آج ہمارے مسلم معاشرے میں جہاں جہیز جیسے بھاری بھرکم مطالبات اور ہیوی ڈیمانڈ نے نکاح کو مشکل ترین بنا دیا ہے وہیں حسب و نسب، قبیلہ و خاندان اور ذات برادری کے غیر اسلامی تصور نے بھی کافی گل کھلایا ہے۔ دین و اخلاق کے اعلی و ارفع ہونے کے باوجود بھی رشتے اس بنیاد پر طے نہیں ہوپارہے ہیں کہ خاندانی برادری اور قبائلی حسب ونسب میں مطابقت نہیں پائی جارہی ہے، سماج و معاشرے میں بدنامی کا خدشہ ہے، رشتے دار بھی طعنے دیں گے، برادری میں ناک کٹ جائے گی اور نہ جانے کیا کیا الزام و اتہام لگا کر لوگ ترچھی نگاہوں سے دیکھیں گے۔
جبکہ کتاب و سنت کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعدپتہ چلتا ہے کہ شادی بیاہ میں ترجیح و برتری کی بنیاد نسلی امتیازات، خاندانی حسب و نسب، جاہ و منصب، مال و زر اور ذات براردری نہیں ہوتی ہے بلکہ دین و ایمان، تقویٰ و پرہیزگاری اور اخلاق حسنہ جیسی صفات عالیہ مطلوب ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں کتاب و سنت سے چند دلائل پیش خدمت ہیں جن سے یہ سمجھنا بڑا آسان ہوگا کہ شادی بیاہ میں ذات برادری شرط نہیں ہے بلکہ دین و اخلاق سب سے اہم اور بنیادی شرط ہے:
(۱)يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (الحجرات:13)اے لوگو ہم نے تمھیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمھارے لیے مختلف قوم اور قبیلے اس لیے بنائے کہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔
(۲)فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ (النساء:3) عورتوں میں سے جو تمھیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو ۔
(۳)إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (الحجرات:10) بے شک مومن آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔
(۴(وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍْ …..الخ (البقرة :221) اور مشرکوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں درحقیقت مومن بندہ مشرک سے بہتر ہے۔
(۵)اسی طرح نبی اکرمﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر ایک جامع اور بلیغ خطبہ دیا۔ ارشاد فرمایا:
لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى (رواہ احمد وصححه الألباني) کسی عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر، گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر فوقیت و برتری نہیں ہے سوائے تقوی کے۔
(۶)عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: تنكح المرأة لأربع: لمالها، ولحسبها، ولجمالها، ولدينها، فاظفر بذات الدين تربت يداك (البخاری)۔(عموما) عورت سے شادی چار چیزوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے مال، حسب و نسب، خوبصورتی اور دین لیکن تم دین دیندار عورت کو ترجیح دے کر کامیابی حاصل کرو ورنہ تمھارے ہاتھ خاک آلود ہوں۔
(۷)إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه؛ إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض، وفساد عريض (الترمذي) جب تمھارے پاس کوئی نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین و اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے شادی کردو ورنہ زمین میں فتنہ و فساد برپا ہوگا۔
مذکورہ آیات واحادیث اس بات پر غماز ہیں کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور مسلم معاشرے کے یکساں فرد اور معزز ارکان ہیں، ایک دوسرے کا کفو ہیں پس ایک قبیلے کی لڑکی کا نکاح دوسرے قبیلے کے لڑکے کے ساتھ ہو سکتا ہے شرعا اس میں کوئی قباحت نہیں ہے شرط یہ ہے کہ دین و اخلاق کا معیار بلند ہو۔ اس کی متعدد مثالیں تاریخ اسلام میں بھی موجود ہیں:
(۱)رسول اللہﷺ نے اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی زینب بنت جحش کا نکاح زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تھا حالانکہ زید غلام تھے اور زینب قریشی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔
(۲)اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا نکاح فاطمہ بنت قیس القرشیہ سے ہوا۔
(۳)حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی بہن سے ہوا۔ جبکہ بلال حبشی غلام تھے جن کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آزاد کیا تھا اور عبدالرحمٰن بن عوف قبیلہ قریش کے سربر آوردہ اور مشہور و معروف مالدار تاجر اور عشرہ مبشرہ کے رکن رکین تھے۔
(۴)نبی کریمﷺنے قبیلہ بنو بیاضہ کو ابو ہند کے ساتھ مناکحت کا حکم دیا تھا جبکہ ابوہند حجام تھے۔(أبو داود وصحّحه ابن حجر)
(۷)نبی کریمﷺ نے اپنی دونوں بیٹیوں رقیہ اور اُم کلثوم کا نکاح یکے بعد دیگرے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا تھا جبکہ آپ ہاشمی اورعثمان رضی اللہ اموی تھے۔
اس کے علاوہ تاریخ اسلام اور ادوار صحابہ میں اور بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں ۔ ویسے تو نکاح میں حسب و نسب کے کفو و برابری کے سلسلے میں ائمہ و فقہاء کا اختلاف ہے مگر راجح قول یہی ہے کہ نکاح میں دین و اخلاق کا کفوء ہونا ضروری ہے باقی قبیلہ و خاندان اور ذات برادری کا کوئی اعتبار نہیں۔ امام شوکانی اپنی شہرہ آفاق کتاب نیل الاوطار میں لکھتے ہیں:
قد جزم بان اعتبار الکفاء ۃ مختص بالدین یعنی كفاءت و برابری کا اعتبار صرف دین کے ساتھ خاص ہے ۔ حضرت عمر اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کا بھی یہی قول ہے اور یہی رائے امام مالک ، عمرو بن مسعود ، محمد بن سیرین ، عمر بن عبد العزیز وغیرہ کی ہے اور اسی رائے کو علامہ ابن قیم نے بھی ترجیح دی ہے۔(فقہ السنہ:128/2)
لہٰذا ثابت ہوا کہ نکاح میں دین و اخلاق ہی اصل ہے باقی دوسری تمام چیزوں کی حیثیت ثانوی ہے ۔ ہمارے مسلم معاشرے میں شادی بیاہ میں ذات برادری اور کنبہ و قبیلہ کولے کر جو فخر و مباہات اور تعصب و تنگ نظری پائی جارہی ہے وہ انتہائی درجے کی جہالت اور حماقت ہے، خالص ہندوانہ طور طریقہ ہے جس کا کتاب و سنت سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی قبیلے اور برادری کی قیود و حد بندیوں کی وجہ سے ہمارے سماج میں نہ جانے کتنے رشتے تباہ ہو رہے ہیں لڑکے اور لڑکیاں راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہیں مگر ولی امر و دیگر اہل خانہ اس چیز کو معیوب سمجھتے ہیں۔ ایک آدمی موحد کو چھوڑ کر بدعتی کے ساتھ اپنی بچی کا ہاتھ پیلا کرنے کے لیے تو تیار ہے لیکن برادری کا فرق برداشت نہیں ۔ دیندار تعلیم یافتہ اور بااخلاق کو چھوڑ کر جاہل و بد عقیدہ تو تسلیم ہے مگر قبیلے کا اختلاف شان کے خلاف بلکہ بدنامی اور رسوائی کے مترادف ہے ۔
بھلا بتائیے جس سماج کا یہ حال ہو کہ ہندوانہ طرز معاشرت اور جاہلانہ طور طریقے پر چلنے والے کو باعزت سمجھا جا رہا ہو اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہو وہاں تبدیلی کیسے آئےگی۔
ویسے بعض تعلیم یافتہ حضرات اس غیر اسلامی حصار سے نکل کر آپس میں ایک دوسرے کے یہاں رشتہ کرکے شادی کو آسان بنانا تو چاہتے ہیں مگر سماجی روایت اور ہندوانہ ماحول سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر کسی نے اس روایت کو توڑ دیا تو زندگی بھر لعن طعن کی گٹھری لادنی پڑے گی، بچیاں نفسیاتی مرض کی شکار ہو جائیں گی ، سسرال والوں کی طرف سے مسلسل ٹارچر کی جائیں گی ۔
افسوس تو اس وقت ہوتا ہے جب زید و بکر دونوں آپس میں دوست ہوں، ہم مزاج بھی ہوں ، موحد اور تعلیم یافتہ بھی یہاں تک کہ دونوں اپنی اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے رشتے کی تلاش میں پریشان بھی ہوں اور دونوں کے یہاں بچے اور بچیاں بھی ہوں ایک دوسرے کے ساتھ نکاح ہونے کا امکان بھی ہو لیکن صرف اس بنیاد پر ایک دوسرے سے رشتے کی بات نہ کہہ سکتے ہوں کہ بیچ میں خاندان، برادری اور قبیلہ رخنہ بن رہے ہوں تو ایسی صورت میں ذرا گہرائی سے سوچیں اور غور کریں کہ آخر ہم کس ماحول میں سانس لے رہے ہیں اور کس سماج میں جی رہے ہیں؟ آخر اس غیر شرعی روایتی حصار سے کب آزاد ہوں گے ؟؟؟
اس تحریر کا مقصد یہ بالکل نہیں ہے کہ اپنے پرانے رشتوں اوربرادری کو چھوڑ کر دوسری جانب رخ کیا جائے بلکہ اپنے ہی قبیلے اور برادری میں اگر رشتہ آسانی سے طے ہو جارہا ہو تو اچھی بات ہے ورنہ کسی بدعتی ، بد عقیدہ اور بد دین کے ساتھ رشتہ کرنے کے بجائے کسی بھی مسلمان موحد سے رشتہ قائم کرنے کا رواج عام کرنا چاہیےاور شادی بیاہ کو آسان بنانے کی ہر ممکن سعی کرنی چاہیے کیونکہ دین آسانی کا نام ہے ۔
نکاح میں تاخیر اور دشواری کی ایک بڑی وجہ قبائلی امتیاز اور برادری عصبیت بھی ہے کیونکہ بعض قبائل ہمارے سماج میں عنقاہوچکے ہیں پھر بھی لوگ اسی قبیلے کی تلاش میں بہت دور نکل جاتے ہیں اور عقیدہ و منہج کی تمیز کیے بغیر زمین جائداد تک گروی رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں مگر قبائلی فرق کسی بھی صورت میں منظور نہیں (الا من رحم ربي) ۔ لہذا ایسے ماحول میں سماج سے اس فرسودہ ذہنیت اور غیر اسلامی تصور کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
تو آئیے ہم سب مل کر جاہلی فخر و مباہات اور ذات برادری کی قید و بند اور عصبیت کا قلع قمع کریں اور اپنے ہم مزاج رشتوں اور دوست احباب کے یہاں شادی بیاہ کا رواج قائم کریں اور اسلام کی وسعت اور تعلیم کو عام کریں۔
آپ کے تبصرے