ہندوستانی علما وعوام کے نزدیک ختم صحیح بخاری کی مجلس کا انعقاد معروف ومشہور ہے۔ اکثر وبیشتر اسلامی مدارس میں تزک واحتشام کے ساتھ ختم بخاری کی مجلس منعقد کی جاتی ہے۔
یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے۔ کافی پہلےسے کسی کتاب کے اختتام پر اس طرح کی مجالس کا اہتمام موجود رہا ہے۔ خصوصا کتب حدیث کے اختتام پر۔
البتہ یہ مجالس آج صرف صحیح بخاری کے ساتھ سمٹ کر رہ گئی ہیں اور علمی مجلس سے زیادہ ان پر دعوت ولیمہ کا رنگ غالب آگیا ہے۔ کسی بھی مدرسے سے جب ہمیں اس طرح کی کسی مجلس میں شرکت کی دعوت موصول ہوتی ہے تو ہم اسے کھانے پینے کی ہی دعوت پر محمول کرتے ہیں۔ بلکہ آج کل اسے ”جشن“سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور بعض علما اس کی ”مشروعیت“پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔
اسلاف کے یہاں ان مجالس کا خصوصی اہتمام ہوتا تھا لیکن ان کی مجلسیں خالص علمی ہوا کرتی تھیں۔ آج کی طرح ”جشن“اور کھانے پینے والی نہیں۔(کھانے کا وقت ہوتا ہوگاتو کیا کرتے رہے ہوں گے؟کوئی اہتمام کرتا رہا ہوگا یا سب اپنے اپنے گھر سے کھانا لاتے ہوں گے؟یہ بھی تحقیق طلب موضوع ہے اس ضمن میں۔ توجہ مطلوب ہے-ایڈیٹر) جب کوئی شیخ کسی کتاب کی تدریس سے فارغ ہوتے تو آخر میں ایک دو مجلسیں ایسی رکھتے جن میں کتاب اور اس کے مؤلف کے متعلق اہم نکات کا بیان ہو۔
مثلا: مؤلف کا تعارف، علمی مقام ومرتبہ، اساتذہ، تصنیفی خدمات، کتاب کی اہمیت، اس کی مختلف روایات، اس میں استعمال ہونے والے خاص مصطلحات، مؤلف کا منہج و غیرہ۔
بلکہ بسا اوقات آخری حدیث کی شرح بھی کرتے جیسا کہ آج کل کی اختتامی مجلسوں میں صحیح بخاری کی آخری حدیث کی شرح پیش کی جاتی ہے۔
بعض مشایخ ایسے موقع پر خاص کتاب تصنیف فرماتے، یا املا کرواتے، یا طلبہ سن کر نوٹ کرتے اور بعد میں استاد کے سامنے پیش کرتے، جسے نظر ثانی کے بعد نشر کرنے کی اجازت دیتے۔ اس نوعیت کی کتابوں کو علما کی اصطلاح میں ”کتب الختم“کہا جاتا ہے۔ کسی کتاب کے تعارف وتبصرہ کے باب میں یہ کتابیں اصول کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اس طرح کی کتابوں کی شروعات آٹھویں صدی ہجری میں ہوئی ہے۔ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے ”الضوء اللامع“(1/328) میں علامہ بلقینی رحمہ اللہ (متوفی 805ھ) کے متعلق کہا ہے کہ انھوں نے صحیح بخاری پر ”ختم“لکھا تھا۔
لیکن اس کا سب سے زیادہ اہتمام اگر کسی نے کیا ہے تو وہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ (متوفی 902ھ) ہیں۔ آپ نےاس طرح کی دس سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ میرے علم کی حد تک آپ ایسے واحد محدث ہیں جنھوں نے کتب ستہ میں سے ہر کتاب پر ”خَتم“ لکھنے کا کام کیا ہے۔ان کتابوں کے نام یہ ہیں:
(۱)عمدة القاري والسامع في ختم الصحيح الجامع
(۲)غنية المحتاج في ختم صحيح مسلم بن الحجاج
(۳)بذل المجهود في ختم سنن أبي داود
(۴)اللفظ النافع في ختم كتاب الترمذي الجامع
(۵)القول المعتبر في ختم سنن النسائي رواية ابن الأحمر
(۶)بغية الراغب المتمني في ختم سنن النسائي رواية ابن السني
(۷)عجالة الضرورة والحاجة عند ختم السنن لابن ماجه
یہ تمام کتابیں کتب ستہ سے متعلق ہیں۔ اور ترمذی وابن ماجہ کے ”ختم“کے علاوہ باقی سبھی الحمد للہ مطبوع ہیں۔ ترمذی کے ختم کے لیے علامہ عبد اللہ بن سالم البصری المکی الشافعی رحمہ اللہ (متوفی 1134ھ) کے ”ختم“کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے جو کہ الحمد للہ دار البشائر الاسلامیہ سے مطبوع ہے۔ انھوں نے سنن ابی داود، سنن ابن ماجہ اور موطا امام مالک پر بھی ”ختم“لکھا ہے۔ اور ہر ایک کا قلمی نسخہ حرم مکی کی لائبریری میں موجود ہے، لیکن پتہ نہیں ابھی تک ان میں سے کسی کی تحقیق ہوئی ہے یا نہیں۔
بعض مشایخ اس طرح کی معلومات کتاب کے اختتام پر نہیں بلکہ کتاب شروع کرنے سے پہلے ہی طلبہ کے سامنے رکھنا بہتر سمجھتے ہیں، تاکہ مصنف کی علمی شان، ان کا منہج اور خاص مصطلحات وغیرہ کی معرفت انھیں پہلے ہی ہو جائے اور کتاب سمجھنا ان کے لیے آسان ہو۔ یہ طریقہ بھی پرانا ہے بلکہ کافی پرانا ہے۔ اور ”کتب الختم“کی طرح ہی ایسے موقع پر ”کتب الافتتاح“لکھنے کا رواج ہے۔
شاید ابو طاہر سلفی رحمہ اللہ (متوفی 576ھ) پہلے محدث ہیں جنھوں نے اس طرح کی کوئی کتاب لکھی ہے۔ علامہ ابن عبد البر کی کتاب ”الاستذکار“پر آپ نے ”افتتاح“لکھا ہے، جو کہ ”مقدمۃ املاء الاستذکار“کے نام سے مطبوع ہے۔ اسی طرح آپ نے امام خطابی کی کتاب ”معالم السنن“پر بھی ”افتتاح“لکھا ہے جو ”معالم السنن“کے آخر میں مطبوع ہے۔
حافظ ابو طاہر سلفی رحمہ اللہ کو اس نوعیت کی تصنیف کا موجد کہا جاتا ہے۔
اسی طرح کتاب ”افتتاح القاری لصحیح البخاری“ہے جو حافظ محمد بن عبد اللہ المعروف بابن ناصر الدین القیسی رحمہ اللہ (متوفی 842ھ) کی تصنیف ہے۔ صحیح بخاری کے افتتاح کے موقع پر انھوں نے اسے لکھا تھا۔ یہ بھی الحمد للہ مطبوع ہے۔ آپ نے صحیح بخاری پر ”ختم“بھی لکھا ہے جیسا کہ علامہ سخاوی نے ”الضوء اللامع“(8/104) میں بیان کیا ہے۔ اس طرح آپ ایک ایسے محدث ہیں جنھیں صحیح بخاری پر ”ختم“اور ”افتتاح“دونوں لکھنے کا شرف حاصل ہے۔
علامہ فتح اللہ البنانی الرباطی رحمہ اللہ (متوفی 1353ھ) کی کتاب”رفد القاري بما ينبغي تقديمه عند افتتاح صحيح البخاري“بھی اسی نوعیت کی تصنیف ہے۔ یہ بھی مطبوع ہے۔ مرکز الدراسات والابحاث واحیاء التراث، الرباط، المغرب والوں نے اسے چھاپا ہے۔ اس کے آخر میں اور ایک کتاب ملحق ہے جس کا نام ہے: ” تُحفة أهل الاصطفا بمقدِّمة فتح الشِّفا”، یہ قاضی عیاض کی سیرت رسول پر لکھی گئی معروف کتاب ”الشفا بتعريف حقوق المصطفى“کا افتتاح ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کتب الختم والافتتاح کا تعلق صرف کتب حدیث سے نہیں، دوسرے علوم سے بھی ہے۔
اس طرح کی بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں۔ یہاں استیعاب نہیں، صرف اشارہ مقصود ہے۔ طلبہ علم (خصوصا منتہی درجات کے طلبہ) کو ان کتابوں کی طرف رجوع کرنےکا اہتمام کرنا چاہیے۔ ان کتابوں کے اندر بعض ایسے فوائد اور نکات ملتے ہیں جو دوسری کتابوں میں نہیں ملتے۔
اللہ تعالی ہمیں استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔
جزاكم الله خيرا و أحسن الجزا ونفع بكم الأمة والمسلمين خاصة لطلبة العلم