مدارس موجودہ مالی بحران کے دور میں

رشید سمیع سلفی تعلیم و تربیت

لاک ڈاؤن نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کو متاثر کیا ہے دینی اداروں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے،اس وقت عربی ادارے بے بسی وبےچارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں،رمضان کے چندے پر پورے سال چلنے والے ادارے چندہ نہ ہونے کے سبب محرومی وکسمپرسی کا شکار ہیں،خزانہ رمضان سے پہلے ہی خالی ہوجاتا تھا اور رمضان کی امید پر نبض چلتی رہتی تھی،لیکن اس سال رمضان کا پورا دورانیہ لاک ڈاؤن کی نذر ہوگیا،نتیجتاً مدارس پوری طرح سے کنگال ہوچکے ہیں۔
دیہات کے زیادہ تر اداروں نے ہاتھ اٹھا لیا ہے،شہروں میں زیادہ تر ادارے نصف تنخواہ دے رہے ہیں جوکبھی بھی بند ہوسکتی ہے ،مکاتب کے نظماء بھی تنخواہ نہیں دے رہے ہیں،جی ہاں وہ نظماء جو پورے سال مولوی کے جمع کردہ چندے کے بل بوتے مدرسے پر حکومت چلاتے تھے،وہ بھی موقع پاکر ہاتھ پاؤں ڈھیلے کرچکے ہیں۔حیرت ہے ایسے نظماء پر جو اتنے بھی باحیثیت نہیں کہ برے وقت میں چند مہینے مدرسین کی تنخواہوں کا بندوبست کرسکیں،مانا کہ جو بڑے ادارے ہیں،لاکھوں روپیہ ماہانہ تنخواہ میں جن کا صرف ہوتا ہے،وہ اگر معذرت کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے،لیکن مکاتب کے نظماء پر افسوس ہے جنھیں صرف ایک یا دو مدرس کو دیکھنا ہے،ہم بھی جانتے ہیں کہ مجبوریاں اور نارسائیاں دامن گیر ہیں لیکن جس طرح گھر کے اخراجات پورے ہورہے ہیں، وہ بھی کوشش سے پورے کیے جاسکتے تھے۔
بعض مساجد کے ہونہار ٹرسٹیان نے ائمہ کی تنخواہوں میں کمی بھی کی اور لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ تعمیر اور تزئین کا کام بھی مکمل کرلیا ہے،سنا ہے اپنی فلک بوس بلڈنگوں اور ظاہری چمک دمک سے پیرس اور لندن کا مقابلہ کرنے والے نام نہاد ادارے بھی تنخواہیں کاٹ رہے ہیں بلکہ عمل کے جواز پرکتاب وسنت کی دلیلیں بھی پیش کررہے ہیں،ظاہر سی بات ہے کہ انسانی خون چوس کر اپنے مفادات کی آبیاری کرنے والے موقع پرست اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔
فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے
امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
لیکن ہند ونیپال کے بعض اداروں نے پوری تنخواہ دےکر مثال بھی قائم کی ہے،قلت وسائل کی بنا پر جو ادارے نصف تنخواہ دے رہے ہیں وہ بھی قابل تعریف ہیں،کیونکہ انھوں نے مدرسین کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا ہے،اس مشکل گھڑی میں جیسے تیسے ڈھارس بندھائی ہے۔
جو ادارے جتنے بڑے پیمانے پر کام کررہے ہیں وہ اسی قدر تکالیف سے گذر رہے ہیں،تنخواہ آدھی دینے یا نہ دینے پر انھیں تنقیدوں کا سامناہے لیکن بے چارے ذمے داران کریں تو کیا کریں؟امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی ہے،جب چندہ ہی سہارا تھا تو چندے کے دور دور تک آثار بھی نظر نہیں آرہے ہیں،مایوسیوں کے اندھیرے میں چراغ امید ٹمٹمارہا ہے، اہل ثروت کا بھی کیا قصور؟بند کاروبار سے ان کی حالت بھی خستہ تھی،لاک ڈاؤن میں بھی کافی کچھ رقوم وہ مزدوروں پر خرچ کرچکے ہیں،مزید کی ہمت کہاں سے پیدا کریں؟کاروبار اور تجارت پر تو آج کئی سالوں سے کسادبازاری کے بادل بھی منڈلا رہے ہیں۔
ادھر اساتذہ بھی غیر یقینی صورتحال سے گذر رہے ہیں،ماضی میں مختصر تنخواہ نے مشکل حالات کے لیے رقم پس انداز کرنے کی گنجائش نہیں رکھی تھی،اب کم تنخواہ جب نصف میں بدل دی گئی تو کفایت شعاری بھی منہ چڑھانے لگی ہے،مدرسے کا مولوی جب کسی سے قرض مانگنے کی جسارت کرتا ہے تو مطلوب طالب کی تنخواہ پر ایک نظر ڈالتا ہے اور مستقبل کے کسی موہوم خسارے کا سوچ کر معذرت کرلیتا ہے،سوچتاہے کون جائے رسک لینے ضعف الطالب والمطلوب۔۔۔۔بعض مدرسین نے زندگی کی گاڑی کو رواں رکھنے کے لیے دوسرے اور غیر متعلق کام بھی شروع کردیے ہیں،ایک خبر ایسی بھی آئی کہ ٹریکٹر سے ریت خالی کرتے ہوئے ایک عالم دین جان بحق بھی ہوگئے،کہیں پر تن تنہا کھیتوں میں روپائی کرتے نظر آئے،کسی نے چھوٹا موٹا کاروبار شروع کردیاہے،سچ کہا ہے شاعر نے:
مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
سوال یہ ہے کہ کیا یہ کسی ایک فرد کا مسئلہ ہے؟ کیا یہ کسی ایک خاندان کا درد ہے؟نہیں بلکہ مدارس کا بحران پوری قوم کا مسئلہ ہے،اسے چند لوگوں کا معاملہ کہہ کر آگے نہیں بڑھ جانا چاہیے بلکہ پوری قوم کو مل کر اس کا کوئی پائیدار حل نکالنا چاہیے،اگر قوم کو مدراس کی ضرورت ہے،اگردعوت وتبلیغ کے لیے رجال کار یہیں سے نکلتے رہے ہیں،اگرمنبر ومحراب کے لیے قوم کو علماء درکار ہیں،اگرنونہالان قوم کی دینی تربیت کے لیے علماءمطلوب ہیں تو ممکنہ بحران اور غیریقینی صورتحال سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہوں گے،کب تک چندے کی بیساکھی سے دینی مدارس چلتے رہیں گے،ویسے بھی چندے کا بازار دن بہ دن ماند پڑتا جارہا ہے،مستقبل میں یہ دشواریاں مزید بڑھنے والی ہیں،رمضانی چندہ سال کے اختتام سے پہلے ہی جواب دے دیتا ہے اور لوگ درمیان میں بھی نکل کھڑے ہوتے ہیں،موجودہ بحران کے دور میں وہ ادارے جنھوں نے پہلے سے ادارے کو خود کفیل کرلیا تھا وہ لاک ڈاؤن سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہیں،کوئی طویل آراضی پر کاشتکاری کے ذریعہ ایک خطیر رقم ادارے کے لیے برآمد کرلیتا ہے،کوئی دکانوں کے کرایہ سے اخراجات کی بھرپائی کررہا ہے،اگر درسگاہ اور دارالاقامہ کے لیے بلڈنگوں کی تعمیر ممکن ہے تو تھوڑی اور محنت کرکےایک دو عمارت مدرسے کی آمدنی کے لیے بھی تیار کرلینے میں کیا جاتا ہے؟یا چندے کے ذریعہ مستقل آمدنی کے ٹھوس ذرائع پیداکرلینے میں کیا حرج ہے؟ایسا کرنا مشکل اور طویل المدت ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے۔
بڑے بڑے اسکول پورے اطمینان سے چل رہے ہیں لیکن مدارس دن بہ دن کمزور ہوتے جارہے ہیں،بعض لوگ اسکولوں کی طرح بھاری بھرکم فیسوں کا حوالہ دیتے ہیں اور اس طریقے سے آمدنی کے مسئلے کو حل کرنے کی بات کرتے ہیں،لیکن مدارس کے مالی استحکام کے لیے اسکولی تدابیر کا خیال ذہن کو ان ننگے پیر اور پھٹے حال بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس طلبہ کی طرف لے جاتا ہے جو مدرسوں کے احاطے میں نظر آتے ہیں،مفلسی اور بیچارگی کی سیکڑوں داستان ذہن میں تازہ ہوجاتی ہیں جو مدارس کی چہار دیواری میں چل پھر رہی ہوتی ہیں،بیمار ہوں علاج کے لیے پیسے نہ دارد،مدرسے میں تعطیل ہوتو گھر جانے کے لیے کرایہ نہ دارد،کھانا اور ناشتہ تو مدرسہ دیتا ہے لیکن صابون اور تیل کے لیے وہ دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں،غربت اتنی ہوتی ہے کہ گھر سے بہتر زندگی وہ مدرسہ میں گذاررہے ہوتے ہیں،ان طلبہ سے فیس کا مطالبہ چہ معنی دارد، اسکولی فیس وطریقۂ کار کے لیے قساوت قلبی اور طوطا چشمی کہاں سے لائیں؟محرومیوں اور مجبوریوں کو دیکھ کر دل پر پتھر رکھ لینا دین کی تعلیم دینے والوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔
بجا ہے کہ صرف صاحب استطاعت طلبہ سے فیس وصول کی جائے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ صاحب استطاعت دینی اداروں کارخ کرتے ہی کتنے ہیں؟عصری وانگریزی تعلیم کی چمک دمک نے پیسے والوں کو گرویدہ بنایا ہوا ہے،مدرسوں کا رخ تو غرباء کے بچے ہی کرتے ہیں،بھاری بھرکم فیسوں پر جو ادارے کاربند ہیں وہ محتاج وضرورت مندوں کو کیسے نظر انداز کرتے ہیں،یہ ایک دردناک حقیقت ہے،فیس کے لیے معافی کا آپشن تو ہوتا ہے لیکن پروسیزر اتنا لمبا کہ مایوسی ہی ہاتھ آتی ہے،جو ایسا کرنا چاہتے ہیں وہ یہ سوچ کر شوق پورا کریں کہ غریب ونادار بچوں کے لیے ان کے یہاں کوئی جگہ نہیں؟پھر دل لبھانے کے لیے جدید دور کے تقاضوں سے مکمل ہم آہنگ ہوجائیں،نہ وسائل کی کمی ہوگی اور نہ طلبہ کی،لیکن انسانیت اور خدمت خلق کا جذبہ ادارے کی ہر اینٹ اور درودیوار سے نچوڑ کر پھینکنا ہوگا۔
یہ تو سچ ہے کہ مدارس سال رواں کے لیے دیوالیہ ہوچکے ہیں،مستقبل میں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی ہے،مگر شان عزیمت تو دیکھیے لاک ڈاؤن کے کھلنے پر مدرسہ کھولنے کے اعلانات دیے جارہے ہیں،تیاریاں جاری ہیں،کیا خیال ہے؟چندہ بند ضرور ہواہے لیکن مدرسہ بند نہیں ہوگا،جان لیجیے کہ یہ حوصلہ اللہ کی طرف سے ہے اور یہ مدرسے بھی اللہ کی توفیق سے چلتے ہیں،اسباب تو ایک بہانہ ہیں جن کے دائرے میں ہاتھ پاؤں مارنا بھی ضروری ہے۔

آپ کے تبصرے

3000