وہ ضعیف ہے۔محققین علمائے حدیث نے اس صراحت کی ہے۔[ترمذی رقم:۱۴۹۵/وقال:ھذا حدیث غریب لا نعرفہ إلا من حدیث شریک۔علامہ البانی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔شیخ عبد المحسن العباد (محدث مدینہ) سے جب اس بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:یہ حدیث ضعیف ہے۔صاحبِ تحفۃ الأحوذی نے بھی(ابو الحسناء شیخ عبد اللہ مجہول کہہ کر) اسے ضعیف قرار دیا ہے،دیکھیے: تحفہ الأحوذی ۵؍۵۹]
میت کی طرف سے قربانی:
مستقل طور پرمیت کی طرف سے قربانی نہ رسول اللہﷺسے ثابت ہے، نہ صحابہ کرام سے اور اسلاف عظام سے اور نہ ہی امامانِ دین متبوعین سے۔ نہ ہی ایسی کوئی صحیح اور صریح دلیل موجود ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ علمائے محققین خود اس بارے میں مختلف موقف رکھتے ہیں، تاہم صحیح اور راجح بات یہی ہے کہ میت کی طرف سے مستقلا قربانی درست نہیں ہے۔میت کو فائدہ پہنچانے،ثواب پہنچانے اور اس کے میزانِ حسنات میں اضافہ کے اور بھی صحیح طریقے شریعت نے بتلائے ہیں۔انھیں اپنانا چاہیے۔[تحفۃ الأحوذی ۵؍۶۰]
اگر قربانی کا جانور گم ہوجائے، کہیں بھاگ جائے، چوری ہوجائے، تو مالک کو اختیار ہے:

کہ دوسرا جانور خریدے یا نہ خریدے۔ [السنن الکبری ۹؍۲۸۹/و سندہ صحیح] ہاں اگر لاپرواہی سے ایسا ہوا ہے تو اسے دوبارہ خریدنا ہوگا ۔
قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اگر عیب دار ہوجائے:
تو اسی کی قربانی کی جائے،اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر سے مروی ہے ۔ [السنن الکبری ۹؍۲۸۹ و سندہ صحیح ]
قربانی کے چرم کو اپنے مصرف میں لایا جا سکتا ہے:
اسے دوسرے کو ہدیہ کیا جا سکتا ہےمگر اسے بیچا نہیں جا سکتا۔[فیض القدیر :۶؍۱۲۱‘المغنی ۹؍۱۹۵]
قربانی کا چمڑا قصاب کو بطورِ اجرت دینا بھی ناجائز ہے: [مسلم رقم ۱۳۱۷]قصاب کو بطورِ اجرت معین مبلغ دےمگر قربانی کرنے والے کے لیے جائز نہیں ہے کہ چرم کو بطورِ اجرت دے ۔
چرم ہائے قربانی کو مدرسین کی تنخواہوں، طلباء کے قیام و طعام کے لیے دیا جاسکتا ہے۔یہی فتوی علمائے محققین کا ہے۔ [فتاوی اہل حدیث ۵؍۱۰۶/مجموعہ فتاوی عبد اللہ غازی فوری ۔کتاب الصلاہ ص ۳۰۴]
قربانی کی جگہ صدقہ و خیرات کرنا:
قربانی ایک مستقل امتیازی عبادت ہےاور صدقہ و خیرات دوسری مستقل عبادت، اس لیے ہر عبادت کی اپنی جگہ ایک الگ مقام اور جگہ ہے۔ صدقہ و خیرات کو قربانی کا بدل قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ ایسا حالات کے پیش نظر فتوی دیتے ہیں وہ صریح غلطی پر ہیں، ان کا یہ نظریہ بے بنیاد اور لااساس ہے، اس سے کئی چیزیں لازم آتی ہیں:
(۱) اس بے بنیاد فتوی سے یہ لازم آئے گا کہ قربانی نہ کرکے صلہ رحمی کو بجالایا جائے، کیوں کہ صلہ رحمی تو ضروری ہے۔صلہ رحمی نہ کرنا تو باعث دخول جہنم ہے،کئی لعنتوں کا سبب ہےاور دنیا و آخرت میں بربادی کا سبب بھی ہے۔ (پھر قربانی کا حکم ہی باطل ہوجائے گااور اس کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی)
(۲) اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ اسلام نے (نعوذ باللہ) غریبوں کے مسائل کا حل پیش نہیں کیا،جو سر تاسر اسلام کی تعلیمات کے ساتھ ظلم و جور ہے۔
(۳) جو قربانی کے بدلے صدقہ کا فتوی صادر فرماتے ہیں،اس سے بہت ساری عبادتوں کو یکسر نظر انداز کرنا بھی لازم آئے گا ۔
(۴) اس لیے بھی قربانی کے بدلے صدقہ کرنا درست نہیں کہ اس سے نبی کریمﷺ کی سنت چھوٹ جاتی ہے،جو کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ (خاص کر ایسے وقت میں جبکہ معمولی معمولی امور کی بنیاد پر سنتِ رسولﷺ کو ترک کیاجا رہا ہےاور اس میں کوئی قباحت و شناعت محسوس نہیں کی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ)
اس لیے یہ کہنا کہ قربانی کی جگہ صدقہ و خیرات اور غریبوں میں انفاق سے کام لیا جائے بے بنیاد، مضحکہ خیز اور عجیب و غریب بات ہے۔بے شک آپ صدقہ و خیرات کیجیےلیکن قربانی کا بدل قرار نہ دیجیے۔کیا دونوں ایک ساتھ انجام نہیں دیے جا سکتے ہیں؟ بےشک انجام دیے جا سکتے ہیں،تو پھر قربانی کو صدقہ میں کیوں تبدیل کریں ؟
قربانی سے متعلق بعض اغلاط و بدعات:
(۱) قربانی کرنے سے پہلے جانور کو دھونا۔
(۲) قربانی کرنے سے پہلے پورے گھر والوں کا جانور کے پاس جمع ہونا۔
(۳) قربانی اور عقیقہ ایک ساتھ کرنا:بعض لوگ عقیقہ کے جانور ہی میں قربانی کافی سمجھتے ہیں،جو غلط ہے۔کیوں کہ قربانی ایک الگ چیز ہےاور عقیقہ دوسرا الگ حکم۔ [تحفۃ المولود از ابن القیم ص؍ ۶۸]
(۴) قربانی کے جانور کے پاس جاکر رونا۔
(۵) جانور ذبح کرتے ہوئے سب کا اجتماعی طور پر دعا پڑھنا۔
(۶) قربانی کے جانور پر پھولوں وغیرہ کی بارش کرنا ۔
(۷) بعض لوگوں کا یہ اعتقاد رکھنا کہ قربانی صرف پہلے دن (۱۰ ذی الحجہ)کو ہی جائز ہے۔
(۸) بعض قربانی کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ محرم کی طرح ہیں، نہ عطر لگانا جائز ہے اور نہ ہی عورتوں سے ہمبستری صحیح ہے۔حالانکہ یہ غلط ہے۔
(۹) بعض لوگ جانور ذبح کرتے ہوئے وضو کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔پتہ نہیں یہ امر کہاں سے اٹھالائے ہیں،جبکہ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ [فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ۱۱؍۴۳۲]
(۱۰) قربانی کے بعد داڑھی وغیرہ منڈوانا۔ داڑھی منڈوانا تو ویسے بھی گناہ کا کام ہےلیکن اس اعتقاد کے ساتھ کہ مونچھ داڑھی آج منڈوانے کا دن ہے،شریعت کے ساتھ مذاق ہے ۔
رب کریم ہمیں سنت کے مطابق ہر عمل کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
محمد احسان سراج الدین الفیضی

ماشاءاللہ زبردست بارک اللہ فیکم

سعیدالرحمٰن عزیز

بھینس کو نوع من البقر کہنا صرف زکوٰۃ کے باب میں ہے۔ بھیمۃ الانعام کی تشریح سورۃ انعام میں کر دی دی گئی ہے، مجھے تعجب ہے اہلِ حدیث کے بعض لوگوں پر کہ قرآن و حدیث کے دلائل اور وضاحت کو چھوڑ کر صرف چند علماء کی تصریحات پر بھروسہ کرکے ایک غیر شرعی چیز کو شاملِ شریعت کررہے ہیں۔ مجھے تعجب ہے بات بات میں حدیث قرآن کی دلیل مانگنے والے حضرات غیر شرعی چیز کو تقرب الی اللہ کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ اگر بھینس نوع من البقر ہے تو کسی محدث نے اپنی حدیث کی کتاب… Read more »