اللہ نے تمام پیغمبروں کو ان کی قومی زبان میں پیغام رسالت سے نوازا۔ نبی آخر الزماں کو سرزمین عرب میں مبعوث فرمایا تو انھیں اپنا پیغام (قرآن و حدیث) عربی زبان میں دیا۔
آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ مزید دراز ہونے سے رہا لہذا اللہ نے علماء کو انبیاء کا وارث بنایا تاکہ وہ اپنی قوم کو انھی کی زبان میں پیغام الہٰی پہنچائیں۔
الحمد للہ وارثین انبیاء نے دنیا کی تمام متداول اور مشہور زبانوں میں اللہ کا پیغام اس کی مخلوقات تک پہنچایا۔ جہاں خطبات و دروس کے ذریعے قرآن و حدیث کے اسباق لوگوں کو بیان کیے وہیں رسالوں اور کتابوں کو تصنیف کر کے شرعی احکام کو مسلمانوں تک پہنچایا۔
سینکڑوں سال قبل جب اردو زبان نے جنم لیا اور دھیرے دھیرے ارتقا پذیر ہوئی اور خلق خدا کا ایک بڑا حصہ اس زبان کو بولنے لگا تو علماء نے احکام شریعت کو اردو زبان میں منتقل کرنا شروع کیا۔ کچھ لوگوں نے عقائد کی طرف توجہ کی اور کچھ لوگوں نے احکام کی جانب۔ بعض علماء اسلامی تاریخ کو زیور اردو سے آراستہ کر رہے تھے تو بعض کلام پاک کا اردو ترجمہ کرنے میں مشغول تھے۔
اردو کے اسی ابتدائی دور میں ایک کتاب لکھی گئی۔ کتاب کا نام تھا “فقہ محمدیہ و طریقہ احمدیہ”، مصنف کے بارے میں زیادہ تفصیلات تو نہ مل سکیں البتہ ان کا نام مولانا محی الدین رحمہ اللہ تھا۔ ان کا تعارف مجھے جو معلوم ہو سکا وہ وہی ہے جو انھوں نے اپنی کتاب کی تمہید میں لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں “اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ اس نے ہم کو اپنے فضل و کرم سے حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی مذاہب کی تقلید سے بچایا جن میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مبتلا ہے اور ہمیں کتاب وسنت کی اتباع کی توفیق دی۔”
یہ کتاب فاضل مصنف نے اردو داں طبقے کو دینی احکام سکھانے کے لیے اس وقت تصنیف فرمائی تھی جب اردو زبان کا دامن اس جیسی کتاب سے بالکل خالی تھا۔
وہ خود اپنی تصنیف کے بارے میں فرماتے ہیں:
“اس کے بعد محی الدین نومسلم اپنے محمدی بھائیوں کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ نماز کے مسائل وغیرہ کے سلسلے میں اس سے پہلے اردو زبان میں کوئی ایسا رسالہ کہ جس کا ہر مسئلہ قرآن و سنت سے ثابت ہو آج تک کسی نے نہیں لکھا اور اردو خواں محمدی بھائی ہمیشہ سے اس کی تلاش میں رہے، اس لیے اس حقیر نے انتہائی محنت و کوشش سے نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کے مسائل اور ان سے متعلق امور اس رسالے میں درج کردیے ہیں اور اس کا نام “فقہ محمدیہ و طریقہ احمدیہ” رکھا۔ ان شاء الله تعالى یہ چھوٹا رسالہ ہر ایک کے لیے مرد ہوں یا عورت، چھوٹے ہوں یا بڑے، کافی ہوگا اور حدیث کی بڑی بڑی کتابوں سے مسائل دیکھنے کی لوگوں کو بہت ہی کم ضرورت پڑے گی اور اہل علم سے پوچھنا نہیں پڑے گا”۔
مولانا محی الدین صاحب کی یہ کتاب سات حصوں میں تھی۔ پہلا حصہ 68 صفحے کا، دوسرا 64 صفحے کا، تیسرا 96، چوتھا 80، پانچواں 80، چھٹا 108 اور ساتواں 96 صفحات پر مشتمل ہے۔
یہ کل 592 صفحات ہوتے ہیں۔ مولانا محی الدین رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب میں “الترغیب و الترھیب” ، مشکاۃ المصابیح، بلوغ المرام اور دیگر ثانوی درجے کی حدیث کی کتابوں سے استفادہ کیا تھا۔ براہ راست اصل مآخذ کی طرف رجوع بہت کم ہی کیا تھا۔ اس وقت اصل مآخذ کی طرف رجوع بہت دشوار کام تھا اس لیے کہ احادیث کی کتب اور تحقیق و تدقیق کے وسائل کی جس قدر بہتات آج ہے اس وقت نہیں تھی۔
میری خوش قسمتی کہ چودہ مارچ دو ہزار اٹھارہ کو مئو جانا ہوا۔ سفر وسیلہ ظفر بنا بلکہ باعث سعادت ٹھہرا کہ فضیلۃ الشیخ حافظ عقیل احمد حبیب اللہ مدنی حفظہ اللہ سے ملاقات ہوئی۔ شیخ حفظہ اللہ متحدہ عرب امارات میں قیام پذیر ہیں مگر حسن اتفاق کہ اپنے مسقط راس مئو آئے ہوئے تھے۔ شیخ موصوف کااس سے قبل کبھی دیدار نصیب نہیں ہوا تھا۔ البتہ شیخ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیے۔ بڑے تپاک سے ملے اور بتایا کہ انھوں نے فیس بک پر میرا سفرنامہ پڑھا ہے اور ساتھ میں میری تصویر بھی دیکھی ہے۔ جب مجھے پتہ چلا کہ آپ ہی شیخ عقیل احمد حبیب اللہ ہیں تو مجھے بے حد خوشی ہوئی اس لیے کہ اس نام سے تو میں پہلے ہی آشنا تھا اور اس شخصیت کا مداح بھی۔ دو تین برس قبل جامعہ سلفیہ میں آپ کی ترجمہ کردہ کتاب “ثعلبہ بن حاطب ایک مظلوم صحابی” پڑھ چکا تھا۔ ترجمہ کتاب سے ہی مصنف کے تحقیقی مزاج کا اندازہ ہو گیا تھا۔
مولانا محی الدین رحمہ اللہ کی 592 صفحات پر مشتمل کتاب محترم مولانا عقیل احمد حبیب اللہ صاحب کی تحقیق و تخریج اور تعلیق و تہذیب کے ساتھ بڑے سائز کے 1008 صفحات تک پہنچ گئی ہے۔
شیخ عقیل احمد حبیب اللہ صاحب نے احادیث کی تحقیق میں زیادہ تر اعتماد محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ پر کیا ہے۔
آپ کا ایک شاندار علمی مقدمہ کتاب کے شروع میں موجود ہے۔ جس میں آپ نے اتباع کتاب و سنت اور تقلید پر بہت مدلل انداز میں بحث کی ہے۔مقدمے میں آپ نے اصل کتاب کا تعارف بہت عمدہ انداز میں پیش کیا ہے۔ تحقیق حدیث کی ضرورت، علامہ البانی کی تحقیق حدیث کے حوالے سے گراں قدر خدمات اور ان کی تحقیق کے معیار پر گفتگو کرتے ہوئے آپ نے ضعیف اور موضوع احادیث سے امت کو پہنچ رہے نقصانات کو بڑے اچھے انداز میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح خطباء ، واعظین اور سوشل میڈیا یوزرس کے ذریعے جس طرح اندھا دھند ضعیف اور موضوع احادیث کی نشر و اشاعت ہوتی ہے اس پر آپ نے مفصل بحث فرمائی ہے۔ اس کتاب یعنی محمدی زیور کی تہذیب و تخریج اور تحقیق و تعلیق پر مشتمل اتحاف البریۃ کی ضرورت کے حوالے سے آپ لکھتے ہیں: “لیکن دیگر فقہی کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی ضعیف اور موضوع حدیثوں سے پاک نہیں تھی اور ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ اس میں موجود احادیث و آثار کی تخریج کرکے ضعیف وموضوع کی نشاندہی کر دی جائے اور قارئین کے سامنے یہ واضح کر دیا جائے کہ صحیح احادیث کے اندر وہ تمام احکام و مسائل موجود ہیں جن کی امت کو ضرورت ہے اور ترغیب و ترہیب کے ابواب میں بھی صحیح احادیث کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے کہ ان کی وجہ سے مسلمان ضعیف، باطل اور موضوع حدیثوں سے بے نیاز ہے۔” (اتحاف البریۃ:59)
پورا مقدمہ 43 صفحات پر مشتمل ہے۔
کتاب میں تہذیب و تنقیح کے علاوہ مولانا عقیل احمد حبیب اللہ حفظہ اللہ نے ہزاروں حواشی لگائے ہیں۔ پہلے حصے میں 627 حواشی، دوسرے حصے میں 586 حواشی، تیسرے حصے میں 431 حواشی، چوتھے حصے میں 588 حواشی، پانچویں حصے میں 807 حواشی، چھٹویں حصے میں 508 حواشی اور ساتویں حصے میں 324 حواشی ہیں۔ یہ کل ملا کر 3871 حواشی ہوئے۔ آپ نے اس کتاب کی تیاری میں 452 مراجع کی طرف رجوع فرمایا ہے جس سے اس کتاب کے تحقیقی مقام کا پتہ ملتا ہے۔
یہ کتاب شیخ عبدالرؤف بن عبدالحنان کی نظر ثانی کے ساتھ مکتبہ نعیمیہ سے چھپی ہے۔ کتاب فقہی مسائل سے گھرے لوگوں کے مسائل کا حل اور بے حد مفید اور قابل مطالعہ ہے اور دین پسند حضرات کی لائیبریری کی بنیادی ضرورت ہے۔
کتاب کی تصویر مع ملنے کا پتہ اور رابطہ نمبر کی کمی محسوس ہوتی ہے