“زوائد” سے مراد کسی خاص کتاب پر دوسری کتاب کی زائد احادیث ہیں، جو مزید علیہ کتاب میں موجود نہ ہوں۔مثلا: صحیح مسلم کی وہ احادیث جو صحیح بخاری میں نہیں ہیں انھیں “زوائد مسلم على البخاري” کہا جائےگا۔
”موجود نہ ہونے“کا معنی یہ ہے کہ وہ حدیث سرے سے ہی مزید علیہ کتاب میں موجود نہ ہو۔ یا اصل حدیث تو موجود ہو لیکن دوسری کتاب میں ایسے زائد الفاظ موجود ہوں جو مؤثر ہوں۔ یا کسی دوسرے صحابی سے مروی ہو،یعنی دونوں کتابوں میں صحابی ایک نہ ہوں۔
کسی خاص کتاب پر دوسری کتب کی زائد احادیث کو جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیےتمام کتابوں کو باریکی کے ساتھ مکمل پڑھنا اور یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ کون سی حدیث کس کتاب میں ہے۔ پھریہ دیکھنا کہ کون سی حدیث حقیقت میں زائد ہےاور کون ایک ہی حدیث کے حکم میں رکھی جا سکتی ہے۔ آج کمپیوٹر کے زمانے میں یہ کام کچھ آسان ہو سکتا ہے، لیکن جس زمانے میں اس نوعیت کی اکثر کتابیں لکھی گئی ہیں اس زمانے میں ٹیکنالوجی کا کوئی تصور نہ تھا۔چنانچہ اس نوعیت کی پہلی کتاب علامہ مغلطائی رحمہ اللہ نے لکھی تھی۔ آپ نے صحیحین پر ابن حبان کے زوائد کو جمع کیا تھا، لیکن اسے ناقص ہی چھوڑ دیا تھا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریرمیں اسے دیکھا ہے۔ [لسان المیزان، 8/126]
کتب زوائد کا اصل فکرہ علامہ عراقی رحمہ اللہ کا تھا۔ گرچہ اس کی شروعات پہلے ہو چکی تھی اور علامہ مغلطائی کی ”صحیحین پر ابن حبان کے زوائد“ کو اس نوع کی پہلی تصنیف کہی جاتی ہے لیکن اس کے اصل محرک علامہ عراقی ہی تھے۔
آپ نے خود تو اس موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن اپنے تین شاگردوں کو اس میدان میں خوب لگایااور ان تینوں نے اس موضوع کا حق ادا کر دیا۔ وہ تینوں ہیں:
۱۔علامہ ہیثمی رحمہ اللہ(متوفی 807ھ)
۲۔علامہ بوصیری رحمہ اللہ(متوفی 840ھ)
۳۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ(متوفی 852ھ)
علامہ ہیثمی اور علامہ بوصیری دونوں حافظ ابن حجر کے استاد بھی ہیں۔
علامہ ہیثمی نے سب سے زیادہ اس موضوع پر کتابیں تصنیف کیں۔ انھوں نے کتب ستہ پر مسند احمد کے زوائد کو ایک کتاب میں، مسند ابی یعلی کے زوائد کو ایک کتاب میں، مسند بزار کے زوائد کو ایک کتاب میں، معجم کبیر للطبرانی کے زوائد کو ایک کتاب میں اوران کی معجم صغیر واوسط کے زوائد کو ایک کتاب میں جمع کیا۔ پھر ان تمام کتب کو اسانید کے حذف کے ساتھ ”مجمع الزوائد ومنبع الفوائد“نامی کتاب میں جمع کر دیا۔ اس کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں اکثر وبیشتر سند پر انھوں نے اپنا حکم لگایا ہے۔ لیکن یہ خیال رہنا چاہیے کہ علامہ ہیثمی کو محدثین حکم لگانے میں متساہلین میں سے شمار کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے مجمع الزوائد کےمقدمہ (1/136) میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ امام طبرانی کے جن شیوخ کا ذکر میزان الاعتدال میں نہیں ہے وہ ثقہ ہیں۔ نیز انھوں نے اسانید پر حکم لگایا ہے، احادیث پر نہیں۔ اگر حدیث مسند احمد کے علاوہ دیگر کتب میں بھی ہو توان کا حکم مسند احمد کی سند پر ہوتا ہے، الا یہ کہ دوسرے کی سند اس سے زیادہ صحیح ہو۔
اسی طرح انھوں نے صحیح ابن حبان اور مسند حارث کے زوائد کو بھی مستقل کتابوں میں جمع کیا ہے۔ مسند حارث کا آج کہیں کوئی وجود نہیں ہے، نہ مطبوعہ شکل میں نہ مخطوط کی شکل میں، لیکن الحمد للہ علامہ ہیثمی کی ”بغیۃ الباحث“نے اس کتاب کو ہمارے لیے محفوظ کررکھا ہے۔ یہ کتب زوائد کی سب سے بڑی خوبی اور علمی قیمت ہےکہ ان کتب نے بہت ساری ایسی احادیث کی کتابوں کو محفوظ کرلیا ہے جن کی اصل ضائع ہو چکی ہے۔ اگر یہ زوائد کی کتابیں نہ ہوتیں تو اصل کتب کی احادیث آج ہم تک نہ پہنچتیں۔
حافظ ابن حجر نے اس نوعیت کی ایک سے زائد کتابیں تصنیف کیں، لیکن سب سے بڑی اور اہم کتاب آپ کی ”المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية“ہے۔ اس کا مختصر تعارف آگے آرہا ہے۔
اور حافظ بوصیری نےبھی ایک سے زائد کتابیں تصنیف کیں، لیکن آپ کی سب سے اہم اور بڑی کتاب ”إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة“ہے۔ اس میں کتب ستہ پر مذکورہ دس مسانید کے زوائد کو آپ نے جمع کیا ہے اور انھیں فقہی ابواب پر مرتب کیا ہے۔اس میں ہر حدیث کومصنف کتاب کی سند کےساتھ بیان کیا ہے۔ پھر ایک دوسری کتاب میں اسانید کے حذف کے ساتھ اس کا اختصار بھی کیا ہےاور اس میں روا ت واسانید پر کلام کا خصوصی اہتمام کیا ہے۔
زوائد پر اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام علامہ ابن الملقن رحمہ اللہ نے انجام دیا ہے۔ آپ نے صحیح بخاری پر صحیح مسلم کے زوائد کو، پھر دونوں پر ابو داود کے زوائد کو، پھر تینوں پر جامع ترمذی کے زوائد کو، پھر چاروں پر سنن نسائی کے زوائد کو، پھر پانچوں پر سنن ابن ماجہ کے زوائد کو جمع کیا ہے۔ اور ان کی مستقل شرح بھی لکھی ہے۔
علامہ سیوطی نے بھی اس نوعیت کی بعض کتابیں لکھی ہیں، مثلا: زوائد شعب الایمان، زوائد نوادر الاصول للحکیم الترمذی، الذیل علی مجمع الزوائد وغیرہ۔
پھر چودہویں صدی ہجری تک زوائد پر کتاب لکھنے کا سلسلہ تقریبا بند ہی رہا۔ چودہویں صدی کےآخر میں دوبارہ علما نے اس طرف توجہ دی اور کئی اہم کتابیں منظر عام پر آئیں۔ جن میں سے ایک اہم کتاب : ”الإيماء إلى زوائد الأمالي والأجزاء“ہے۔ اس کتاب میں کتب ستہ، موطا مالک اور مسند احمدپر تین سو چھیالیس (346)امالی واجزاء کے زوائد کو شیخ نبیل سعد الدین جرار نے جمع کیا ہے۔ یہ کتاب آٹھ جلدوں میں مطبوع ہے۔اس میں اکثر وبیشتر اسانید واحادیث پرعلما کے احکام بھی موجود ہیں۔ خصوصا علامہ ہیثمی، حافظ ابن حجر، علامہ بوصیری اور شیخ البانی رحمہم اللہ کے احکام۔
المطالب العالیہ کا مختصر تعارف:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کتاب کا نام رکھا ہے: ”المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية“۔
کتاب کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں آٹھ مسانید کی زائد احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔ وہ مسانید ہیں:
مسند الطياليسي (ت204هـ)مسند أبي بكر الحميدي (ت219هـ)مسند ابن أبي عمر العدني (ت243هـ)مسند عبد بن حميد الكشي (ت249هـ)مسند مسدد بن مسرهد (ت228هـ) مسند أحمد بن منيع البغوي (ت244هـ)مسند أبي بكر بن أبي شيبة (ت235هـ)اور مسند الحارث بن أبي أسامة (ت282هـ)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ حافظ ابن حجر ان آٹھ مسانید کے علاوہ کسی اور کتاب کے زوائد کو اس میں ذکر نہیں کرتے بلکہ اس کے علاوہ بھی بعض کتابوں کے زوائد کو بسا اوقات اس میں ذکر کرتے ہیں، مثلا: معجم کبیر طبرانی، معجم اوسط طبرانی، مسند بزار،کتاب الزہد للامام احمد وغیرہ کے زوائد۔بلکہ مسند اسحاق بن راہویہ اور مسند ابی یعلی الموصلی سے بہ کثرت زوائد کا ذکر کرتے ہیں۔لیکن انھیں تعداد میں شامل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جن آٹھ مسانید کا اوپر ذکر ہوایہ وہ مسانید ہیں جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو مکمل ملی تھیں اور جن کی تمام زائد احادیث کو جمع کرنے کاآپ نے اہتمام کیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی آپ کو بعض مسانید مکمل ملی تھیں مثلا: مسند احمد، مسند بزار، مسند ابی یعلی اورامام طبرانی کی معاجم ثلاثہ،لیکن چونکہ آپ کے استاد علامہ ہیثمی نے ان کتب کے زوائد کو مستقل کتاب میں جمع کیا تھا اس لیے دوبارہ ان پر کام کرنا اور ان کے زوائد کا تتبع کرناآپ کو مناسب معلوم نہ ہوا۔
جہاں تک مسند ابی یعلی کی بات ہے تو اس کی دو روایتیں ہیں۔ ایک مختصر اور ایک طویل۔ اسے روایت صغری اور روایت کبری بھی کہا جاتا ہے۔
علامہ ہیثمی نے ابو عمرو بن حمدان کے طریق سے”مختصر“کے زوائد کو جمع کیاتھا، ”کبیر“کے زوائدکو نہیں،سوائے عشرہ مبشرہ کی مسانید کے۔اس لیےمسندابی یعلی الکبیر کی جو حدیثیں ان سے چھوٹ گئی تھیں حافظ ابن حجر نے صرف انھیں ہی ذکر کیا ہے۔اور مسند اسحاق بن راہویہ انھیں مکمل ملی ہی نہیں تھی، صرف آدھی ہی ملی تھی۔
اس طرح کل مسانید کی تعداد دس ہو جاتی ہے۔ سابقہ آٹھ اور مسند ابی یعلی ومسند اسحاق بن راہویہ۔ لیکن چونکہ مسند ابی یعلی کی تمام زائد احادیث اس میں مذکور نہیں اور مسند اسحاق پوری ملی نہیں اس لیے انھیں تعداد میں شامل نہیں کیا گیا۔
اسی طرح کا معاملہ حافظ ابن حجر کی ایک اور کتاب کا ہے، جس کا نام ہے: إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة۔اس میں گیارہ کتابوں کے اطراف کو بیان کیا گیا ہے، لیکن چونکہ صحیح ابن خزیمہ انھیں پوری ملی نہیں تھی اس لیے اسے تعداد میں شامل نہیں کیا ہے۔
المطالب العالیہ میں گرچہ مسانید کے زوائد کو جمع کیا گیا ہے لیکن اس کی ترتیب فقہی ابواب پر ہے، مسانید صحابہ پر نہیں۔کتب ستہ اور مسند احمد پر دس مذکورہ مسانید کے زوائد کو اس میں جمع کیا گیا ہے۔
اس میں ہر حدیث کو مصنف کی اصل سند کے ساتھ بیان کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ اس اہم خوبی کی وجہ سے وہ بعض کتب حدیث جو آج ہم تک نہ پہنچ سکیں، کہیں مفقودہو گئیں ان کی زائداحادیث مع اسانید ہمیں اس کتاب میں مل جاتی ہیں۔ مثلا: مسند ابن ابی عمر العدنی، مسند مسدد بن مسرہد، مسند احمد بن منیع اور مسند حارث بن ابی اسامہ کی آج کہیں کوئی خبر نہیں ہے۔ لیکن ان کی زائد احادیث مع اسانید اس کتاب میں محفوظ ہیں۔ وللہ الحمد والمنہ۔
حافظ ابن حجر اس میں بسا اوقات روات پر کلام کرتے ہیں اور سند پر اپنا حکم بھی لگاتے ہیں۔ آپ نے اس کتاب کا اختصار بھی کیا ہے۔ جس میں اسانید کو حذف کر دیا ہے۔
اس کتاب کی تصنیف میں آپ نے کتنی محنت صرف کی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ کتب ستہ اور مسند احمد کی زائد حدیثوں کو اس میں جمع کیا گیا ہے۔ اس کے لیے کتب ستہ اور مسند احمد کے ساتھ دسوں مسانیدکی تمام حدیثوں کو باریکی کے ساتھ پڑھنا اور ذہن میں رکھنا ضروری ہے تاکہ کوئی ایسی حدیث ذکر نہ کر دی جائے جو کتب ستہ یا مسند احمد میں موجود ہو، یا کوئی ایسی حدیث نہ چھوٹ جائے جو زائد ہو۔ آج کے زمانے میں اکیڈمیاں اور ادارے جن کاموں کی ہمت نہیں کر سکتے ہمارے اسلاف نے ان سے کئی کئی گنا بڑا کام خود اکیلے انجام دیا ہے۔
آج پوری زندگی میں جن بڑی کتابوں کے مطالعہ کی ہم ہمت نہیں کر پاتےصرف چند ایام میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انھیں مکمل ختم کیا ہے۔
علامہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ان کے سرعت مطالعہ کا حیرت انگیز تذکرہ فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ انھوں نے سنن ابن ماجہ چار مجالس میں ختم کر دی تھی۔ اسی طرح صحیح مسلم بھی چار مجالس میں ختم کر دی تھی، یہ چاروں مجلسیں مجلس ختم کے علاوہ تھیں۔ یعنی تین دن سے کم میں۔
اسی طرح صحیح بخاری اور امام نسائی کی سنن کبری دس دس مجلسوں میں ختم کی تھی۔ امام طبرانی کی معجم صغیر جس کی احادیث کی تعداد تقریبا پندرہ سو ہے ظہر سے عصر کے درمیان صرف ایک مجلس میں ختم کر دی تھی۔[بستان المحدثین:ص171-172]
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہماری نیتوں میں اخلاص اور اوقات میں برکت عطا فرمائے اوراپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئےان کتب کو پڑھنے اور ان سے کما حقہ استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔
بارك الله فيكم وزاد حرصكم
بہت خوب
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء۔
یقینا عظیم علماء کے اوقات میں اللہ نے خوب برکت عطا فرمائی تھی۔
اللہ تعالیٰ ہمارے نیت و عمل صالح میں برکت عطا فرمائے۔ آمین۔
جزاکم اللہ خیرا