کیا حج وعمرہ کی قبولیت قبر نبوی کی زیارت پر موقوف ہے؟

فاروق عبداللہ نراین پوری فقہیات

برصغیر ہند وپاک سے آنے والے بہت سارے حجاج ومعتمرین کے یہاں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ سفر حج وعمرہ میں قبر نبوی اور مدینہ طیبہ کی زیارت ایک لازمی شی ہے، اس کے بغیر حج وعمرہ پورا نہیں ہوتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام مسلمانوں کے لیے مسجد نبوی کی زیارت اور اس میں نماز ادا کرنا باعث سعادت ہے۔ جن تین مساجد کے لیے رخت سفر باندھنا شریعت نے جائز قرار دیا ہے ان میں سے ایک مسجد نبوی کی زیارت ہے۔ (صحیح بخاری: حدیث نمبر 1197)
اس میں نماز پڑھنے کا ثواب صحیح حدیث کے مطابق ایک ہزار نماز سے بھی افضل ہے۔ (صحیح بخاری: حدیث نمبر1190)
جب کسی کو حج یا عمرہ کی سعادت نصیب ہو تو ان کے لیے اسی سفر میں مدینہ طیبہ کی بھی زیارت سے سرفراز ہونا ایک باعث سعادت امر ہے۔ لیکن اسے ضروری سمجھنا اور حج وعمرہ کے ساتھ اسے جوڑنا قطعًا صحیح نہیں۔ حج وعمرہ کی صحت یا قبولیت کا قبر نبوی یا مدینہ طیبہ کی زیارت سے ادنی سا بھی تعلق نہیں ہے۔ حج وعمرہ کا تعلق صرف خانہ کعبہ اور مشاعر مقدسہ (منی، عرفات، مزدلفہ اور میقات) سے ہے۔ حجاج ومعتمرین مدینہ طیبہ یا قبر نبوی کی زیارت کریں یا نہ کریں ان کے حج وعمرہ پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔
جو حضرات ایسا عقیدہ رکھتے ہیں کہ حج وعمرہ کی صحت یا قبولیت کے لیے قبر نبوی کی زیارت ضروری ہے اس تعلق سے دو حدیثیں پیش کرتے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں ان دونوں حدیثوں کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے:
✿ پہلی حدیث: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ نے فرمایا: “من حج حجة الإسلام، وزار قبري، وغزا غزوة، وصلى علي في بيت المقدس، لم يسأله الله عز وجل عما افترض عليه“.
(جس نے حجۃ الاسلام کیا اور میری قبر کی زیارت کی، اور ایک غزوہ میں شرکت کی، اور بیت المقدس میں میرے اوپر درود پڑھا تو جو چیزیں اس پر فرض کی گئی ہیں اللہ تعالی اسے ان کے متعلق سوال نہیں کرے گا)
✿ جائزہ: اس حدیث کو حافظ ابو طاہر سلفی نے المشیخۃ البغدادیہ میں درج ذیل سند سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں:
أخبرنا أبو إسحاق إبراهيم بن عمر بن أحمد البرمكي، أخبرنا أبو الفتح محمد بن الحسين الأزدي الحافظ، حدثنا النعمان بن هارون بن أبي الدلهاث، حدثنا أبو سهل بدر بن عبد الله المصيصي، حدثنا أبو حسان الزيادي، عن عمار بن محمد، حدثني خالي سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “من حج حجة الإسلام، وزار قبري …”الحديث. (الجزء الرابع من المشيخۃ البغداديۃ لابی طاہر السلفی (لوحہ نمبر/60/ب)۔ اس کتاب کا مطبوعہ نسخہ مجھے نہ مل سکا۔ یہ حوالہ مخطوط کا ہے)
یہ روایت موضوع ہے۔ اس کی آفت ابو سہل بدر بن عبد اللہ المصیصی ہے، کسی امام جرح وتعدیل سے ان کی توثیق نہ مل سکی۔ حافظ ذہبی نے ”میزان الاعتدال“(2/265) میں ان کے ترجمے میں فرمایا ہے: “عن الحسن بن عثمان الزيادي بخبر باطل”. (حسن بن عثمان الزیادی سے ایک باطل خبر کی روایت کرتا ہے) اور ابن عبد الہادی ”الصارم المنکی“ (ص157) میں فرماتے ہیں: ”الحمل في هذا الحديث على بدر بن عبد الله المصيصي فإنه لم يعرف بثقة ولا عدالة ولا أمانة“ (اس حدیث میں طعن کا بار بدر بن عبد اللہ المصیصی پر ہے، ان کی ثقاہت، عدالت اور امانت کا کچھ پتہ نہیں)
موضوع روایتوں کے جمع کرنے پر محدثین کرام نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں انھوں نے اس حدیث کا بھی ذکر فرمایا ہے، مثلا: ابن عراق الکنانی نے اسے ”تنزیہ الشریعہ المرفوعہ“(2/175) میں، فتَّنی نے ”تذکرۃ الموضوعات“(ص73 میں، اور سیوطی نے ”الزیادات علی الموضوعات“(1/477) حديث نمبر (579) میں اور شیخ البانی نے ”سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ“(1/369) حديث نمبر (204) میں اسے ذکر فرمایا ہے۔
✿ دوسری حدیث: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے: ”من حج البيت فلم يزرني فقد جفاني“.
(جس نے بیت اللہ کا حج کیا اور میری زیارت نہیں کی اس نے میرے ساتھ بے رخی برتی)
✿ جائزہ: یہ حدیث دو طریق سے مروی ہے۔
پہلا طریق: اسے ابن عدی نے ”الکامل“(8/248) میں، ابن حبان نے ”المجروحین“(3/73) میں اور ان کے ہی طریق سے ابن الجوزی نے ”الموضوعات“(2/217) میں محمد بن محمد بن النعمان بن شبل حدثني جدي عن مالك عن نافع عن ابن عمر کے طریق سے روایت کیا ہے۔
یہ سند بھی موضوع ہے۔ اس کی آفت محمد بن محمد بن نعمان بن شبل ہے جسے امام دار قطنی نے متہم قرار دیا ہے۔ (تعلیقات الدار قطنی علی المجروحین لابن حبان، ص272)
اور ان کے دادا نعمان بن شبل کو بھی موسی بن ہارون الحمال نے متہم قرار دیا ہے۔ (الکامل لابن عدی، 8/248)
امام ابن عدی، حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے اسے محمد بن محمد بن نعمان بن شبل کے دادا نعمان بن شبل کے مناکیر میں شمار کیا ہے۔ (الکامل لابن عدی:8/249، میزان الاعتدال:4/265، لسان المیزان:8/285)
جب کہ امام دار قطنی نے اس کا انکار کیا ہے۔ اور اسے حفید محمد کے مناکیر میں سے ہونے کو راجح قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں: ”اس حدیث میں طعن ان (حفید محمد) پر ہے، نعمان پر نہیں“۔ (تعليقات الدار قطني على المجروحين لابن حبان، ص272)
بہر حال ان دونوں کی موجودگی کی وجہ سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ طریق موضوع اور من گھڑت ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ اس پر وضع کا حکم لگانے کے بعد فرماتے ہیں : ”اس کی آفت محمد بن محمد بن نعمان بن شبل یا ان کے دادا ہیں“۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ (1/119) حدیث نمبر (45)
دوسرا طریق: بعض متاخرین حفاظ نے اسے نعمان بن شبل عن محمد بن الفضل، عن جابر، عن محمد بن علي، عن علي بن أبي طالب رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا ہے جیسا کہ ابن عبد الہادی نے ”الصارم المنکی“(ص74) میں فرمایا ہے، اس کے الفاظ ہیں: ”من زار قبري بعد موتي فكأنما زارني في حياتي ومن حج ولم يزر قبري فقد جفاني“۔
یہ طریق بھی پہلے کی طرح ہی من گھڑت ہے۔
نعمان بن شبل کے متعلق گزرا کہ وہ متہم ہے۔ اور اس کے شیخ محمد بن الفضل کو ابن معین، جوزجانی اور فلاس نے کذاب کہا ہے۔ (الجرح والتعدیل:8/57، احوال الرجال: ص342، الجرح والتعدیل:8/57)
اور محمد بن الفضل کے شیخ جابر جعفی کو بھی ابن معین وغیرہ نے کذاب کہا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ان کے متعلق فرمایا کرتے تھے: ”میں نے ان سے بڑا کذاب نہیں دیکھا“۔ (تاریخ ابن معین بروایۃ الدوری:3/280، 3/296)
اس لیے یہ روایت بھی موضوع اور من گھڑت ہے۔ اس سے استدلال کرنا جائز نہیں۔
متعدد علماء نے اپنے ان کتابوں میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے جو کتابیں موضوع اور من گھڑت روایتوں کے لیے خاص ہیں۔
مثلا اسے ابن الجوزی نے ”الموضوعات“(2/217) میں، صغانی نے ”الموضوعات“(ص43) حدیث نمبر (52) میں، ذہبی نے ”تلخیص الموضوعات“(ص211) حدیث نمبر (517) میں، سخاوی نے ”المقاصد الحسنہ“(ص643) حدیث نمبر (1110) میں، ابن عراق الکنانی نے ”تنزیہ الشریعہ المرفوعہ“(2/172) میں، فتنی نے ”تذکرۃ الموضوعات“(ص76) میں، عجلونی نے ”کشف الخفاء “(2/291) حدیث نمبر (2460) میں، اور شوکانی نے ”الفوائد المجموعہ“(ص118) میں ذکر کیا ہے۔ اور یہ کتابیں موضوع وضعیف روایتوں کے لیے خاص ہیں۔
سخت تعجب اور افسوس ہوتا ہے ان حضرات پر جو اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں اور اس کی حالت کے متعلق سوال کرنے پر صرف اسے صحیح ہی نہیں کہتے بلکہ صحیحین کے اندر موجود ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ راقم حروف کئی بار ایسے حالات کا سامنا کر چکا ہے۔ جب کہ اس کا صحیح و صحیحین میں ہونا تو دور کتب احادیث کی معروف کتابوں تک میں کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اور اس کے موضوع ومن گھڑت ہونے پر تقریبا محدثین کا اتفاق ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو ہدایت دے۔ اور دین صحیح کے اتباع کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000