خطاب: حافظ عبد الحسیب عمری مدنی
تلخیص: کاشف شکیل سلفی
اجتماعیت کا مفہوم:
خود کو اوروں کے ساتھ ضم کرنے کا نام اجتماعیت ہے، آدمی یہ بھول جائے کہ وہ اکیلا ہے، اسے اس بات کا احساس رہے کہ میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہوں، جو میں نہیں کرسکتا وہ ہم کر سکتے ہیں، جو کام جماعت کے کرنے کا ہے اس کو میں کرنے کا حوصلہ نہ جتاؤں۔ انسان جماعت کے ساتھ چلے، جماعت کو ہمیشہ اپنے اوپر مقدم رکھے۔
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں، بیرونِ دریا کچھ نہیں
اجتماعیت کی اہمیت قرآن کی روشنی میں:
اسلامی شریعت کے بہت سے احکامات ایسے ہیں جن پر آدمی فرد کی حیثیت سے عمل نہیں کر سکتا جب تک کہ فرد اسے جماعت تک نہ لائے، اللہ تعالی نے فرمایا:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (3:103)
اس میں اللہ نے تین باتوں کا حکم دیا ہے:
1-اللہ تعالیٰ کی رسی کو تھام لو
2- ایک دوسرے سے مل کر یعنی جماعت کے ساتھ تھامو
3- اور پھوٹ نہ ڈالو، افتراق و انتشار سے بچو
امام طبری اور امام قرطبی رحمہما اللہ نے “اللہ کی رسی” کی تفسیر میں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے نقل کیا ہے کہ اس سے کتاب اللہ یا مسلمانوں کی جماعت مراد ہے۔
امام قرطبی فرماتے ہیں کہ حقیقت میں یہ دونوں مراد ہیں اس لیے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے اندر داخل ہیں یعنی کتاب اللہ کی مکمل پیروی جماعت سے ہی جُڑنے میں ہے۔
دوسری جگہ اللہ نے فرمایا:
إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ (21:92)
یہ تمھاری امت ہے جو حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں پس تم میری ہی عبادت کرو۔ (21:92)
نیز ایک آیت میں یوں ہے:
وَإِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ (23:52)
یعنی تم میرا ہی تقوی اختیار کرو۔
مفسرین نے کہا ہے کہ ان دو آیتوں میں اللہ تعالی یہ پیغام دے رہا ہے کہ بحیثیت اُمت جب تک ہم اجتماعیت کا خیال نہیں رکھیں گے اُس وقت تک ہم کماحقہٗ عبادت کا حق ادا نہیں کرسکتے اور نہ ہی تقویٰ کے اعلیٰ معیار کو پا سکتے ہیں۔
امام قتادہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیت “إِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا” (3:120) کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں “اگر تم اجتماعیت کے ساتھ رہتے ہو تو یہودیوں کو برا لگتا ہے اور اگر تم افتراق و انتشار کا شکار ہوتے ہو تو یہودی خوش ہوتے ہیں”
یعنی اجتماعی مزاج کو نظر انداز کرکے اپنی انفرادی حیثیت کو پروان چڑھانے والا دراصل اسلام کا خادم نہیں بلکہ اپنے نفس کا خادم ہوتا ہے اور دشمنان اسلام کو خوش کرتا ہے، شریعت کی نظر میں اجتماعیت ایک مطلوب عمل ہے۔
اجتماعیت کی اہمیت حدیث کی روشنی میں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“عليكم بالجماعة، وإياكم والفرقة ؛ فإن الشيطان مع الواحد، وهو من الاثنين أبعد، من أراد بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة” (سنن الترمذي 2165 وصححه الألباني)
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ سلم نے چند ایک باتیں بتلائی ہیں:
1- اجتماعیت بے انتہا ضروری ہے۔
2- افتراق و انتشار سخت ممنوع ہے۔
3- شیطان تنہا شخص کے ساتھ ہے یعنی جو اجتماعیت کو بھول جاتا ہے اور اپنی انفرادی شناخت بنانے کی فکر میں اجتماعیت سے کنارہ کش ہو جاتا ہے شیطان اس کے ساتھ ہوتا ہے۔
4-اجتماعیت سے شیطان دور بھاگتا ہے یعنی ایک سے دو ہوئے تو شیطان راہِ فرار اختیار کرنے لگتا ہے۔
5- اجتماعیت سے جنت حاصل ہوتی ہے۔
اسی طرح دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” إِنَّ الشَّيْطَانَ ذِئْبُ الْإِنْسَانِ، كَذِئْبِ الْغَنَمِ، يَأْخُذُ الشَّاةَ الْقَاصِيَةَوَالنَّاحِيَةَ، فَإِيَّاكُمْ وَالشِّعَابَ، وَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ، وَالْعَامَّةِ، وَالْمَسْجِدِ” (مسند أحمد 22029)
بے شک شیطان انسانوں کا بھیڑیا ہے جس طرح بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے، بھیڑیا (شیطان) اسی بکری (انسان) پر حملہ کرتا ہے جو ریوڑ (جماعت) سے ہٹ کر کنارے چلی جاتی ہے۔
لہذا تم جماعت، عوام اور مسجد کو لازم پکڑو۔
معلوم ہوا کہ اجتماعیت کو نظر انداز کرکے چلنے والا مزاج اسلامی شریعت کا مزاج نہیں ہے، بعض لوگ امت کے تئیں اپنی ہمدردی میں بڑے مخلص ہوتے ہیں مگر انفرادی شناخت پیدا کرنے کے چکر میں اجتماعیت کے لیے مسائل پیدا کر دیتے ہیں۔
وضاحت:
اگر کوئی شخص کہے کہ ان سارے احکام پر عمل اس صورت میں مطلوب ہے جب پوری امت مسلمہ کا ایک امیر ہو۔
تو یاد رہے کہ یقینا یہ ایک امام کے تابع اجتماعیت سے متعلق ہے مگر جہاں پورے مسلمانوں کا ایک امام نہ ہو اس مقام پر کم ازکم یہ ہونا چاہیے کہ اس اختلاف کو جتنا ممکن ہو گھٹایا جائے، معتبر اہل علم میں سے کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ اجتماعیت کا خیال صرف مذکورہ بالا صورت میں رکھا جائے اور اگر مسلمانوں کا ایک امیر نہ ہو تو مسلمان جتنی چاہیں جماعتیں بنائیں۔
اجتماعیت ہر حال میں مفید ہے اور افتراق و انفرادیت مضر۔
اجتماعیت کی اہمیت زمانہ جاہلیت میں:
زمانہ جاہلیت میں اجتماعیت اتنی اہم تھی کہ وہ اچھائی اور برائی ہر ایک میں اپنی جماعت اور اپنے قبیلے کا ساتھ دیتے، اگر کوئی شخص بغیر قبیلے کے ہوتا تو اس کو پکڑ کر غلام بنا لیتے، آج مسلم نوجوانوں کو جس طرح حوالہ زنداں کیا جارہا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نوجوانوں میں عام طور پر کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہوتا ہے اور وہ دعوتی سرگرمیاں جماعت سے الگ ہوکر انفرادی طور پر کرنا چاہتے ہیں اور ان پر ہاتھ ڈالنے والے جانتے ہیں کہ اُن کے پیچھے کوئی جماعت یا تنظیم نہیں ہے اور یہ بہت ہلکے اور بے وزن لوگ ہیں۔
انفرادی پہچان بنانے والا اپنے نفس کا خادم ہوتا ہے نہ کہ اسلام کا، اجتماعیت میں خیر ہی خیر ہے اور انفرادیت میں شر ہی شر، اِلا یہ کہ آپ تنہا کتاب و سنت کی تعلیم دینے والے ہوں۔
اجتماعیت کی اہمیت تاریخی واقعات کی روشنی میں :
1) 132ھ میں خلافت بنو امیہ کا زوال اسی افتراق کا نتیجہ تھا، حالانکہ بنو امیہ کی حکومت دو براعظموں پر تھی۔
2) اندلس میں مسلمانوں کی حکومت 711ء سے 1492ء تک رہی، آج کی سائنسی ایجادات اور انکشافات اسی دور کی رہین منت ہیں، یہ حکومت سائنس و ٹیکنالوجی میں اپنا مقام رکھتی تھی مگر جب اجتماعیت کا فقدان ہوا تو اللہ نے ان کے ہاتھوں سے حکومت چھین لی۔
3) 656 ھ میں خلافتِ عباسیہ کا زوال اسی انتشار کا ثمرہ تھا۔
حالانکہ خلافت عباسیہ کی وسعت و عظمت یہ تھی کہ ہارون رشید بادل کو مخاطب کر کے کہتا کہ اے بادل تو چاہے جہاں برس، تیرا خراج میرے پاس ہی آئے گا۔
4) خلافت عثمانیہ (1299ء تا 1922ء) اپنے ہی باغیوں کے ذریعے اپنے انجام کو پہنچی۔
5) ہندوستان میں مسلمانوں نے 1206ء سے 1857ء تک حکومت کی مگر جب وہ طوائف الملوکی کا شکار ہوئے تو ان کے ہاتھوں سے حکومت کی باگ ڈور نکل گئی۔
وہیں دوسری اقوام کو دیکھیں، دوسری جنگ عظیم میں یورپ کا بہت نقصان ہوا انھوں نے اس سے سبق سیکھا اور چھوٹی چھوٹی حکومتوں کو ملا کر ایک یونین (اتحاد) بنایا، ان کے درمیان آپس میں ایسے گہرے سماجی، سیاسی اور اقتصادی تعلقات ہیں کہ وہ الگ الگ ہو کر بھی ایک ہیں۔
فرمانِ رسول ہے “السَّعِيدُ مَنْ وُعِظَ بِغَيْرِهِ” (صحیح مسلم 2645) یعنی جو دوسروں سے عبرت پکڑے وہی خوش قسمت ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ ان واقعات سے عبرت پکڑیں اور اجتماعیت کو یقینی بنائیں، افتراق و انتشار سے پرہیز کریں، اجتماعیت کے فقدان کی وجہ سے ہی ہم عالمی، قومی، صوبائی، ضلعی اور مقامی سطح پر نقصان اٹھا رہے ہیں۔
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
اجتماعیت کے تقاضے:
1- اجتماعیت کی اساس و بنیاد (کتاب و سنت) کی حفاظت کی جائے اور اس کے تحفظ کا ایک باب یہ بھی ہے کہ جو ان بنیادوں سے اختلاف کریں انھیں ان بنیادوں کے تھامنے کی دعوت دیں۔
2- فقہی یا اجتہادی مسائل میں اگر دلیل کی بنیاد پر اختلاف ہوتا ہے (نہ کہ مسلک اور عقلانیت کی بنیاد پر) تو ان کی بنیاد پر جماعت سے الگ ہو جانا جائز نہیں ہے۔ آپ اپنی ترجیح پر قائم رہیں مگر جماعت سے الگ نہ ہوں۔
ابن مسعود اور جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم کا موقف ہے کہ منیٰ میں نماز قصر کر کے یعنی دو رکعت پڑھی جائے گی مگر جب عثمان رضی اللہ عنہٗ نے اپنی خلافت میں چار رکعت نماز پڑھائی تو صحابہ نے چار رکعت ہی پڑھی، ابن مسعود سے لوگوں نے کہا کہ آپ تو تاکید کے ساتھ قصر پڑھنے کا حکم دیتے ہیں پھر آپ نے ایسا کیوں کیا؟؟ تو ابن مسعود نے جواب دیا:
“الخلاف شر” (أبوداود 1963 و صححه الألباني ) یعنی اختلاف برائی ہے۔
3- اجتماعیت کا لازمی تقاضا ہے کہ عوام اور ماتحت لوگ اپنے امیر اور ذمہ داروں کے ساتھ خیرخواہی اور سمع و طاعت کا معاملہ کریں، افراد کے اندر اجتماعیت کا مزاج ہونا ضروری ہے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ نے اللہ کی تلوار سیدنا خالد بن ولید کو جو پوری کامیابی کے ساتھ فوج کی قیادت کر رہے تھے معزول کرکے امین الامۃ ابو عبیدہ بن جراح کو امیرالجیش بنادیا خالد بن ولید کو پتہ چلا تو انھوں نے بلا چوں چرا فوراً مان لیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
دین اللہ، اس کی کتاب، اس کے رسولوں اور امراء و عوام کے ساتھ خیرخواہی کا نام ہے۔ (صحیح مسلم 55)
واضح رہے کہ اجتماعیت میں امیر کا تقدس عہدے کا ہے نہ کہ شخصیت کا، یہی وجہ ہے کہ نبی علیہ السلام نے حبشی غلام کی بھی اطاعت کا حکم دیا ہے اگر وہ امیر بن جائے۔ (بخاری 7142)
4- جس طرح عوام کے لیے ضروری ہے کہ اپنے امیر کے خیر خواہ ہوں اس سے کہیں زیادہ امیر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی امت کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرے۔
5- امیر کو چاہیے کہ مشورے کی کیفیت اپنے اندر ضرور باقی رکھے، جب اللہ نے اپنے ہادی و مہدی نبی کو “و شاورهم في الأمر” (آل عمران 159) کہہ کر صحابہ سے مشورہ کا حکم فرمایا تو عام انسان مشورہ کا کتنا محتاج ہوگا، جن کا رشتہ آسمان سے جڑا تھا انھیں مشورہ کا حکم ہوا تو پھر دوسرے مشورے کے کس قدر محتاج ہیں، شورائیت کے بغیر جو معاملات ہوتے ہیں وہاں آمریت (ڈکٹیٹرشِپ) آ جاتی ہے۔ مشورہ کی افادیت کے سلسلے میں حکماء کا قول ہے کہ جس نے معاملات کا تجربہ کیا ہو اس سے مشورہ لو اس لیے کہ اس نے تجربہ کی گراں قدر قیمت چکائی ہے مگر تمھیں مفت میں دے رہا ہے۔
6- شورائیت کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ جو مشورہ دیں اس پر ضرور بالضرور عمل ہو، اجتماعیت کا پہلا اصول یہ ہے کہ فرد اپنی رائے اور شخصیت کو بھول جائے، اجتماعیت کے لیے خود شکنی اور خود فراموشی ضروری ہے، معاملات کے باب میں اگر کبھی جماعت اجتہاد کی بنیاد پر مرجوح رائے اختیار کرلے تب بھی اللہ چاہے تو اس میں خیر و برکت ڈال دیتا ہے جیسا کہ اسیرانِ بدر کے مسئلے میں ہوا۔ سیدنا عمر کی رائے یہ تھی کہ سب کو قتل کر دیا جائے اور بعد میں وحی آئی تو اللہ تعالی نے اسی رائے کی تائید بھی فرمائی مگر نبی کریم اور دیگر صحابہ کی رائے تھی کہ انھیں فدیہ لے کر رہا کر دیا جائے، یہ رائے قرآن کی رو سے بعد میں مرجوح قرار پائی لیکن اللہ نے اس میں خیر و برکت ڈال دیا، بعد میں اسیرانِ بدر کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہوئی اور ان سے اسلام کا کافی فائدہ ہوا۔
آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے کلمے کو متحد کر دے اور ہمیں ہر قسم کے افتراق و انتشار سے محفوظ رکھے۔ آمین
جزاک اللہ خیرا محترم! بہت ہی جامع و مدلل مضمون آپ نے زیب قرطاس کیا ہے ۔ اس طرح کے مضامین وقت کی ضرورت ہے تاکہ امت مسلمہ امت واحدہ بن سکے ۔