خوش درخشید ولے شعلہ مستعجل بود

راشد حسن مبارکپوری تاریخ و سیرت

خوش درخشید ولے شعلہ مستعجل بود
حضرت مولانا عبد المنان سلفی کی غمناک رحلت

نَعَى الرَّكْبُ أوْفَى حِينَ آبَتْ رِكابُهُمْ
لَعَمْرِي لَقَدْ جَاؤُا بِشَرٍّ فأوْجَعُوا

نَعَوا بَاسِقَ الأَفْعالِ لاَ يَخْلُفُونَهُ
تَكادُ الْجِبالُ الصُّمُّ مِنْهُ تَصَدَّعُ
خوَى الْمَسْجدُ الْمَعْمُورُ بَعْدَ ابْنِ دَلْهَمٍ
وأمْسَى بِأوفَى قَوْمُهُ قَدْ تَضَعْضعُوا

قافلہ نے منزل سے واپسی کے بعد ’’أوفی‘‘ کی موت کی خبر دی
بخدا یہ ایسی درد ناک خبر تھی کہ میرا دل تڑپ اٹھا
انھوں نے ایک بلند اخلاق اور اعلیٰ کردار شخص کی موت کی خبر دی
اس کی جانشین ممکن نہیں، خبر اس قدر کر بناک ہے کہ سخت پہاڑ بھی شدت کرب سے ٹوٹ ٹوٹ پڑیں
ابن دلہم کی رحلت کے بعد آباد مسجد ویران ہوگئی
اور اوفی کی موت سے قوم بکھر کر گردش روزگار کی بھینٹ چڑھ گئی۔

۲۳؍اگست ۲۰۲۰ء کو تماشاگہ عالم کا آفتاب طلوع ہونے سے قبل حضرت مولانا عبد المنان سلفی مرحوم کی کربناک وفات ہو گئی، ضمام اور سلوی کے بعد آج غالباً پہلی بار احساس ہو رہا ہے کہ کوئی بہت قریبی عزیز چل بسا اور ہر شخص کی صورت حال یہی ہے۔ آج پانچ روز گذر نے کے بعد بھی درد کی شدت کا احساس باقی ہے، اس دوران کئی بارقلم اٹھا کر رکھ دیا، احباب اصرار کرتے رہے، سوچتا رہا کیا لکھوں، کہاں سے شروع کروں، ایک ایسے شخص کے بارے میں جس کی محبتوں کا دریا اتھاہ ہو، جس کے کمالات اور خوبیوں کا سلسلہ لامتناہی ہو، جس کے وجود سے ہر دل میں شادابی ہو اور عدم وجود سے ویرانی اور ہو کا عالم ہو، جس سے رزم میں احساس قوت و شوکت ہو، بزم میں احساس وقار و سنجیدگی اور شعور و عرفانی ، کیسے لکھوں اور کیالکھوں کہ سرمایہ بزم سخن چل بسا!
اے جہاں آباد، اے سرمایہ بزم سخن!
ہوگیا پھر آج پامال خزاں تیرا چمن

◼️حضرت مولانا مرحوم بلند پایہ کے عالم دین تھے، تفسیر، حدیث، تاریخ فقہ اسلامی، عربی زبان و ادب میں گہری بصیرت رکھتےتھے، شرعی مسائل اور افتاء سے بھی گہری نسبت تھی، ۱۹۸۲ء میں جامعہ سلفیہ بنارس سے فارغ ہو یے، پھر مختلف جگہوں پر تدریس و تحریر سے وابستہ رہے ، مدرسہ خدیجہ الکبری سے منسلک رہے، وہاں حضرت مولانا عبد اللہ مدنی جھنڈانگری کے ساتھ رہنے کا موقع ملا، نور توحید میں بحیثیت ایڈیٹر کام کیا، پھر ۱۹۹۶ء میں جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال سے باقاعدہ وابستہ ہو گئے، یہ ایک مرکزی جگہ تھی، یہاں آپ کے علم و فضل کے جوہر کھلے، ہر میدان میں آپ نے منفرد شناخت بنائی، ’’السراج‘‘ کے ایڈیٹر رہے، جامعہ کے وکیل اور مشرف رہے، اہم اور بڑی کتابیں زیر تدریس رہیں، وہاں کی جامعہ مسجد میں مستقل خطابت کی ذمہ داری پورے اعتماد کے ساتھ سنبھالی، عوام میں اصلاح و تعلیم کی خاطر مسائی دروس حدیث شروع کیے، جامعہ کی تعمیر و ترقی کے لیے اسفار، عربی و اردو میں خط و کتابت، سیمیناروں اور اجتماعات کا انعقاد، جامعہ کے داخلی نظم و ضبط، ضلعی جمعیت اہل حدیث کی نظامت، اسفار، دعوتی دورے، تحریر و تالیف، مضامین و مقالات، ہر میدان میں اپنی انفرادی صلاحیتوں کے طفیل قائدانہ کردار ادا کیا ، یہ سارے اور ان کے علاوہ بہت کچھ کام وہ تنہا اور بلاسستی و تامل کے انجام دیتے تھے، ’’ہر دم رواں ہر دم جواں ہے زندگی‘‘کے سچے مصداق تھے ۔
ہندوستان میں جماعتی نوعیت کا شاید ہی کوئی پروگرام، اجلاس، سیمینار، کانفرس ہو جس میں ان کی فعال شرکت نہ رہی ہو، ضلعی جمعیت سدھارتھ نگر اور جامعہ سے متعلق کوئی بھی داخلی و خارجی اہم کام آپ کے مشورہ اور شرکت کے بغیر انجام نہیں پاتا تھا، اس پورے خطہ میں شرعی مسائل کی تفہیم اور دینی شعور کی بیداری میں آپ کے خطبوں نے خاص طور پر اثر ڈالا، اندازہ ہے مسائل کی تفہیم میں وہاں کی عوام کا سب سے زیادہ اعتماد آپ پر تھا، آپ نے اپنے علم، بصیرت، روشنی طبع، ذہانت، لیاقت، وسعت معلومات ، بلند کردار، حسن تعامل اور شرافت نفس کے حوالے سے جو مقام بنایا اور اس کی بنیاد پر جو اس کے گہرے اثرات علاقائی سطح پر ہویے اس کی نظیر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔
مولانا مرحوم کی طبیعت میں جو جولانی اور اولوالعزمانہ خمیر تھا اس کے دوش پر وہ جس میدان میں قدم رکھتے صف اول تک پہنچ جاتے، تدریس و افادہ میں اپنی انفرادیت قائم رکھی، تحریر و انشا پر دازی میں غیر معمولی شہرت حاصل کی ، وعظ و خطابت میں اپنا وقار قائم کیا، انتظامی امور میں اپنی ذہانت و بصیرت سے کبھی تنہا نظر آے، دنیاے شعر و سخن سے بھی اپنا رشتہ استوار رکھا، یہ میدانہایے عمل شاذ ہی کسی ایک شخص میں اکٹھا ہوتے ہیں ، اگر کوئی تنہا شخص ان تمام میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہو تو اسے ’’ہمہ جہت شخصیت‘‘سے تعبیر کرتے ہیں اور مرحوم پر یہ تعبیر بلاشبہ صادق آتی ہے، اور اس بات کے اظہار میں کوئی باک نہیں کہ ان مذکورہ میدانہایے عمل کے علاوہ جس میدان میں بھی قدم رکھتے صف اول میں ہی ہوتے۔
◼️
مولانا مرحوم ’’بمعنی الکلمہ‘‘اچھے مدرس تھے، تدریس آپ کا پسندیدہ عمل تھا، ۱۹۸۲ء سے فراغت کے بعد ہی تدریس سے وابستہ ہو گئے، وہ جہاں بھی رہے اصلاً مدرس کی حیثیت سے رہے، اس طرح کل مدت ۳۵ سال سے زائد بنتی ہے، اس قدر طویل مدت تک تدریس معمولی کام نہیں ، شاگردوں کی کھیپ کی کھیپ تیار کی ، سبھی آپ کے نہایت قدر داں اور علمی گہرائی اور ملکۂ تفہیم کے معترف ہیں ، ۱۹۹۶ء میں جامعہ سراج العلوم سے منسلک ہونے کے بعد وہاں اعلیٰ درجات میں اعلی کتابیں پڑھائیں، تفسیروعلوم قرآن میں زبدة التفسیر، فتح المنان اور حدیث میں صحیح مسلم، مشکاۃ، عقیدۃ میں شرح العقیدۃ الطحاویہ، شرح العقیدۃ الواسطیہ، عربی ادب کی اعلیٰ کتابیں مختلف فترات میں پڑھاتے رہے، تدریس میں بھی آپ کا مذاق ہمہ جہت تھا، جامعہ سراج العلوم کے کبار اساتذہ میں سے تھے جن پر جامعہ کی بنیاد تھی، طلبہ کے لیے نہایت مشفق و مہربان تھے، ان کے سامنے کبھی اپنے علم کی دھونس نہیں جمائی، جامعہ کی جملہ بے تحاشا ذمہ داریوں کے بوجھ کے باوجود تدریسی ذمہ داریوں سے بخوبی عہدہ برآہونے کی کوشش کرتے۔
◼️
مولانا مرحوم کا مزاج دعوتی تھا، اس کے لیے آپ نے خطبے وعظ اور دروس یومیہ کو محور عمل ٹہرایا، مولانا صبغت اللہ کی وفات کے بعد جامعہ کی مسجد کے باقاعدہ آپ خطیب ہو گئے اور یہ تسلسل کم وبیش چوبیس (24) سالوں تک جاری رہا، درمیان میں کبھی ٹہراو نہیں آیا، یہ کس قدر کمال کی بات ہے کہ ایک ہی مسجد میں اس قدر طویل مدت تک خطبہ دیتے رہے، آواز گرج دار اور خطیبانہ تھی، پورے عالمانہ وقار سے خطبہ دیتےتھے، شیروانی اعلیٰ خوشبو کے ساتھ زیب تن فرماتے، اس طرح کہ مسجد میں داخل ہوتے ہی سب کی نظریں آپ پر پڑجاتیں، خطبہ نہایت مدلل ہوتا، موضوعات عام دینی اور اصلاحی ہوتے، ہمیشہ انداز گفتگو مثبت اختیار فرماتے، کبھی کسی مسلک پر زبان دراز نہیں کی ، دلائل کے ساتھ اپنی بات ضرور رکھتے مگر جذبہ اصلاح کا ہوتا مباحثہ کا نہیں ، یہی وجہ ہے کہ لوگ دور دراز سے محض خطبہ کی خاطر آتے، دیگر مسالک کے لوگ بھی شریک ہوتے، خطبہ بسا اوقات بہت مؤثر ہوتا، ایک بار آپ ہجرت رسول کے واقعات اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فرط عقیدت اور جانثاریوں پر گفتگو کر رہے تھے، آواز اس قدر مؤثر تھی کہ خود میری حالت دگر گوں ہوگئی، آس پاس بیٹھے لوگوں کی ہچکیاں بندھ گئیں، عموماً جب اصلاحی موضوعات پر گفتگو فرماتے تو یہی منظر ہوتا۔
آپ کے خطبے خالص کتاب و سنت کی روشنی میں ہوتے، غالباًخطبے محفوظ کیے گئے تھے اب تیار کیے جارہے ہیں، اندازہ ہے کہ کئی ضخیم جلدیں بنیں گی اور اہل علم استفادہ کر سکیں گے، اس کے علاوہ اجلاس اور کانفرنسوں میں اپنی تقریروں سےمردہ دلوں میں زندگی کی روح پھونکتے، سوتوں کو بیدار کرتے اور بگڑوں کی تربیت و اصلاح کا سبب بنتے، ساتھ ہی دروس یومیہ کا بھی آغاز فرمایا ایک بار مکمل ’’اربعین نبویہ‘‘ کا درس دیا، ابتدا میں علماء اہل حدیث کے درس و موعظت سے گہری وابستگی پر مفصل تقریر فرمائی، اس کے علاوہ اور بھی کتابوں کے دروس دیے ہوں گے، لوگ بہت شوق سے ان پر وگراموں کا حصہ بنتے، بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آپ کے مواعظ و دروس سے اس خطے پر بڑے گہرے اثرات ہویے، یہی وجہ ہے کہ خواص میں جہاں آپ کی قدر و منزلت تھی عوام بھی آپ کو وقت کا عظیم عالم سمجھتے تھے۔
◼️
مولانا مرحوم کا تحریری اور تصنیفی ذوق بہت بلند تھا، زبان نہایت شستہ اور دلکش تھی، انداز بیان اور طرز تحریر میں ادیبانہ جھلک تھی، تذکرہ سوانح نگاری، رپورتاژ نگاری، اداریے شذرات وغیرہ میں روانی وشستگی عروج پرہوتی، کم وبیش ۲۴ سالوں تک جامعہ سے نکلنے والے ماہنامہ ’’السراج‘‘کے ایڈیٹر رہے، اسے بام عروج تک پہنچانے کی انتھک کوششیں کرتے رہے، متعدد خاص نمبرات شائع کیے، دیکھتے ہی دیکھتے مجلہ جماعتی حلقوں میں اپنے اداریوں اور مضامین کی عمدگی کے لحاظ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا، اداریہ عموماً حضرت مولانا شمیم احمد ندوی حفظہ اللہ ہی لکھتے ، اللہ آپ کو سلامت رکھے اور یہ سلسلہ جاری رہے۔ کبھی مرحوم بھی لکھتے اور پورے طور پر اسی رنگ میں، سلسلہ وار مضامین بھی لکھتے، ایک اچھے قلم کار کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس کے مضامین شوق سے پڑھے جائیں، مرحوم جو کچھ لکھتے لوگ اسے شوق سے پڑھتے اور علمی مقام کا اندازہ کرتے۔
ان ہمہ جہت مصروفیات کے علی الرغم مرحوم نے اپنے تصنیفی مذاق کو سونے نہیں دیا، تصنیفی عمل گو ٹہر ٹہر کر ہی سہی جاری رکھا، کوئی بہت بھاری بھرکم علمی و تحقیقی کام تو نہیں کیا مگر چھوٹے اور مختصر رسائل و تالیفات کے ذریعہ وقت اور حالات کے تقاضوں کو مکمل کرنے کی کوشش کرتے رہے، اور ان رسائل میں علمی اور عوامی توازن بر قرار رکھا اس طرح کہ بیک وقت دونوں طبقہ فیض یاب ہو سکے، یہاں چند کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے:
(۱)تحفۂ رمضان المبارک ( رمضان المبارک کے تیں اسباق):
یہ کتاب رمضان المبارک سے متعلقہ دروس پر مشتمل ہے ، کل ۳۳ دروس ہیں، ۱۲۸ صفحات پر متوسط حجم میں ہے، زباں عام فہم رکھی گئی ہے تاکہ خواص و عوام یکساں مستفید ہوسکیں۔ یہ کتاب پہلی بار اکتوبر ۲۰۰۰ء میں مکتبہ نوائے اسلام دہلی کے اہتمام سے شائع ہوئی، کتاب کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قبولیت دی، ہر خاص و عام کے ہاتھوں تک پہنچی اور ہر طبقہ کے لوگ فیض یاب ہویے۔ کسی بھی کتاب کی قبولیت میں مؤلف کے اخلاص کا اثر ہو تا ہے، یہ کتاب جس مقصد کے تحت لکھی گئی، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ مقصد پورا کیا، جعلہ اللہ فی میزان حسنات المؤلف رحمہ اللہ
طبع اول کے بعد متعدد بار مختلف جگہوں سے شائع ہوئی، مکتبہ الفہیم نے بھی شائع کی، پانچویں بار ’’رحمانی کتاب گھر بڑھنی‘‘سے اگست 2010 میں شائع ہوئی، تجارتی مکتبات نے کتنی بار شائع کی اس کی بابت کچھ کہنامشکل ہے۔
(۲)عشرہ ذی الحجہ اور قربانی: فضائل، احکام اور مسائل:
یہ رسالہ مؤلف مرحوم کی کتاب ’’مناسک حج، عمرہ اور قربانی‘‘ کا ایک جزو ہے، موضوع سےمتعلقہ تمام مباحث آگئے ہیں، ۶۴ صفحات پرمشتمل ہے، پہلی بار ستمبر ۲۰۱۳ء میں ’’کلیۃ الإمام ابن القیم،مہراج گنج‘‘کے زیر اہتمام شائع ہوا، پھر اگست ۲۰۱۶ء میں مرکز السلام، بلرام پور سے دوہزار کی تعداد میں شائع ہو کر مقبول خاص و عام ہوا۔
(۳)فتنۂ قادیانیت ایک جائزہ:
یہ کتاب قادیانیت کے بانی اور اس کے باطل افکار و نظریات کی بیخ کنی کرتی ہے، یہ فتنہ جب نیپال میں پہنچا تو اہل علم میں غالباً سب سے پہلے مولانا مرحوم نے ہی قلم اٹھایا اور تفصیل سے اس کا تنقیدی جائزہ لیا، اسلوب بیان اور مضامین کی ترتیب سے مؤلف کا اعلیٰ ذوق تالیف نمایاں ہو تا ہے، یہ کتاب آپ کے ذوق نظر کی نمائندہ کہی جاسکتی ہے۔
مقدمہ خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف جھنڈا نگری مرحوم اور ناظم جامعہ حضرت مولانا شمیم احمد ندوی حفظہ اللہ کے گہربار قلم سے ہے، جس میں اس خطر ناک فتنہ اور کتاب کی اہمیت و معنویت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
۱۱۲ صفحات پرمشتمل ہے، جسے جامعہ سراج العلوم کے شعبہ ٔ نشرو اشاعت نے ۱۹۹۸ء میں پہلی بار شائع کیا، پھر اسے ’’جمعیت السلام،روپندہی‘‘نے اہتمام سے شائع کیا۔
(۴)اضلاع بستی و گونڈہ میں میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے تلامذہ کے دعوتی، اصلاحی و تعلیمی اثرات:
جمعیت اہل حدیث ہند نے ’’حضرت میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی: حیات و خدمات‘‘پر ایک اہم سیمینار منعقد کیا تھا، خاکسار اس کا کنوینر تھا، مولانا مرحوم سے بھی گذارش کی، عناوین بھیجے مگر انھوں نے مذکورہ موضوع کی اجازت چاہی، میں نے بخوشی لکھنے کی خواہش کی، چنانچہ نہایت عرق ریزی سے متعلقہ معلومات مختصر سی مدت میں جمع کیں اور انھیں مہذب و منقح کر کے بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا، بعد میں یہ رسالہ کتابی شکل میں شائع ہوا، مقدمہ حضرت مولانا شمیم احمد ندوی سمیت کئی اہل علم نے تحریر فرمایا۔
پورا رسالہ ۱۲۸ صفحات پرمشتمل ہے، جنوری ۲۰۱۸ء میں ’’مرکز تاریخ اہل حدیث ممبئی‘‘نے اچھے انداز میں شائع کر کے عام کیا، اہل علم نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اورتحقیقی انداز میں جمع کی گئی معلومات پر اپنی خوشی کا اظہار کیا، یہ کتاب اپنے موضوع پر مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
ان کے علاوہ کچھ اور مطبوعہ کتابیں ہیں:
(۵)مختصر آداب حج و عمرہ وزیارت(اردو/ ہندی)
(۶)معلم نماز[نماز گائیڈ](اردو / ہندی)
(۷)مناسک حج [حج گائیڈ](اردو / ہندی۔۱۶۸؍صفحات)
غیر مطبوعہ کتابیں ورسائل:
(۸)اسلامی نکاح کی اہمیت (فل اسکیپ: ۷ صفحات، مقالہ فضیلت جامعہ سلفیہ بنارس)
(۹)اردو ترجمہ و تشریح ’’اربعین نوویہ‘‘(۱۰۰؍صفحات)
(۱۰)بدعت، اقسام واحکام (شیخ صالح فوزان کی کتاب کا ترجمہ، ۵۰ صفحات فل اسکیپ)
(۱۱)مجموعہ فتاویٰ حضرت مولانا عبد الحنان فیضی(دوہزار فتاوے، ترتیب)
(۱۲)شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحنان فیضی کے دروس بخاری(ترتیب و تدوین)
(۱۳)سلفی دعوت اور اس کے بنیادی اصول(۲۰ صفحات فل اسکیپ)
(۱۴)منہج سلف کے احیاء میں مولانا آزاد کا حصہ(۱۶ ؍؍ ؍؍)
(۱۵)حدیث کی تشریعی حیثیت(۲۵ ؍؍ ؍؍)
(۱۶)انسانی معاشرہ کی اصلاح میں اسلام کا رول(۱۲ ؍؍ ؍؍)
(۱۷)فقہ اسلامی کی تاریخ اور مسائل کے استنباط میں محدثین کا رول(۲۵ ؍؍ ؍؍)
(۱۸)اعضاء کی پیوندکاری اور شریعت کا حکم(۲۵ ؍؍ ؍؍)
(۱۹)فرقۂ ناجیہ اور اس کا طریقۂ کار(ترجمہ : علامۃ الفرق الناجیہ ازشیخ جمیل زینو)
(۲۰)حضرت ابو ہریرہؓ:حدیث کا ناقل اور اسلام کے فقیہ (۲۰ صفحات : فل اسکیپ)
(۲۱)اسلام میں بیت المال کی اہمیت(تالیف خطیب الاسلام جھنڈا نگری = تحقیقی و مراجعہ)
(۲۲)ایمان و عمل (؍؍ ؍؍ ؍؍)
(۲۳)محدث امام ابو سلیمان خطابی ، شخصیت اور کارنامے (۲۰ صفحات فل اسکیپ)
(۲۴)وضع المسلمین فی نیپال(عربی ۵۰ صفحات ؍؍)
(۲۵)مجموعہ خطبات(۷۰ سے زائد خطبات کا مجموعہ)
◼️
جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر سے آپ کی وابستگی آبائی رہی ہے، دادا حضرت مولانا محمد زماں رحمانی مرحوم، والد حضرت شیخ الحدیث مفتی مولانا عبد الحنان فیضی مرحوم جامعہ کے کلیدی ذمہ داران و اساتذہ میں سے تھے، پھر آپ نے یہ جگہ بخوبی سنبھالی اب آپ کے فرزندبرادرم شیخ سعود اختر سلفی وہاں اساتذہ میں سے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو خاندان کا سچا وارث بنایے، جامعہ کی تعمیر و ترقی اور علمی فضا ہموار کرنے اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچا نے میں آپ کا کردار غیر معمولی رہا ہے، جامعہ کے ذمہ داران خصوصا حضرت مولانا شمیم احمد ندوی حفظہ اللہ آپ کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، آپ کا تقریباً وہی مقام اور ذمہ داریاں تھیں جو استاذ گرامی حضرت العلام ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری مرحوم کی جامعہ سلفیہ بنارس میں تھیں۔
مولانا مرحوم کی منجملہ علمی و عملی خصوصیات میں سے ایک بہت اہم خصوصیت تواضع و انکساری تھی، خورد نوازی اور چھوٹوں پر شفقت ومہربانی، نوجوان فضلا اہل علم کی کاوشوں کواپنے پیغامات اور تحریروں میں کھل کر سراہتے تھے، خاکسار اور اس کے فاضل دوستوں نے جب ’’الأقلام الحرۃ‘‘عربی آن لائن میگزین شروع کی تو کم لوگ تھے جن کو چند نوجوانوں کی یہ جرأت پسند آئی بلکہ رشک آیا، انھی افاضل اہل علم میں سے آپ بھی تھے، ایک طویل خط تحریر فرمایا جو مجلہ کے ’’رسائل‘‘کے خانہ میں محفوظ ہے، درج ذیل لنک پرملاحظہ کرسکتے ہیں:
[ https://www.thefreelancer.co.in/ar/?p=447 ]
تواضع کا عالم یہ تھا کہ جامعہ میں کوئی بھی اہل علم کہیں سے بھی آئیں ان کی ضیافت آپ بنفس نفیس فرماتے اور ہر طرح کی راحت پہنچا نے کی کوشش کرتے ، کوشش کرتے کہ آپ کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، والد محترم حضرت مولانا فضل حق مدنی حفظہ اللہ ومتعنا بطول بقائہ خود جامعہ کے حدیث و فقہ کے قدیم اساتذہ میں سے ہیں، پڑوس میں ہی رہائش تھی، مولانا مرحوم بہت خیال رکھتے تھے اور خود ہماری والدہ بھی، مراسم بالکل گھریلو نوعیت کے تھے، باہمی محبت کا رشتہ تھا، ۳۵ سال کے عرصہ میں شاید ہی کوئی ایسی بات ہوئی جس سے ہم میں سے باہمی کسی کو کسی سے تکلیف ہوئی ہو، خود خاکسار سے بڑی محبت و شفقت فرماتے تھے، ہمیشہ خیریت دریافت فرماتے اور کوئی نئی کتاب یا مقالہ آتا ضرور محبت بھرے پیغامات سے نوازتے ، اگر کوتاہی ہوتی تو اس ہیچمداں کی طرف سے، سوچتا ہوں آپ کے بعد یہ سب کون کرے گا، ( چند اہل علم ضرور ہیں ، اللہ ان کا سایہ دیر قائم رکھے اور انھیں دنیا جہاں کی خوشیاں نصیب کرے)، آپ جتنی شفقت کس سے ملے گی، یہاں تو ہر شخص اپنے مفادات کے سایہ میں جیتا ہے، اب تو یہ دعا نکلتی ہے کہ الٰہی علمی کاموں کی حوصلہ افزائی تو خیر کوئی رکاوٹ نہ بنے، مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے علم و عمل کا پیکر اور جامع الصفات بنایاتھا اور اس سچائی کو ہرشخص تسلیم کرتا تھا۔
مَضى ابنُ سَعيدٍ حينَ لَم يَبقَ مَشرِقٌ
وَلا مَغرِبٌ إِلّا لَهُ فيهِ مادِحُ

◼️
مولانا مرحوم کثیر العیال تھے، آٹھ بیٹے، چھ بیٹیاں، جن میں چھ شادی شدہ ہیں اور آٹھ غیر شادی شدہ، سب سے بڑے فرزند برادرم سعود اختر سلفی ہیں، جو جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد جامعہ سراج العلوم میں ہی تدریس سے وابستہ ہو گئے، امید ہے کہ اپنے آبائی تسلسل کی وراثت کوجاری رکھیں گے۔
◼️
اب سوچتا ہوں کہ کبھی اس بزم عرفانی میں جاؤں گا تو کس سے ملوں گا اور دل کی باتیں کس سے کروں گا، آپ کی شخصیت نظروں کے سامنے ہے، جب ذرا گردن جھکاتا ہوں تو یہ شعر بڑی شدت سے یاد آتا ہے۔
بعد ابن عاتكة الثاوي على أمر
أمسى ببلدة لا عم ولا خال

سهل الخليقة مشاء بأقدحه
إلى ذوات الذرا حمال أثقال
حسب الخليلين نأي الأرض بينهما
هذا عليها وهذا تحتها بالي

مقام ’’امر‘‘میں مدفون ’’ابن عاتکہ‘‘کے بعد
اس دیار میں نہ اب کوئی دادیہالی رشتہ بچا نہ نانیہالی
وہ نرم اخلاق و بلند کردار کا مالک تھا، مہمانوں کی ضیافت کی خاطر
بڑے بڑے اونٹوں کو ذبح کرنے کے لیے ان کے درمیان قرعہ اندازی کرتا
لوگوں کے بوجھ (قرض و غرامات) اور ذمہ داریوں کو اپنے سر لے لیتا
دو دوستوں کے مابین زمین اور قبر کا درمیانی فاصلہ حائل ہو گیا
یہ کیسا فاصلہ ہے کہ یہ زمین کے اوپر زندہ ہے، دوسرا زمین کے نیچے پوشیدہ

الٰہی! اس مرد حق کو اپنی رحمتوں میں ڈھانپ لے ، بشری کوتاہیوں سےدرگذر فرما، اللہم اغفر لہ و ارحمہ وأسکنہ فسیح جناتہ۔ آمین

5
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
مشتاق أحمد بن مختار أحمد

عمدہ خراج عقیدت بارک اللہ فیکم ونفع بکم… اللہ شیخ محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور انکے حسنات کو قبول فرمائے اور لغزشوں کو معاف فرمائے..

راشد حسن مبارکپوری

وفيكم بارك شيخ مشتاق

ارشادالحق روشاد

جزاکم اللہ خیرا و بارک فیکم۔
اللہ شیخ رحمہ اللہ کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے۔۔

س۔روزین

خوبصورت انداز میں دلی احساسات کے ساتھ مزید معلومات پر مشتمل تحریر

عبد اللہ مقبول

ماشاء اللہ مبنی بر حقیقت اللہ رب العزت شیخ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے
ہمیں یاد ہے اک بار خطبہ جمعہ میں آپ نے قرآن کی اس آیت پر “فصب عليهم ربك سوط عذاب” آواز ایسی گرجدار تھی کی رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔