عید کی خوشیاں منائیں یا علمائے اسلام کے اس دارِ فانی سے جانے کا غم، ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد پیش کریں یا ایک کے بعد ایک علمائے اسلام کے اٹھتے چلے جانے پر اپنی اور پورے عالمِ اسلام کی تعزیت کریں۔دھیرے دھیرے آفتابانِ علم و فن اور ماہتابانِ خطابت و صحافت اور ستارگان فقہ و بصیرت اس دنیائے فانی سے دارِ بقا کو سدھارتے جارہے ہیں، پتہ نہیں ہم کیسے اور کس دور میں جیے چلے جا رہے ہیں؟
۲۰۲۰ء کو بہت پہلے کئی معتبر علمائے محققین و معتبرین نے عام الحزن (غم کا سال) قرار دیا ہے ،جنھیں تذبدب تھا اب وہ بھی اسے عام الحزن کہنے پر مجبور ہیں۔ابھی شیخ علی حسین سلفی (محقق فتح المغیث للسخاوی) اورصاحبِ (الجامع الکامل فی الحدیث اگصحیح الشامل)محدث ِ کبیر علامہ ڈاکٹر ضیاء الرحمن الأعظمی ۔رحمہما اللہ۔ کی وفات کا زخم مندمل بھی نہ ہونےپایا تھا کہ ابھی (بروز اتوار ۲؍اگست ۲۰۲۰ء مطابق :۱۱ ذی الحجہ ۱۴۴۱ھ ، رات ایک بج کر بیس منٹ پر(انڈین وقت کے مطابق) یہ خبر سوشل میڈیا سے ملی کہ سابق نائب ناظم مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند، کئی کتابوں کے مؤلف و مترجم (بطورِ خاص اشراط الساعۃ للشیخ د۔ یوسف الوابل کے مترجم)، خطیب نحریرو شہیر، داعی کبیر، مقرر شعلہ فشاں حضرت مولانا محمد مقیم صاحب فیضی پرتاپ گڑھی ۔رحمہ اللہ۔ بھی ہمیں داغِ مفارقت دے گئے اور داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے، إنا للہ و إنا إلیہ راجعون، ورحمہ اللہ رحمۃ الأبرار و أسکنہ فسیح جناتہ
آں رحمہ اللہ رہنے والے تو پرتاپ گڑھ کے تھے،آپ کا آبائی وطن وہیں ہے،مگر چونکہ آپ کے والد گرامی شہرِ کلکتہ میں ملازم تھے،اس لیےآپ کی ولادت کلکتہ میں ۱۹۶۵ میں ہوتی ہے ،وہیں نشو و نما ہوتی ہے،وہیں تربیت و تعلیم کا ابتدائی انتظام کیا جاتا ہے ،پھردینی تعلیم کے لیےراغب ہوتے ہیں، ملک کی راجدھانی کی طرف کشاں کشاں بغرض تعلیم رختِ سفر باندھتے ہیں اور جامعہ ریاض العلوم جا وارد ہوتے ہیں، اپنی علمی تشنگی بجھاتے ہیں اور پھر چند سال بعد ملک کے عظیم ادارہ جامعہ فیض عام مئو ناتھ بھنجن کی طرف رخ کرتے ہیں۔
جامعہ فیض عام کے زمانۂ طالب علمی کی ایک خاص بات یہ رہی (جیسا کہ شیخ جرجیس کریمی فیضی فرماتے ہیں:) کہ آپ تین سگے بھائی (شیخ محمد مبین فیضی ۔آپ کا زمانہ راقم نے پایا ہے، آپ کا چہرہ آج بھی میرے ذہن میں مرتسم ہے۔ شیخ محمد وسیم فیضی اور شیخ محمد مقیم فیضی) جو جامعہ میں زیرِ تعلیم تھے،جامعہ کے مطبخ کا کھانا نہیں کھاتے تھے بلکہ خود سے اپنا کھانا بناتے تھے۔شاید اس کا بہت زبردست اثر آپ کی حیات پر پڑا کہ ہمیشہ خود دار اورخود کفیل رہے،کبھی کسی کی چاپلوسی نہیں کی اور کسی ملامت گر کی پرواہ کیے بغیر دعوت و تبلیغ کے شعبہ سے جڑے رہے اور اسے حرزِ جاں بنایا اور اس میں مکمل طور پر کامیا ب بھی رہے۔
شیخ رحمہ اللہ نے جامعہ فیض عام میں رہ کر وہاں کے ماہرینِ علم و فن سے بھر پور استفادہ کیا،جن میں خصوصی طور پر مفتی حبیب الرحمن فیضی،شیخ محفوظ الرحمن فیضی، قاری نثار احمد فیضی سےخوب خوب کسبِ فیض کیا اور ۱۹۸۵ء میں فراغت حاصل کی۔
تین سال کے لیے جامعہ الملک سعود ریاض بھی تشریف لے گئے اور وہاں تین سالہ کورس مکمل کیا۔ سعودی مشایخ سے بھرپور استفادہ کیا جن میں دکتور عبد اللہ قحطانی اور شیخ راشد کےنام نامی اسم گرامی سرِ فہرست ہیں۔
فراغت کے بعد تعلیم و تعلم اور دعوت و تبلیغ سے منسلک ہوگئے اور دنیا و مافیہا سے لا تعلق ہوکر میدانِ علم و معرفت سے جڑ گئے اور ہندوستان کی سرزمین کو اپنی علمی صلاحیت اور دعوتی لیاقت سے سرفراز کرنے کے لیےسب سے پہلے گلبرگہ کے قریب سیڑم نامی مقام پر کچھ دنوں تک دینی خدمت انجام دی۔اس کے بعد پرتاپ گڑھ کے ایک مدرسے میں تدریسی خدمات پر مامور ہوگئے۔ پھرتدریس کے لیے ممبئی میں واقع جامعہ رحمانیہ کاندیولی کا انتخاب کیا،اس دوران دیگر کتابوں کے ساتھ صحیح بخاری کا درس مسلسل و مدام سات سال تک جاری رکھا۔کہا جا سکتا ہے کہ آپ ایک کامیاب مدرس ،باوقار معلم اور عظیم مربی کی حیثیت سے عام و خاص میں معروف و مسلم رہے۔یہ زمانہ کوئی ۲۰۰۰ کے پس و پیش کا ہوگا ،اس درمیان آپ کے ہاتھوں تلامذہ کی کثیر تعداد آپ سے استفادہ کرکے نکلی اور دنیا کو اپنے علم و فن سے سیراب کر رہی ہے۔
آپ نے دعوتی و تنظیمی میدان میں قابل قدر خدمات انجام دیں حتی کہ ۲۰۰۲ءمیں صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے نائب ناظم منتخب ہوئے۔ تنظیمی امورسے آپ کی دلچسپی اورمہارت اس قدرفزوں تر ہوئی کہ آپ كو مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کا نائب ناظم منتخب کیا گیا، ساتھ میں شعبۂ تنظیم نیزشعبۂ دعوت وتبلیغ کی ذمہ داری آپ کو تفویض کی گئی۔آپ کے عزائم شباب پر تھےاور بلند بھی ، دعوتی دورے شروع کیے اور ملک میں منہج ومسلک حق کی بھرپور ترجمانی کی،بڑے بڑے اجتماعات وکانفرنسوں میں جمعیت کی نمائندگی کے لیے آپ مشہور تھے، آپ کی خطابت کا اسلوب بہت ہی پر اثرتھا،اللہ تعالی نے آپ کو جادوئی بیان سے سرفراز فرمایا تھا،دلوں پر حکومت کرنے کا ہنر خوب آتا تھا،جہاں آپ نے خطاب کیا،دلوں کو موہ کیا،جس جگہ تشریف لے گئے،سب کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ زبردست داعیانہ اوصاف وکمالات کے مالک تھے، مسلکی ومنہجی غیرت وحمیت آپ کے اندرکوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،اس سلسلے میں کبھی بھی اورکہیں بھی وہ سمجھوتے کے قائل نہ تھے اور نہ ہی انھوں نے سمجھوتہ ہی کیابلکہ اپنی بات کابلا خوف لومة لائم برملااظہار کرنا آپ کا طرۂ امتیاز تھا ، بلکہ اس پر ڈٹے رہنا آپ کی خاص شان و شناخت تھی۔کیا مجال کہ اپنے اصولوں سے ایک انچ پیچھے ہٹ جائیں،عوام میں وہ اپنی مدلل،شعلہ بیاں اور شرر فشاں خطابات وتقاریر کے لیے بہت مشہورتھے۔اللہ نے آپ کو زوردارخطیبانہ اسلوب کے علاوہ بہترین اور مسحور کن آواز سے بھی نوازا تھا۔
شیخ رحمہ اللہ کی زندگی کاکل حصہ کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت میں گزرا، جہاں بھی گئے سلفیت کا ترجمان بن کر گئے ،جس جا وارد ہوئے منہجِ سلیم کی ترجمانی کی اور اس معاملے میں کبھی بھی مداہنت سے کام نہیں لیا ،باطل اور مبتدعانہ طاقتوں کا کھل کر مقابلہ کیا اور ان کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہے۔رب کریم نے آپ کو سلاستِ زبان،شائستگیٔ بیان اور قلمِ سیال سے نوازا تھا۔ مولانامحمود دریا آبادی کی بدباطنی کا جس علمی روانی کے ساتھ مؤاخذہ فرمایا ہے،آج بھی دی فری لانسر میں موجود ہے۔
آپ کے اشہبِ قلم سے جو کتابیں منظرِ عام پر آئیں (چاہے وہ تالیف ہو یا ترجمہ،رد ہو یا دفاع )دیکھنے،پڑھنے اور مطالعہ کرنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
آپ کا مطالعہ انتہائی وسیع تھا ،آپ کے علمی افق میں وسعت تھی ،انتظامی امور کا بھرپور اور حظِ وافر حصہ عطا ہوا تھا ،سلفیت کی محبت ،منہج کی عقیدت اور توحید و سنت سے شیفتگی اوروارفتگی کوٹ کوٹ کر آپ کے دل و دماغ میں بھری تھی ،جس کااظہار آپ کی تحاریر ،تقاریر ،آپ کی گفتگو اور آپ کے عام بول چال سے باربار ہوتا تھا۔
ترجمان میں آپ کی تحریر یں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں،ان فائلوں کو اٹھاکر دیکھیں آپ کی وسعتِ مطالعہ کا اعتراف کیے بغیر آپ نہیں رہ سکتے۔ جب آپ السنہ کے مدیراعلی بنے تو جو اداریے آپ نے لکھے ،پڑھنے والا پوارا اداریہ پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔جب آپ الجماعہ کے مدیر بنائے گئے تو اس کے شایانِ شان مقالے لکھے ،لوگوں کے قلب و ذہن کو اپنے قلم سے جھنجھوڑا اور خوب خوب جھنجھوڑا۔
۲۰۰۳ ء میں جب آپ کو مرکزی جمعیت کا نائب ناظم بنایا گیا،تو آپ نے جمعیت کو نکھارنے،سجانے ،سنوارنے بہتر بنانے اور خوب سے خوب تر کرنے کے لیے اپنی پوری صلاحیت جھونک دی ۔۲۰۰۴ء میں جب پاکوڑ کانفرنس ہوئی اور آپ کو اس کا انتظامی امور سونپاگیا تو آپ بہ نفسِ نفیس میدان میں اتر کر اس کے خد و خال کو درست کرنے ،اسے سجانے سنوارنے اور خوب تر بنانے میں شبانہ روز جٹے رہے،مقالے لکھے ،گزارشات تیار کیں،رسالے لکھے ،جريده ترجمان کا کوئی شمارہ ایسا نہیں ہوگا ،جس میں آپ کا کوئی آرٹیکل کانفرنس سے متعلق نہ شائع ہوا ہو۔عجیب مرد مجاہد اور عزائم کا دھنی آدمی تھا ،كام کرتے گئے اور ترقی کے منازل طے کرتے گئے ۔پاکوڑ کانفرنس کے موقعے پر آپ کی جد و جہد میں نے بذاتِ خود دیکھا ہے:خدا بخشےبہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔
آپ کی زندگی صابرانہ و شاکرانہ طور طریقے سے بہرہ مند تھی ،آپ عرصۂ دراز سے کینسر کے مرض میں مبتلاتھے ،بار بار اس کا آپریشن ہوا،لیکن کبھی ہمت نہیں ہاری بلکہ ناسازیٔ طبع کے باوجود دعوتی دورے کیے،اپنی نقاہت و ضعف کے باوجود تقریریں کیں،جلسوں اور اجتماعات میں شریک ہوئے ،مسلکِ حقانیت کو واضح کیا ،آپ کی زندگی کی گاڑی رواں دواں رہی اور آپ نےدعوتی وتبلیغی اسفار جاری وساری رکھا۔ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے،خوف وہراس سے بے پرواہ ہوکر تاحیات دینی ودعوتی مشن میں لگے رہے۔
آپ کی وفات بالیقین جماعت و جمعیت کے لیے،بلکہ پوری ملت کے لیے بہت بڑا خسارہ ہے،جس کی تلافی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ،مگر ہم اللہ کی ذات سے قطعی نا امید نہیں ہیں وہ کوئی صورت وسبیل ضرور پیدا کرے گا،و ما ذالک علی اللہ بعزیز
رب کریم شیخ رحمہ اللہ کی بال بال مغفرت فرمائے،ان کی جملہ چھوٹی بڑی خدمات قبول فرمائے،آپ کے متعلقین،شاگردان اور لواحقین کو صبرِ جمیل کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین یا رب العالمین ؎
آسماں تیری لحد پرشبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
آپ کے تبصرے