علامات تعبیر کا شرعی حکم

عبدالسلام صلاح الدین مدنی افتاء

جدید مسائل میں سے ایک مسئلہ علامات تعبیر (Expressive Symbols) کے استعمال کا ہے کہ کیا ان کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟اس سلسلہ میں علمائے اسلام کے مابین قدرے اختلاف ہےاور ہر ایک کا اپنا بطور ِ دلیل نقطہ ٔ نگاہ ہے۔
یقینا اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ تصویر کشی اسلام میں حرام،ناجائز اور گناہ ِ کبیرہ ہے۔انتہائی صریح لفظوں میں نبی ٔ اکرمﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے:
عن عائشة قالت قدم رسول ﷺ من سفر وقد سترت بقرام لي فیها تماثیل فلما رآہ رسول اﷲ ﷺ ھتکه وقال: أشد الناس عذابا یوم القیامة الذین یضاھون بخلق اﷲ علی سهوة لي(قالت عائشة: فقطعناہ فجعلنا منه) وسادة أو وسادتین
[بخاری:۵۹۵۴/ مسلم:۲۱۰۷](حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس آئے، میں نے ایک الماری کی طاق پر پردہ ڈال رکھا تھا جس میں تصاویر تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس کو دیکھا تو پھاڑ ڈالا اور فرمایا کہ قیامت کے روز سب سے زیادہ سخت عذاب میں وہ لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی صفت ِتخلیق کی نقل اتارتے ہیں۔ پھر ہم نے اس کو پھاڑا اور اس کے ایک یا دو تکیے بنائے تھے)
نیز نبی کریمﷺ نے فرمایا:
إن أشدّ الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون
[بخاری:۵۹۵۰،مسلم:۲۱۰۹](روزِ قیامت اللہ کے یہاں سب سے سخت عذاب تصویریں کھینچوانے والوں کو ہوگا)
اس طرح کی احادیث کے پیش نظر جو شوقیہ بلا ضرورت تصویریں کھینچوانے،البم میں سجانے،گھروں میں لٹکانے وغیرہ کے عادی ہیں انھیں انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔
اس مضمون کی متعدد احادیث وارد ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تصویر کھینچنا،لٹکانا اور اسے سجا سنوارکر رکھنا حرام ہے الا یہ کہ کسی خاص ضرورت(آئی کارڈ بنوانے،پاسپورٹ بنوانے،کرنسی وغیرہ) کے لیے ہو تو علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔
علامہ البانی (رحمہ اللہ) تصویر کشی کی حرمت پر احادیث ذکرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وإن کنا نذهب إلی تحریم الصُّور بنوعیه جازمین بذلك فإننا لا نرٰی مانعًا من تصویر ما فیه فائدة متحققة بدون أن یقترن بها ضرر ما، ولا تتیسر هذہ الفائدة بطریق أصله مباح،مثل التصویر الذي یحتاج إلیه الطبّ وفي الجغرافیا وفي الاستعانة علی اصطیاد المجرمین والتحذیر منهم ونحو ذلك فإنه جائز بل قد یکون بعضه واجبًا في بعض الأحیان والدلیل علی ذلك حدیثان … الخ
[أحکام التصویر في الإسلام:۶۶](اگرچہ ہم تصویر کی ہر دو نوع (تصویر بنانا اورلٹکانا) کی حرمت کے پورے وثوق سے قائل ہیں لیکن اس کے باوجود ایسی تصویر جس سے کوئی یقینی فائدہ حاصل ہوتا ہو اور اس سے کوئی شرعی ضرر لاحق نہ ہو، کو بنانے میں ہم کوئی مانع نہیں سمجھتے۔ بشرطیکہ یہ فائدہ اس جائز طریقے کے سوا حاصل ہونا ممکن نہ ہو جیسا کہ طب وجغرافیہ میں تصویر کی ضرورت پیش آتی ہے، یا مجرموں کو پکڑنے اور ان سے بچاؤ وغیرہ کے سلسلے میں۔ تو یہ تصویریں شرعاً نہ صرف جائز بلکہ بسا اوقات واجب بھی ہوجاتی ہیں جس کی دلیل یہ دو احادیث ہیں)
پھر انھوں نے حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا)کی اپنی گڑیوں سے کھیلنے اور حضرت ربیع بنت ِمعوذ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو ذکر کیا ہے جس میں اُنھوں نے چھوٹے بچوں کو روزے کی تربیت کے دوران روئی کے کھلونے بناکردینے اور ان سے جی بہلانے کا تذکرہ کیا ہے۔
ان احادیث کی تحقیق و تخریج کے بعد بطور نتیجہ علامہ فرماتے ہیں:
فقد دلّ هذان الحدیثان علی جواز التصویر واقتنائه إذا ترتبت من وراء ذلك مصلحة تربویة تُعین علی تهذیب النفس وتثقیفها وتعلیمها، فیلحق بذلك کل ما فیه مصلحة للإسلام والمسلمین من التصویر والصور۔ ویبقی ما سوٰی ذلك علی الأصل وهو التحریم مثل صور المشایخ والعظماء والأصدقاء ونحوها ممّا لا فائدة فیه بل فیه التشبه بالکفار عبدة الأصنام… واﷲ أعلم
[احکام التصویر فی الإسلام:۶۷](یہ دونوں احادیث جوازِ تصویر اوراستعمال پر دلیل ہیں، بشرطیکہ اس سے ایسی کوئی تربیتی مصلحت پوری ہورہی ہے جس سے کسی فرد کے تہذیب وسلیقہ اور تعلیم میں مدد ملتی ہو۔ اس جواز سے تصویر کشی اورتصاویر کی وہ صورتیں بھی ملحق ہوجاتی ہیں جن میں اسلام یا مسلمانوں کی کوئی دینی مصلحت پائی جاتی ہو۔ البتہ اس کے ماسوا اُمور میں تصویر کی حرمت اپنی جگہ پر قائم ودائم ہے، مثلاً مشایخ، بڑی ہستیوں اور دوستوں وغیرہ کی تصویر کشی جس میں بتوں کے پجاری کفار کی مشابہت کے سوا کوئی دینی فائدہ حاصل نہیں ہوتاہو)
البتہ ایک سوال بار بار ذہن میں ابھرتا ہے کہ اگر کسی تصویر کا سر کٹا ہوا یا جسم کا کوئی حصہ موجود نہ ہو، بطور ِ خاص ایسی تصویریں،اشارات، علامات یا تعبیریں جو انسان کے مافی الضمیر کو ادا کرتی ہوں،جیسے کچھ تصویریں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے داخلی خیالات کی تشریح کرتی اور اندرونی جذبات کی عکاسی کرتی ہیں۔مثلا:مسکراتے چہرے،مغموم چہرے،روتی تعبیریں،ہنستے ہوئے اشارات اور طنز و مزاح کے لیے ہونے والی علامتیں وغیرہ،کیا ان کا استعمال جائز ہے؟
اس سلسلہ میں علمائے اسلام کی دو مختلف رائیں ہیں:
(۱)اس قسم کے اشارات جائز ہیں۔ کیوں کہ:
بلا کسی شک و شبہ اگر ایسی تصویر ہو جس کا سر کٹا ہوا ہو تو اس کا استعمال جائز ہے۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔کیوں کہ نبی ٔ کریمﷺ کی صریح حدیث ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما۔فرماتے ہیں:
الصُّورَةُ الرأْسِ ، فإذا قُطِعَ الرأسُ فلَا صُورَةَ[أخرجه الإسماعيلي في معجم شيوخه(۲۹۱)مرفوعا، وأخرجه البيهقي في السنن الكبرى(۱۴۵۸۰ ) موقوفا
۔علامہ البانی نے اسے صحیح الجامع(۳۸۶۴) میں نقل کیا ہے](تصویر سر ہی ہے،اگر سر کاٹ دیا جائے تو کوئی تصویر نہیں یعنی تصویر کا تصور ہی نہیں)
اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر سر کاٹ دیا جائے تو حرمت کا پہلو ختم ہوجاتا ہے اور وہ حرام نہیں ہوتا ہے کیوں کہ بغیر سر کے تصویر کو تصویر نہیں کہا جا سکتا ہے۔
نیز اس لیے بھی کہ نبی کریم ﷺ نے ایک لمبی حدیث میں فرمایا:
فمُرْ برأسِ التِّمثالِ يُقطَعُ فيصيرُ كهيئةِ الشَّجرةِ
[أخرجه أبو داود (۴۱۵۸)، والترمذي (۲۸۰۶)، وابن حبان(۵۸۵۴) السلسلہ الصحیحۃ:۳۵۶](چنانچہ مجسمہ کے سر کو کاٹنے کا حکم دو کہ وہ درخت کی شکل کا ہوجائے)
مطلب یہ کہ اگر سر کاٹ دیا جائے تو اس کے استعمال اور اس سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس کا استعمال جائز ہے۔
۱۔فقیہ مدینہ،مدرس مسجد نبوی اور مسجد قبا کے امام و خطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سلیمان بن سلیم اللہ الرحیلی(حفظہ اللہ)سے اس بابت سوال کیا گیا تو انھوں فرمایا:
’’یہ تعبیری تصویریں (ہنستی روتی )کیا اصلی تصویریں ہیں؟میری سمجھ کے مطابق یہ چہرے کی اصلی تصویریں نہیں ہیں۔یہ ایک متعین شکل ہوتی ہے جس میں ایک متعین تعبیر ہوتی ہے،اس لیے میرے خیال میں یہ حرام نہیں۔لیکن میرا کہنا ہے کہ یہ شریفوں کے شایانِ شان نہیں ہے،جیسا کہ کسی طالب علم کے لیے یہ زیب نہیں دیتا ہے لہذا اس سے بچنا چاہیے۔لیکن اگر کسی نے اس کا استعمال کر لیا تو ہم اسے حرام نہیں کہہ سکتے۔‘‘ [https://www.youtube.com/watch?v=FnWtQOCewlE]
۲۔فقیہ مملکت سعودی عرب،دائمی افتاء کمیٹی کے فعال ممبر فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعد بن ترکی الخثلان (حفظہ اللہ) سے پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:
الذي يظهر أنه لابأس بذلك ؛ وذلك لأنها ليست صورًا بالمعنى الشرعي وإنما هي مجرد رموز يؤتى بها للتعبير عن جملة من الكلام ، ثم على تقدير أنها صورة فقد ذكر الفقهاء أن الصورة إذا قطع منها ما لا تبقى معه الحياة فلا تكون محرمة ، وقد قال ابن عباس رضي الله عنهما : “الصورة الرأس ، فإذا قطع الرأس فلا صورة ” وقد روي مرفوعًا، قال الموفق ابن قدامة رحمه الله : “وإن قطع منه ما لا يبقى الحيوان بعد ذهابه كصدره أو بطنه أو جعل له رأس منفصل عن بدنه لم يدخل تحت النهي لأن الصورة لا تبقى بعد ذهابه فهو كقطع الرأس ،، (المغني 8/111)، والله أعلم]
(ظاہر سی بات ہے کہ ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے،کیوں کہ شرعی معنی میں یہ تصویریں نہیں ہیں،یہ تو صرف اور صرف اشارات و علامات ہیں جو کچھ باتوں کی تعبیر کے لیے لائی جاتی ہیں۔پھر اگر مان لیا جائے کہ یہ تصویریں ہیں تو فقہاء نے ذکر کیا ہے کہ اگر تصویر سے ایسی چیزیں کاٹ دی جائیں جن سے زندہ رہنا دو بھر ہوجائے تو حرام نہیں ہوتی۔حالانکہ حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہما)نے فرمایا ہے کہ (تصویر تو سر ہی ہے،اگر سر کاٹ دیا جائے تو تصویر کا کوئی تصور ہی نہیں رہ جاتا)یہ مرفوعا بھی روایت کی گئی ہے۔ابن قدامہ فرماتے ہیں :اگر کسی بھی چیز سے ایسی چیز کاٹ دی جائے جس کے بغیر زندہ رہنا محال ہوجائے جیسے اس کا سینہ یا اس کا پیٹ یا اس کا سر اس سے الگ کردیا جائے تو ممانعت کے حکم میں شامل نہیں ہوتا،کیوں کہ اس کے ختم ہوجانے کے بعد تصویر باقی نہیں رہ جاتی جیسے سر (کے ختم کر دینے کے بعد تصویر باقی نہیں رہتی)۔ [https://saadalkhathlan.com/37]
۳۔شیخ خالد بن عبد اللہ المصلح (جو جامعۃ القصیم کے ایک شریعہ فیکلٹی کے موقر استاد،علامہ محمد بن عثیمین کے داماد اور تلمیذ خاص اور مملکت ِ سعودی عرب کے ایک ممتاز عالم دین ہیں) سے اس تعلق سے سوال کیا گیا تو آپ (حفظہ اللہ)نے فرمایا:
مسکراہٹ، تبسم یا ہنسنے رونے کی جو تعبیریں ہوا کرتی ہیں حرام نہیں ہیں،لہذا ان کا استعمال بھی حرام نہیں ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ بطور ِ نقش یا بطور استعمال حرام ہیں،کیوں کہ جو ممانعت ہے وہ زندگی کی وجہ سے ہے اور اس میں زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے۔یہ زیادہ سے زیادہ ایک قسم کی خیالی تصویر ہوسکتی ہیں اور خیالی تصویر حرام نہیں ہے۔میں نےشیخ ابن عثیمین سے خیالی تصاویر(جیسے کوئی گلاس ہو اور اس میں آنکھ وغیرہ بنی ہو) کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ حرام نہیں ہیں۔(شیخ خالد المصلح کی اس تصریح کے بعد یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ علامہ محمد بن صالح العثیمین کا بھی یہی فتوی ہے)۔ [https://www.youtube.com/watch?v=7kaqJt_vU7U]
۴۔شیخ عبد اللہ السلمی سے یہی سوال کیا گیا تو انھوں نے بھی اس کے جواز کا فتوی دیا۔ [https://www.youtube.com/watch?v=Ojy35fqj5is]
۵۔شیخ محمد بن صالح المنجد مملکت ِ سعودی عرب کے ممتاز،مایہ ناز اور قابل اعتماد عالم دین ہیں۔آپ کے فتاوی دنیائے انٹر نیٹ پر بہ کثرت موجود ہیں۔آپ سے ان علاماتِ تعبیر اور تصویری اشاریوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ کا جواب تھا:
الذي يظهر والله أعلم أن هذا الوجه – مبتسما أو حزينا – لا يأخذ حكم الصورة التي يمنع تصويرها ورسمها واستعمالها ؛ وذلك من وجهين۔الأول : أنه لا تظهر فيه معالم الوجه الحقيقي ، من العينين والفم والأنف ، وهو خال من الرأس والأذنين وقد قال النبي صلى الله عليه وسلم : الصورة الرأس ، فإذا قطع الرأس فلا صورة (رواه الإسماعيلي في معجمه من حديث ابن عباس ، وصححه الألباني في السلسلة الصحيحة برقم 1921 ، وفي صحيح الجامع برقم 3864) الثاني : أن جمهور الفقهاء على أن الصورة إذا قطع منها ما لا تبقى معه الحياة ، لم تكن صورة محرمة
(ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے ۔واللہ اعلم۔کہ یہ مسکراتے یا مغموم چہرے تصویر کا وہ حکم نہیں لے سکتےہیں جن میں تصویر کشی یا نقش نگاری اور ان کے استعمال کی ممانعت ہے۔ اس کی دووجہیں ہیں:
(۱)ان میں حقیقی چہرے(دو نوں آنکھیں،منہ،ناک ) کی شکلیں ظاہر نہیں ہوتی ہیں بلکہ یہ تو سر اور دونوں کانوں سے یک قلم خالی ہوتی ہیں۔حالانکہ نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:تصویر تو سر ہی ہے،اگر سر کاٹ دیا جائے تو کوئی تصویر نہیں ہوتی۔اسے اسماعیلی نے اپنے معجم میں حضرت ابن عباس کی حدیث سے روایت کیا ہےاور البانی نے سلسلہ (۱۹۲۱)اور صحیح الجامع (۳۸۶۴)میں صحیح قرار دیا ہے)
(۲)تمام فقہاء نے یہ بات کہی ہے کہ جب تصویرسے ایسی چیزیں کاٹ دی جائیں جن سے زندگی مشکل ہوجائے تو وہ حرام تصویر نہیں ہوتی۔ (https://islamqa.info/ar/answers/110504)
۶۔شیخ جمازبن عبد اللہ الجماز کا بھی یہی فتوی ہے۔(https://www.youtube.com/watch?v=deq_7awum)VI)
۷۔مفتی ٔ مصر شیخ ڈاکٹر شوقی بن إبراہیم علام سے اس بابت سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب میں کہا:
لا مانع شرعًا من استخدام هذه الوجوه أو الرموز التعبيرية في مواقع التواصل الاجتماعي وبرامج المحادثات الإلكترونية ، مع مراعاة ألا تكون مشتملة على ما يخالف الشرع؛ كعُرْيٍ، أو فعل غير لائق، أو تحريض على مخالفة أوامر الشرع، أو الإخلال بآداب الحوار، ونحو ذلك من الأمور المحرمة شرعًا۔
(https://www.dar-alifta.org/ar/ViewFatwa.aspx?ID=13714&LangID=1)
۸۔خاکسار نے اس بابت فقیہ الہند فضیلۃ الشیخ محمد إشفاق السلفی المدنی (استاذ حدیث دار العلوم احمدیہ سلفیہ بہار ) سے جاننے کی کوشش کی تو انھوں نے فرمایا:
یہ علامات ِ تعبیر ہیں،تصویریں تو نہیں ہیں،زیادہ سے زیادہ انھیں تصویروں کے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے (تصویریں نہیں)لہذا ان کا استعمال حرام تو نہیں ہوگا۔البتہ ان کے استعمال سے بچنا احتیاط کا تقاضا ہے،کیوں کہ نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:دع ما يريبك إلی مالا يريبك(ترمذی:۲۵۱۸/نسائی: ۵۷۱۱/مسند أحمد:۱۷۲۳/علامہ البانی نے صحیح الترمذی میں اسے صحیح قرار دیا ہے) یعنی شک والی چیز کو چھوڑ کر غیر مشکوک چیز کو اختیار کیا کرو) اور کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے اور شک و شبہ کی گنجائش ہو تو ایک انسان کو چاہیے کہ وہ تورع اور عصمت کی راہ اختیار کرے،کیوں کہ اسی میں اس کی عزت کی حفاظت ہے۔نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:فمن اتقى الشبهات فقد استبرأ لدينه و عرضه (بخاری:۵۲/مسلم:۱۵۹۹)
(۲)دوسرا موقف عدم جواز کا ہے، جس کے قائلین میں سرِ فہرست مملکتِ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم علامہ محمد بن ابراہیم آل الشیخ اور سابق مفتی ٔ اعظم سماحۃ الشیح ابن باز شامل ہیں۔ان کے علاوہ کچھ دیگر علماء ہیں جو ان کے استعمال کے عدم جواز کے قائل ہیں۔
شیخ محمد ابن ابراہیم(رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:
التصوير النصفي لا إشكال عندي في أَنه محرم، وان كان ذهب نزر قليل إلى القول بعدم التحريم، وربما يكون أَخف من الكامل لأَجل هذا القول، وأَما أَنا فلا إشكال عندي فيه، لأَن الوجه هو المقصود
[فتاوی الشیخ محمد بن إبراھیم:۱؍۱۶۵](یعنی آدھی تصویر (بھی)میرے نزدیک بغیر کسی اشکال کے حرام ہے،گو کہ کچھ لوگ اس کے حرام نہ ہونے کے قائل ہیں اور اس کی وجہ سے پوری تصویر کے مقابلے میں (آدھی تصویر کے حکم میں ) کچھ کمی ہوسکتی ہے۔جہاں تک میری بات ہے تو میرے نزدیک بغیر کسی اشکال کے یہ حرام ہے،کیوں کہ مقصود تو چہرہ ہی ہے)
سماحۃ الشیخ ابن باز(رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:
ويستدل بالحديث المذكور أيضا على أن قطع غير الرأس من الصورة كقطع نصفها الأسفل ونحوه لا يكفي ولا يبيح استعمالها ، ولا يزول به المانع من دخول الملائكة ، لأن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بهتك الصور ومحوها وأخبر أنها تمنع من دخول الملائكة إلا ما امتهن منها أو قطع رأسه ، فمن ادعى مسوغا لبقاء الصورة في البيت غير هذين الأمرين فعليه الدليل من كتاب الله أو سنة رسوله عليه الصلاة والسلام . ولأن النبي صلى الله عليه وسلم أخبر أن الصورة إذا قطع رأسها كان باقيها كهيئة الشجرة ، وذلك يدل على أن المسوغ لبقائها خروجها عن شكل ذوات الأرواح ومشابهتها للجمادات ، والصورة إذا قطع أسفلها وبقي رأسها لم تكن بهذه المثابة لبقاء الوجه ، ولأن في الوجه من بديع الخلقة والتصوير ما ليس في بقية البدن ، فلا يجوز قياس غيره عليه عند من عقل عن الله ورسوله مراده . وبذلك يتبين لطالب الحق أن تصوير الرأس وما يليه من الحيوان داخل في التحريم والمنع؛ لأن الأحاديث الصحيحة المتقدمة تعمه
(فتاوی الشیخ ابن باز ۴؍۲۱۲)
البتہ دلائل دیکھنے،نفس مسئلہ پر انتہائی سنجیدگی سے غور کرنے اورمسئلہ تصویر کشی پر تامل کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جواز کے قائلین کا موقف ارجح اور صحیح تر ہے۔
مذکورہ تفصیلات و تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تصویری اشاریوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے،حرام نہیں کہا جا سکتا ہے۔البتہ اگر بطور احتیاط اس کے استعمال سے بچا جائے تو بہتر،افضل اور تقوی کے قریب ہے ۔
رب کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کہنے،ماننے اور عمل کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔آمین یا رب العالمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Mohammad Ashfaque Salafi

الله تعالى مقالہ نگار کو جزائے خیر دے اور
مزید علم وتحقیق کی نعمت کے ساتھ عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔میرے نام کے ساتھ جسطرح کی جفا کی ھے اس کے لئے درگذر فرمائے۔میں اللہ تعالیٰ کے حضور اور طلباء و علماء کے مابین اس بات سے براءت کا اظہار کرتا ہوں کہ مجھے کوئی خوش خیالی میں فقیہ کے لقب سے ملقب کرے۔اللھم اشھد!!! والسلام
کاتب سطور: محمد اشفاق سلفی ۔دربھنگہ (بھار)