حضرت العلام محدث جلیل ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمن اعظمی مرحوم
امیدیں قلیل مقاصد جلیل
لقد لامني عنـد القبور على البكا
رفيقي لتَذراف الدموع السوافـكِ
فقال: أتبكي كـــل قبر رأيته
لقبر ثوى بين اللــوى فالدكـادك؟
فقلت له: إن الشجا يبعث الشجا
فــدعني، فهذا كـــله قبر مالك
قبروں پر زار وقطار آنسو بہانے پر میرے دوست نے مجھے ملامت کرتے ہوے کہا: مقام لوی اور دکادک کے درمیان تم جس قبر کو بھی دیکھتے ہو آنکھیں برسانا شروع کردیتے ہو، کیوں کرتے ہو ایسا؟ میں نے کہا: ایک غم دوسرے غم کو ابھارتا ہے، مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، (مجھے یوں گمان ہوتا ہے جیسے) ہر قبر میرے بھائی «مالک» کی ہے۔
خیال تھا کہ آج عید قرباں سے متعلق جملہ امور سے فراغت کے بعد حضرت العلام محدث جلیل ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی مرحوم کے حوالے سے تاثرات قلمبند کروں گا، اچانک صبح فجر بعد اطلاع ملی کہ منہج سلف کے شیدائی اور غیور عالم دین حضرت مولانا مقیم فیضی بھی داربقا کی طرف کوچ کرگیے، ابھی ہم عالم بے مثل حضرت العلام حافظ صلاح الدین یوسف، حضرت شیخ علی حسین سلفی بنارس، ڈاکٹر ولی اختر ندوی، حضرت ڈاکٹر لقمان سلفی اور حضرت العلام اعظمی مرحومین کے سانحہ وفات کے زخم سے جانبر نہ ہوسکے تھے کہ یہ خبر تڑپا گئی، دل کے زخم ہرے ہوگیے، یہ سال عام الحزن قرار پایا، اعلام سنت کا یوں گزر جانا «يقبض العلم بقبض العلماء» کی سچی تصویر ہے، غربت اسلام اور شمع علم وشعور کے غل ہونے کے واضح اشارے ہیں، خدا امت مرحومہ کے حالات درست فرماے۔ آمین
حضرت العلام محدث عظیم ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی مورخہ (1441/12/9ھ/ = 30/7/2020) بروز عرفہ ٹھیک خطبہ کے وقت سفر آخرت پر روانہ ہوگئے، 1943م = 1362ھ میں اعظم گڈھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں بلریاگنج کے ایک ہندو گھرانہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم شبلی کالج سے ہوئی، بارگاہ الہٰی سے خاص عنایت ہوئی، دولت اسلام سے شرف یاب ہوئے، افراد خانہ جان کے دشمن بن گئے، حفاظت کی خاطر دور دراز مشہور جامعہ دار السلام عمرآباد منتقل ہوگیے، وہاں پرسکون ہو کر عالمیت وفضیلت مکمل کی، مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا، ملک عبدالعزيز یونیورسٹی، مکہ مکرمہ (ام القری) سے حدیث میں ایم اے کیا، ازہر یونیورسٹی مصر سے حدیث ہی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، مدینہ یونیورسٹی میں 1979م = 1399ھ میں استاد مقرر ہوے، پھر پروفیسر اور ڈین فیکلٹی آف حدیث۔
ریٹائرمنٹ کے بیس سال اور پھر جنت البقیع آخری آرامگاہ قرار پائی، اعظم گڑھ کے ایک معمولی گاؤں سے جنت البقیع تک کا سفر خوبصورت بھی ہے اور عبرت انگیز بھی، کفر وشرک کے تیرہ وتاریک غار سے نکلے، شہر توحید وسنت مدینہ پہنچے، عہد حاضر کے امام سنت اور شیخ حدیث کہلاے، لوگوں کے لیے مشعل راہ بنے اور جنت البقیع میں صدیقین، شہدا اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں آسودہ خاک ہوے۔ اللہ اللہ! عظمت وبلندی کی کیسی کیسی مثالیں تو نے تماشہ گاہ عالم میں اہل بصیرت ونگاہ کے لیے بنائیں۔
حضرت محدث اعظمی مرحوم اس عہد کی سب سے بڑی عظمت تھے، سچ مچ یکتائے روزگار تھے، برصغیر میں علم وعمل ہر دو اعتبار سے ان کی کوئی نظیر نہیں، علم کا عالم یہ تھا کہ ایک عجمی ہوکر عربوں کے محدث تھے، علم حدیث آپ کا اصل میدان اور آپ کی توجہات کا مرکز تھا، آپ اس میں منتہائے کمال تک پہنچے، قابل رشک مقام سے سرفراز ہوے، آپ کی ساری اکیڈمیک خدمات اسی عظیم الشان علم کے گرد گھومتی ہیں، علم وآگہی کا وہ کون سا مرحلہ ہے جو آپ نے قطع نہ کیا ہو، متعدد ضخیم وعظيم کتابیں لکھیں، عالم اسلام میں ہزاروں شاگردان اور لاکھوں محبین تیار کیے، میکدہ علم سے وابستہ ہر شخص آپ کی عظمت علم وفضل کے روبرو سرنگوں، معترف، مشتاق اور گرویدہ ہے، معاصر دنیا میں شاید ہی کوئی بد حظ وبدطینت ہو جسے آپ سے عقیدت واحترام کا رشتہ نہ ہو کہ آپ اس دور میں برصغیر کے سب سے بڑے عامل بالسنہ حدیث کے عالم اور محدث تھے، اس وقت یہ اعزاز شاید ہی کسی کو حاصل ہو، یہ عظمت واقبال قسمت والوں کو حاصل ہوتا ہے، یہ اللہ کے خاص اور مقرب بندوں کی پہچان ہے۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں
آپ کی عملی زندگی بھی علم کی طرح روشن اور شاداب تھی، سلف صالحین کا نمونہ تھی، چہرہ پر نور تھا، مقربین کی علامات تھیں، شرافت، نجابت، عدالت، ثقاہت، ولایت، پاکیزگی نفس، زہد، استغنا، تقوی شعاری اور تعلق مع اللہ آپ کی زندگی کا خاص امتیاز ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ نے کبھی کسی سے بدکلامی نہ ہوگی، غیبت نہ کی ہوگی، کینہ وبغض نہ پالا ہوگا، زبان خلق کا نقارہ خدا ہونا بھی ضرور ہے مگر چہرے کی لکیریں یہ پیش گوئی کرتی تھیں۔
ایک بار ڈاکٹر صاحب مرحوم نے خود فرمایا: مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی مجھے غیبت اور بغض وحسد کے لیے ان شاء اللہ گرفت نہیں فرماے گا۔
ایك صاحب نے آپ كے ساتھ طباعتی معاملات میں كوتاہی كی، مدینہ میں قیام پذیر ایک باصلاحیت اسكالر دوست نے ان كی بابت كچھ بات كرنا چاہی، آپ نے فرمایا: آپ اس مسئلہ كو چھوڑ دیں، تین بار پوچھا، تین بار ایک لفظ بولنے سے منع کردیا۔
زندگی نہایت مثالی اور صا ف شفاف تھی، معاصر علماء اکابرین واصاغرین میں تعامل ولین دین میں جو کمزوری، غیبت وچغل خوری، جھوٹ، فساد انگیزی، بددیانتی، دین اور منہج کے نام پر جعل سازی، بے عہدی ، بدمعاملگی، عملی بے راہ روی اور بےہنگمی ہے، ڈاکٹر صاحب مرحوم ان سب سے بہت دور تھے، آپ کا مکمل وقت مطالعہ، کتب بینی، تصنیف وتالیف اور بحث وتحقيق میں گزرتا تھا، اٹھتے بیٹھتے کثرت سے اذکار واستغفار کا اہتمام کرتے، یاد الہٰی میں مصروف رہتے ۔
آہ یہ کیسی پاکیزہ زندگی تھی، جس میں صرف اور صرف قال اللہ اور قال الرسول کی صدا ئے دل نواز تھی، یہ کیسی عظمت تھی جس کی شامیں بھی روشن و تابندہ اور صبحیں بھی رخشندہ، ہر لمحہ، ہرمنٹ یقین کی قندیلوں سے روشن، ہر لحظہ ایمان کے آفتاب سے تاباں۔
آہ! عشق و شیفتگی کا وہ کون سا خامہ ان کے ہاتھ میں تھا، جس سے نکلنے والا ہر لفظ ایمان و یقین کی میزان سے گذر کر آتا، بحث وتحقیق کے ترازو سے ہو کر نکلتا، بیس برسوں تک مسلسل صرف رسول اللہ کی پاکیزہ و برگزیدہ زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ ادا ہوئے، حدیثوں کی صحت وسقم کا پتہ لگایا، کھرے کھوٹے کی پہچان کی، ان سے وابستہ فردوس معارف کے درکھولے، سنت نبوی کی تفہیم و تشریح سے عقیدت کی سطریں تخلیق کیں، سنت کی ایک ایک اینٹ سے تشنگان ہدایت کے لیے قصر یقین تیار کیا، یہ کیسا گردوں نما خامہ تھا جو گرجا بھی عظمت رسول وصحابہ کے تحفظ اور حصار بندی کی خاطر اور برسا بھی تو خس وخاشاک غرور و جہل بہالے گیا، کیا تحفظ میکدۂ عرفان و یقین سے لبریز ایسا کوئی قلم برصغیر کی مذہبی تاریخ میں کوئی پیش کرسکتا ہے۔
آہ! یہ کیسی زبان تھی جو نصف صدی تک خدمت سنت اور تفسیر اقراء سے زمزمہ سنج رہی، روضۂ مطہر کی آغوش میں بیٹھ کر اسی کی عظمت کی داستان رقم کرتی رہی، جب بھی گہرافشاں ہوئی تو حق وصداقت کے لیے ، جب بھی سخت گیر ہوئی تو معاندین دینِ حنیف پر، سارے رشتوں کی ڈور اسی سے جڑی رہی، یہ اس عہد کی مثالی زبان تھی۔
آہ! ایک ہندو گھرانہ میں پیدا ہونے والے ایک عام شخص کے اعزاز کاعالم کیا رہا ہو گا، جب مدینہ رسول میں آپ کو بحیثیت استاذ مقرر کیا گیا ہو گا، یہ کیسا مقام بلند ہے کہ دیار رسول میں ایک عجمی دنیا کے فصیح و مہذب لوگوں کوحدثنا اور اخبرنا کے ورد کرارہا ہو، انھیں عقدہائے مشکلات حدیثیہ کھول کھول بتا رہا ہو، رسول اور کلام رسول کی عظمت سے آشنا کررہا ہو، دنیا کے مقدس ترین مقامات حرم مکی ومدنی میں علوم دینیہ وشرعیہ کے دریا بہارہا ہو، ہزاروں عظمتیں اسی ایک عظمت پر نچھاور…
حضرت العلام اعظمی مرحوم کی زندگی داعیانہ تھی، اس کے باوجود خالص اکیڈمک تھے، ابتدا ہی سے تدریس وافادہ کے دوبدو تصنیف و تحریر سے خصوصی طور پر منسلک رہے، آپ کی جملہ تالیفات وتحریرات منفرد اور زمانہ کے تقاضوں کو پورا کرتی ہیں، انفرادیت اس لیے کہ گو بیشتر موضوعات عام ہیں مگر انھیں خصوصیت و انفرادیت کارنگ وپیرہن دیا گیا ہے، نہایت سادہ وشستہ اسلوب و انداز میں۔
انفرادیت ہرشخص کا منصب نہیں، عموماً بڑے بڑےمعاصر اہل علم نقل و نسخ اور اعداد و تربیت کا کام کر رہے ہیں اور چبائے لقمے کی طرح نگل رہے ہیں، کم حضرات ایسے ہیں جنھوں نے دنیا ئے علم وشعور کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا، ڈاکٹر صاحب مرحوم ان عبقری اہل علم میں سے ہیں جنھوں نے عشق و شیفتگی کے نئے زاویے دکھائے، علم وفضل کی راہوں کی بازیافت کی، اس حوالہ سے وہ حضرت العلام بکر بن عبد اللہ ابوزید کے ہم پلہ نظر آتے ہیں، اسلوب میں نہیں کیونکہ شیخ بکر کا اسلوب اپنے تمام معاصرین سے ممتاز اور یگانہ ہے، یہ سب کچھ محض اللہ کی توفیق سے ممکن ہے جو ہر عہد میں اس کے خاص بندوں کو حاصل ہوتی ہے۔
– حضرت العلام مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ «الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل» کی تالیف ہے، بلکہ یوں کہنا بالکل مبالغہ نہیں ہو گا کہ یہ آپ کی زندگی کا نچوڑ اور ما حصل ہے، بلکہ اسلامی تاریخ میں اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے، پہلی باریہ ۱۲ جلدوں میں دارالسلام ، ریاض سے (۲۰۱۶ء) شائع ہوئی، پھر شیخ ابن بشیر حسینوی نے اپنے مکتبہ سے ۲۰ جلدوں میں شائع کی، اس کتاب میں تمام احادیث صحیحہ کو مختلف کتابوں مثلاً صحاح، سنن، مؤطات، مصنفات، مسانید، جوامع، معاجم، مستخرجات، اجزاء اور امالی سے مع شواہد ومتابعات جمع کرنے کی کوشش کی ہے، کل ۶۷ کتابیں، چھ ہزار ابواب، سولہ ہزار سے زائد صحیح احادیث ہیں، جن میں تمام کتب و ابواب حدیثیہ ہیں اور ترتیب فقہی ابواب پر رکھی گئی ہے، تمام حدیثوں کی تخریج کے ساتھ حکم بھی لگادیا گیا ہے، دنیائے علم و تحقیق کے اکابرین نے اس عظیم الشان کام پر خراج تحسین پیش کیا، یہ وہ عظیم خدمت ہے جو تمام سابقین ولاحقین اہل علم کے روبرو تمغہ امتیاز و انفرادیت عطا کرتی ہے۔
– سیرۃ المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم الصحیحۃ علی منهج المحدثین
سیرت نبی پاک ﷺ ایسا عظیم الشان موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، خوش قسمتی سے جن دوکتابوں کو عالمی شہرت ہوئی اور بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان کے اثرات پورے عالم اسلام پر ہوئے، رحمۃ للعالمین ازقاضی منصور پوری اور الرحیق المختوم از شیخ صفی الرحمن مبارکپوری مرحومین۔
پانچویں صدی ہجری تک سیرت بلکہ جملہ موضوعات پر ائمہ دین و علمائے امت سندوں کے ساتھ کتابیں لکھتے تھے، سیرت پر بھی ابتدائی تمام کتابیں اسی قبیل کی ہیں، اس کے بعد یہ سلسلہ منقطع ساہوگیا، ڈاکٹر صاحب مرحوم کویہ سلسلہ زندہ کرنے کا خیال آیا، چنانچہ «الجامع الکامل» کے دوران تالیف ان تمام صحیح و مقبول احادیث و آثار کو اسانید کے ساتھ جمع کر دیا،ساتھ ہی ضعیف احادیث کی بھی نشاندہی فرمادی ہے۔
اس کے علاوہ دو چیزیں مزید اس کتاب کو ممتاز کرتی ہیں، اولاً مؤلف مرحوم نے نبیﷺ کی پیشن گوئیاں جمع کر دی ہیں، تاریخی تحقیق کے ساتھ کہ کون سی واقع ہوچکی ہے اور کون سی باقی ہے۔ ثانیاً نبیﷺکےمتعلق دیگر مذاہب میں جو اخبارو واقعات ہیں انھیں بھی پوری تحقیق سے جمع کر دیا گیا ہے مثلاً یہودیت، بودھ ازم، زرتشت وغیرہ۔اس طرح یہ کتاب بالکل نئی اور منفرد ہوگئی۔
– اختصار الجامع الکامل
مؤلف مرحوم نے۲۰ جلدوں کو پانچ جلدوں میں مختصر کیا، انداز و اسلوب کیا ہے طباعت سے قبل کچھ کہنامشکل ہے۔ البتہ مقصد اس کا یہ ہے کہ اردو وانگریزی زبانوں میں اس کے ترجمے شائع کیے جائیں، امید ہے کہ یہ کام پائہ تکمیل کو پہنچ چکا ہو گا، خاکسار کو بھی معمولی حصوں کے ترجمے کی سعادت حاصل ہے۔ اللہ کرے جلد شائع ہو اور لوگ عمومی فائدہ اٹھائیں۔
– المنۃ الکبری شرح و تخریج السنن الصغری للحافظ البیهقی (ت : ۴۵۸ھ)
امام السنۃ امام بیہقی کی دو کتابیں خاص شہرت رکھتی ہیں، السنن الصغریٰ اور السنن الکبریٰ ، اسی نام سے امام نسائی کی بھی تصنیفات ہیں، امام نسائی کی السنن الصغریٰ کو شہرت ہے، جب کہ امام بیہقی کی السنن الکبریٰ کو، یہ کتاب عبد المعطی امین قلعجی کی تحقیق سے (۱۹۸۹ء=۱۴۱۵ھ میں) چار جلدوں میں جامعۃ الدراسات الإسلامیہ، کراچی ، پاکستان سے شائع ہو چکی ہے۔
امام بیہقی نے اس کی تالیف میں اختصار سے کام لیا ہے، مؤلف مرحوم نے دیگر ائمہ دین کے دلائل حدیثیہ اور وجوہ ترجیح بھی بیان کیا ہے، اس طرح یہ کتاب «فقہ السنۃ» کا ایک معتبر مرجع بن گئی، فقہ کتاب وسنت کے ساتھ ساتھ احادیث کی بھرپور تخریج کی گئی ہے اور ساتھ ہی حکم بھی لگایا گیا ہے، ان امور کی توضیح مؤلف مرحوم نے مقدمہ کتاب میں کی ہے۔
اس کتاب میں مؤلف مرحوم کی جلالت علمی اور محدثانہ شان نمایاں ہوتی ہے۔ حدیث کے ہرگوشہ پرنظر کی گہرائی اور وسعت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ کتاب ۹ جلدوں پرمشتمل ہے، پہلی بار۲۰۰۱ء میں مکتبہ الرشد ریاض سے شائع ہوئی، دوسری بار بھی وہیں سے ۲۰۰۵ء میں شائع ہوئی۔
– أبو ھریرۃ فی ضوء مرویاتہ:
یہ در اصل آپ کے «ماسٹرس» کارسالہ ہے، اس کتاب میں آپ نے صحابی جلیل حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی تمام روایات کو کتب ستہ اور مسند احمد سے جمع کیا ہے، یہ بھی تحقیق کی ہے کہ یہ احادیث دیگر کن صحابہ رسول ﷺسے وارد ہیں، جنھیں ہم شواہد ومتابعات کہتے ہیں۔ اس طرح یہ طے کرنا آسان ہوگیا کہ کن احادیث میں حضرت ابوہریرہ روایت میں تنہا اور منفرد ہیں، یہ بات بھی ثابت کی ہے حضرت ابوہریرہ کی روایات کی تعداد ۲۰٠۰ سے زیادہ نہیں ۵۳۷۴ کی جو بات مشہور ہے اور مصطلح کی جملہ کتابوں میں لکھی ہے وہ مختلف سندوں کے اعتبار سے ہے متن کے اعتبار سے نہیں، یہ کتاب دراصل صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ پر مستشرقین ومنکرین سنت کی جانب سے کیے جانے والے اعتراض کا رد کرتی ہے، یہ ابو ہریرہ کے ساتھ ساتھ سنت رسول کا بھی دفاع ہے۔
تاریخ اسلام میں اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے، مؤلف مرحوم نے اس کی وضاحت خود مقدمہ الکتاب میں فرمائی ہے:
«ولاأعلم أحداً سبق فی تاریخ الاسلام بالدراسۃ علی ھذا المنھج، وإن کان بعض السلف اتبعوا فی بعض الجزئیات… فلاشک أن المنھج الذی اخترتہ للدفاع عن أبی ھریرۃ، وھو فی الأصل دفاع عن السنۃ النبویۃ کلھا بالأرقام والحقائق، وھو منھج لایوجد أدق منہ وأضبط، فإنہ فی طریقۃ ریاضۃ محضۃ (ابوھریرہ فی ضوء مرویاتہ (ص: ۶۸)
یہ کتاب ۸۰۰ صفحات پرمشتمل ہے ، پہلی بار دارالکتاب المصری قاہرہ سے ۱۹۷۹م میں شائع ہوئی ،پھر دوبارہ مکتبہ الغرباء مدینہ منورہ سے ۱۴۱۸ء میں شائع ہوئی۔
– أقضیۃ الرسول ﷺ:
یہ کتاب علامہ ابو عبد اللہ محمد بن فرج مالکی معروف بہ ابن الطلاع (ت : ۴۹۷ھ) کی تالیف ہے، جو اللہ کے رسول کے فیصلوں کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اس پر تعلیق، تحقیق اور استدراک کاکام کیا ہے، یہ ڈاکٹر یٹ کا رسالہ ہے جسے جامعۃ الأزھر مصر میں پیش کیا اور مرتبۃ الشرف الأولی کا امتیازی تمغہ ملا، ڈاکٹر صاحب نےاسےتین قلمی نسخوں کی روشنی میں تیارکیا ہے۔
احادیث کی تحقیق و تخریج کی ہے علتیں بھی بتائی ہیں اور صحت و ضعف کا حکم بھی لگایا ہے۔ جہاں انھیں مصدر حدیث نہ مل سکاوہاں’’لم أقف علی من خرجہ‘‘ بھی لکھا ہے۔ طول طویل تعلیقات کے ساتھ اور مفید فقہی دلائل و ترجیحات کا بھی تذکرہ کیا ہے، نیز استدراک بھی کیا ہے یعنی جو فیصلے مؤلف نہ ذکر کرسکےانھیں تلاش کر کے ذکر کیا ہے، جدید انداز سے فہرست سازی بھی کردی ہے۔ محقق مرحوم نے ان امور کا تذکرہ مقدمۃ المحقق میں کیا ہے جو ۶۸ صفحات پر مشتمل ہے۔
یہ کتاب ۷۴۰ صفحات پر مشتمل ہے ، اردو ترجمہ پاکستان سے شائع ہوچکا ہے اور انگریزی ترجمہ بھی غالباً ہوچکا ہے، ضرورت ہے اسے زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے اور خصوصاً انگریزی ترجمے مختلف ممالک کی عدالتوں تک پہنچائے جائیں تاکہ دنیا کو آپ ﷺ کے عدل اور انصاف اور جملہ امور میں گہری بصیرت سے واقفیت ہو اور لوگ اسلام سے قریب ہوں۔
اندازہ کیجیے ڈاکٹرصاحب مرحوم کا انتخاب کس قدر معنی خیز ہے، ایک طرف سنت رسول ﷺ کی خدمت ہے وہیں داعیانہ جذبہ بھی کارفرما ہے۔ اس طرح اس کی انفرادیت طے ہوتی ہے۔پہلی بار یہ کتاب ۱۳۹۸ھ =۱۹۷۸ء میں دار الکتاب المسوی قاہرہ سے شائع ہوئی پھردار الکتاب اللبنانی ، بیروت سے ۱۹۸۲ء میں شائع ہوئی،پھر دارالسلام ، ریاض سے ۲۰۰۳ء میں اچھے انداز میں شائع ہوئی۔
– دراسات فی الیھودیۃ والنصرانیۃ وأدیان الھند:
ابتدا میں یہ کتاب «دراسات فی الیھودیۃ والنصر انیۃ» کے نام سے مدینہ منورہ سے ۱۹۸۸ء میں شائع ہوئی، اس میں یہودیت اور عیسائیت پر تفصیلی گفتگو ہے، ساتھ ہی ان کی کتابوں میں تحریفات اور ان میں نبی ﷺ سے متعلق پیشین گوئیوں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔”ادیان الھند” سے متعلق آپ کے مقالات “مجلہ الجامعۃ الإسلامیہ” میں شائع ہوئے تھے، بعد میں انھیں ترتیب جدید کے ساتھ اس مثل انسائیکلوپیڈیائی کتاب میں شامل کیا۔ ۷۸۴ صفحات پر مشتمل ہے جو متعدد بار مکتبہ الرشد ریاض سے شائع ہوچکی ہے۔
خاکسار کو ’’ادیان الھند‘‘والے حصہ کو لفظ بہ لفظ پڑھنے اور مفصل نوٹ تیار کرنے کا شرف حاصل ہے۔ بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی جامع کتاب شایدہی ہو خصوصاً ہندوستانی مذاہب کی بابت تو بالکل منفرد انداز اور محققانہ ہے۔
– دراسات فی الجرح والتعدیل:
جرح و تعدیل کے موضوع پر ۴۶۵ صفحات پر مشتمل ایک موسوعی کتاب ہے، اس فن سے متعلق تمام اصول و فروع گوشوں پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے، جرح، تعدیل، اصلاحات اور مشاہر ناقدین حدیث (علماءجرح و تعدیل) میں سے ہر ایک کو الگ الگ چار فصلوں میں بانٹ دیا گیا ہے ۔ اس طرح طلبۂ حدیث کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی سرمایہ ہوگئی پہلی بار جامعہ سلفیہ بنارس سے ۱۴۰۳ھ= ۱۹۸۳ء میں شائع ہوئی ، یہی نسخہ ہمارے سامنے ہے۔ پھر متعدد مکتبات نے خوبصورت انداز میں شائع کیا۔
– معجم مصطلحات الحدیث ولطائف الأسانید:
یہ کتاب اصطلاحات حدیث و علو م الحدیث ، جرح و تعدیل اور لطائف الأسناد سے متعلقہ دیگر اہم مباحث پر مشتمل شاندار کتاب ہے، جسے امہات الکتب کی روشنی میں حروف تہجی کی ترتیب کے ساتھ جمع کیا گیا ہے، موضوع گونیا نہیں، مگر انداز ترتیب و تحقیق اپنی نوعیت کا منفرد ہے۔
کتاب ۵۷۲ صفحات پرمشتمل اضواء السلف ریاض سے ۱۴۲۵ھ میں شائع ہوئی سردست یہی نسخہ ہمارے پیش نگاہ ہے۔
– اسی طرح التمسک بالسنہ فی العقائد والأحکام سنت کی تشریعی حیثیت کو واضح کرتی اہم اورعلمی کتاب ہے، اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے، عربی کتاب مدینہ منورۃ سے ۱۴۱۷ ھ میں شائع ہوئی۔
–کتاب الأدب العالی: اسلامی آداب و اخلاق پر مشتمل منتخب احادیث کا مجموعہ ہے، جامعہ دارالسلام عمر آباد سے ۲۰۱۷ء میں شائع ہوئی۔
–تحفۃ المتقین:مسنون ذکر و اذکار پر مشتمل قیمتی کتاب ہے، پہلی بار پاکستان سے شائع ہوئی، اس کا اردو ترجمہ پسران حضرت مولانا مختار احمد ندوی مرحوم نے ممبئی سے شائع کیا ہے، یہ ہر گھر کی ضرورت ہے، اسے شائع کر کے عام کرنا چاہیے۔
– تین کتابیں مزید ہیں، جنھیں ڈاکٹر صاحب مرحوم نے پہلی بار اپنی تحقیق سے شائع کیا،المدخل إلی السنن الکبری للبیھقی، یہ در اصل السنن الکبریٰ کا مقدمہ ہے جس کا قلمی نسخہ خدا بخش لائبریری سے حاصل کر کے ’’اضواء السلف‘‘ ریاض سے ۱۴۰۴ ھ میں شائع کیا۔
دوسری کتاب فتح الغفور فی و ضع الأیدی علی الصدور: یہ شیخ الإسلام محمدبن عبد الوہاب اور علامہ محدث فاخرزائر الہ آبادی کے استاذعلامہ محمد حیات سندھی کی تصنیف لطیف ہے۔ نماز میں نیت سینہ پر باندھنے سے متعلق ہے، ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اسے اپنی تحقیق و تخریج سے دار السنہ مصر سے ۱۴۰۹ھ میں شائع کیا۔
تیسری کتاب ثلاثۃ مجالس من أمالی ابن مردویہ: ڈاکٹر صاحب مرحوم نے تحقیق و تخریج کر کے دارعلم الحدیث ،امارات سے ۱۹۹۰ء میں شائع کیا۔
– قرآن کی شیتل چھایا (قرآن کریم کی ٹھندی چھاؤں) ڈاکٹر صاحب مرحوم نے دوران طالب علمی مدینہ یونیورسٹی، اسلام کی بنیادی دعوت اور مبادیات اور اعاظم رجال اسلام پر سلسلہ وار مقالات تحریر فرمائے تھے، جنھیں بعد میں کتابی شکل میں شائع فرمایا، ۱۶۰ صفحات پر مشتمل غیر مسلم طبقہ کے لیے بہت قیمتی تحفہ ہے ، اس کتاب نے بہتوں کو اسلام کی طرف متوجہ کیا، متعدد بار ہندوستان کے مختلف مکتبات نے شائع کیا اورمسلسل شائع ہورہی ہے۔
– قرآن مجید انسائیکلوپیڈیا:
نام سے موضوع واضح ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اس کا دائرہ اس قدر و سیع ہے کہ اسلامی انسائیکلو پیڈیا کی صورت میں تیار ہوئی، قرآن و سنت کے اعتقادی مسائل، شرک و بدعت اور برے اخلاق سے دور رہنے کی تلقین، قرآن میں بیان کردہ احکام کی توضیح و تشریح، انبیاء و رسولوں کی دعوت وطریقہ دعوت، قرآن میں مذکور بادشاہوں اور دیگر شخصیات نیز اقوام گذشتہ کا تذکرہ، کائنات میں پھیلی اللہ کی نشانیاں، حیوانات، جمادات، شہروں اورملکوں وغیرہ کا تعارف، قرآن میں اخلاق عالیہ کا معیار، وغیرہ جیسے موضوعات پر مفصل گفتگو کی ہے۔
کتاب حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دی گئی ہے، اس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر عبد الرحمن فر یوائی کی توجہ سے (۷۹۰) صفحات پر شائع ہو چکا ہے۔
یہ کتاب اگرچہ غیر مسلم طبقہ کے لیے لکھی گئی ہے مگر تمام لوگوں کے لیے یکساں مفید ہے۔ اردو ترجمہ مارچ ۲۰۱۸ء= ۱۴۳۹ھ میں شائع ہوا، فریوائی صاحب نے خاکسار کو بھی ازراہ شفقت ایک نسخہ مرحمت فرمایا۔جزاہ اللہ خیرا
مؤلف مرحوم خود کتاب کی انفرادیت کی بابت رقم طراز ہیں:
’’میری یہ کتاب شاید اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے، جو کسی مسلمان کے قلم سے قرآنی آیات، صحیح احادیث، صحابہ و تابعین اور دیگر ائمہ دین ومجتہدین کے اقوال کی روشنی میں کسی بے جا تحریف کے بغیر دین کی اصل و صحیح تعلیمات کو پیش کرنے کی غرض سے تیار کی گئی ہے۔‘‘ (قرآن انسائیکلو پیڈیا: ص ۱۳)
اسی طرح کچھ رسائل’’مکتبہ شاملہ‘‘پہ یونیکوڈ ورژن میں موجود ہیں، غالباً یہ ’’مجلۃ الجامعۃ الاسلامیہ‘‘ میں بھی شائع ہوچکے ہوں گے ، ان میں ایک آدھ کو مجلہ میں بھی دیکھنے کا اتفاق ملا ۔
تحیۃ المسجد
صلاۃ التراویح
صلاۃ الجماعۃ
صلاۃ المسافر
دراسات فی السنۃ النبویۃ
دراسات فی الدیانۃ الھندیۃ (ڈاکٹر صاحب مرحوم کی مفصل کتاب کا حصہ ہے)
ڈاکٹر صاحب مرحوم کے متعدد انٹریوز یوٹیوب پر موجود ہیں ان سے بھی استفادہ کیاجاسکتا ہے۔
حضرت محدث اعظمی مرحوم کی ساری تالیفات میں انفرادیت کا رنگ ہے، بیشتر کتابیں ایسی ہیں جو اپنی نوعیت کی اولین کتابیں ہیں، جو انھیں دوسروں سے ممتاز کرکے یگانہ روزگار بناتی ہیں، مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمتوں سے نوازا تھا، ان کی تمام تالیفات کو اللہ تعالی نے قبول عام سے نوازا۔
شیخ اصغر علی سلفی (امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند) کا بیان ہے کہ میں عموما ڈاکٹر صاحب مرحوم کے ساتھ لائبریری جایا کرتا تھا، آپ آتے ہی چند منٹوں میں اپنی ساری مطلوبہ چیزیں جمع کرلیتے، مباحث ومعلومات نکال لیتے اور ہم حیران ہو کر آپ کی طرف دیکھتے رہتے، یہ محض اللہ تعالی کا آپ پر خاص فیضان تھا۔
ڈاکٹر فریوائی حفظہ اللہ کا بیان ہے کہ آپ کو فقہ السنہ کا محاضرہ دینا تھا، کچھ الجھن تھی، پھر دیکھتے دیکھتے محض تین چار دنوں میں پوری کتاب تیار کرلی، اللہ تعالیٰ نے آپ کے وقت میں عجیب وغریب برکت عطا فرمائی تھی، کم وقت میں بڑے بڑے علمی کام آپ نے انجام دیے۔
حضرت محدث مرحوم ایک بار ایک صاحب سے کتابوں کی طباعت کی بابت ٹیلیفونک گفتگو فرما رہے تھے، درمیان میں خاکسار کا تذکرہ آیا، بات کرنے کی خواہش ظاہر کی، میں وہیں تھا، علیک سلیک کے بعد مختلف امور سے متعلق گفتگو ہوئی، اندازہ ہوا کہ آپ خاکسار سے اچھی طرح واقف ہیں، اس وقت الجامع الکامل چھپ کر آچکی تھی، اپنی عقیدتوں کا اظہار کیا، عرض کیا «اولیات اھل الحديث» کا عربی ترجمہ کرچکا ہوں [جو بعد میں دارلطائف، کویت سے شائع ہوئی ہے] جہاں آپ کا ذکر خیر بھٹی مرحوم نے کیا ہے، وہاں الجامع الکامل کی بابت توضيحی نوٹ حاشیہ میں لگا دیا ہے، شیخ نے شکریہ ادا کیا، دعائیں دیں اور حکم ہوا کہ چند کتابیں ہیں انھیں بھیج دو، وہ کتابیں کچھ عزیزوں کے حوالہ کی گئیں مگر وہ یہیں چھوڑ کر چلے گیے، شیخ نے پھر پوچھا تو صورت حال بتا دی، آپ نے فرمایا یہاں مدینہ یونیورسٹی کے طلبہ بہت غیر ذمہ دار ہوتے ہیں، پھر وہ کتابیں دوسرے راستہ سے بھیج دی گئیں۔
خاکسار اسے اپنے لیے بڑی سعادت سمجھتا ہے کہ وقت کا ایک عظیم محدث اس بندہ بے نوا سے نہ صرف اچھی طرح واقف ہے بلکہ عزیز بھی رکھتا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ جب سے آپ سے واقفیت ہوئی، عقیدت، محبت اور احترام کے جذبہ سے نہال ہے، اور اسے اس عہد کا سب سے عظیم شخص سمجھتا ہے، علم، عمل، شعور، آگہی، اور قلندرانہ شان میں در فرید اور یکتاے روزگار تصور کرتا ہے، یہ اعتقاد بھی رکھتا ہے:
أحب الصالحین ولست منهم
لعل الله يرزقني صلاحا
الہی! شریعت محمدی کا یہ عظیم پاسبان ومحافظ تیری بارگاہ میں حاضر ہے، تو اسے رحمت ومغفرت کی آغوش میں لے لے، بشری کوتاہیوں سے درگزر کرکے اعلی علیین میں صدیقین، شہدا، صالحین کے ساتھ جگہ دے۔
Hi Rashid Great 💐
💔💔اللہ اعظمی صاحب رحمہ اللہ کو جنت میں اعلی مقام عطا کرے… آمین
ماشاء الله.. مضمون بہت لکھاہے آپ نے بارك الله في علمك.. لفظ مرحوم مضمون میں بارہا دھرایا گیا ہے اور یہ لفظ اردو دان طبقہ میں معروف ہے مگر عقیدتا لفظ مرحوم ومغفور کا استعمال محل نظر ہے
میں نے مرحوم کا لفظ قصدا استعمال کیا ہے اور بار بار استعمال کرتا ہوں، ہر اعتبار سے دلائل کی بنیاد پر درست سمجھتا ہوں، اسلیے تاکہ حرفیت پسندی کا بت ٹوٹے اور غورو فکر میں گہرائی پیدا ہو، عربی زبان کے قواعد کی روشنی میں صیغہ مفعول دعائیہ جملہ کے طور استعمال ہوتا ہے، مثلا المملكة العربية السعودية المحروسة، أي حرسها الله، یہ اتنی مضبوط دلیل ہے کہ قواعد کا معمولی واقف کار سمجھ سکتا ہے، اس کے اور بھی دلائل ہیں، وفي ما ذكر كفاية لمن يتدبر. وهو الموفق.
ماشاءاللہ بہت خوب بارک اللہ فی علمک و عملک