ترجمہ قرآن مفید لیکن دین سمجھنے کے لیے کافی نہیں

ذکی نور عظیم ندوی قرآنیات

قرآن کریم کتاب ہدایت ہے، اس کے اندر بیان کیے گئے تمام حقائق ہر شبہ سے پاک ہیں، اس پر عمل کرنا انسان کے دنیوی و اخروی سرخروئی اور کامیابی کا ذریعہ ہے، اس کی تلاوت و تعلیم، تدبر و تفہیم اور اس کی طرف دعوت و تبلیغ مطلوب اور ہر مسلمان کے لیے ضروری ولازمی ہے۔
قرآن عربی زبان میں ہے۔ اگر کوئی عربی نہ جاننے کی وجہ سے اسے براہ راست نہیں سمجھ سکتا تو اس کے لیے مختلف زبانوں کے ترجمےاس کو سمجھنے میں معاون اور مفید ہیں۔اور اسی کے مدنظر قرآن کریم کا تقریبا تمام زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے اور اب تو انٹرنیٹ پر بھی مختلف قسم کے ایسے ایپس موجود ہیں جس سے مدد لی جا سکتی ہے۔ انھی میں ایک ایپ islam 360 بھی ہے جس سے اردو دان طبقہ بھی کافی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
لیکن صرف ترجمہ سے قرآن اور اس کے حقائق کو پوری طرح سمجھ لینا ضروری نہیں، کیونکہ قرآن کی بعض آیتیں دوسری آیتوں یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے منسوخ بھی ہوتی ہیں، کچھ احکام مجمل اور مختصر بیان کیے گئے ہیں جس کی تفصیل اور تشریح دوسری آیتوں اور احادیث سے ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض مسائل مطلق آئے ہیں جس کی حقیقت دوسری آیتوں اور احادیث کے بغیر سمجھنا مشکل ہے۔
قرآن میں بعض الفاظ ایسے بھی ہیں کہ جن کو عربی جاننے والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین صحابہ بھی بسا اوقات نہ سمجھ پائے۔اور انھوں نے بغیر سمجھے اس کے معنی کو بیان کرنے میں احتیاط برتی اور یہاں تک کہا اگر میں بغیر جانے بیان کروں تو میرے اوپر کون سا آسمان سایہ فگن ہو گا اور کون سی زمین میرے بوجھ کو اٹھائے گی؟ جیسا کہ “وفاکھۃ و أبا” کے تعلق سے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابہ کے تعلق سے کتب حدیث میں ملتا ہے۔
قرآن فہمی کے لیےایک اہم ترین بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہ کر سمجھنے والے اس کے اولین مخاطب افراد کے فہم کا اعتبار کیا گیا ہے لہذا اگر قرآن کریم کا کوئی ظاہری مفہوم صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے سمجھے ہوئے مفہوم کے خلاف ہے تو اس کو نہیں مانا جائے گا۔
مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قرآن کا ترجمہ قرآن فہمی میں مفید ہو سکتا ہے لیکن یہ دین کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
یہ پہلو حال ہی میں میرے سامنے آنے والے ایک خانگی وازدواجی مسئلہ نے واضح کرنے پر آمادہ کیا، جس میں میاں بیوی کے درمیان تفریق کی صورت میں لڑکی کے رشتے دار islam 360 کے ترجمہ کا حوالہ دے کر جہیز کی واپسی کا مطالبہ تو کر رہے تھے لیکن لڑکی کو ملنے والے زیورات(جو مہر یا لڑکی کی ملکیت میں نہیں دیے گئے تھے) کی واپسی سے انکار کر رہے تھے۔اور اس آیت کو بطور دلیل پیش کرتے ہوئے اپنے موقف پر مصر تھے اور اس کے خلاف کچھ بھی سننے کو کسی طرح تیار نہیں تھے:
وَ اِنۡ اَرَدۡتُّمُ اسۡتِبۡدَالَ زَوۡجٍ مَّکَانَ زَوۡجٍ وَّ اٰتَیۡتُمۡ اِحۡدٰہُنَّ قِنۡطَارًا فَلَا تَاۡخُذُوۡا مِنۡہُ شَیۡئًا اَتَاۡخُذُوۡنَہٗ بُہۡتَانًا وَّ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا
[النساء۲۰](اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا ہی چاہو اور ان میں سے کسی کو تم نے بڑا خزانہ دے رکھا ہو ، تو بھی اس میں سے کچھ نہ لو کیا تم اسے ناحق اور کھُلا گناہ ہوتے ہوئے بھی لے لو گے)
اس آیت کے بارے میں تمام مفسرین کا تقریبا اتفاق ہے کہ اس میں جس چیز کی واپسی کو معیوب اور گناہ قرار دیا جا رہا ہے وہ مہر ہے نہ کہ دوسرے تحفہ و تحائف۔ لہذا جس طرح جہیز کے سامان کی واپسی کا مطالبہ ہوتا ہے اسی طرح دیگر زیورات کی بھی واپسی شرعی اعتبار سے درست ہے۔

آپ کے تبصرے

3000