بن کے چھوٹا جو سب سے ملتا ہے

کاشف شکیل

آج جب کہ زمانے نے اپنے عادات و اطوار تبدیل کر لیے ہیں ، عُجب و خود ستائی نے ایک وبائی مرض کی صورت اختیار کر لی ہے، جسے دیکھو خبطِ تکبر میں مبتلا ہے،کوئی اپنی خوبصورتی ،جسم کے تناسب اور صحت و قوت پر نازاں ہے تو کوئی اپنی خوش الحانی پر متکبر ،کسی پر اقتدار اور سیادت کا ایسا نشہ سوار ہے کہ پر ور دگار عالم کی چادر تکبر کھینچنے پر تلا ہوا ہے ،تو کوئی اپنے اعلیٰ حسب و نسب پر مغرور ہے۔ امیروں کے لہجے میں فرعون بولتا ہے، ارب پتیوں کے طرز تخاطب میں قارونیت نمایاں ہے ، ایک بنگلے کا مالک خود کو شداد سے کم نہیں سمجھتا، کوئی اپنے علم پر مغرور ہوا جاتا ہے تو کوئی اپنے زہد پر ۔
تکبر ایک دیمک ہے جو انسان کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے ،ذرا اربابِ اقتدار کا لب و لہجہ ملاحظہ فرمائیں کہیں سے یہ لگتا ہے کہ وہ خبطِ عظمت میں مبتلا نہیں ہیں؟ مالداری اور نرم خوئی دو متضاد اوصاف سمجھے جانے لگے ہیں، اچھے گلوکاروں کے لہجے میں تو بھگوان بولتا ہے ،بڑے شعراء صریر خامہ کو نوائے سروش سے کم نہیں سمجھتے، صحافی، ایڈیٹر اور مدیر حضرات اپنے تجزیوں ،تبصروں اور آراء کو وحی سے کم ماننے پر تیار نہیں ۔یہ تکبر،یہ عُجب ،یہ خود نمائی و خود ستائی ،یہ غرور و گھمنڈ ،یہ کبر و نخوت ،یہ فرعونیت و انانیت انسان کے بونے پن کی علامت ہے ،یہ ساری چیزیں اس کی کم ظرفی اور کج فکری پر غماز ہیں ، اصلی عظمت تواضع میں ہے ، حقیقی بلندی انکساری میں ہے۔ بلند اخلاقی کسرِ نفسی میں ہے ،حسن حقیقی نرم خوئی میں ہے۔ بڑا وہ ہے جو چھوٹوں پر شفیق ہے، حاکم وہ ہے جو محکوم کا خیال رکھے، امیر وہ ہے جو غریبوں کی خبر گیری کرے۔

بن کے چھوٹا جو سب سے ملتا ہے
کوئی اس سے بڑا نہیں ہوتا

محمد کریم ﷺ سید الانبیاء و الرسل تھے راستے سے گذرتے تو چھوٹے چھوٹے بچوں کو سلام کر تے تھے،
خادم خاص انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے آقا و مولیٰ کی دس سال خدمت کی، انھوں نے کبھی مجھے اُف تک نہ کہا ،
آپ ﷺ کبھی غلاموں کے کام کاج میں ہاتھ بٹا رہے ہیں تو کبھی کسی بڑھیا کا بوجھ اپنے سر پر لاد کر چل رہے ہیں ، اپنے ساتھیوں میں اس طرح گھل مل کر رہتے کہ آنے والا سوال کرتا ’’من منکم محمد ﷺ ‘‘تم میں محمد ﷺکون ہیں ۔ اپنے خادم خاص کے بھائی ابو عمیر کو ذرا اداس دیکھتے ہیں تو پوچھتے ہیں ’’یاابا عمیر ما فعل النغیر‘‘ اے ابوعمیر اس چڑیا کا کیا ہوا جس کے ساتھ تم کھیلتے تھے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ وقت ہو کر بھی سترہ سالہ ابن غلام اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی لگام پکڑے چل رہے ہیں۔
امیرالمومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ دو بر اعظموں کے بادشاہ ہیں مگر جب ایک خاتون کے بھوک سے بلکتے ہوئے دو چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو دیکھتے ہیں تو تڑپ جاتے ہیں ،بیت المال کا رخ کرتے ہیں ،اناج کی بوری خود اپنی پیٹھ پر لادتے ہیں ،آپ کا غلام اسلم کہتا ہے کہ میرے آقا یہ بوری میری پیٹھ پر رکھ دیجیے میں اس کو لے کر چلوں تو جواب دیتے ہیں کہ قیامت کے روز تو عمر کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا ئے گا، غلہ لے جاتے ہیں بچوں کے لئے خود کھانا تیار کرتے ہیں اور ان کے چہرے پر جب تک مسکراہٹ نہیں دیکھ لیتے واپس نہیں لوٹتے۔
مسلمانوں کا قبلۂ اول بیت المقدس فتح ہوتا ہے تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فلسطین کے لئے عازم سفر ہوتے ہیں اور حالت یہ ہوتی ہے کہ اونٹ پر باری لگی ہوئی ہے کہ کچھ دیر عمر رضی اللہ عنہ سواری کریں گے اور غلام اونٹنی کی نکیل تھامے گا اور کچھ دیر بعد غلام سوار رہے گا اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اونٹنی کی نکیل تھامیں گے ۔
آپ تاریخ پر سر سری نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کبر و غرور کس درجہ خطر ناک ہے!! کیا ہوا ابلیس کا ؟جس نے ازراہِ تکبر خود کو آدم سے بہتر کہا؟
کیا ہوا انگریزی حکومت کا ؟جس میں سورج نہیں ڈوبتا تھا۔
کیا ہوا فرعون کا ؟جس نے ’’أنا ربکم الاعلیٰ‘‘ کا دعویٰ کیا تھا۔
کیا ہوا شداد کا؟ جس نے زمین میں جنت بنوائی۔
کیا ہوا قوم عاد کا؟جوخود کو سپرپاور کہتے تھے۔
کیا ہوا قوم ثمود کا ؟جو فنکاری ،صنعت و تعمیر اور سنگ تراشی میں اپنی مثال آپ تھے۔
کیا ہواقارون کا ؟جس کے خزانوں کی کنجیاں ایک جماعت مل کر نہیں اٹھا سکتی تھی۔
شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے سچ کہا ہے :
قاروں ہلاک شد کہ چہل خانہ گنج داشت
نوشیرواں نمرد کہ نام نکو گزاشت

قارئین کرام! اللہ فرماتا ہے کہ تکبر میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار ہے،جو مجھ سے ان دونوں میں سے کسی کو چھیننے کی کوشش کرے گا میں اس کو جہنم میں پھینک دوں گا ،لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم فر وتنی اورخود شکنی سے کام لیں، ایسا طرز تخاطب ہر گز نہ اپنائیں جس میں نفرت یا غصہ کا عنصرموجود ہو، ہمارا اسلوب ایسا ہو کہ اس سے نرم دلی،نرم خوئی اور دوسرے کی تکریم کا عکس جھلکے ،تواضع و انکساری ہی انسان کے عظمت کی دلیل ہے، ثمر دار شجر اپنے خوشے جھکا کر رکھتا ہے، انسان کا ہر کمال اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے،اس کی ہر خوبی اللہ کی امانت ہے اللہ کے رسول ﷺ فرماتے تھے۔ ـ’’أنا سید ولد آدم ولا فخر ‘‘ یعنی میں تمام بنی آدم کا سردار ہوں اور مجھے کوئی فخرنہیں ۔
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Kashif Shakeel

جزاکم اللہ خیرا