سلف کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیاء اللہ رب العزت کی طرف سے رسالت اور پیغام کو امت تک پہنچانے میں معصوم ہوتے ہیں ۔مطلب یہ کہ وہ اللہ پر جھوٹ نہیں باندھتے اور نہ ہی اپنی طرف سے کوئی بات بنا کر پیش کرتے ہیں ۔
چنانچہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“فإنهم متفقون على أنَّ الأنبياء معصومون فيما يبلِّغونه عن الله تعالى، وهذا هو مقصود الرسالة، فإنَّ الرسول هو الذي يبلغ عن الله أمره ونهيه وخبره”۔ ( منهاج السنة النبوية: 1/470، والجواب الصحيح: 1/141)
“سلف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام انبیاء اللہ کا پیغام (لوگوں تک)پہنچانے میں معصوم ہیں اور رسالت سے یہی مقصود ہے ، چنانچہ رسول وہی ہوتا ہے جو اللہ کی جانب سے اس کے اوامر و نواھی اور اس کے اخبار کو(بندوں تک)پہنچائے۔”
مزید فرماتے ہیں:
“وما أنبأ به النبي عن الله لا يكون كذبا، لا خطأ ولا عمداً، فلا بد أن يكون صادقًا فيما يخبر به عن الله،يطابق خبره مخبره، لا تكون فيه مخالفة لا عمداً ولا خطأً، وهذا معنى قول من قال: هم معصومون فيما يبلغونه عن الله”۔ (النبوات، ص: 333)
“نبی اللہ کے بارے میں جو بھی خبر دیں وہ جھوٹی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس میں غلطی اور خطا کی گنجائش ہوسکتی ہے، لہذا ضروری ہے کہ نبی اللہ رب العزت کی جانب سے کسی بھی چیز کی خبر دینے میں بالکل سچا ہو اور خبر مخبر کے مطابق ہو، اس میں کسی طرح کی کوئی مخالفت نہ پائی جائے نہ تو جان بوجھ کر اور نہ ہی غلطی سے۔ انبیاء کا اللہ کے پیغام کو (لوگوں تک) پہنچانے میں معصوم ہونے کا یہی مفہوم ہے۔”
چنانچہ رسول رسالت کے تحمل میں بالاتفاق معصوم ہوتے ہیں اور اللہ رب العزت جو چیزیں ان کی جانب “وحی” کرتا ہے ان میں سے کچھ بھی بھولتے نہیں ہیں الا یہ کہ اللہ رب العزت اپنی حکمت بالغہ کے تحت خود ہی بھلا دے اور اس کے بدلے میں کوئی دوسری چیز دے دے، جیسا کہ اس کا ارشاد ہے:
“مَا نَنسَخۡ مِنۡ ءَایَةٍ أَوۡ نُنسِهَا نَأۡتِ بِخَیۡرࣲ مِّنۡهَاۤ أَوۡ مِثۡلِهَاۤۗ أَلَمۡ تَعۡلَمۡ أَنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَیۡءࣲ قَدِیرٌ” (البقرة: 106)
“ہم جب بھی کسی آیت کو منسوخ کرتے یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس جیسی یا اس سے بہتر آیت لاتے (بھی) ہیں۔ کیا تم جانتے نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔”
مزید فرماتا ہے: “سَنُقْرِئُكَ فَلاَ تَنسَىَ إِلاّ مَا شَآءَ اللّهُ”۔ (الأعلى: 6-7)
” ہم تجھ کو پڑھا دیں گے پھر تو بھولے گا نہیں بجز اس کے جو اللہ چاہے۔”
مزید یہ کہ یاد کرانے کی ذمہ داری خود اللہ نے لی ہے، جیسا کہ اس کا فرمان ہے:
“لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ” (القيامة: 16-18)
“(اے نبی !) اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرلینے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دے، اس وحی کو (تیرے دل میں) جمع کرنا اور زبان سے پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے ۔ پھر جب ہم پڑھوا چکیں تو پھر اسی طرح پڑھا کر۔”
اسی طرح وہ تبلیغ میں بھی معصوم ہوتے ہیں اور جو چیزیں اللہ تعالیٰ ان کی جانب وحی کرتا ہے اس میں سے ایک ذرہ بھی نہیں چھپاتے، کیونکہ کتمان ایک خیانت ہے اور یہ محال ہے کہ انبیاء خائن ہوں ۔
اللہ رب العزت فرماتا ہے:
“يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ”. (المائدة: 67)
“اے رسول! جو کچھ تیرے پروردگار کی طرف سے تجھ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دے اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو اللہ کا پیغام پہنچانے کا حق ادا نہ کیا”۔
اور اگر بفرض محال آپﷺ کچھ چھپا لیتے یا اپنی طرف سے کچھ تبدیلی کر دیتے تو اللہ رب العزت اپنی گرفت میں لے لیتا، جیسا کہ اس کا ارشاد ہے:
“وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ”. (الحاقة: 44-46)
“اور اگر نبی ہمارے اوپر کوئی من گھڑت بات منسوب کرتے، تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے، پھر ہم ان کی شہ رگ کاٹ دیتے۔”
یعنی: اپنی طرف سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیتا، یا اس میں کمی بیشی کردیتا، تو ہم فوراً اس کا مؤاخذہ کرتے اور اسے ڈھیل نہ دیتے۔
البتہ قرآن مقدس کے اندر ایک آیت کریمہ ہے جس کے ظاہر اور “من گھڑت” سبب نزول سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ رسول اکرمﷺ نے شیطانی اثر کی وجہ ایک نا شائستہ بلکہ کفریہ جملہ قرآن کریم کے اندر داخل کر دیا۔
وہ آیت کریمہ پیش خدمت ہے:
“وَمَاۤ أَرۡسَلۡنَا مِن قَبۡلِكَ مِن رَّسُولࣲ وَلَا نَبِیٍّ إِلَّاۤ إِذَا تَمَنَّىٰۤ أَلۡقَى ٱلشَّیۡطَـٰنُ فِیۤ فَیَنسَخُ ٱللَّهُ مَا یُلۡقِی ٱلشَّیۡطَـٰنُ ثُمَّ یُحۡكِمُ ٱللَّهُ ءَایَـٰتِهِۦۗ وَٱللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمࣱ”. (الحج: 52)
“ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول یا نبی بھیجا تو جب بھی وہ کوئی آرزو یا تلاوت کرتا تو شیطان اس کی آرزو یا تلاوت میں وسوسہ کی آمیزش کردیتا۔ پھر اللہ تعالیٰ شیطانی وسوسہ کی آمیزش کو تو دور کردیتا اور اپنی آیات کو پختہ کردیتا ہے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکمت والا ہے۔”
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں اکثر مفسرین نے غرانیق کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بیان کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں اکثر مہاجرین حبشہ یہ سمجھ کر کہ مشرکین مکہ اب مسلمان ہو گئے واپس مکہ آگئے تھے۔
وہ روایات جو قصہ غرانیق کو بیان کرتی ہیں ان میں سے ایک کو سعید بن منصور اور ابن جریر رحمہما اللہ نے محمد بن کعب قرظی اور محمد بن قیس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرمﷺ قریش کی مجلسوں میں سے ایک مجلس میں تشریف فرما ہوئے جس میں اکثر قریشی تھے۔ اس دن آپ نے تمنا کی کہ اللہ تعالی کی طرف سے کوئی ایسی چیز نہ آئے کہ جس کو سن کر وہ لوگ بھاگ جائیں۔
چنانچہ اللہ رب العزت نے: “وَٱلنَّجۡمِ إِذَا هَوَىٰ. مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمۡ وَمَا غَوَىٰ… إلخ”. (النجم:1-2) نازل فرمائی، آپﷺ اسے پڑھنے لگے یہاں تک کہ جب آیت: “أَفَرَءَیۡتُمُ ٱللَّـٰتَ وَٱلۡعُزَّىٰ. وَمَنَوٰةَ ٱلثَّالِثَةَ ٱلۡأُخۡرَىٰۤ”. (النجم: 18-20) پر پہنچے تو شیطان نے دو کلمات آپ کی زبان پر ڈال دیے: “تِلْكَ الْغَرَانِيق الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتهنَّ تُرْتَجَى” یعنی: یہ اونچے اونچے بت اور بلاشبہ ان کی شفاعت کی البتہ امید کی جاتی ہے ۔
آپﷺ نے یہ کلمات پڑھ دیے،آپﷺ پڑھتے رہے یہاں تک کہ پوری سورت پڑھ دی۔ پھر آپﷺ نے سورت کے آخر میں سجدہ کیا تو ساری قوم نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا، ہاں ولید بن مغیرہ چونکہ بہت ہی بوڑھا تھا اس لیے اس نے ایک مٹھی مٹی کی بھر کر اوپر اٹھایا اور اسی پر سجدہ کر لیا ، آپﷺ کے ان الفاظ کی وجہ سے قریش خوش ہوگئے اور کہا کہ: ہمیں معلوم ہے کہ اللہ جلاتا اور مارتا ہے وہی خالق ورازق ہے ،لیکن ہمارے یہ معبود اس کے پاس ہماری سفارش کرتے ہیں اور آپ نے ان معبودوں کو جب شریک بنا ہی دیا ہے تو ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ جب شام ہوئی تو جبریل علیہ السلام تشریف لائے، آپﷺ نے ان کے سامنے سورة پڑھی جب ان کلمات پر پہنچے جو شیطان نے آپ کی زبان پر ڈالے تھے تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا: میں ان دو کلمات کو نہیں لایا، رسول اللہﷺ نے فرمایا: “میں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا اور میں نے وہ بات کہی جو اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: “وَإِن كَادُوا۟ لَیَفۡتِنُونَكَ عَنِ ٱلَّذِیۤ أَوۡحَیۡنَاۤ إِلَیۡكَ لِتَفۡتَرِیَ عَلَیۡنَا غَیۡرَهُۥۖ … إلى: ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیۡنَا نَصِیرࣰا”. (الإسراء: 73-75) چنانچہ آپﷺ ان آیات کی وجہ سے برابر رنج اور غم میں مبتلا رہنے لگے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی: “وَمَاۤ أَرۡسَلۡنَا مِن قَبۡلِكَ مِن رَّسُولࣲ وَلَا نَبِیٍّ إِلَّاۤ إِذَا تَمَنَّىٰۤ أَلۡقَى ٱلشَّیۡطَـٰنُ فِیۤ أُمۡنِیَّتِهِۦ فَیَنسَخُ ٱللَّهُ مَا یُلۡقِی ٱلشَّیۡطَـٰنُ ثُمَّ یُحۡكِمُ ٱللَّهُ ءَایَـٰتِهِۦۗ وَٱللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمࣱ”. (الحج: 52)
تو اس سے آپﷺ خوش ہوگئے اور پریشانی جاتی رہی، ادھر سر زمین حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں نے جب سنا کہ مکہ والے اسلام لے آئے ہیں تو وہ اپنے قبیلے کی طرف واپس لوٹ آئے اور کہا کہ وہ (قبیلے) ہمارے نزدیک محبوب ہیں، مگر ان لوگوں نے قوم کو اس وقت مشکوک پایا جس وقت اللہ نے شیطان کے القا کردہ چیز کو منسوخ کردیا تھا”. (تفسير طبري:18/663)
یہ روایت مختلف سندوں سے مختلف الفاظ میں تفسیر طبری وغیرہ کے اندر موجود ہے۔ (تفسیر طبری: 669-18/663، ابن كثير: 5/436)
اس قصے کے سلسلے میں مفسرین کرام کا نظریہ:
اکثر مفسرین و محدثین کے نزدیک یہ قصہ سند کے اعتبار سے ضعیف اور متن کے اعتبار سے باطل ہے نیز اس قصے کو تسلیم کر لینے سے تین بڑی خرابیاں لازم آتی ہیں ۔
(۱) پیارے رسولﷺ کی ثقاہت پر حرف آتا ہے کہ آپﷺ نے وحی الہی میں کچھ چیزیں شامل کر دیں۔
(۲) قرآن میں طعن لازم آتا ہے کہ شیطان نے اس میں ایسی چیز شامل کر دی جو اس کا حصہ نہیں ہے ۔
(۳) رسول اکرمﷺ پر طعن لازم آتا ہے کہ آپ نے اصنام (بتوں) کی مدح کی ۔
سند کے اعتبار سے ضعف:
(۱) یہ روایات مرسل ہیں۔
چنانچہ “أبو بشر عن سعيد بن جبير عن ابن عباس” کے علاوہ اس کی کوئی بھی متصل طریق موجود نہیں ہے جسے بیان کیا جا سکے۔ جبکہ اس طریق کے متصل ہونے میں راوی کو شک ہے۔
جیسا مسند بزار میں ہے:
“عن يوسف بن حماد عن أمية بن خالد، عن شعبة، عن أبي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس – فيما أحسبه، الشك في الحديث – أن النبي صلى الله عليه وسلم قرأ بمكة سورة (النجم) حتى انتهى إلى قوله: أَفَرَءَیۡتُمُ ٱللَّـٰتَ وَٱلۡعُزَّىٰ … إلخ
اس کے بعد امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“وهَذا الحَدِيثُ لا نَعْلَمُهُ يُرْوى عَن النَّبِيّ ﷺ بِإسْنادٍ مُتَّصِلٍ عَنْهُ يَجُوزُ ذِكْرُهُ إلاَّ بِهَذا الإسْنادِ، ولاَ نَعْلَمُ أحَدًا أسْنَدَ هَذا الحَدِيثَ عَنْ شُعْبَةَ، عَن أبِي بِشْرٍ، عَن سَعِيد، عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ إلاَّ أُمَيَّةُ ولَمْ نَسْمَعْهُ إلاَّ مِن يُوسُفَ بْنِ حَمّادٍ، وكان ثِقَةً وغَيْرُ أُمَيَّةَ يُحَدِّثُ بِهِ، عَن أبِي بِشْرٍ، عَن سَعِيد بْنِ جُبَير مُرْسَلا، وإنّما هَذا الحَدِيثُ يُعْرَفُ عَنِ الكَلْبِيِّ، عَن أبِي صالِحٍ، عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ وأُمَيَّةُ ثِقَةٌ مَشْهُورٌ”. (مسند البزار: 11/296)
“ہم نہیں جانتے کہ اس حدیث کی کوئی ایسی متصل سند رسول اللہﷺ تک پہنچی ہو جس کا ذکر کرنا جائز ہو، سوائے اس سند کے، اور امیہ بن خالد کے علاوہ کسی نے بھی اسے “شُعْبَةَ، عَن أبِي بِشْرٍ، عَن سَعِيد، عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ” کے طریق سے روایت نہیں کیا ہے، اور ہم نے اسے صرف “یوسف بن حماد” سے سنا ہے جو کہ ثقہ ہیں، اور امیۃ کے علاوہ دوسرے لوگ اسے “عَن أبِي بِشْرٍ، عَن سَعِيد بْنِ جُبَير” کے طریق سے مرسلا روایت کرتے ہیں، نیز یہ حدیث “عَنِ الكَلْبِيِّ، عَن أبِي صالِحٍ، عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ” کے طریق سے معروف ہے اور امیۃ مشہور ثقۃ ہیں۔”
یعنی: سعید بن جبیر کا بیان قرار دیا ہے نہ کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا۔
جبکہ قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“وأما حديث الكلبي، فمما لا تجوز الرواية عنه ولا ذكره لقوة ضعفه وكذبه كما أشار إليه البزار رحمه الله”. (الشفا بتعريف حقوق المصطفى: 2/138)
“کلبی کے ضعیف اور دروغ گو ہونے کی وجہ سے اس سے روايت کرنا یا اس کی روایت کردہ حدیث کو ذکر کرنا جائز نہیں ہے۔”
علامہ البانی رحمہ کہتے ہیں:
“اس کی تخریج طبرانی نے “المعجم الكبير، ورقة: 162، وجه: 2، حديث نمبر: 283 کے تحت اور ضیاء مقدسی نے “المختارة” (ق 2/1/120) میں کی ہے۔ (حاشیہ نصف المجانيق لنسف قصة الغرانيق، ص: 11)
مزید فرماتے ہیں کہ:
“حافظ ابن حجر نے “تخریج الکشاف” میں اس روایت کی نسبت بزار، طبری، طبرانی اور ابن مردویۃ کی طرف کی ہے البتہ “طبری” کی طرف اس حدیث کی نسبت سہو ہے، اور میرے علم کے مطابق یہ روایت ان کی تفسیر میں موجود نہیں ہے، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تفسیر کے علاوہ کسی دوسری کتاب میں موجود ہو”. (نصف المجانيق لنسف قصة الغرانيق، ص: 12)
خلاصہ یہ کہ راوی کی شک کی وجہ سے یہ قصہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح نہیں ہے جبکہ دوسری طریق کلبی کی وجہ سے لائق بیان نہیں ہے۔
اسی وجہ سے ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“اس حدیث کی تمام سندیں مرسل ہیں اور کسی صحیح سند سے مسند مروی نہیں ہے”. (ابن کثیر: 5/441)
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“اس باب کی تمام روایتیں یا تو مرسل ہیں یا منقطع ہیں جو حجت کے لائق نہیں۔”
نیز امام بیہقی سے نقل کرتے ہیں کہ: “یہ قصہ نقل کے جہت سے غیر ثابت ہے۔”
جبکہ ابن امام الائمۃ ابن خزیمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: “اسے قصے کو زندیقیوں نے گڑھا ہے”. (فتح القدیر: 3/462)
قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ نبی کریمﷺ نے اللہ کی جانب سے جو کچھ بھی پہنچایا اس میں قصدا یا غلطی سے یا بھول کر، کسی طرح بھی اپنی طرف سے ایک حرف کا اضافہ نہیں کیا ہے”. (الشفا بتعريف حقوق المصطفی: 2/138)
نیز اس واقعہ کے بعض حصے کی تخریج شیخان نے بھی کی ہے مگر اس میں نہ تو قصہ غرانیق کا تذکرہ ہے اور نہ اس طرح کی بے تکی باتیں ہیں۔
جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
“أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ سُورَةَ النَّجْمِ فَسَجَدَ بِهَا، فَمَا بَقِيَ أَحَدٌ مِنَ الْقَوْمِ إِلَّا سَجَدَ، فَأَخَذَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ كَفًّا مِنْ حَصًى أَوْ تُرَابٍ فَرَفَعَهُ إِلَى وَجْهِهِ، وَقَالَ: يَكْفِينِي هَذَا. فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا”. (صحيح البخاري | أَبْوَابُ سُجُودِ الْقُرْآنِ | بَابُ سَجْدَةِ النَّجْمِ: 1070، مسلم |كِتَابٌ: الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ | بَابٌ: سُجُودُ التِّلَاوَةِ: 576)
“نبی کریمﷺ نے سورۃ النجم کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا اس وقت قوم کا کوئی فرد (مسلمان اور کافر) بھی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ البتہ ایک شخص (امیہ بن خلف) نے ہاتھ میں کنکری یا مٹی لے کر اپنے چہرہ تک اٹھائی اور کہا کہ میرے لیے یہی کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بعد میں میں نے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت ہی میں قتل ہوا۔”
حاصل کلام یہ کہ دلائل وشواہد سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نبی اکرمﷺ کی زبان مبارک سے کلمہ کفر کا اجرا خواہ قصدا ہو یا سہوا قطعا محال ہے چاہے وہ ان باتوں کا تعلق منزل من اللہ میں من گھڑت باتوں کے شمول سے ہو یا قلب مبارک پر شیطانی اثرات کے نفوذ سے، سب کے سب ناممکن اور محال ہیں”. (الشفا بتعريف حقوق المصطفی: 2/138)
قرآنی آیات اس پر شاہد ہیں۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
“وَلَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ ٱلۡأَقَاوِیلِ. لَأَخَذۡنَا مِنۡهُ بِٱلۡیَمِینِ. ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡهُ ٱلۡوَتِینَ”. (الحاقة: 44-46)
“اور اگر نبی ہمارے اوپر کوئی من گھڑت بات منسوب کرتے، تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے، پھر ہم ان کی شہ رگ کاٹ دیتے۔”
دوسری جگہ فرماتا ہے:
“وَإِن كَادُوا۟ لَیَفۡتِنُونَكَ عَنِ ٱلَّذِیۤ أَوۡحَیۡنَاۤ إِلَیۡكَ لِتَفۡتَرِیَ عَلَیۡنَا غَیۡرَهُۥۖ وَإِذࣰا لَّٱتَّخَذُوكَ خَلِیلࣰا. وَلَوۡلَاۤ أَن ثَبَّتۡنَـٰكَ لَقَدۡ كِدتَّ تَرۡكَنُ إِلَیۡهِمۡ شَیۡـࣰٔا قَلِیلًا. إِذࣰا لَّأَذَقۡنَـٰكَ ضِعۡفَ ٱلۡحَیَوٰةِ وَضِعۡفَ ٱلۡمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیۡنَا نَصِیرࣰا”. (الإسراء: 73-75)
“ہم نے آپ کی طرف جو وحی کی ہے قریب تھا کہ یہ کافر آپ کو اس سے بہکا دیتے تاکہ آپ نازل شدہ وحی کے علاوہ کچھ ہم پر افترا کریں اور اس صورت میں وہ تمھیں اپنا دوست بھی بنا لیتے، اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ آپ ان کی طرف تھوڑا بہت جھک جاتے، اس صورت میں ہم آپ کو زندگی میں بھی دگنی سزا دیتے اور مرنے کے بعد بھی۔ پھر ہمارے مقابلہ میں آپ کوئی مددگار بھی نہ پاتے۔”
متن کے اعتبار سے ضعیف:
یہ قصہ جس طرح سند کے اعتبار سے ضعیف اور من گھڑت ہے اسی طرح متن کے اعتبار سے بھی باطل اور منکر ہے۔
چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“قصہ غرانیق سے متعلق تمام روایتیں مرسل، ضعیف اور راوی کی جہالت کی وجہ سے معلول و نا قابل حجت ہیں خاص طور پر اس جیسے خطیر معاملہ میں ان روایتوں سے حجت پکڑا ہی نہیں جا سکتا، پھر جو چیز تاکیدی طور پر ان روایتوں کے ضعیف بلکہ باطل ہونے پر دلالت کرتی ہے وہ ان میں اختلاف اور نکارت کا پایا جانا ہے۔”
ذیل میں اس کی وضاحت پیش خدمت ہے:
(۱) ساری روایتوں یا اکثر و بیشتر روایتوں میں ہے کہ شیطان نے نبیﷺ کی زبانی ایسے باطل الفاظ میں گفتگو کیا ہے جن سے مشرکوں کے بتوں کی مدح ہوتی ہو، جیسے “تلك الغرانيق العلى و إن شفاعنهن لترتجى۔”
(۲) بعض روایات میں ہے کہ: “المؤمنون مصدقون نبيهم فيما جاء به عن ربهم ولا يتهمونه على خطأ وهم”.
ایمان والے ان تمام باتوں کی تصدیق کرتے ہیں جو نبیﷺ اپنے رب کی جانب سے لے کر آئے ہیں اور وہ نبیﷺ پر غلطی اور وہم کی تہمت نہیں لگاتے ہیں۔
چنانچہ اس روایت میں بتایا گیا ہے کہ مومنوں نے نبیﷺ سے یہ بات سنی ہے اور انھیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ قصہ شیطان کی جانب سے القا کردہ ہے بلکہ انھیں یقین تھا کہ یہ رحمن کی جانب سے وحی ہے۔
جبکہ دوسری روایت کے اندر ہے کہ: “ولم يكن المسلمون سمعوا الذي ألقى الشيطان”
مسلمانوں نے شیطان کے القا کردہ چیز کو نہیں سنا تھا ۔
لہذا یہ اس روایت کےخلاف ہے۔
(۳) بعض روایتوں میں قصہ اسی طرح مذکور ہے:
“نبیﷺ کو ایک مدت تک یہی نہیں معلوم تھا کہ یہ شیطان کی جانب سے ہے یہاں تک کہ جبریل علیہ السلام نے آکر آپ کو بتلایا کہ: “معاذ الله! لم آتك بهذا، هذا من الشيطان!!”
“اللہ کی پناہ! میں نے آپ کو یہ بات نہیں سکھائی ہے، یہ شیطان کی جانب سے ہے۔”
(۴) ایک روایت میں ہے: أنه صلى الله عليه وسلم سها حتى قال ذلك!
“کہ نبیﷺ نے بھول کر یہ بات کہہ دی تھی۔”
لیکن اگر معاملہ اسی طرح ہوتا تو نبیﷺ نے اپنے سہو پر متنبہ کیوں نہیں کیا کہ میں نے یہ بات بھول کر کہہ دی تھی؟!
(۵) ایک روایت میں ہے کہ: أن ذلك ألقي عليه وهو يصلي!
“نماز کی حالت میں آپﷺ پر یہ قصہ پیش کیا گیا تھا۔”
(۶) بعض روایتوں میں ہے کہ نبیﷺ کی خواہش تھی کہ آپ پر کوئی ایسی چیز نازل نہ ہو جس سے مشرکین کے معبودوں کی عیب جوئی ہو اور اس کی وجہ سے نفرت کرنے لگیں۔
(۷) بعض روایتوں میں ہے کہ جبریل علیہ السلام نے جس وقت آپ پر نکیر کی تھی اس وقت آپﷺ نے کہا تھا: “افتريت على الله، وقلت على الله ما لم يقل، وشركني الشيطان في أمر الله!!”
“میں نے اللہ پر جھوٹ بولا ہے اور ایسی بات کہی ہے جسے اس نے نہیں کہا ہے اور اللہ کے معاملے میں شیطان نے میری شرکت کی ہے۔”
یہ چند الزامات ہیں جن سے نبی اکرمﷺ کو متنزہ قرار دینا ضروری ہے خاص طور سے اس آخری والے خطرناک الزام سے، کیونکہ اگر آپ کے تعلق سے یہ بات سچ ہوتی تو آپﷺ کے بارے میں اللہ تعالی کا یہ فرمان صادق آتا: “وَلَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ ٱلۡأَقَاوِیلِ. لَأَخَذۡنَا مِنۡهُ بِٱلۡیَمِینِ. ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡهُ ٱلۡوَتِینَ”. (الحاقة: 44-46)
“اور اگر نبی ہمارے اوپر کوئی من گھڑت بات منسوب کرتے ، تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے ، پھر ہم ان کی شہ رگ کاٹ دیتے”. (نصف المجانيق لنسف قصة الغرانيق للالباني، ص: 35-36 بتصرف)
جبکہ قاضی عیاض کہتے ہیں:
“بعض نے کہا کہ یہ واقعہ نماز میں پیش آیا، بعض نے کہا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ قریش کی مجلس میں موجود تھے اور سورۃ النجم نازل ہوئی تھی، بعض نے کہا کہ یہ کلمات آپﷺ نے نیند کی حالت میں ادا فرمائے تھے، بعض نے کہا کہ آپ کے قلب مبارک میں وسوسہ پیدا ہوا جس کے سبب آپ بھول گئے، بعض نے کہا کہ یہ کلمات شیطان نے خود آپﷺ کی آواز میں ادا کیے تھے، اور جب آپﷺ نے یہ سورت جبرئیل امین کو سنائی تو انھوں نے کہا کہ یہ کلمات میں نے آپ کو نہیں سنائے تھے، بعض نے یہ کہا کہ شیطان نے مشرکین سے کہہ دیا تھا کہ یہ کلمات نبی اکرمﷺ نے پڑھے ہیں، نیز جن مفسرین یا تابعین نے اس روایت کو نقل کیا ہے، انھوں نے اس کی نبی اکرمﷺ تک ہی نہیں بلکہ کسی صحابی تک متصل یا مرفوع طریق پر بیان نہیں کی ہے”. (كتاب الشفا 2/139)
مزید فرماتے ہیں: “بعض راویوں نے ان دو آیتوں: “وَإِن كَادُوا۟ لَیَفۡتِنُونَكَ… اور دوسرى آيت: “وَلَوۡلَاۤ أَن ثَبَّتۡنَـٰكَ لَقَدۡ كِدتَّ… کا ذکر کیا ہے، حالانکہ یہ دونوں آیتیں اس واقعہ کا رد کر رہی ہیں اور جو ان راویوں نے اپنے حصول مقصد کے لیے پیش کی ہیں- اللہ تعالی تو فرما رہا ہے کہ ان (معاندین و منکرین) کا مقصد تو آپ کی ذات کے ساتھ ایسی بات کو منسوب کرنا تھا جو انتشار کا سبب بنے اور اپنا مقصد حاصل کریں، لیکن ہم نے (اللہ تعالی) آپ کو محفوظ فرما دیا تاکہ آپ کا رجحان اس طرف نہ ہو۔ ان آیات سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو اس فتنہ سے معصوم و مامون فرما دیا اور آپ کا اس طرف ذرا بھی جھکاؤ نہ ہوا اور آپ اس طرح افترا و بہتان سے محفوظ ہو گئے- ان فتنہ پروازوں نے رجحان ہی کی طرف نہیں بلکہ یہاں تک افترا کیا کہ معاذ اللہ آپ نے وہ کلمات ادا فرمائے جو منزل من اللہ نہ تھے، حالانکہ آیت کا مفہوم اس واقعہ کی سراسر تردید کرتا ہے اور مفہوم حدیث مزعومہ کی تصنیف بھی۔اور اگر بفرض محال اس کو درست تسلیم کر لیا جائے تو دوسری ایک اور آیت اس کی تردید میں ملتی ہے جس سے بات اور واضح ہو جاتی ہے: “وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكَ وَرَحۡمَتُهٗ لَهَمَّتۡ طَّآئِفَةٌ مِّنۡهُمۡ اَنۡ يُّضِلُّوۡكَ ؕ وَمَا يُضِلُّوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَهُمۡ وَمَا يَضُرُّوۡنَكَ مِنۡ شَىۡءٍ ؕ وَاَنۡزَلَ اللّٰهُ عَلَيۡكَ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمۡ تَكُنۡ تَعۡلَمُؕ وَكَانَ فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكَ عَظِيۡمًا”. (النساء: 113)
“اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت آپ کے شامل حال نہ ہوتی تو (انصار کے) ایک گروہ نے تو ارادہ کر ہی لیا تھا کہ آپ کو بہکا دیں۔ حالانکہ وہ اپنے آپ ہی کو بہکا رہے ہیں اور وہ آپ کا کچھ بگاڑ بھی نہیں سکتے کیونکہ اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی ہے اور آپ کو وہ کچھ سکھلا دیا جو آپ نہیں جانتے تھے، یہ آپ پر اللہ کا بہت ہی بڑا فضل ہے”. (الشفا بتعريف حقوق المصطفی: 2/138)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
“نبی اکرمﷺ کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ معاذ اللہ آپ نے ایسی تمنا کی ہو کہ ان پر ایسی آیتیں نازل ہوں جن سے معبودان باطل کی تعریف ہوتی ہو، تو ایسا خیال سراسر کفر ہے۔”
اسی طرح یہ خیال کرنا کہ شیطان کا آپﷺ پر غلبہ ہو گیا تھا یا قرآن کریم مشتبہ ہو گیا تھا، یا یہ سوچنا کہ قرآن کی کچھ آیتیں ایسی تھیں جو اب اس میں موجود نہیں ہیں یا یہ تصور کرنا کہ جبرئیل امین آپ سے یہ کہیں کہ یہ کلمات تو میں آپ کے پاس لے کر نہیں آیا، ایسا سوچنا سراسر کفر و طغیان ہے اور آپ ﷺ کے حق میں ممتنع ومحال بھی ہے”. (الشفا بتعريف حقوق المصطفی: 2/138)
اسی بنا پر بہت سارے مفسرین و محدثین نے اس قصہ پر کلام کیا ہے اور اسے سندو متن دونوں اعتبار سے باطل قرار دیا ہے، جیسے:
(۱) أبو بكر محمد بن عبد الله بن محمد المعروف بابن العربي متوفي سنة (542)، في تفسيره “أحكام القرآن”
(۲)القاضي عياض بن موسى بن عياض متوفي سنة (544)، في كتابه “الشفا في حقوق المصطفى”.
(۳) فخر الدين محمد بن عمر بن الحسن الرازي متوفي سنة (606)، في تفسيره “مفاتيح الغيب”: 197 6/193.
(۴) محمد بن أحمد الأنصاري أبو عبد الله القرطبي في “أحكام القرآن”.: 84 -12/80.
(۵) محمد بن يوسف بن علي الكرماني متوفي سنة (786) جو کہ شارح بخاری ہیں، ابن حجر نے ان کے کلام کو فتح الباری: 8/498، میں نقل کیا ہے ۔
(۶) محمود بن أحمد بدر الدين العيني متوفي سنة (855) نے “عمدة القاري: 9/47” میں۔
(۷) محمد بن علی بن محمد اليمني الشوكاني متوفي سنة (1250) نے “فتح القدیر: 248-3/247” میں۔
(۸) السيد محمود أبو الفضل شهاب الدين الآلوسي متوفي سنة ( 1270) نے “روح المعاني: 169-17/160” میں۔
(۹) صديق حسن خان أبو الطيب متوفي سنة (1307) نے اپنی تفسیر “فتح البیان” میں۔
(۱۰) محمد عبده المصري الأستاذ الإمام متوفي سنة (1323) نے اسی قصہ سے متعلق ایک رسالہ میں۔ (نصف المجانيق لنسف قصة الغرانيق، ص: 33-34)
قرآن سے تعارض:
آیت کی یہ تفسیر اور قصہ نہ صرف سند و متن کے اعتبار سے باطل ہے بلکہ درج ذیل وجوہات کی بنا پر خود قرآن کے معارض ہے ۔
(۱) سورۃ النجم کی آیات کا سیاق اس قصہ کے بطلان پر ایک واضح قرینہ ہے، اس لیے کہ نبی اکرمﷺ نے اس القاء مذموم (تِلْكَ الْغَرَانِيق الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتهنَّ تُرْتَجَى) کے دو آیت کے بعد ہی لات، عزی اور منات ثلاثۃ کے بارے میں یہ آیت تلاوت فرمائی: “إِنۡ هِیَ إِلَّاۤ أَسۡمَاۤءࣱ سَمَّیۡتُمُوهَاۤ أَنتُمۡ وَءَابَاۤؤُكُم مَّاۤ أَنزَلَ ٱللَّهُ بِهَا مِن سُلۡطَـٰنٍۚ”. (النجم :23)
لہذا اگر حالات و واقعات وہی ہوتے جن کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے تو ساری باتیں تناقص الاقسام ہوجاتیں جس میں کہ تعریف ومذمت اور تحسین ونقص سب کے سب یکجا ہو جاتے،جو نظم قرآن یا تالیف کے خلاف ہے کہ پہلے بتوں کی تعریف کی جائے پھر اس کے بعد ان کی مذمت بیان کی جائے ۔
(۲) شیطان کے پاس اتنی قدرت نہیں کہ وہ پیارے رسولﷺ کی زبان اقدس پر ایک کفریہ کلام داخل کردے، قرآن کہتا ہے:
“إِنَّهُۥ لَیۡسَ لَهُۥ سُلۡطَـٰنٌ عَلَى ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ وَعَلَىٰ رَبِّهِمۡ یَتَوَكَّلُونَ. إِنَّمَا سُلۡطَـٰنُهُۥ عَلَى ٱلَّذِینَ یَتَوَلَّوۡنَهُۥ وَٱلَّذِینَ هُم بِهِۦ مُشۡرِكُونَ”. (النحل: 99-100)
لہذا یہ گمان کر لیا جائے کہ شیطان نے آپ کی زبان پر یہ کفریہ کلام جاری کر دیا تھا تو پھر شیطان کی اس سے بڑی سلطان اور کیا ہو سکتی ہے؟! جبکہ آیت کریمہ کے اندر صاف لفظوں میں اہل ایمان پر شیطان کے تسلط اور اس کے سلطان کی نفی کی گئی ہے چہ جائیکہ وہ افضل الانبیاء والرسل کی ذات مقدسہ ہو۔
(۳) سورۃ النجم ہی کی آیتیں دلالت کرتی ہیں کہ آپﷺ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے: وَمَا یَنطِقُ عَنِ ٱلۡهَوَىٰۤ. إِنۡ هُوَ إِلَّا وَحۡیࣱ یُوحَىٰ”. (النجم: 2-3)
“وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ نہیں بولتا، جو کچھ وہ کہتا ہے وہ وحی ہوتی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے۔”
اور اگر بفرض محال آپﷺ اپنی طرف سے کچھ کہہ دیتے تو اولا ان دونوں آیتوں کی تکذیب لازم آتی، اور ثانیا اللہ رب العزت آپ کو ہلاک بھی کر دیتا، جیسا کہ اس کا ارشاد ہے:
وَلَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ ٱلۡأَقَاوِیلِ. لَأَخَذۡنَا مِنۡهُ بِٱلۡیَمِینِ. ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡهُ ٱلۡوَتِینَ (الحاقة: 44-46)
“اگر وہ رسول کوئی بات گڑھ کر ہمارے ذمہ لگا دیتا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے۔”
(۴) شیطان اللہ رب العزت کے برگزیدہ بندوں پر نازل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ کہ افضل الانبیاء والرسلﷺ پر نازل ہو، وہ تو گنہگاروں پر نازل ہوتا ہے، اللہ فرماتا ہے:
هَلۡ أُنَبِّئُكُمۡ عَلَىٰ مَن تَنَزَّلُ ٱلشَّیَـٰطِینُ. تَنَزَّلُ عَلَىٰ كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِیمࣲ (الشعراء: 222-221)
“کیا میں تم کو بتاؤں شیطان کس پر نازل ہوتے ہیں؟وہ ہر جعل ساز گنہگار پر نازل ہوتے ہیں۔”
(۵) اللہ رب العزت نے قرآن مقدس کو زیادتی، کمی اور تحریف وتبدیل سے محفوظ رکھا ہے جبکہ غرانیق کے قصے میں زیادتی موجود ہے اور قرآن اس زیادتی سے محفوظ ہے، جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
إِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا ٱلذِّكۡرَ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَـٰفِظُونَ (الحجر: 9)
“بے شک ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔”
بصورت دیگر اس آیت کریمہ کی تکذیب لازم آئے گی، کیونکہ اللہ رب العزت یہاں پر کہہ رہا ہے کہ قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری میری ہے جبکہ قصہ کو صحیح تسلیم کر لینے سے لازم آئے گا کہ اللہ رب العزت وعدے کے باوجود بھی اپنے کلام کو شیطانی القا سے محفوظ نہیں رکھ سکا۔
(۶) اللہ رب العزت نے قرآن مقدس کی ایک عظیم الشان صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ باطل اس کے قریب بھی نہیں آسکتا ہے:
لَّا یَأۡتِیهِ ٱلۡبَـٰطِلُ مِنۢ بَیۡنِ یَدَیۡهِ وَلَا مِنۡ خَلۡفِهِۦۖ تَنزِیلࣱ مِّنۡ حَكِیمٍ حَمِیدࣲ (فصلت:42)
“جس میں باطل نہ آگے سے راہ پاسکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔ یہ حکمت والے اور لائق ستائش اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔”
یہاں پر “یَأۡتِیهِ” فعل نفی کے سیاق میں ہے اور فعل جب نفی کے سیاق میں ہو تو نکرہ کی طرح عموم کا فائدہ دیتا ہے گویا باطل کی کوئی بھی صورت یا قسم قرآن مجید کے قریب نہیں آسکتی۔
جیسا کہ امام شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ شیطان نے نبیﷺ کی زبانی (تِلْكَ الْغَرَانِيق الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتهنَّ تُرْتَجَى) قرآن میں ملا دیا تھا -حالانکہ قرآن اس سے پاک ہے– تو یہ لازم آتا کہ قرآن کے سامنے اور پیچھے سے اس میں بدترین جھوٹ آگئی ہے، اور اس سے صاف طور پر اللہ کی تکذیب لازم آتی، کیونکہ اللہ نے واضح طور پر کہہ دیا ہے: لَّا یَأۡتِیهِ ٱلۡبَـٰطِلُ مِنۢ بَیۡنِ یَدَیۡهِ وَلَا مِنۡ خَلۡفِهِ اور ہر وہ خبر جو قرآن عظیم کے معارض ہو تو وہ جھوٹی ہے کیونکہ قرآن کی سچائی یقینی ہے اور سچائی کے معارض چیز کو جھٹلانا ضروری ہے اور جو اللہ نے فرمایا: فَیَنسَخُ ٱللَّهُ مَا یُلۡقِی ٱلشَّیۡطَـٰنُ (الحج: 52) کہ شیطان جو کچھ بھی ڈالتا ہے اللہ اسے مٹا دیتا ہے۔
اس سے کچھ لوگ استدلال کرتے ہیں کہ قرآن میں کچھ نہ کچھ باطل نبیﷺ کی زبانی آہی جاتا ہے تو ان کے اس قول کی کوئی دلیل ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے “لَّا یَأۡتِیهِ ٱلۡبَـٰطِلُ” کہہ کر باطل کے آنے ہی کی نفی کردی ہے”. (رحلة الحج إلى بيت الله الحرام، ص: 136، بحوالہ: العصمة، ص: 137 بتصرف)
(۷) اللہ رب العزت فرماتا ہے:
وَإِن كَادُوا۟ لَیَفۡتِنُونَكَ عَنِ ٱلَّذِیۤ أَوۡحَیۡنَاۤ إِلَیۡكَ لِتَفۡتَرِیَ عَلَیۡنَا غَیۡرَهُۥۖ وَإِذࣰا لَّٱتَّخَذُوكَ خَلِیلࣰا. وَلَوۡلَاۤ أَن ثَبَّتۡنَـٰكَ لَقَدۡ كِدتَّ تَرۡكَنُ إِلَیۡهِمۡ شَیۡـࣰٔا قَلِیلًا. إِذࣰا لَّأَذَقۡنَـٰكَ ضِعۡفَ ٱلۡحَیَوٰةِ وَضِعۡفَ ٱلۡمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیۡنَا نَصِیرࣰا (الإسراء: 73-75)
“ہم نے آپ کی طرف جو وحی کی ہے قریب تھا کہ یہ کافر آپ کو اس سے بہکا دیتے تاکہ آپ نازل شدہ وحی کے علاوہ کچھ ہم پر افترا کریں اور اس صورت میں وہ تمھیں اپنا دوست بھی بنا لیتے، اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ آپ ان کی طرف تھوڑا بہت جھک جاتے، اس صورت میں ہم آپ کو زندگی میں بھی دگنی سزا دیتے اور مرنے کے بعد بھی۔ پھر ہمارے مقابلہ میں آپ کوئی مددگار بھی نہ پاتے۔”
یہ آیات بھی حادثہ غرانیق کے بطلان پر دلالت کرتی ہیں۔
چنانچہ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“جو چیز حدیث غرانیق کے ضعیف اور کمزور ہونے پر دلالت کرتی ہے وہ اللہ کا یہ فرمان: “وَإِن كَادُوا۟ لَیَفۡتِنُونَكَ عَنِ ٱلَّذِیۤ…” ہے۔ (اور قریب ہے کہ وہ تمھیں فتنے میں ڈال دیں…)
یہ دونوں آیتیں اس قصہ (قصہ غرانیق) کی تردید کرتی ہیں، اس لیے کہ اللہ رب العزت نے کہا:
“قریب تھا کہ وہ نبی کو فتنے میں ڈال دیں گے تاکہ وہ جھوٹ گھڑنے لگے۔”
اور اگر اللہ نبیﷺ کو ثابت قدم نہ رکھتا تو قریب تھا کہ وہ ان کی طرف مائل ہوجاتے۔
یعنی: اللہ تعالی نے نبیﷺ کو جھوٹ گھڑنے سے بچا لیا اور ان کو ثابت قدم رکھا، یہاں تک کہ نبیﷺ کا ان کی طرف تھوڑا بھی میلان نہ ہوسکا، زیادہ میلان تو دور کی بات ہے۔
لہذا یہ آیات حدیث کو ضعیف قرار دے رہی ہیں اگر چہ حدیث صحیح ہی کیوں نہ ہو۔
چنانچہ یہ واقعہ کیسے درست ہوسکتا ہے جبکہ حدیث کی کوئی صحت ہی نہیں ہے۔ (الجامع لأحكام القرآن: 12/84، بحوالہ: العصمة في ضوء عقيدة أهل السنة والجماعة، ص: 138)
مزید یہ کہ کلمہ “لولا” حرف امتناع ہے جو ایک شئ کے وجود کی بنا پر دوسرے شئ کے وجود کے ممتنع ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔
اور “الثَّبَات” یہ زوال کی ضد ہے اور “ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً” کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں۔ قرآن میں ہے: “يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا”. (الأنفال: 45)
“اے مومنو! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو”۔ (مفردات القرآن للأصبهاني، ص: 171)
چونکہ رب العزت کی جانب سے “ثبات” پہلے ہی سے موجود تھا، لہذا لا محالہ ماننا پڑے گا کہ آپﷺ ان کی طرف بالکل بھی نہیں جھکے تھے یا ادنی میلان تک بھی نہیں ہوا تھا وگرنہ کلمہ “لولا” کا مفاد ہی باطل قرار پائے گا۔
(۸) ان آیات میں اس شیطانی وسوسہ سے پہلے ہی بتوں اور دیویوں کی مذمت مذکور ہے اور بعد میں بھی۔ لہذا درمیان میں بتوں کا یہ ذکر خیر کسی لحاظ سے بھی فٹ نہیں بیٹھتا۔
(۹) تاریخی لحاظ سے یہ روایات اس لیے غلط ہیں کہ ہجرت کا واقعہ پانچ نبوی میں پیش آیا تھا اور جو مہاجر اس غلط افواہ کی بنا پر واپس مکہ آئے تھے وہ صرف تین ماہ بعد آئے تھے۔ جبکہ یہ سورت مدنی ہے اور ہجرت حبشہ سے واپسی اور اس سورة کے نزول کے درمیان کم از کم آٹھ نو سال کا وقفہ ہے۔ (تیسیر القرآن: 3/172)
آیت کی صحیح تفسیر
اس آیت کی صحیح تفسیر لفظ “تَمَنَّىٰۤ” کے صحیح معنى کی معرفت پر موقوف ہے۔
چنانچہ اس سلسلے میں مفسرین کے دو اقوال ہے۔
(۱)تمنا یا آرزو کرنا
اس اعتبار سے آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ نبی یا رسول جب کوئی آرزو کرتا ہے (اور نبی یا رسول کی بڑی سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ لوگ اس کی دعوت کو قبول کرلیں اور اس دعوت کو فروغ اور قبول عام حاصل ہو) تو شیطان اس کی خواہش کی تکمیل میں کئی طرح سے رکاوٹیں کھڑی کردیتا ہے۔ (تیسیر الرحمن :3/171 وأضواء البيان: 5285)
(۲) پڑھنا، تلاوت کرنا
تمنی کا یہ معنی عربی ادب میں بھی ملتا ہے جیسے کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہتے ہیں:
تَمَنّى كِتابَ اللَّهِ أوَّلَ لَيْلِهِ
وآخِرَها لاقى حِمامَ المَقادِرِ
تَمَنّى كِتابَ اللَّهِ آخِرَ لَيْلِة
مَنِّيَ داوُدَ الزَّبُورَ عَلى رُسُلِ (أضواء البيان: 5/284)
“آپ رات کے اول حصہ میں کتاب اللہ کی تلاوت فرماتے تھے اور رات کے دوسرے حصے میں تقدیروں کی موت سے جا ملے یعنی شہید کردیے گئے۔ آپ رات کے پہلے حصے میں اللہ کی کتاب تلاوت کرتے تھے جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام زبور ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے۔”
اس معنی کے اعتبار سےآیت کا مطلب یہ ہوگا کہ نبی یا رسول کوئی آیت تلاوت کرتا ہے، تو اس کا صحیح مفہوم سمجھنے کے سلسلہ میں شیطان لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر انھیں شکوک و شبہات میں مبتلا کردیتا ہے۔ (تیسیر الرحمن: 3/171 وأضواء البيان: 5285)
جبکہ علامہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “أَلۡقَى ٱلشَّیۡطَـٰنُ فِیۤ أُمۡنِیَّتِهِ”
یعنی اس کی قرأت میں ایسے امر سے فریب دینے کی کوشش کرتا جو اس قرأت کے مناقض (مخالف) ہوتا۔ حالانکہ اللہ تعالی نے انبیاء و رسل کو تبلیغ رسالت کے ضمن میں معصوم رکھا ہے اور ہر چیز سے اپنی وحی کی حفاظت کی ہے تاکہ اس میں کوئی اشتباہ یا اختلاط واقع نہ ہو۔ اسی لیے اس شیطانی القا کو استقرار اور دوام نہیں ہوتا۔ یہ ایک عارض ہے جو پیش آتا ہے پھر زائل ہوجاتا ہے اور عوارض کے کچھ احکام ہیں اس لیے فرمایا: فَیَنسَخُ ٱللَّهُ مَا یُلۡقِی ٱلشَّیۡطَـٰنُ
یعنی اللہ تعالیٰ اس القا کو زائل کر کے باطل کردیتا ہے اور واضح کردیتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات نہیں ہیں۔
ثُمَّ یُحۡكِمُ ٱللَّهُ ءَایَـٰتِهِ
یعنی: پھر اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو محکم اور متحقق کردیتا ہے اور ان کی حفاظت کرتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی کی آیات شیطانی القا کے اختلاط سے محفوظ اور خالص رہتی ہیں۔(تفسیر سعدی، ص: 542)
مثلا: اللہ تعالیٰ نے جب یہ آیت نازل فرمائی کہ حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ (البقرة: 173)
تو بعض لوگوں نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ اللہ کا مارا ہوا جانور تو حرام ہو اور انسان کا مارا ہوا (ذبح کیا ہوا) حلال؟ یہ خالصتہ شیطانی وسوسہ تھا۔ اسی طرح جب یہ آیت نازل ہوئی: اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ (الأنبیاء:98)
“بے شک تم بھی اور اللہ کے سوا جنھیں تم پوجتے ہو سب جہنم کا ایندھن بنیں گے۔”
آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی تو کافروں نے فوراً یہ اعتراض جڑ دیا کہ پرستش تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام اور فرشتوں کی بھی کی جاتی رہی ہے تو کیا یہ ہستیاں بھی جہنم کا ایندھن بنیں گی؟ یہ بھی خالصتہ شیطانی وسوسہ تھا۔ ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ دوسری صریح اور محکم آیات نازل فرما کر شکوک و شبہات اور شیطانی وساوس کو دور فرما کر اپنے حکم کی وضاحت فرما دیتا ہے۔ (تیسیر القرآن: 3/171)
اسی معنی کو اکثر مفسرین نے راجح قرار دیا ہے ۔
چنانچہ امام رازی کہتے ہیں: “وقال رواۃ اللغة الأمنیة القرأۃ”. (23/238)
امام راغب کہتے ہیں: “في أمنیتة أي: في تلاوته”. (المفردات، ص: 780)
صاحب لسان کہتے ہیں: “قرأ وتلا”. (لسان العرب: 15/294)
ابن جریر فرماتے ہیں: “وهذا القول أشبه بتأويل الكلام، بدلالة قوله: (فينسخ الله ما يلقي الشيطان ثم يحكم الله آياته) على ذلك”. (تفسير طبري: 18/668)
امام شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “وكَوْنُ تَمَنّى بِمَعْنى: قَرَأ وتَلا، هو قَوْلُ أكْثَرِ المُفَسِّرِينَ”. (أضواء البيان: 5/284)
احمد مختار عمر کہتے ہیں: “تمنّى الشَّخصُ الكتابَ: قرأه وتلاه ۔ إلاَّ إذا تَمَنّى ألْقى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ: ألقى في تلاوته ما ليس فيها”. (معجم اللغة العربية المعاصرة: 3/2130)
مزید برآں ابن تیمیہ رحمہ بھی “تمنی” بمعنی: “حدیث النفس یا تمنی القلب”
ضعیف شمار کرتے ہیں وہ اس وجہ سے کہ “تمنی” بمعنی: تلاوت ہے، جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے: وَمِنۡهُمۡ أُمِّیُّونَ لَا یَعۡلَمُونَ ٱلۡكِتَـٰبَ إِلَّاۤ أَمَانِیَّ (البقرة:78)
اور ان میں ایک گروہ ان پڑھ لوگوں کا ہے جو کتاب کا علم نہیں رکھتے، سوائے اس کے جو پڑھتے تھے۔
اور اس لیے بھی کہ اللہ رب العزت نے خبر دیا ہے کہ وہ اس القاء شیطانی کو بیمار اور سخت دلوں کے لیے فتنہ وآزمائش بنا دیتا ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب یہ القاء شیطانی ظاہر وباہر ہو اور لوگ اسے سن سکتے ہوں نہ کہ جو دل میں موجود ہو اور لوگ اس سے واقف ہی نہ ہوں۔ (دقائق التفسیر: 3/309، بحوالہ العصمۃ، ص: 144 بتصرف)
اعتراض:
اللہ رب العزت ایسے واضح احکام کیوں نہیں بھیج دیتا جن سے شکوک و شبہات پیدا ہی نہ ہوں، بعد میں محکم اور واضح آیات نازل کرکے شکوک و شبہات کو کیوں رد کرتا ہے؟!
جواب: یہ اعتراض دراصل کج رو اور کج فطرت کافروں کی عیاری کا غماز ہے، مختصراً یہ کہ:
(۱) شکوک میں مبتلا صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو منافق ہوں یا ہٹ دھرم کے کافر۔
(۲) ایسی آیات سے ہی ایمانداروں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے اور برحق ہے۔
(۳) ایسی آیات دراصل سب لوگوں کے لیے ایک آزمائش اور جانچ ہوتی ہیں، جن سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ کون کس مقام پر کھڑا ہے؟ آیا وہ منافقوں سے تعلق رکھتا ہے یا اللہ پر ایمان لانے والوں سے؟ (تيسير القرآن: 3/173)
جبکہ علامہ سعدی کہتے ہیں:
“اللہ رب العزت ان آیات کے ذریعے سےدو قسم کے لوگوں کو فتنہ اور آزمائش میں ڈالنا چاہتا ہے:
(۱)لِّلَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضࣱ
یعنی جن کے دلوں میں کمزوری ہے اور ایمان کامل اور تصدیق جازم معدوم ہیں۔ لہذا یہ القا ایسے دلوں پر اثر کرتا ہے جن کے دلوں میں ادنیٰ سا بھی شبہ ہوتا ہے، جب وہ اس شیطانی القا کو سنتے ہیں تو شک و ریب ان کے دلوں میں گھر کرلیتا ہے اور یہ چیز ان کے لیے فتنہ بن جاتی ہے۔
(۲) وَٱلۡقَاسِیَةِ قُلُوبُهُم
یعنی (دوسرا گروہ) وہ لوگ ہیں جن کے دل سخت ہوتے ہیں، ان کی قساوت قلبی کی بنا پر کوئی وعظ و نصیحت اور کوئی زجر و توبیخ ان پر اثر کرتی ہے نہ اللہ اور اس کے رسول کی کوئی بات ان کی سمجھ میں آتی ہے ۔ پس جب وہ شیطانی القا کو سنتے ہیں تو اسے اپنے باطل کے لیے حجت بنا لیتے ہیں اور اس کو دلیل بنا کر جھگڑا کرتے ہیں اور پھر اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں، اسی لیے فرمایا : وَإِنَّ ٱلظَّـٰلِمِینَ لَفِی شِقَاقِۭ بَعِیدࣲ
یعنی: یہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دشمنی، حق کے ساتھ عناد اور اس کی مخالفت میں راہ صواب سے بہت دور نکل گئے ہیں۔ پس شیطان جو کچھ القا کرتے ہیں وہ ان دونوں قسم کے گروہوں کے لیے فتنہ بن جاتا ہے اور یوں ان کے دلوں میں جو خبث چھپا ہوتا ہے، ظاہر ہوجاتا ہے۔
رہا تیسرا گروہ تو یہ شیطانی القا ان کے حق میں رحمت بن جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے: وَلِیَعۡلَمَ ٱلَّذِینَ أُوتُوا۟ ٱلۡعِلۡمَ أَنَّهُ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّكَ
اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جن کو علم دیا گیا کہ وہ حق ہے آپ کے رب کی طرف سے۔اور اللہ تعالیٰ نے ان کو علم سے نواز رکھا ہے، جس کے ذریعے سے وہ حق اور باطل، ہدایت اور گمراہی کے درمیان امتیاز کرتے اور دونوں امور میں تفریق کرتے ہیں، ایک حق مستقر ہے، جس کو اللہ محکم کرتا ہے اور دوسرا عارضی طور پر طاری ہونے والا باطل ہے، جس کو اللہ تعالیٰ زائل کردیتا ہے، وہ حق و باطل کے شواہد اور علامات کے ذریعے سے ان میں تفریق کرتے ہیں۔ (تفسیر سعدی، ص: 542)
شکریہ،بہت واضح اور اچھا مضمون۔