شیخ محمد مقیم فیضی رحمہ اللہ کی امانت داری

آصف تنویر تیمی تاریخ و سیرت

مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے سابق نائب ناظم عمومی اور تادم حیات صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے نائب امیر، معروف خطیب، جماعت اہل حدیث کے نقیب وترجمان، سلفیت کے غیور سپاہی، کتاب وسنت کے داعی اور متعدد علمی ودینی کتابوں کے مصنف اور مترجم شیخ محمد مقیم فیضی اب ہمارے درمیان نہ رہے، طویل علالت کے بعد ۲/اگست ۲۰۲۰ء کی شب عروس البلاد ممبئی میں انھوں نے آخری سانس لی۔ (انا لله وانا اليه راجعون)
ان شاء اللہ ان کی روح نبیوں، ولیوں، شہیدوں اور نیک لوگوں کے ساتھ جمع ہوگی اور انھیں عالَم برزخ کی عیش وآرام والی زندگی حاصل ہوگی۔ اللہ نے ان کی دینی وعلمی کارناموں کا بہترین بدلہ انھیں عطا کیا ہوگا، ان کی قبر منور وروشن ہوگی، جنت کی بھینی بھینی خوشبو انھیں میسر ہوگی۔ ایک مومن اپنے رب سے حسن ظن رکھتا ہے، اسے اللہ کے انعامات کے حصول پر امیدِ کامل ہوتی ہے۔ کچھ ایسے ہی خیالات میرے اور مجھ جیسے بہت سارے مسلمانوں کے دلوں پیدا ہوتے ہیں۔
اس سے قبل بھی میں نے چند سطور شیخ محمد مقیم فیضی رحمہ اللہ کی زندگی سے متعلق تحریر کیے ہیں جس میں ان کی چند خوبیوں کا بالاختصار تذکرہ کیا تھا۔ اور جو کچھ لکھا گیا تھا موصوف کی زندگی اس سے کہیں اوپر تھی۔ ذیل کے سطور میں ان کی ایک عظیم خوبی”امانت داری” پر میں نے اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے، تاکہ ہم جیسے گنگہار لوگ شیخ رحمہ اللہ کی زندگی سے سبق لیں اور اپنی اصلاح کریں۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جب آدمی کسی بڑے عہدے اور منصب پر فائز ہوتا ہے، مال ودولت حاصل ہوتی ہے تو قومی اور ملی امانتیں ضائع ہونے لگتی ہیں، خاص طور سے مالی خرد برد کے واقعات سامنے آتے ہیں، جس سے شخصیت مجروح ہوجاتی ہے اور بدنامی ہاتھ آتی ہے۔ لیکن شیخ محمد مقیم فیضی رحمہ اللہ کی شخصیت میری نگاہ میں اس قسم کی مذموم صفت سے پاک رہی اور انھوں نے ہر معاملے میں امانت ودیانت کا خاص خیال رکھا۔
2007ء میں شیخ محمد مقیم فیضی رحمہ اللہ کے ساتھ میں نے مہاراشٹر کے بیشتر شہروں کا مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے تعاون کے حصول کی خاطر دورہ کیا۔ مسلسل ایک ماہ کا سفر رہا۔ اس دوران بڑے قریب سے میں نے شیخ رحمہ اللہ کو دیکھا۔ ان کے متعلقین اور ان سے گہری عقیدت رکھنے والوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے کھان پان، رہن سہن اور بات چیت کی سلیقگی کو بھانپا۔
ان کی تمام تر خوبیوں کے ساتھ ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ آپ مرکزی جمعیت کے ایک ایک پیسے کا حساب رکھتے۔ دس روپیہ ہو یا دس ہزار سب کی رسید کاٹتے اور کٹواتے، کسی سے تعاون بلا رسید کے وصول نہ کرتے۔ دوران سفر جہاں جمعہ آتا، جمعہ کا خطبہ دیتے، اسی میں تعاون کی اپیل بھی کرتے۔ لوگ تو ماہِ رمضان میں آپ کو دیکھ کر مقصد سمجھ جاتے، پھر بھی حاضرین سے بڑھ چڑھ کر مرکز کے تعاون کی درخواست کرتے، مرکز کا تعارف انوکھے انداز میں کراتے، مرکز کی مطبوعات کا ایک ذخیرہ اپنے پاس رکھتے، کبھی کسی اہم مخیر کو لیپ ٹاپ پر مرکز کے تعمیراتی منصوبوں کی تصویریں دکھلاتے، بسا اوقات مرکز سے خار کھایا آدمی بھی آپ کی باتوں سے متاثر ہوجاتا اور بھرپور تعاون کرتا۔ پونہ میں میں نے دیکھا کہ ایک سیٹھ جی کو گھنٹوں جمعیت کے کاز سے متعارف کراتے رہے اور اس وقت تک اس کی آفس سے باہر نہ آئے جب تک کہ اس سے تعاون حاصل نہ کرلیا۔ دیر لگنے کی وجہ جب میں نے دریافت کی تو شیخ نے بتلایا کہ موصوف مرکز کے کاموں سے ناراض تھے اسی لیے دیر ہوگئی۔ بعد میں جب میں نے رسید دیکھا تو معلوم ہوا کہ سیٹھ صاحب نے کافی بہتر تعاون پیش کیا تھا۔
شیخ رحمہ اللہ بڑے امانت دار تھے، خیانت کا شائبہ بھی میں نے ان کی زندگی میں محسوس نہیں کیا۔ اگر ذرہ برابر بھی بدنیتی ان کے اندر ہوتی تو لاکھوں لاکھ کا پتہ نہ چلتا، اس لیے کہ لوگوں کی ایک بڑی جماعت صرف شیخ کی شخصیت سے متاثر ہوکر تعاون کرتی تھی، انھیں رسید کی مطلق پروا نہ تھی۔
غالبا 2008ء میں شیخ رحمہ اللہ کا پہلا آپریشن ہوا تھا، زخم تازہ تھا اس لیے اس رمضان میں مہاراشٹر کا دورہ نہ کرسکے، ان کے بدلے مجھے تن تنہا ان تمام شہروں میں جانا پڑا جہاں شیخ جایا کرتے تھے، مگر وہ مزہ کہاں جو شیخ کے ساتھ آیا تھا، ساتھ ہی لوگوں کا وہ مادی اور معنوی تعاون بھی حاصل نہ ہوا جو سابقہ مرتبہ ان کے ساتھ حاصل ہوا تھا۔
شیخ رحمہ اللہ کا سفر خرچ کھانے پینے میں بالکل نہ ہوتا، جس شہر میں جاتے ان کے چاہنے والے پہلے سے موجود ہوتے۔ کچھ تو ایسے عقیدت مند ہوتے کہ ان کے گھر نہ ٹھہرنے کی وجہ سے ناراض بھی ہوجاتے۔ اورنگ آباد میں کچھ ایسا ہی ہوا، جوانوں کی ٹیم بھی ان کے استقبال اور مہمان نوازی میں پیش پیش نظر آتی۔ پونہ میں ابوزید ضمیر صاحب کو بھی شیخ محترم کی مہمان نوازی کرتے اور ایک مؤدب شاگرد کی طرح خوشہ چینی کرتے دیکھا۔
ممبئی کی جن مساجد میں جاتے لوگوں کا ہجوم ان کو گھیر لیتا، بسا اوقات اپنے پرانے دوستوں کو ملاقات بات کرنے اور ساتھ مل کر مرکز کے لیے تعاون جٹانے کی خاطر فون کرکے بلاتے۔ کبھی اردو تو کبھی علاقائی زبان میں اپنے دوستوں سے باتیں کرتے، خاص طور سے تعاون دینے والے شخص سے اس کی زبان میں گفتگو کرتے تاکہ خوش دلی سے وہ تعاون کا ہاتھ بڑھائے اور الحمد للہ اکثر اس کا فائدہ بھی ہوتا تھا۔
شیخ محترم کا مقصدِ سفر جس شہر میں پورا ہوجاتا بلا تاخیر اسی وقت اس شہر سے دوسرے شہر کے لیے نکل جاتے، کئی کئی گھنٹوں کا سفر بذریعہ ٹرین اور بس کرتے، میں تھکاوٹ محسوس کرتا مگر وہ نہ تھکتے، بَلا کی چستی پھرتی اور جسمانی وایمانی قوت انھیں اللہ کی طرف سے ملی تھی، لاکھ تھکے ہوں مگر نماز وقت پر ادا کرتے، جب کبھی دورانِ سفر عبادت میں مجھ سے کوتاہی دیکھتے تو فورا تنبیہ کرتے۔
بڑی خوبیاں تھیں ان کی زندگی میں، جماعتی اور مسلکی غیرت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی، خطابت کے تو شہنشاہ تھے، بڑی بڑی کانفرسوں اور جلسوں میں اپنا لوہا منواتے تھے، افراد سازی کا ان میں ہنر موجود تھا، عوام کے ساتھ پڑھے لکھے لوگوں کے دلوں میں جماعت کی محبت پیدا کرنا وہ بخوبی جانتے تھے۔
شیخ محترم خوش لباس، خوش اخلاق، خوش گفتار اور خوش مزاج تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ جماعتی کاز کی انجام دہی میں لگایا، دہلی اور ممبئی اور دیگر شہروں کے لوگوں کو ان کی کمی شدت سے محسوس ہوگی، خاص طور سے اچھا سننے اور اچھا پڑھنے والے افراد ایک زمانے تک انھیں یاد کریں گے۔
اللہ تعالی ان کی جملہ خدمات کو قبول فرمائے اور جماعت وجمعیت کو ان کا نعم البدل عطا کرے۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
حماد اکرم

سچ کہا آپ نے۔
اچھا پڑھنے اور اچھا سننے والے انہیں کبھی نہیں بھلا سکتے۔

امتیاز احمد رحمانی

اپنے تجربات اور تجزیات کو ہم تک پہنچانے کا شکریہ،جزاك الله خيراً واحسن الجزاء