برصغیر ہند وپاک کی علمی سطح پر طلبہ، علما، دانشوران اور دیگر اہل علم جن اعاظم کا نام بکثرت سنتے، پڑھتے اور فیض یاب ہوتے ہیں ان میں ایک اہم نام نامور عالِم دین، ادیب، محقق، مورخ، ناقد اور دار المصنفین اعظم گڑھ کے مؤسس اور ندوة العلماء لکھنو کے روح رواں اور سرخیل علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کا ہے۔
ان کی خدمات اور کارنامے بار بار اہلِ ذوق کو مہمیز لگاتے ہیں کہ ان کو مزید پڑھا جائے، ان کی علمی وتحقیقی کتابوں سے استفادہ کیا جائے۔ یقینا ان کے علم وفن میں بڑی بوقلمونی اور تنوع تھا۔ انھوں نے علم وحکمت کا جو ادارہ قائم کیا، اس کی شہرت عرب وعجم میں ہوئی اور اس کی کاوشوں سے مشرق ومغرب نے یکساں فائدہ اٹھایا۔
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کس فقہی مسلک سے منسلک تھے اس کی وضاحت مشکل ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ موصوف شرکیات اور بدعات سے گریزاں تھے، آخری عمر میں انھوں نے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اور اس عمل پر اعتراض کرنے والوں کو جواب بھی دیا۔ جنوری 1943ء کے معارف کی ایک تحریر سے سید صاحب کے فقہی میلان پر روشنی پڑتی ہے:
“مذہبی مسائل کی تحقیقات میں میرا یہ عمل رہا ہے کہ عقائد میں سلف صالحین رحمہم اللہ کے مسلک سے علاحدگی نہ ہو، البتہ فقہیات میں کسی ایک مجتہد کی تقلید بہ تمامہ نہیں ہوسکی، بلکہ اپنی بساط بھر دلائل کی تنقید کے بعد فقہا کے کسی ایک مسلک کو ترجیح دی ہے، لیکن کبھی کوئی ایسی رائے اختیار نہیں کی، جس کی تائید ائمہ حق میں سے کسی ایک نے بھی نہ کی ہو، خصوصیت کے ساتھ مسائل کی تشریح میں حافظ ابن تیمیہ، حافظ ابن قیم اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہم کی تحقیقات پر اکثر اعتماد کیا ہے، ایسا بھی دو چار دفعہ ہوا کہ ایک تحقیق کے بعد دوسری تحقیق سامنے آئی ہے، اور اپنی غلطی ظاہر ہوئی تو بعد کے اڈیشن میں اس کے مطابق تبدیلی کردی ہے”۔
ذیل کے سطور میں علامہ موصوف کی زندگی کے بعض ان گوشوں پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی جائے گی جن سے اہل علم مستفید ہوسکتے ہیں۔ بطور خاص ان کی زندگی کے وہ نکات بیان کیے جائیں گے جن سے مدارس وجامعات کے طلبہ بہرہ ور ہوسکتے ہیں۔ اور میری باتوں کی مکمل تصدیق علامہ موصوف کے شاگرد اور رفیقِ کار سید صباح الدین عبد الرحمن کی کتاب(بزم رفتگاں، حصہ اول) سے ہوسکتی ہے، اس لیے کہ اس مضمون کی تیاری میں سید عبد الرحمن رحمہ اللہ کے کئی مقالات میرے سامنے رہے ہیں، اگر یوں کہا جائے کہ میں نے ان کے متعدد مضامین سے کشید کرکے قارئین کے لیے یہ مضمون تیار کیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
حالاتِ زندگی
ولادت ووطن:
علامہ سید سلیمان ندوی رحمتہ اللہ کی ولادت بروز جمعہ بتاریخ 22/نومبر 1884ء مطابق 23/صفر 1302ھ میں دیسنہ، ضلع پٹنہ، بہار میں ہوئی۔
خاندان:
سید صاحب اس گاؤں کے اس خاندان کے لعلِ بے بہا تھے، جو دینی علوم کے ساتھ دینداری اور تقوی میں مدتوں سے ممتاز تھا۔ ان کے دادا مولوی محمد شیر صاحب اپنے زمانے کے مشہور طبیب تھے۔ ان کے والد بزرگوار جناب سید ابو الحسن صاحب بھی طبیب حاذق تھے، زہد وتقوی وراثت میں ملا تھا، متانت وسنجیدگی، تہذیب وشائستگی اور نفاست ونظافت کے بھی نمونہ تھے۔ گھر کے سارے لوگ ان کا بے حد احترام کرتے اور ان کے سامنے مؤدب ہوکر بیٹھتے تھے۔
ابتدائی تعلیم:
مکتب کی تعلیم اپنے گاؤں کے معلم خلیفہ انور علی اور پھر مولوی مقصود علی سے پائی، اردو اور فارسی کی ابتدائی کتابیں ختم کرنے کے بعد عربی میں میزان ومنشعب اپنے بڑے بھائی مولوی ابو حبیب صاحب سے پڑھی۔ اسی عمر میں اپنے بھائی سے مولانا شاہ اسماعیل رحمہ اللہ کی کتاب “تقویة الايمان” کا درس بھی سنا اور کافی متاثر ہوئے۔
اس کتاب اور اس کی تاثیر کے بارے میں خود علامہ موصوف ایک تحریر میں لکھتے ہیں:
“یہ پہلی کتاب تھی جس نے مجھے دینِ حق کی باتیں سکھائیں، اور ایسی سکھائیں کہ اثنائے تعلیم ومطالعہ میں بیسیوں آندھیاں آئیں اور کتنی دفعہ خیالات کے طوفان اٹھے مگر اس وقت جو باتیں جڑ پکڑ چکی تھیں، ان میں سے ایک بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکی، علم کلام کے مسائل، اشاعرہ ومعتزلہ کے نزاعات، غزالی ورازی وابن رشد کے دلائل یکے بعد دیگرے نگاہوں سے گزرے مگر اسماعیل شہید کی تلقین بہرحال اپنی جگہ پر قائم رہی”۔
بڑے بھائی کے علاوہ عربی کی ابتدائی کتابیں مولانا محیی الدین( سجادہ نشیں خانقاہ پھلواری شریف) سے پڑھیں۔ پھلواری شریف کے قیام ہی کے زمانے میں شاہ سلیمان صاحب پھلواروی سے منطق کے ابتدائی دو چار سبق بھی پڑھے۔ پھلواری سے مدرسہ امدادیہ دربھنگہ (آج بھی یہ مدرسہ دربھنگہ میں مولانا امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کی یاد گار ہے) بھیج دیے گئے، جہاں چند مہینے رہ کر ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
ندوہ میں داخلہ: 1901ء میں دار العلوم ندوة العلماء لکھنؤ میں داخل ہوئے، یہاں سات سال رہ کر تعلیم مکمل کی۔
مولانا شبلی کا سایۂ عاطفت:
1905ء میں جب مولانا شبلی دار العلوم ندوہ کے معتمد تعلیم ہوکر لکھنؤ آئے تو طلبہ نے اس خوشی میں جلسے کیے، تقریریں کیں، نظمیں لکھیں، سید صاحب نے بھی خوشی کے اظہار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا فارسی میں قصیدے کہے۔
مولانا شبلی میں جوہر شناسی کا خاص مادہ تھا، اس لیے ندوہ میں آتے ہی اس جوہر قابل کو اپنے دامنِ تربیت میں لے لیا، ان کے پاس مصر وشام کے مشہور عربی رسائل اور جدید تالیفات رہتی تھیں، سید صاحب ان کا برابر مطالعہ کرتے رہے، جس سے ان میں جدید عربی ادب کا ذوق پیدا ہوا، اور اتنا بڑھا کہ وہ جدید عربی کے بھی اچھے ادیب شمار کیے جانے لگے۔
پھر مولانا شبلی نے انھیں 1904ء میں ندوہ نکلنے والے رسالہ”الندوہ” کے حلقۂ ادارت میں شامل کیا۔ ان سے اہم کتابوں کی تلخیص کرائی اور الندوہ میں شائع کرتے رہے۔ سید صاحب نے الندوہ میں سب سے پہلا مضمون “علم حدیث” پر لکھا۔
سید صاحب کے زیر مطالعہ کتابیں:
آدمی کی کردار سازی اور شخصیت کے نکھار میں اس کے زیر مطالعہ کتابوں کا اہم رول ہوتا ہے، کچھ ایسا ہی سید صاحب کی زندگی میں نظر آتا ہے۔
سید صاحب کو شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے رسالہ “عجالہ نافعہ” کے پڑھنے سے علمِ حدیث سے دلچسپی پیدا ہوئی، پھر “بستان المحدثین” کے مطالعہ نے اس کا شوق اور بھی زیادہ کردیا، آخر میں ائمہ محدثین میں سے امام مالک نے ان کے دل پر قبضہ کرلیا اور موطا امام مالک سے بڑی گرویدگی پیدا ہوگئی۔ پھر حافظ ذہبی کی تذکرہ اور حافظ ابن حجر کی فتح الباری کے مطالعے سے محدثین کے کارناموں سے زیادہ واقف ہوئے۔
حدیث کے شوق نے رجال کی طرف اور رجال نے تاریخ کی طرف رہنمائی کی اور اس سلسلہ میں ابن ندیم کی کتاب الفہرست، حاجی خلیفہ کی کشف الظنون اور ابن خلکان کی وفیات کا مطالعہ کرتے رہے۔ اپنی ایک تحریر میں فرماتے ہیں کہ میں نے ابن خلکان کی کتاب اتنی دفعہ پڑھی کہ اس کے حواشی اور حوالوں سے اس کے اول وآخر کے صفحے بھر گئے۔
سید صاحب کے شوقِ مطالعہ سے متعلق سید صباح الدین لکھتے ہیں:
“دار المصنفین کے کتب خانہ میں تقریبا دس ہزار عربی، فارسی، اردو اور انگریزی کی کتابیں ہوں گی اور ان میں شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہوگی جس کو سید صاحب نے نہ پڑھا ہو۔ وہ کوئی کتاب پڑھتے تو اس میں جو بھی مفید باتیں نظر آتیں، ان کو شروع کے سادہ ورق پر نوٹ کردیتے، جن سے رفقائے دار المصنفین کو تحقیق وتلاش میں بڑی مدد ملا کرتی ہے، وہ لائبریری میں کوہ کن بن کر رہے”۔
جب ایک طالب علم سید صاحب کے شب وروز پر ایماندارانہ نگاہ ڈالتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ لکھنے، پڑھنے اور خدمتِ خلق میں گزرتا تھا۔ ان کا کوئی دقیقہ ضائع اور برباد نہیں ہوتا تھا، جس کی وجہ سے انھوں نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے جو قیامت تک ان کے لیے صدقہ جاریہ اور ہم جیسے طالب علموں کے لیے قابِل رشک ہیں۔
ندوہ کی مدرسی:
1908ء میں وہ ندوہ میں علم کلام اور فارسی عربی ادب کے استاد مقرر ہوئے، اور اس درس وتدریس کے زمانہ میں انھوں نے دروس الادب کے نام سے دو عربی ریڈریں لکھیں جو مقبول ہوئیں۔
سیرة النبي کی تالیف میں شرکت:
1910ء میں جب مولانا شبلی نے سیرة النبي کی تدوین وترتیب کا ایک شعبہ قائم کیا تو سید صاحب اس کے لٹریری اسسٹنٹ ہوئے، اور اس کام میں استاد کی اعانت کے ساتھ ساتھ الندوہ میں آپ مضامین بھی لکھتے رہے۔ اگست 1911ء میں الندوہ کی ادارت کا بار ان پر ڈالا گیا، اور وہ یہ خدمت مئی 1912ء تک انجام دیتے رہے، جس کے بعد اس الندوہ کا خاتمہ ہوگیا، جس کے اڈیٹر مولانا شبلی اور مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی تھے۔ (سیرة النبي سے متعلق مزید باتیں آگے آئیں گی)
تاسیس دار المصنفین:
مولانا شبلی نے اپنی وفات (18/ نومبر 1912ء) سے پہلے دار المصنفین کا ایک خاکہ تیار کیا تھا، لیکن اس کو عملی جامہ پہنا نہ سکے، سید صاحب ان کی رحلت کے بعد پونہ کی نوکری چھوڑ کر اعظم گڑھ چلے آئے اور مولانا مسعود علی ندوی کے انتظامی تعاون اور مولانا عبد السلام ندوی کے علمی اشتراک سے 1915ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی، یہ گویا بغداد کے دار الحکومت کا تخیل ہندوستان کے ایک شہر اعظم گڑھ کی سرزمین پر نمودار ہوا۔
رسالہ معارف کا اجراء:
دار المصنفین کا کوئی آرگن نہ تھا، اس لیے 1916ء کے رمضان المبارک میں سید صاحب کی ادارت میں معارف کا پہلا پرچہ نکلا۔ اس پہلے پرچے میں ان کا مقالہ “روزہ” تھا۔ شروع کے نمبروں میں بیشتر مضامین انہی کے ہوتے تھے۔
سیاسی مشاغل:
سید صاحب علمی وادبی زندگی کے ساتھ سیاسی مشاغل سے بھی منسلک تھے۔ 1914ء میں جب ترکی نے جنگ عظیم میں شرکت کی تو ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی جوش وخروش پیدا ہوا۔ اور اس موقع پر جن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر سیاسی تحریک میں حصہ لیا، ان میں سید صاحب کا نام بھی شامل ہے۔ سیاسی مسائل کے سلجھانے کی خاطر سید صاحب نے کئی ملکوں کا دورہ بھی کیا۔ بطور خاص ترکی اور حجاز کا سفر کیا۔ ان کی رہائش (اعظم گڑھ) پر ہندوستان کے قد آور سیاسی لیڈران تشریف لاتے اور ان سے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کرتے۔ جواہر لال نہرو سید صاحب کی بڑی قدر کرتے اور ان کے مشورے پر عمل پیرا ہوتے۔
دیگر سیاسی ارادت مندوں میں مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، رفیع احمد قدوائی، چودھری خلیق الزماں، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی، مہاتما گاندھی، سروجنی نائڈو، موتی لال نہرو کے اسماء گرامی شامل ہیں۔
تصنیفی وتالیفی خدمات
سيرة النبي کی نشر واشاعت:
1918ء میں سید صاحب نے اپنے استاد مولانا شبلی نعمانی کی سیرة النبي(جلد اول) مرتب کرکے ملک کے سامنے پیش کی جس کے غلغلہ سے ہندوستان کا گوشہ گوشہ گونج اٹھا۔
یہ جلد نبوت کے پُر آشوب عہد غزوات پر مشتمل ہے۔
دوسری جلد: سیرة النبي کی دوسری جلد اس وقت شائع ہوئی جب سید صاحب لندن کے سیاسی سفر پر تھے، وہیں سے دوسری جلد کے لیے دیباچہ لکھ کر بھیجا۔ دوسری جلد نبوت کے سہ سالہ امن کی زندگی کی تاریخ ہے۔
تیسری جلد: 1924ء میں چھپ کر مشتاق نگاہوں کے سامنے آئی، اس میں معجزہ کی حقیقت اس کے امکان ووقوع پر فلسفۂ قدیمہ، علم کلام، فلسفۂ جدیدہ اور قرآن کریم کے نقطہائے نظر سے مبسوط تبصرہ ہے۔ اور اس کے بعد مکالمہء الہی، وحی، نزول ملائکہ، عالم رویا، معراج اور شرح صدر کا بیان ہے۔
چوتھی جلد: 1932ء میں سیرة النبي کی چوتھی جلد شائع ہوئی، جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ نبوتِ محمدی نے دنیا میں کس عظیم الشان اصلاح کا فرض انجام دیا۔
پانچویں جلد: سیرة النبي کی پانچویں جلد 1935ء میں شائع ہوئی۔ اس کا موضوع عبادات ہے۔
چھٹی جلد: 1939ء میں سیرة النبي کی چھٹی جلد شائع ہوئی، اس میں اخلاقی تعلیمات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
ساتویں جلد: سید صاحب اس جلد کے دو باب ہی لکھ پائے تھے کہ وقت موعود آپہنچا اور اللہ کے پیارے ہوگئے، اس لیے یہ جلد طبع نہ ہوسکی۔
واضح رہے کہ سیرة النبي کی پہلی اور دوسری جلد علامہ شبلی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے بقیہ تمام جلدیں سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے علم وفن اور سیرت سے ان کے گہرے لگاؤ کی دلیل ہے۔
علماء، طلبہ، اسکالرز اور عام لوگوں کو بھی سیرة النبي کی ساری جلدوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس کتاب کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر پہلو کے بیان میں کتاب وسنت کے شواہد پیش کیے گئے ہیں۔ حتی الوسع کسی مصنف اور کسی تصنیف کا سہارا نہیں لیا گیا ہے۔
دیگر تصنیفات ومقالات
1- ارض القرآن: اس کی دو جلدیں ہیں، پہلی جلد کی اشاعت سید صاحب کے پونہ کے قیام کے زمانے کی یادگار ہے۔ جس میں قدیم عرب کے جغرافیہ، اقوام عرب کی پرانی مذہبی اور تمدنی تاریخ پر محققانہ بحث کی گئی ہے اور قرآن مجید کے بیانات سے اس کی مطابقت دکھائی گئی ہے۔
ارض القرآن کی دوسری جلد 1918ء میں شائع ہوئی، جس میں اقوام عرب کے لسانی، مذہبی، تجارتی اور تمدنی حالات پر بحث ہے۔
2- سیرت عائشہ: سید صاحب کے لندن کے قیام کے زمانے میں ان کی کتاب “سیرت عائشہ رضی اللہ عنہا” شائع ہوئی۔ اس کتاب کا آغاز انھوں نے طالب علمی ہی کے زمانے میں کیا تھا، مگر تکمیل بعد میں ہوئی۔ اس کی اشاعت پر بیگم صاحبہ بھوپال نے پانچ سو روپئے انعام بھی مرحمت فرمائے اور ڈاکٹر اقبال نے ان الفاظ میں تعریف کی: “سیرة عائشہ کے لیے سراپا سپاس ہوں، یہ ہدیہ سلیمانی نہیں سرمہ سلیمانی ہے اس کتاب کو پڑھنے سے میرے علم میں بہت مفید اضافہ ہوا، اللہ تعالی جزائے خیر دے”۔
3- عرب وہند کے تعلقات: یہ در اصل سید صاحب کے 1929 میں ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد میں دیے گئے متعدد لکچر کا مجموعہ ہے جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔
اس کتاب میں ہندو مسلمان دونوں کو ان کا وہ زریں عہد یاد دلایا گیا ہے، جب دونوں گوناگوں تعلقات کے رشتوں میں جکڑے ہوئے تھے، یہ خطبات تلاش وتحقیق، محنت وکاوش اور حجت واستدلال کے اعتبار سے بے مثل سمجھے جاتے ہیں۔ کئی زبانوں میں کتاب کا ترجمہ کیا گیا ہے۔
4- عربوں کی جہاز رانی: 1931ء کے مارچ میں سید صاحب نے بمبئی گورنمنٹ کے شعبہ تعلیم کی سرپرستی میں چار خطبے دیے، ان خطبوں میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ موجودہ جہاز رانی کی ترقی میں عربوں کا کتنا حصہ ہے۔ بعد میں چاروں خطبے کتابی صورت میں شائع ہوئے۔
5- تاج محل کے معمار کی تحقیق: اپریل 1933ء میں ادارہ معارف اسلامیہ لاہور کے پہلے سالانہ اجلاس کی شرکت کے لیے لاہور تشریف لے گئے، جس کی صدارت ڈاکٹر اقبال نے کی۔ اس جلسہ میں سید صاحب نے اپنا مقالہ بعنوان “لاہور کا ایک مہندس خاندان جس نے تاج محل اور لال قلعہ بنایا” پیش کیا۔ اس میں یہ ثابت کیا کہ لال قلعہ اور تاج محل کا معمار استاد احمد شاہجہانی لاہوری اور ان کے خاندان کے لوگ ہیں جو ہندسہ، ہیئت اور ریاضیات میں درکِ کامل رکھتے تھے۔ اس کتاب کی تصنیف سے قبل ہندوستانیوں میں یہ بات مشہور تھی کہ دونوں کا معمار انگریز ہے۔ کتاب کے شائع ہونے کے بعد یہ غلط فہمی زائل ہوگئی اور خود ہندوستان کے آثار قدیمہ کے ذمہ داروں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا۔
6- خیام: 1933ء میں سید صاحب کی مشہور ومعروف تصنیف خیام شائع ہوئی۔ اس کتاب کی ترتیب میں انھوں نے سنین کی تحقیق وتطبیق، واقعات کی تلاش وتفتیش، ماخذوں اور سندوں کے حوالوں اور خیام کی فلسفیانہ تصانیف کی جستجو میں جو فکر وکاوش کی ہے، وہ ایک اہم علمی کارنامہ ہے۔
7- نقوش سلیمانی: 1939ء میں یہ کتاب شائع ہوئی۔ یہ ان خطبوں، تحریروں اور مقدموں کا مجموعہ ہے جو اردو ادب وزبان سے متعلق ان کے قلم سے نکلے۔ کتاب کی اہمیت کے پیشِ نظر کئی یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل ہوئی۔
8- سال 1940 ء میں بچوں کے لیے “رحمتِ عالم” لکھی جس میں سلیس اور آسان زبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک ہے، گو یہ بچوں کے لیے لکھی گئی ہے، لیکن جوان اور بوڑھے سب اس سے مستفید ہورہے ہیں۔
9- حیاتِ شبلی: دار المصنفین کے قیام کے بعد ہی سے سید صاحب نے اپنے استاد کو مختلف طریقے سے خراج عقیدت پیش کیا۔ ان کے مختلف مضامین، خطبات اور مکتوبات کو جمع کرکے گیارہ جلدوں میں (مقالاتِ شبلی کے نام سے) شائع کیا۔ مولانا شبلی نے خود اس بات کی خواہش ظاہر کی تھی کہ سید صاحب ان کی سوانح لکھیں، جنانچہ سید صاحب نے استاد کی خواہش پوری کی اور تین برس کی جانکاہ محنت کے بعد فروری 1943ء میں 846 صفحے پر مشتمل “حیاتِ شبلی” لکھ کر اہل علم کے سامنے پیش کی۔ یہ ضخیم کتاب ایک شخص کی سوانح عمری ہی نہیں، بلکہ مسلمانانِ ہند کے پچاس برس کے علمی، ادبی، سیاسی، تعلیمی، مذہبی اور قومی واقعات کی تاریخ بھی ہے۔ یہ سید صاحب کی آخری تصنیف ہے۔
10- خطباتِ مدراس: 1924ء کے ماہ اکتوبر اور نومبر میں مسلم ایجوکیشنل ایسوسی ایشن آف سودرن انڈیا کی دعوت پر سیرت نبوی کے مختلف پہلوؤں پر آٹھ خطبے دیے جو بعد میں خطباتِ مدراس کے نام سے شائع ہوئے۔ یہ کتاب اپنے مضامین ومباحث، ادب وانشاء اور زور خطابت کے لحاظ سے اردو لٹریچر کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔
سید صاحب رحمہ اللہ کی مذکورہ تصنیفات کے علاوہ معارف میں شائع سیرت، تاریخ اور سوانح پر مشتمل بہت سارے مقالات پڑھنے کے قابل ہیں، بلکہ ممکن ہوسکے تو معارف کے اجرا سے لے کر سید صاحب کے کراچی ہجرت کرنے تک کے معارف کی مکمل فائل حاصل کرنی چاہیے اور اس میں جو بھی مضامین سید صاحب کے ہیں چاہے وہ شذرات کے ضمن میں ہوں یا وفیات کے قبیل سے یا دیگر مقالات ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
سید صاحب کے چند قیمتی مضامین کے عناوین ذیل میں لکھے جاتے ہیں:
1- خلافت عثمانیہ اور دنیائے اسلام
2-خلافت اور ہندوستان
3-ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کیوں کر ہوئی
4-لاہور کا ایک فلکی آلات ساز
5-قنوج
6-ہندی الاصل اور ہندی النسل مسلمان سلاطین
7-سلطان ٹیپو کی چند باتیں
8-نالندہ کی سیر
9-ہندوکش عالمگیر کے عہد کی دو عجیب کتابیں
اخلاق وسیرت:
یہ ایک مستقل موضوع ہے جس پر لکھنا طوالت کا باعث ہے، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ سید صاحب کی پوری کوشش تھی کہ وہ اپنا اخلاق نبی پاک علیہ السلام کے اخلاق کی طرح پیش کریں، چنانچہ گھر سے باہر تک کے لوگوں کے ساتھ نرمی، محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آتے۔ اہل وطن، اہل وعیال، ہم درسوں، معاصرین، صلحا وعلماء کے ساتھ ان کے تعلقات نہایت بہتر ہوتے۔
سید صاحب کے ہم درس:
آپ کے ہم درسوں میں جناب سید حنیف، مولانا محمد قاسم دیوبندی اور ضیاء الحسن علوی ندوی کا نام قابل ذکر ہے۔
سید صاحب کے معاصرین:
آپ کے معاصرین میں ڈاکٹر اقبال(شاعر مشرق)، سر شیخ عبد القادر اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
وفات اور نماز جنازہ:
میں نے گزشتہ سطور میں لکھا ہے کہ سید صاحب آخری عمر میں پاکستان(کراچی) ہجرت کرگئے(اور وہاں کا ملکی قانون وضع کرنے میں آپ کی حصہ داری بھی رہی) کراچی ہی میں 22/ نومبر 1953ء مطابق 14/ربیع الاول 1373ھ کو ان کی وفات ہوگئی۔ جنازہ کی نماز مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ اور سید صاحب کے خواجہ تاش ڈاکٹر عبد الحئی صاحب نے پڑھائی اور مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے پہلو میں دفن ہوئے۔
امید کہ طلبہ، علماء اور قدردانِ اردو و عربی سید صاحب کی خدمات سے بھرپور استفادہ کریں گے۔
آپ کے تبصرے