جماعت اہل حدیث کی فکری وعملی کمزوریاں
مولانا سید داود غزنوی اور مولانا محمد حنیف ندوی کی نظر میں
جماعت اہل حدیث اپنے جن اصولوں کے لیے پہچانی جاتی ہے اور جس چشمۂ صافی سے اس کے جملہ اعتقادات واعمال سیرابی حاصل کرتے ہیں،ان کو دیکھتے ہوئے پورے یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسلام جو دنیائے انسانیت کے لیے سراپا رحمت ہے ، اس کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی جماعت اہل حدیث کرتی ہے۔تاریخ کے مختلف ادوار میں حالات کے جبر کی وجہ سے جن فرقوں اور مسلکوں کا جنم ہوا اور انھوں نے اللہ کے آخری محبوب دین کی جس انداز میں ترجمانی کی ،اس میں حق اور باطل اس طرح گڈمڈ ہوتے چلے گئے کہ کسی عام انسان کے لیے دونوں کے درمیان فرق وامتیاز کرنا آسان نہیں رہا۔چاروناچار سہل پسند قیادت یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ سب کچھ ٹھیک ہے ،یہ اپنے اپنے ڈھنگ سے اسلام کی ترجمانی ہے ،منزل سب کی ایک ہے،راستے اگرچہ الگ الگ ہیں۔یہی بات تو وہ بھی کہتے ہیں جو دنیا میں موجود تمام ادیان ومذاہب کو برحق ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ نتیجے کے اعتبار سے دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت آج کئی رنگوں کے چشموں سے دیکھی جاتی ہے اور توحید اور شرک، سنت اور بدعت ہم دوش ہوچکے ہیں ۔کہیں اللہ کی توحید غیراللہ سے عقیدت واحترام کے نام پر دھومل نظر آرہی ہے تو کہیں رسالت محمدی امامان امت کی غیر شرعی تقلید کی وجہ سے اپنی مکمل روشنی سے مردہ دلوں کو زندگی عطا کرنے سے عاجز دکھائی دیتی ہے۔ایمان بالرسالت کے دعوے تو ہر گروہ کررہا ہے لیکن رسول گرامی ﷺ کو واحد مطاع مطلق تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔مدارس وجامعات کے نصاب تعلیم پر جن حضرات کی تنقیدی نظر ہے،انھیں معلوم ہے کہ اقوال رجال اور کمزور اصولوں کی تفہیم کرانے کے بعد احادیث نبویہ کو صرف ایک سال میں بطور تبرک پڑھاکر سند فضیلت عطا کردی جاتی ہے۔ کیا ایمان بالرسالت کا تقاضا یہی ہے ۔جس مضمون کو درجہ اول میں رہنا چاہیے اور مسلسل رہنا چاہیے ،اس کے ساتھ یہ سلوک کیا ہمارے فکر وعمل کے قبلے کو درست کرسکتا ہے۔
فرقوں اور مسلکوں کی اس دنیا میں ایک جماعت تھی جس نے شب دیجور میں توحید وسنت کی شمع جلائے رکھنے کی قسم کھائی تھی لیکن برصغیر کی مخصوص دینی فضا میں سانس لیتے لیتے گردوپیش میں اٹھنے والے دھوئیں اسے اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔وہ اپنی توانائی اسلام کی آفاقیت اور اس کی عالم گیریت پر صرف کرنے کی بجائے چھوٹے چھوٹے گھروندوں سے الجھنے میں ضائع کررہی ہے۔مکمل اسلام کی ترجمانی کرنے کی بجائے اس نے اپنی مصنوعی ترجیحات طے کرلی ہیں۔احسان اور تزکیہ کے زریں اصولوں سے اپنے اخلاق وکردار کو بلند اور آراستہ کرنے کی بجائے عام دنیا پرستوں اور درہم ودینار کے بندوں کی راہ پر چل کھڑی ہوئی ہے۔سلبیات کی فضا میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد ایجابیات کی طرف اس کی کوئی توجہ نہیں رہی۔منفی سوچ کو اس نے خدمت اسلام سمجھ لیا ہے اور مثبت سوچ سے اس کی زندگیاں خالی ہوگئی ہیں۔سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ اسے اب اپنی ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کا احساس بھی نہیں رہا۔مولانا رفیق احمد رئیس سلفی (علی گڑھ) نے کئی ایک مضامین میں اسے جگانے کی کوشش کی اور وہ اب بھی اسی راہ پر گامزن ہیں لیکن مجموعی طور پر بے حسی اس قدر عام ہوچکی ہے کہ اسے اب اپنے منصب اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی نہیں رہا۔اس کے کئی ایک نادان دوست اور خیرخواہ اب بھی اسے تھپکی دے دے کر سلارہے ہیں اور سرعام نعرۂ مستانہ بلند کررہے ہیں کہ یہاں سب کچھ خیریت ہے۔جماعت اگر اپنی نظریاتی اور عملی کمزوریوں کو دور کرلے تو آج بھی وہ سماج ومعاشرے میں اپنا موثر کردار ادا کرسکتی ہے۔مولانا ابوالکلام آزاد کی وہ تجاویز جو جماعت میں نئی روح پھونکنے کے لیے انھوں نے مولانا محی الدین احمد قصوری کے سامنے پیش کی تھیں ،اس کو ہمارے بہت سے قارئین نے سمجھا اور اس پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا ،یہ ہمارے لیے اطمینان کی بات ہے،اسی طرح کی ایک لاجواب تحریر آج قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے ،امید ہے کہ ہمارے نوجوان سلفی قلم کار اس سے بھی مستفید ہوں گے اور اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں گے۔
یہ تحریر اگرچہ جماعت کے مفکر اور دانش ور عالم دین مولانا محمد حنیف ندوی کی ہے لیکن اس میں جماعت کے جید عالم دین مولانا سید داود غزنوی رحمہ اللہ کا خون جگر شامل ہے بلکہ ان کی بے چینی اور اضطراب کو مولانا ندوی نے اپنے خاص اسلوب میں پیش کیا ہے ۔اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ کافی عرصے سے جماعت کو بے دار کرنے کی مہم جاری ہے،اب یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ خواب غفلت سے یہ کب بیدار ہوگی اورکب اپنا وہ فریضہ ادا کرے گی جس کا اس نے روزاول میں عہد کیا تھا۔(ادارہ)
پاکستان بن جانے کے بعد مولانا مرحوم کی تمام تر توجہ جمعیت اہل حدیث کی تنظیم پر مرکوز رہی۔ نامناسب نہ ہوگا اگر میں اس مرحلہ پر نظریہ اہل حدیث کے مخصوص ذہن ومزاج کے بارے میں ان تصورات کی چہرہ کشائی کا فریضہ انجام دوں جو اکثر خلوتوں میں ہمارے ہاں زیر بحث رہے۔ خلوتوں کے لفظ سے کسی قسم کی غلط فہمی کو نہیں ابھرنا چاہیے۔ بات صرف یہ ہے کہ موت سے پہلے ادھر چند سالوں سے میرے ساتھ مرحوم کے تعلقات خاطر اور رسم و راہ کا یہ انداز قائم ہوگیا تھا کہ میں دوسرے تیسرے روز ضرور حاضری دیتا اور اگر میں کسی وجہ سے نہ آپاتا تو بلاوا آتا اور کبھی کبھی خراماں خراماں خود بھی میرے ہاں تشریف لے آتے۔ بہرحال ہم جب بھی ملتے، یہ اہتمام کیا جاتا کہ گفتگو اور بات چیت کے لیے مکمل یکسوئی حاصل ہو۔ اس کے بعد مشروبات کا دور چلتا۔ لطائف کا تبادلہ ہوتا اور خالص علمی مسائل پر بحث و تمحیص کے گوناگوں دریچوں پر دستک دی جاتی۔ اس میں صرف و نحو، ادب، تفسیر، علم الکلام، فقہ اور حدیث کے غوامض پر کھل کر اظہار خیال ہوتا اور اس اثنا میں یہ محسوس کرکے مجھے بے حد مسرت ہوتی کہ روایت ودرایت کے فاصلے سمٹ رہے ہیں اور قدیم و جدید کا تضاد دور ہورہا ہے۔ بارہا ایسا ہوا کہ مولانا نے اپنی دلآویز اور روایتی مسکراہٹ کے ساتھ نہ صرف میرے بعض تفردات فکری کی پرزور تائید کی بلکہ اس کے لیے شواہد بھی مہیا کیے۔ خلوت کے یہ لمحے علم وتحقیق کی خشک بحثوں سے گزر کر آخر تصوف، احوال آخرت اور قلب وروح کے جائزہ پر ختم ہوجاتے۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ اس اثنا میں ہم میں سے کس کی آنکھیں پہلے اشکبار ہوتیں، البتہ اتنا خوب یاد ہے کہ دونوں روتے اور دیر تک روتے رہتے۔
نظریہ اہل حدیث سے متعلق ان کے ذہن میں تضادات کا ایک واضح نقشہ تھا اور وہ بہ دل چاہتےتھے کہ اس سے مخلصی حاصل کرنے کی جدوجہد میں اہل حدیث علماکو شرکت کی دعوت دی جائے مثلاً فکر ونظر کا یہ پیمانہ جسے ہم مسلک اہل حدیث سے تعبیر کرتے ہیں، ایک طرف تو اس بات کا متقاضی ہے کہ ہمارا تعلق پورے اسلام سے ہو، کتاب وسنت کے بیان کردہ مکمل نظام حیات سے ہو جس میں عقائد سے لے کر عبادات اور عبادات سے لے کر معاملات واخلاق تک ہر ہر شے داخل ہو، اس شرط کے ساتھ کہ ہم اس نظام حیات کو براہ راست کتاب اللہ ، سنت رسول ﷺاور سلف کی تصریحات سے اخذ کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ نقطہ نظر کسی درجے میں بھی جزوی اسلام کا قائل نہیں اور فرقہ وارانہ تعصبات کا حامی نہیں بلکہ ایک طرح کی کلیت اور وسعت و جامعیت اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے ، لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ ہم بہت بحث و مناظرہ کی وجہ سے مسائل کی ان چند گنی چنی دیواروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں جن کو گروہی عصبیت اور تنگ نظری نے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ آج اہل حدیث کے معنی ایسے گروہ کے نہیں کہ جن کی نظر اسلام کے پورے حکیمانہ نظام پر ہو، جن کے عمل سے اسلام کی تمام اخلاقی، اجتماعی اور روحانی قدروں کا خصوصیت سے اظہار ہوتا ہو اور جو روزمرہ کی عام زندگی میں ہر ہر قدم پر کتاب و سنت کی تصریحات کے متلاشی ہوں۔ آج اہل حدیث کے معنی اس کے برعکس ایک ایسے شخص یا جماعت کے ہیں جن کی دلچسپیوں کا محور عموماً صرف چند مسائل، چند بحثیں اور چند فرسودہ مناظرانہ کاوشیں ہیں۔
دوسرا تضاد جس کو مولانا مرحوم تصور اہل حدیث کے بارے میں شدت سے محسوس کرتے تھے، وہ اس دیرینہ تغافل سے عبارت ہے جس کو ہم نے عدم تقلید کے سلسلہ میں روا رکھا ہے۔ عدم تقلید سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ ہمیں مسائل کے اخذ و قبول میں کسی فقہی مدرسہ فکر کی پابندی نہیں کرنا چاہیے۔ عدم تقلید کا یہ مفہوم محض سلبی نوعیت کا ہے جس سے کسی تہذیبی خاکے کی تعمیر نہیں ہوتی۔ عدم تقلید کے ایجابی اور تہذیب آفریں معنی یہ ہیں کہ جہاں ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم وقت و زماں کے فاصلوں کو پھلانگ کر سمع واطاعت کی ایک ہی جست میں اس پاکیزہ ماحول میں پہنچ جائیں جہاں لسان نبوت اور نطق پیمبر براہ راست زمزمہ پیرا ہے، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اس پاکیزہ ماحول، ان قیمتی اقدار اور فکر ونظر کی اس وسیع تر فضا کو موجودہ حالات پر بھی موجودہ حالات پر بھی منطبق کرنے کی سعی بلیغ کریں اور سوچنے کا انداز یوں قائم کریں کہ اگر آج اسلام نازل ہوتا ہے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں آنحضرت ﷺ تشریف لاتے اور پوری انسانیت کو اپنا مخاطب قرار دیتے، تو اسلام کا تصور تابش وضو کی کن کن صورتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ مولانا اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ فرض اہل حدیث پر عائد ہوتا ہے کہ وہ کتاب وسنت کی روشنی میں مسائل زیر بحث پر مجتہدانہ غور کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ فقہاءمتاخرین کے فیصلہ کے علی الرغم اجتہاد کے دروازے آج بھی کھلے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ایک عرصہ سے اہل حدیث اجتہاد کی اہمیت، ضرورت اور فوائد سے ناآشنا ہیں۔
تضاد کی تیسری صورت جس سے مولانا ازحد شاکی اور پریشان تھے، جماعت اہل حدیث کے مزاج کی موجودہ کیفیت ہے۔ مولانا کے نقطہ نظر سے اسلام چونکہ تعلق باللہ اور اس کے انعکاسات کا نام ہے جو معاشرہ اور فرد کی زندگی میں لطائف اخلاق کی تخلیق کرتے ہیں۔ اس لیے تحریک اہل حدیث کا اولین مقصد یہ ہونا چاہیے کہ جماعت میں محبت الہٰی کے جذبوں کو عام کرے۔ تعلق باللہ کی برکات کو پھیلائے اور اطاعت وزہد، اتقاوخشیت اور ذکر وفکر کو رواج دے۔ لیکن ہماری محرومی وتیرہ بختی ملاحظہ ہو کہ عوام تو عوام، خواص تک تصوف واحسان کی ان لذتوں سے ناآشنا ہیں۔ حالانکہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے کہ خواص تو خواص ہمارے عوام تک زہد وورع کا بہترین نمونہ سمجھے جاتے تھے۔ آپ پوچھیں گے کہ مولانا مرحوم کے نزدیک ان تضادات سے چھٹکارا پانے کا طریق کیا تھا۔ بارہا یہ مسئلہ مولانا کے ہاں زیر بحث آیا۔ ان کی اس سلسلہ میں جچی تلی رائے یہ تھی کہ ہمیں تعلیم وتربیت کے پورے نظام کو بدلنا چاہیے اور اس کو ایسی شکل دینا چاہیے کہ جو جماعت اہل حدیث کی تعمیر نو کے لیے زیادہ سازگار ثابت ہوسکے اور اس کے فکر وعقیدہ کو ایسی استوار بنیادوں پر قائم کرسکے کہ جن میں تضاد اور الجھاؤ کی خلل اندازیاں نہ پائی جائیں، جو ان میں زندگی کی نئی روح دوڑا سکے۔ (مولانا داؤد غزنوی: سید ابوبکر غزنوی ص42-43-44)
نوٹ: اس کتاب کی پی ڈی ایف کاپی ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں:
آپ کے تبصرے