مدارس و مساجد اور اسلامی معاشرے کا باہم جسم و جان کا رشتہ ہے۔ ایک کا وجود دوسرے کے لیے ناگزیر ہے۔ ایک کی بقا اور شناخت دوسرے کے وجود و قیام پر منحصر ہے جس طرح غذا کے بغیر جسم کی نشوونما ممکن نہیں اسی طرح معاشرے کی صلاح و فلاح اور اسلامی شناخت مدارس و مساجد کے بغیر ناقابل تصور ہے۔ برصغیر میں مدارس کی تاریخ بڑی قدیم ہے۔ عروج و زوال کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے آج اکیسویں صدی میں بھی ظلمت و تاریکی کے غار میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ بدعت و ضلالت اور کفر و شرک میں غوطہ زن معاشرے کی تشکیلِ نو، ذہن سازی، اللہ کی معرفت، توحید کی دعوت اور اخلاق و کردار کے زیور سے مزین کرنے میں زبردست رول ادا کرتے رہے ہیں۔ یہ مدارس دین کے قلعے، ایمان کے محافظ، اسلام کے پاسبان، قال اللہ وقال الرسول کے گہوارے، عقیدۂ توحید اور منہج سلف کے امین، اخلاق و حسن سلوک کی آماجگاہ اور دعوت الی اللہ کے داعی و مناد اور ہراول دستے ہیں۔ یہ مدارس کل بھی اپنے فرائض منصبی کو ادا کرتے رہے ہیں اور آج بھی انہی پر خار راستوں کے راہی ہیں۔ لاکھ تبدیلیاں آئیں، ہزاروں انقلاب اٹھے، طوفانِ نقد و طعن کے بھنور نے عرصۂ حیات تنگ بھی کیا اور اتہام و کذب بیانی کی جعل سازی سے مہر بلب کرنے کی خوب شیطانی چالیں بھی چلی گئیں مگر علم و معرفت کے یہ گہوارے باطل کی رزم گاہوں میں صدائے لا الہ الا اللہ بلند کرتے رہے اور کفر و شرک کے ایوانوں کی تمام چالوں کو ناکام بناتے رہے۔ آج بھی وہ ایمانی حرارت برقرار ہے جو صدائے توحید کی پاسداری تادمِ حیات کرتی رہے گی ان شاء اللہ۔
اسلامی مدارس کے بنیادی اغراض و مقاصد میں سے یہ ہے کہ صالح اسلامی معاشرے کی تشکیل ہو جو عقیدۂ توحید کا حامل ہو، احکامِ دین کا پابند ہو، نیز اخلاق و معاملات کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو۔ اس اہم بنیادی مقصد کے لیے باصلاحیت علماء اور دعاۃ تیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو معاشرے کی ضروریات اور مقتضیات کو سمجھتے ہوں، برق رفتاری سے بدلتے حالات پر ان کی گہری نظر ہو، تحلیل و تجزیہ کی مہارت ہو اور استنباط و اجتہاد کی نکتہ آفرینی سے لیس ہوں جو معاشرے کے تمام مسائل کا حل کتاب و سنت کی روشنی میں تلاش کرسکیں اور عامۃ الناس کو گمراہیوں اور غلط فہمیوں سے بچا سکیں۔ آج کئی معاملات و مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں لوگوں کو اطمینان بخش جواب دینے میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بسااوقات ایسے معاملات بغیر حل کے مہینوں فائلوں کے آغوش میں پژمردہ ہوجاتے ہیں۔ تو کیا ہم یہ کہیں کہ ان مسائل کا حل شریعت محمدیہ میں موجود نہیں؟ ( نعوذ باللہ) حاشا وکلا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کے بارے میں شریعت مصطفوی میں رہنمائی نہ ہو لیکن اس کے لیے گہرے علم کی ضرورت ہے، تخصص و ریسرچ کی ضرورت ہے، تحقیقی اور تطبیقی اصول کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ امور ہیں جن پر مدارس اسلامیہ کو فوری توجہ کی ضرورت ہے تاکہ مسائل و مشکلات کے حل بآسانی فراہم کیے جاسکیں۔ اس کے لیے ہمیں خود احتسابی کی ضرور ت ہے کہ کیا ہمارا منہجِ تعلیم اور نصابِ تعلیم زمانے کی ضرورتوں کے لحاظ سے مناسب ہے ؟ اس کے اندر وہ خوبیاں موجود ہیں جو ماہر ین علماء تیار کرسکیں ؟ اس کے اندر ان اصول و ضوابط کی پاسداری موجود ہے جو معاشرے کے لیے بہترین قابل عالم اور مفتی تیار کرسکے جس کی دین و دنیا کے مسائل و احوال پر گہری نظر ہو؟ جس کے اندر اجتہاد کی صلاحیت ہو؟ کیا ان مدارس سے آج بھی وہ محققین، محدثین، ادباء، تاریخ داں اور مصلحین خاطر خواہ تعداد میں فارغ ہورہے ہیں جن کی معاشرے میں اشد ضرورت ہے ؟ شاید ان سوالوں کا جواب ہاں میں دینا آسان نہ ہوگا۔
ہمارے یہاں جو نصابِ تعلیم رائج ہے وہ درسِ نظامی کی کاپی ہے جس پر صدیاں گزرچکی ہیں اور جب وضع کیا گیا تھا تب کی ضروریات اور مصلحتوں کے لحاظ سے بالکل مناسب اور حسبِ حال تھا لیکن آج وہ بہت حدتک اصلاح و تحسین کا متقاضی ہے۔ ایسا نہیں کہ اس نصاب میں ترمیم و تبدیلی نہیں ہوئی، کچھ نہ کچھ تو ہوتی رہی ہے لیکن عصرِ حاضر میں اس میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے خصوصا جبکہ یہ دورتخصص کا دور بن چکا ہے جس میں ہر فن کے لیے ماہرِ فن کی ضرورت ہے۔ اس لیے جب تک فن کے ماہرین تیار نہیں کیے جاتے تب تک معاشرے کی ضرورتیں اور ان کے مسائل کے حل ناقص ہی رہیں گے۔
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج مدارس کے فارغین بڑی تعداد میں آپ کو ایسے مل جائیں گے کہ صحیح سے عبارت خوانی نہیں کرپاتے، عربی زبان میں مافی الضمیر کی ادائیگی ان کے لیے ٹیڑھی کھیر ہے، عربی یا اردو میں سلیقے سے لکھنا اور بولناان کے لیے دشوار ہے، احادیث سے مسائل کا استنباط و استخراج اور پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرنا تو جوئے شیر لانے کےمثل ہے، ہم قرآن، تفسیر، حدیث، اصول احدیث، فقہ، اصول فقہ، تاریخ، سیرت، نحو، صرف، بلاغہ وغیرہ وغیرہ سب پڑھتے ہیں لیکن ہزراوں کی تعداد میں فارغ ہونے والے علماء کا جائزہ لیں تو ہم کو انگلیوں پر گنی چنی تعداد ہی میں میسر ہوں گے جو کسی فن کا کما حقہ ادراک رکھتے ہوں۔ مدارس کی چہاردیواری میں اتنی لمبی مدت گزارنے کے بعد اگر نتیجہ اتنا افسوسناک ہے تو یقیناًہمیں اپنے منہج تعلیم وتدریس اورنصابِ تعلیم میں غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اور نصاب کا مزاج اور طبیعت اس طرح سے ڈھالنے کی ضرورت ہے کہ فارغین جب اس فریم ورک کو پورا کرکے باہر نکلیں تو پچاس فیصد سے زائد ایسے ہوں جو اپنے علم و فن کے امام ہوں جن کی طرف بآسانی رجوع کیا جاسکے۔
ہمارے نصاب میں افتاء اور اس کے اصول و آداب کا مادہ عنقاء ہے۔ سلفی منہج کی باقاعدہ تدریس نہ کے برابر ہے، ادیان و فرق کا تقابلی جائزہ اور مشہور چار مسالک کا تفصیلی دراسہ خال خال ہی نظر آتا ہے جبکہ آپ ﷺ کا اسلوبِ دعوت، تدریجی مراحل، مکی و مدنی زندگی کے احوال کا جائزہ، اپنوں اور غیروں کے ساتھ آپ کے تعاملات اور روز مرہ کی زندگی کے عملی نمونے سکھانے اور پڑھانے کا ماحول ہی نہیں ہے سیرتِ طیبہ کو تربیتی اور عملی انداز میں پڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ تاریخ کو محض فتح و شکست، لڑائی جھگڑے، تاریخِ ولادت و وفات کے دائرے میں سمیٹ دیا گیا ہے جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ ہماری تاریخ کا نصاب ایسا ہو جس سے ہمیں اسلامی معاشرتی زندگی کی جھلک، تعلیم و تربیت کا پہلو، تہذیب و ثقافت کی ارتقاء اور انسانی معاشرے کی تشکیل، اس کے کردار اور رول کا پتہ چلے اور تاریخ کو محض تاریخ ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے طلبہ کو ان حقائق سے روشناس کرایا جائے۔ سماج و معاشرت کے تعلق سے ایسی کتاب کی ضرورت ہے جو معاشرے کے احوال اور ہماری روز مرہ کی زندگی کے تمام پہلوؤں سے پردہ اٹھائے اور پھر شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جائے۔ اور بھی بہت ساری ضرورتیں ہوسکتی ہیں جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔
مذکورہ بالاتمام خدشات کو ذہن نشین کرنے کے بعد یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اب ہمارا نصابِ تعلیم تخصص کی بنیاد پر مرتب ہونا چاہیے، درجہ ایک سے لے کردرجہ پانچ تک باقاعدہ مستقل نصاب ہو، متوسطہ سے ثانویہ تک (ہائی اسکول ) تمام ضروری علوم کا تعارف اور ان کے اصول و مبادیات سے آگاہی کا مشترکہ نصاب، اور مرحلہ ثانویہ کے بعد تخصص کا مرحلہ شروع ہوجائے بایں طور کہ علوم القرآن کا شعبہ الگ ہو، علوم الحدیث کا الگ، عربی اور اردو زبان و ادب کا شعبہ علاحدہ، علوم التاریخ والسیر کا علاحدہ اور اسی طرح علوم دعوت و افتاء کا شعبہ منفصل ہو۔ اس سلسلے میں سعودی نصاب تعلیم وتدریس سے ہم اچھا تجربہ حاصل کرسکتے ہیں۔ پرائمری سے لے کر مراحل تخصص تک کا بلیو پرنٹ ان کے پاس موجود ہے اور خود ہمارے ہندوستان کی عظیم جامعات کے تجارب اور علماء عظام کی توجیہات کی روشنی میں باقاعدہ جدید نصاب تعلیم تیار کیا جاسکتا ہے جس میں مرحلہ ثانویہ تک دینی و عصری علوم کو یکجا کیا جائے اور تخصص کے مرحلے میں صرف اور صرف تخصص کے نصاب ہی کی تدریس ہو۔ میرا یقین ہے اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم میں سے بہتوں کا یہ ماننا ہے کہ اگر نصاب تعلیم کو ازسر نو مرتب کیا جائے، تخصصاتی تعلیم کو تطبیقی صورت دی جائے، ریسرچ و تحقیق کے لیے سازگار ماحول مہیا کیا جائے اور بعض انتہائی حساس اور ضروری مادوں کو نصاب تعلیم کا جزءِ لازم بنایا جائے تو ان شاء اللہ ایک بار پھر سے ہمیں محدثین، مفسرین، ماہرین تاریخ و سیر اور ادباء کی کمی کا احساس نہ ہوگا۔ ہر فن کے ماہر کے ہاتھوں باصلاحیت اور قابل علماء تیار ہوں گے، معاشرے کی ضروریات اور چیلینجز کا سامنا کرنے میں کافی آسانی ہوگی، لوگ ان مدارس کی طرف رشک و اغتباط کی نگاہوں سے دیکھیں گے۔ لوگ اپنے بچوں کو ان ا داروں میں تعلیم دلانے کے لیے کوشاں اور سرگرداں ہوں گے اور انھیں اپنے نونہالوں کی ترقی و تربیت پر فخر بھی ہوگا ان شاء اللہ۔ تبدیلی کے اس مرحلے میں یہ نکتہ ہمیشہ پیش نظر رہے کہ اسلامی عقائد اور مدارس اسلامیہ کے اصل اغراض و مقاصد کبھی پس منظر میں نہ جائیں۔ تغیر و تبدیلی کوئی آسان کام نہیں اور خاص طور سے ایسے امور میں جو صدیوں سے جاری ہوں۔ ایسے اہم فیصلے لینے کے لیے ہمت، جرأت، تنازلات کی ضرورت ہوتی ہے، طعن و تشنیع اور لعنت و ملامت کا بھی سامنا ہوتا ہے جس کا مقابلہ کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں بلکہ اہل حل و عقد ہی اس سلسلے میں اقدام کرسکتے ہیں اور یقیناًیہ اقدام ایک انقلابی اور تاریخ ساز اقدام ہوگا جو جدید نسلوں کی تعلیم و تربیت کا ایسا شاہکار ہوگا جو اسلامی معاشرے کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کا اہل اور دنیائے انسانیت کے لیے مشعل راہ ہوگا۔
دعا ہے کہ مدارس اسلامیہ ترقی کے مدارج طے کرتے رہیں، معاشرے کی ضروریات کو پوری کرتے رہیں، نصاب تعلیم و منہج تدریس میں ضروری تبدیلی کی توفیق بھی میسر ہو اور مدارس کے ایوانوں سے ماہر فن علماء تیار ہو۔ اللھم تقبل یا رب العالمین
آپ کے تبصرے