برادر بزرگ مولانا عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ اس طرح اچانک ہم سے جدا ہوجائیں گے،اس کے لیے ہم تیار نہیں تھے اور نہ کبھی سوچا تھا کہ ایسا بھی ہوجائے گا لیکن فیصلہ اللہ تعالیٰ کا ہے جس کے سامنے سرجھکادینا ہر صاحب ایمان کے لیے ضروری ہے۔ہمارا عقیدہ ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے ،اس سے نہ ایک لمحہ پیچھے اور نہ ایک لمحہ آگے ۔ مولانا عبدالمنان سلفی ہمارے دلوں سے اس قدر قریب تھے کہ ان کی وفات کا صدمہ ہمارے لیے ایک بڑا صدمہ ہے۔آسان نہیں ہے کہ ہم انھیں بھول جائیں،ان کی یادوں کے کتنے چراغ روشن ہیں اور دیکھیے کب تک روشن رہتے ہیں۔ جگر مرادآبادی کے اس شعر میں معمولی ترمیم کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے؎
جان کر من جملۂ خاصان مے خانہ تجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے
تادم تحریران کی وفات کا غم تازہ ہے، دل ودماغ قابو میں نہیں ہیں کہان کے سلسلے میں اپنی یادیں ترتیب دے سکوں، متعارف احباب اور دوستوں کا تقاضا بڑھتا جارہا ہے کہ ان کے سلسلے میں اپنے تاثرات جلد از جلد قلم بند کردوں۔ادھر سوشل میڈیا پر جس طرح تعزیتی پیغامات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے،اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ برادر گرامی کی ذات سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دلوں میں اپنے لیے محبت ومحبوبیت کی جگہ بنائے ہوئے تھی۔ان کے اخلاق وکردار کی عظمت یہی تھی کہ جو بھی ان سے ملا، قریب ہوا یا ان کے ساتھ رہ کر تعلیم وتدریس کی خدمت انجام دی ان کی شرافت، سادگی،تواضع وانکساری، کھلے پن اور شفافیت کا گرویدہ ہوگیا۔
مجھ جیسے خردوں سے بھی ان کا رویہ ہمیشہ اورہر حیثیت سے مساویانہ رہا،کہیں سے یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ عمر اور علم وفضل میں بڑے ہیں۔ان کی ذات گرامی سے کسی بات پر اظہار خفگی اور ناراضگی میرے تجربے اور مشا ہد ے میں کبھی نہیں آئی ۔ میرے بعض مضامین اور کئی ایک تحریریں جماعت کے اندر موضوع بحث بنیں اورمیرے فکر اور عقیدے کو تیز وتند تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا لیکن انھوں نے کبھی کچھ نہیں کہا کیوں کہ وہ عرصے سے میرے فکر اور مزاج کو سمجھتے تھے۔ جامعہ سلفیہ بنارس سے لے کر آج تک ان کی عنایتوں اور نوازشوں کا سلسلہ اس خاکسار پر دراز رہا ہے اور چالیس سالوں کا ایک طویل سفر ہے ،اس میں کتنی یادیں ہیں اور کتنے واقعات پیش آئے ہیں،ان کو کسی مضمون میں سمیٹا نہیں جاسکتا لیکن برادرگرامی کی الفت،شفقت،عنایت اور محبت کا مطالبہ ہے کہ ان کی حیات اور شخصیت کے وہ گوشے دنیا کے سامنے لائے جائیں جو میرے حافظہ میں موجود ہیں اور جن سے ان کے کردار وعمل کے نقوش تابندہ سامنے آتے ہیں۔
قبل اس کے کہ میں اپنی یادیں صفحات قرطاس کے سپرد کروں،ایک ضروری درخواست ان تمام حضرات سے کرنا چاہوں گا جو موصوف کے قریب تھے،قریب سے جانتے تھے اور صحیح معنوں میں ان سے مخلصانہ محبت کرتے تھے کہ ان کے لیے کچھ ایسے کام کی بھی منصوبہ بندی کریں جو ان کے حق میں صدقۂ جاریہ بن سکیں ۔غیر مطبوعہ کتابوں کی اشاعت کا انتظام ہوجائے اور ان کے مضامین و مقالات کے مجموعے شائع ہوجائیں۔ جامعہ سراج العلوم جھنڈانگراور جماعت کی متنوع ذ مہ داریوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی بہت سی ذاتی ذمہ داریوں سے بھی وابستہ تھے،ان کے لیے بہترین خراج تحسین یہ ہے کہ ہمیں ان ذمہ داریوں سے ہم دردی ہو ،جس سطح پر اس پہلو سے جو خدمت بھی ہم سے بن پڑے،ہمیں اس سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے۔ہماری صفوں میں اگر مثبت اور تعمیری سوچ باقی رہے گی تو برادر مکرم ہمیں ہمیشہ یاد رہیں گے اور ہم ان کے لیے کچھ کرسکیں گے۔ذمہ داری کس کی ہے،اقدام کسے کرنا چاہیے اور اس نوع کی خدمت کے لیے جواب دہ کون ہے؟یہ سارے سوالات بے معنی ہیں۔ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں اور سب مکلف ہیں بلکہ یہاں تو صورت حال وہی ہے جس کا نقشہ شاعر نے اس انداز میں کھینچا ہے:
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
اللہ تمام وابستگان اور دلی محبت رکھنے والوں کو توفیق دے کہ وہ بھائی عبدالمنان کو یاد رکھیں اور ان کی وفات کے بعد اس یاد کے جو تقاضے ہیں اور اس کے جومعنوی مظاہر ہیں، ان میں پیش پیش رہیں۔ برادرمکرم کی نمایاں صفت ان کی خودداری اور عزت نفس تھی ، مشکل سے مشکل حالات میں بھی وہ اپنی ان خوبیوں کی حفاظت کرنے میں کامیاب تھے۔ غنا کی دولت فیاض ازل نے انھیں وافر مقدار میں عطا کی تھی ،وہ عمر بھر استغنا اور بے نیازی کی زندگی گزارتے رہے ۔صبر وشکر کی جونعمت عظمی انھیں حاصل تھی ،الحمد للہ ان کے بچوں نے بھی اسی ماحول میں پرورش پائی ہے۔اللہ سے یہی دعا کرتا ہوں کہ ان کے اہل وعیال کوہر ابتلا وآزمائش سے محفوظ رکھے اور وہ اپنے والد،دادا اور پردادا کا عکس جمیل بن کر ان کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن رہیں ۔مولانا محمد زماں رحمانی رحمہ اللہ کی چوتھی نسل جامعہ سراج العلوم کی خدمت میں مصروف ہے۔ ہندوستان میں ایسے خاندان انگلیوں پر شمار کیےجاسکتے ہیں جنھوں نے اپنی چار نسلوں کو عالم دین کی شکل میں دیکھا ہو۔
برادر محترم کو سب سے پہلے جامعہ سلفیہ بنارس میں دیکھا اور وہیں ان سے متعارف ہوا ۔وہ مجھ سے کافی سینئر تھے اور اپنی جماعت کے ممتاز طلبہ میں ان کا شمار تھا۔ندوۃ الطلبہ سے ان کی وابستگی برابر رہتی تھی اور مجھے بھی ندوۃ الطلبہ کی کئی ایک ذمہ داریاں اٹھانے کی سعادت حاصل رہی تھی ۔طلبہ کی انجمن میں وہ کافی سرگرم تھے اور اس کے کئی ایک پروگراموں کا حصہ رہا کرتے تھے ۔ندوۃ الطلبہ کی انھی سرگرمیوں نے انھیں ایک کامیاب خطیب اور حالات حاظرہ پر نظر رکھنے والا ممتاز صحافی بنایا۔اللہ نے انھیں ذہانت بھی عطا کی تھی اور کئی ایک صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا۔اپنے ساتھیوں سے ان کی بے تکلفی بہت مشہور تھی ،ہمیشہ ہنستے بولتے اور سنجیدہ مزاح سے مجلسوں کو گرم کیے رکھتے تھے۔
جامعہ سے فراغت کے بعد وہ کئی ایک اداروں میں تدریس کی ذمہ داریوں سے وابستہ رہے۔اس درمیان ان سے کوئی خاص رابطہ نہیں رہا اور نہ اس کی سرگرمیوں کی کوئی خبر رہی۔جب میں علی گڑھ آیا اور ماہنامہ دعوت سلفیہ کی ادارت سنبھالی اور مضامین لکھنے کا باقاعدہ آغاز کیا تو ان سے شناسائی اور قربت میں اضافہ ہوا۔
میرا آبائی وطن جھنڈانگر سے پانچ سات کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔بارڈر کا ہندوستانی بازار بڑھنی ہمارے علاقے کا بازار ہے جہاں سودا سلف کے لیے علاقے کے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔جب برادر مکرم مولانا عبداللہ جھنڈانگری کے ادارے سے وہ وابستہ ہوئے تودو ایک ملاقاتیں وہیں ہوئیں ۔ان سے ملنے کے بعد ایک خاص قسم کی اپنائیت کا احساس ہوا ۔دینی صحافت سے ان کو خصوصی لگاؤ تھا اور میں بھی اسی میدان میں کچھ ٹوٹی پھوٹی خدمت انجام دے رہا تھا،اس لیے محبت اور قربت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
وطن جانا یوں تو بہت کم ہوتا ہے لیکن جب بھی گیا ان سے ملاقات کے لیے ضرور حاضر ہوا اوران کی محبت بھری مہمان نوازی سے نہال ہوکر واپس لوٹا۔جماعت رابعہ اور جماعت خامسہ کی میری تعلیم سراج العلوم جھنڈا نگر کی ہے ۔برادرمکر م کے والد محترم استاذ گرامی مولانا عبدالحنان فیضی صاحب رحمہ اللہ نے مجھے جلالین اور مختارات پڑھائی ہے۔اس تعلق کو بھی وہ جانتے تھے ،اس لیے اور بھی عزیز رکھتے تھے۔
مولانا عبداللہ مدنی رحمہ اللہ نے چنروٹا(نیپال) میں جمعیۃ کا ایک تربیتی پروگرام منعقد کیا۔برادرمکرم کے مشورے سے انھوں نے مجھے بھی مقالہ لکھنے اور اس میں شریک ہونے کی دعوت دی۔موضوع تھا: ’’عربی اور اردو کی چند قدیم وجدید تفاسیر‘‘۔کسی سیمینار میں مقالہ پیش کرنے کا شایدیہ میرے لیے پہلا موقع تھا۔وقت بہت کم تھا لیکن کسی طرح مقالہ تیار ہوگیا ۔علی گڑھ سے سفر کرکے چنروٹا پہنچا ۔وہاں یہ دیکھ کر کچھ ڈر سا محسوس ہوا کہ جس پروگرام میں مجھے مقالہ پیش کرنا ہے ،اس کی صدارت خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف جھنڈانگری رحمہ اللہ فرمارہے ہیں۔خیر ہمت جٹاکر میں نے مقالہ پڑھا ،مولانا رحمانی کو مقالہ پسند آیا ،انھوں نے اپنی دعاؤں سے نوازا ،مولانا عبداللہ جھنڈانگری نے بھی فرمایاکہ اتنے کم وقت میں اتنا تفصیلی مقالہ قابل تعریف ہے اور پھر بعد میں ماہنامہ نورتوحید میں کئی قسطوں میں یہ مقالہ انھوں نے شائع بھی کیا۔
اسی سفر میں برادرم عبدالمنان سلفی کی ایک اور صفت سامنے آئی۔ نیپال میں جہاں میری دادی کا میکہ ہے،اس بستی کا نام پتھر دیا ہے ۔اس بستی کی مشہورشخصیت راحت بابا جن کو ہم لوگ بڑے ابا کہتے تھے،میری دادی کے بھتیجے تھے ۔مجھے اپنے گھر سے یہ بات معلوم تھی کہ میری دادی کی ایک بھتیجی جو میری پھوپھی تھیں ،اپنے بچوں کے ساتھ چنروٹا میں آباد ہوگئی تھیں۔وہ بچپن میں مجھے بہت عزیز رکھتی تھیں،عرصہ ہوا ان سے میری ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔پروگرام کے بعد جب میں نے برادر محترم سے یہ خواہش ظاہر کی کہ ان سے مجھے ملاقات کرنی ہے تو انھوں نے فرمایا کہ یہاں ابھی آبادی بہت مختصر ہے ۔ لوگوں سے پوچھنے پر پتا چل سکتا ہے ،چنانچہ ہم دونوں ان کے گھر کی تلاش میں نکلے اور آخر کار ان کے گھر پہنچ گئے ۔پھوپھی نے دیکھا تو بہت خوش ہوئیں ،ہم دیر تک ان کے یہاں رہے اور چائے ناشتے کے بعد واپس آئے۔پروگرام اور انتظام کی اس مصروفیت میں انھوں نے وقت نکال کر مجھے میرے رشتہ داروں سے ملاقات کرنے میں مدد فرمائی ۔ یہ ان کی خرد نوازی اور محبت تھی جس کا مجھے ذاتی طور پر تجربہ ہوا۔
مولانا عبدالمنان سلفی کو اللہ نے کئی ایک خوبیوں سے نوازا تھا۔مولانا عبداللہ مدنی جھنڈانگری کے وہ بہت قریب اور پراعتماد تھے۔مدرسہ نسواں کو ترقی دینے میں ان کی خدمات کو بھی بڑا دخل ہے۔داخلی اور خارجی ہر دوقسم کی ذمہ داریاں ان کے سر تھیں اور اپنی کسی ذمہ داری کو نبھانے میں وہ پیچھے نہیں رہتے تھے۔دنیاوی لالچ اور حرص سے اللہ نے انھیں بہت دور رکھا تھا۔بے غرض ہوکر پوری دل جمعی اور ایمان داری سے ہر کام کیا کرتے تھے۔بعد میں کچھ غلط فہمیاں پیدا ہونے لگیں تو بڑی خاموشی سے انھوں نے ادارے سے علاحدگی اختیار کرلی لیکن یہ مولانا عبداللہ مدنی رحمہ اللہ اور برادر مکرم کی شرافت،وضع داری اور ایک دوسرے کے تئیں عزت واحترام کا جذبہ تھا کہ کسی طرح کی کوئی بدمزگی نہیں پیدا ہوئی اور نہ تعلقات میں کوئی کمی آئی۔مولانا عبداللہ مدنی کی چچازاد بہن مولانا عبدالمنان سلفی سے منسوب ہیں اور یہ رشتہ کافی نازک ہے لیکن اختلاف اور مدرسہ نسواں سے علاحدگی نے اسے بال برابر بھی متاثر نہیں کیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں گھرانوں کی اعلیٰ ظرفی،حسن اخلاق اور شرافت ووضع داری کا واضح ثبوت ہے۔کسی نجی ملاقات میں برادر م مکرم نے اپنی علاحدگی کی وجوہ بھی بیان فرمائیں لیکن اس انداز میں کہ کسی پر کوئی ایسا تبصرہ نہیں کیا جو کسی کے لیے باعث اذیت ہو۔مولانا عبدالمنان سلفی کی شخصیت اور ان کی عظمت کے کئی پہلو اس واقعہ میں مضمر ہیں۔کاش ہم اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کریں ۔ذاتی اختلافات اور رنجشوں کو سڑک پر لے آنا اور ہر کس وناکس کے سامنے شکایتوں کا دفتر لے کر بیٹھ جانا نہ انسانیت ہے اور نہ شرافت اور ایک عالم دین کے شایان شان تو ہرگز نہیں۔مولانا عبداللہ مدنی رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد ان کے بھائیوں نے ادارے کو بڑی ذمہ داری سے سنبھالا ہے اور قدم قدم پر برادر مکرم مولانا عبدالمنان سلفی کا مشورہ اور ان کا تعاون انھیں حاصل رہا ہے بلکہ مولانا مدنی کی وفات کے بعد وہ ایک طرح سے ادارے کے سرپرست کی حیثیت سے معاملات کو دیکھتے تھے اور مدرسہ کے ذمہ دار تمام نوجوان انھیں اپنی ہی فیملی کا ممبر اور رہنما سمجھتے تھے۔
ایک بار وطن گیا تو برائے زیارت وملاقات جامعہ سراج العلوم میں حاضری دی ۔ معمول کے مطابق ظہر کے بعد گھر پر دسترخوان بچھا اور کھانا کھایا گیا۔حال احوال کے علاوہ دل چسپی کے موضوعات پر باتیں کرتے رہے۔عصر کا وقت ہوا تو نماز کے لیے جامعہ کی مسجد میں داخل ہوئے ۔جماعت کے بعد انھوں نے اعلان کردیا کہ طلبہ اور اساتذہ ذکر واذکار کے بعد مسجد میں رکیں ، رفیق احمد رئیس سلفی علی گڑھ کا خطاب ہوگا۔اس اچانک اعلان سے مجھے حیرانی ہوئی،میں نے عرض کیا:یہ آپ نے کیا کیا،ذرا پہلے سے بتادیتے تو میں ذہنی طور پر تیار ہوجاتا۔فرمایا:شب وروز لکھتے پڑھتے اور تقریریں کرتے ہو کیا اب بھی کسی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔چلو اعلان ہوچکا ہے اور منبر پر بیٹھ کر خطاب کرو۔ان کا حکم تھا،ٹالا نہیں جاسکتا تھا اور فوری طور پر طلبہ کی علمی رہنمائی کے لیے جو باتیں ذہن میں آئیں ،انھیں ٹوٹی پھوٹی زبان میں بیان کردیں۔بعد میں کہنے لگے دیکھو کتنا موثر خطاب تھا،طلبہ کے لیے کتنی قیمتی باتیں سامنے آگئیں ۔تم بلا وجہ پریشان ہورہے تھے ۔میں نے برادر مکرم کے اس یقین اور اعتماد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
جامعہ میں تعلیم جاری تھی ،میں پہنچا تو چائے وائے کے بعد کہا چلو میری کلاس میں۔ میں نے عرض کیا:آپ جائیں ،میں یہیں مہمان خانے میں آپ کا انتظار کرتا ہوں۔لیکن اصرار کرکے ساتھ لے گئے۔ یاد آتا ہے کہ جامعہ کے منتہی طلبہ کی کلاس تھی اور عقیدہ کی کوئی کتاب زیر درس تھی۔انھوں نے فرمایا:میں یہاں یہ پیریڈ لینے کے لیے تمھیں لایا ہوں ،آج کلاس تم لوگے۔میں نے عرض کیا:بھائی صاحب !جامعہ سلفیہ سےنکلنے کے بعد میں نے کسی عربی مدرسے میں پڑھایا نہیں اور نہ اس کا کوئی تجربہ ہے اور وہ بھی عقیدہ کی کوئی مشکل کتاب ،میرے بس کی بات نہیں لیکن انھوں نے کوئی عذر قبول نہیں کیا اور مجھے اسلامی عقیدہ کے تعلق سے کچھ باتیں عرض کرنا پڑیں۔میں نے عقیدہ اسلامی کی اساسیات بیان کیں اور پھر یہ عرض کیا کہ ان میں کسی طرح کا کوئی جمود نہیں ہے بلکہ ہر دور میں پیدا ہونے والے ایسے افکار وخیالات جو عقیدہ اسلامی کی اساسیات کو متاثر کرتے یا ان سے ٹکراتے ہوں ،ان پر نصوص کو صحیح صحیح منطبق کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔جو کتاب آپ کے زیردرس ہے،اس کی مکمل تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ آپ مصنف کے دور کے حالات اور ان کے معاصر افکار ونظریات بھی ذہن میں رکھیں اور پھر یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ مصنف نے اپنے دور کے کن کن افکار پر کس طرح تنقید کی ہے اور نصوص کو اپنے دور کے حالات پر کس طرح منطبق کیا ہے۔
میری اس ٹوٹی پھوٹی تقریر سے برادر گرامی بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ عقیدے کی کلاس میں تمھیں اسی لیے لے کر آیا تھا کہ تم اپنے انداز میں طلبہ کو درس دے سکو ،کتاب پڑھوانا مقصد نہیں تھا۔یہ برادر گرامی کا میرے تئیں حسن ظن تھا ورنہ مجھے اپنے علم کی حدود کا اندازہ ہے اور میں کسی غلط فہمی کا شکار کبھی نہیں رہا۔بڑوں کو تو جانے دیں مجھے اپنے چھوٹوں سے بھی استفادہ کرنے میں آج بھی کوئی عار نہیں ہے ۔بہت سے دوست احباب میری اس عادت سے اچھی طرح واقف ہیں۔
ان کی علم دوستی اور مسلکی غیرت وحمیت کا ایک بڑا خوبصورت تجربہ اس وقت ہوا جب مقامی جمعیۃ اہل حدیث سول لائنس علی گڑھ نے ’’علوم الحدیث:مطالعہ وتعارف ‘‘کے زیر عنوان ایک دوروزہ قومی سیمینار کیا۔اس سیمینار کا پس منظر بھی بڑا دل چسپ اور تاریخی ہے۔میں اپنے وطن گیا ہوا تھا ،ایک دن یہ خیال آیا کہ شیخ صلاح الدین حفظہ اللہ اس وقت اپنے وطن آئے ہوئے ہیں کیوں نہ جاکر ان سے ملاقات کرکے آئیں۔چنانچہ ایک دوست کے ساتھ ان کے گاؤں’’اونرہوا‘‘حاضر ہوا۔شیخ موصوف سے تفصیلی ملاقات ہوئی ،آپ نے فرمایا کہ علی گڑھ ایک علمی جگہ ہے ،وہاں جماعت کے لیے آپ حضرات کو کوئی علمی اور تحقیقی کام کرنا چاہیے ۔میں نے عرض کیا:کام تو کئی ایک کیے جاسکتے ہیں لیکن اصل مسئلہ سرمایہ کا ہے ،اس کا انتظام وہاں مشکل ہے۔شیخ صلاح الدین صاحب نے فرمایا کہ جاؤ ایک سیمینار منعقد کرو،اس کے اخراجات کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔علی گڑھ واپس آکر بعض احباب کے ساتھ مل کر’’علوم الحدیث:مطالعہ وتعارف‘‘کے مرکزی عنوان کے تحت ایک سیمینار کا خاکہ بنایا اور سیمینار کے لیے اہل علم کو دعوت نامے ارسال کردیے گئے۔شیخ صلاح الدین مدنی حفظہ اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور ایک تاریخی سیمینار علی گڑھ کی تاریخ میں پہلی بار منعقد ہوا۔جماعت کی معتبر شخصیت مولانا عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ نے افتتاحی اجلاس سے ایسا خطاب فرمایا کہ آج بھی لوگ اس تقریر کو یاد کرتے ہیں۔اقراء پبلک اسکول کے پرنسپل محمد شریف خاں مرحوم نے مجھ سے فرمایا کہ مسلک اہل حدیث کے فکر اور اس کے منہج پر اتنی علمی اور موثر تقریر میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنی۔
سیمینار کے بعد مرحلہ تھا مقالات کے مجموعے کی اشاعت کا۔میں نے اسے مرتب کرلیا تھا ،افتتاحی اجلاس اور اختتامی اجلاس کی تقریریں بھی کیسٹوں سے نقل کرلی تھیں۔ اشاعت کی بہ ظاہر کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔برادر گرامی مولانا عبدالمنان سلفی جو خود اس سیمینار کا حصہ تھے ،انھوں نے اپنے ماہنامہ مجلہ السراج میں اس سیمینار کی تفصیلی روداد شائع کی تھی۔ماہ رمضان سے قبل ان سے رابطہ ہوا اور مجموعے کے سلسلے میں اپنی مشکلات کا تذکرہ کیا۔اس وقت انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن جب رمضان میں ان کا سفر ہوا تو ایک رفاہی جہت سے انھوں نے اشاعت کا مکمل نہ صرف انتظام کرادیا بلکہ آناً فاناً رقم بھی موصول ہوگئی اور پھر مقالات کا مجموعہ خوبصورت انداز میں شائع ہوا جو آج بھی حدیث کے طلبہ کے لیے ایک اہم مرجع کی حیثیت رکھتا ہے۔دارالسلفیہ لاہور سے بھی اس کی اشاعت ہوچکی ہے ۔ہمارے ملک میں اب تک اس کی دوسری اشاعت نہیں ہوسکی ہے ،حق طبع کسی کے لیے محفوظ نہیں ہے ،ہمارا جو ادارہ بھی چاہے،اسے شائع کرسکتا ہے۔استاذ محترم ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ اور مولانا عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ نے مجموعہ کی اشاعت پر مبارک باد دی اور اپنی دعاؤں سے نوازا۔یہ عظیم الشان علمی اور دستاویزی کام محض برادر مکرم کی توجہ،عنایت اور دل چسپی سے مکمل ہوا۔اللہ ان کے حق میں اس خدمت کو صدقۂ جاریہ کی حیثیت سے قبول فرمائے اوراسے ان کی حسنات میں اضافہ کا موجب بنائے۔
ماہنامہ السراج میرے نام جاری ہے،رجسٹر میں اس کا اندراج بھی ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ وہ مجھے ڈاک کے ذریعے موصول نہیں ہوتا۔مولانا خیراللہ گورکھپوری مرحوم ان دنوں السراج کا آفس دیکھتے تھے۔انھوں نے بھی جب سنا تو تعجب کا اظہار کیا اور پھر اس کا حل یہ نکالا گیا کہ سال مکمل ہونے پر جب سال کے تمام شمارے مجلد کرائے جاتے ہیں تو کسی طرح ایک جلد تمھارے پاس بھی پہنچ جائے۔اس وقت دوتین جلدیں دستیاب تھیں،انھیں دلوایا اور پھر کئی سالوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
ایک بار فیملی کے ساتھ وطن گیا ہوا تھا ،میرے تین چھوٹے بچوں نے ضد کی کہ نیپال دیکھیں گے ۔ان کو گھمانے کے لیے جھنڈانگر پہنچا ۔مارکیٹ سے جو کچھ بچوں کو دلانا تھا،اسے دلاکر جامعہ حاضر ہوا۔مولانا سے ملاقات ہوئی تو بہت خوشی کا اظہار کیا۔بچوں کو اصرار کرکے گھر لے گئے اور اہلیہ محترمہ کے ہاتھوں انھیں تحفے دلائے ۔میں نے عرض کیا:اس تکلف کی کیا ضرورت تھی ؟فرمایا:یہ تمھارے بچوں کا حق تھا،ایک تو ویسے بھی وطن کم آتے ہو،بچوں کو بھی کبھی کبھی لاتے ہو۔اچھا ہوا تم بچوں کو ساتھ لے آئے اور ان سے ملاقات کرادی ۔اہلیہ کے ساتھ آتے تو مزید خوشی ہوتی۔
ایک باراستاذ محترم مولانا عبدالحنان صاحب فیضی کے گھر کھانا کھانے کا اتفاق ہوا۔مولانا کو جامعہ کی طرف سے الگ سے فلیٹ ملا ہوا تھا جہاں وہ بھائی عبدالمنان سلفی کی والدہ محترمہ کے ساتھ رہتے تھے۔دسترخوان پر بھائی عبدالمنان صاحب کے علاوہ ان کے دو چھوٹے بیٹے بھی موجود تھے جن کو استاذ محترم بڑی شفقت ومحبت سے کہہ کہہ کر کھانا کھلا رہے تھے۔استاذ محترم کے یہاں بھی بہت سادگی تھی، ہٹو بچو کا کوئی معاملہ نہیں تھا۔کھانے سے فراغت کے بعد جب نیچے مہمان خانے میں پہنچا تو انھوں نے کسی کو بھیج کر پان منگوایا، پان خوری کی یہ بیماری ہم دونوں میں مشترک تھی ،ہر ملاقات میں چائے کے بعد پان خوری ضرور کی جاتی تھی۔ شرعی مسئلہ کے طور پر اس کی حیثیت تو ہمارے مفتیان عظام طے فرمائیں گے لیکن لطیفہ کے طور پر اپنا ایک مشاہدہ ذکر کردوں۔ایک مجلس میں استاذ محترم ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ، ڈاکٹر عبدالرحمن عبدالجبار فریوائی اور بعض دیگر اہل علم بھی موجود تھے۔ازہری صاحب نے اپنی عادت کے مطابق بٹوا نکالا اور اپنے لیے پان کے لوازمات ترتیب دینے لگے ۔فریوائی صاحب نے فرمایا:ڈاکٹر صاحب !اب تو اسے چھوڑدیں ،کئی حضرات کے فتوے آچکے ہیں۔ازہری صاحب نے جواب دیا:یہ فتوی اگرشیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کی دعوت توحید کے ساتھ ہندوستان آیا ہوتا تو آج اس کی نوبت نہ آتی۔آپ حضرات اس کا فتوی بہت دیر سے لے کر آئے ہیں۔
درمیان میں پان خوری کی بات آگئی ،اس لیے یہ واقعہ بھی جو کسی لطیفہ سے کم نہیں ،قارئین کی خدمت میں پیش کردیا ہے،عرض یہ کررہا تھا کہ استاذ محترم کی چھوٹے پوتوں کے ساتھ شفقت ومحبت دیکھی تو اس کا ان سے بطور خاص تذکرہ کیا کہ اللہ کی شان دیکھیں کہ آپ کے دادا کے صرف ایک بیٹے،آپ کے والد صاحب صرف ایک بیٹے کے باپ اور ماشاء اللہ اللہ نے کئی نسلوں کی کمیاں آپ کے ذریعے پوری فرمادیں۔یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ابا اماں شب وروز بچوں کے ساتھ ہی مصروف رہتے اور دل بہلاتے ہیں۔برادر محترم کو اللہ نے ۱۴؍ بچوں سے نوازا ہے جن میں آٹھ بیٹے ہیں اور چھ بیٹیاں۔ اللہ سب کو خوشیاں عطا فرمائے اور وہ اپنے خاندان کا نام روشن کریں۔’’ چمنستان حدیث‘‘میں جہاں مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے مولانا عبدالمنان سلفی صاحب کا سوانحی خاکہ لکھا ہے تو اپنی عام عادت کے مطابق کثیر العیال سے متعلق ان کے تحریر کردہ ایک جملے کو خوبصورت مزاح میں تبدیل کردیا ہے۔
بھائی عبدالمنان سلفی اپنے سینے میں ایک دردمند دل رکھتے تھے،ضرورت کسی کی بھی ہو ،جائز حد تک اس کو پوری کرنے کی کوشش کرتے تھے۔طالبان علوم نبوت خاص طور پر ذہین ،باصلاحیت اور نیک عادات واطوار کے حامل طلبہ سے انھیں خصوصی لگاؤ تھا اور ان کے مسائل حل کرنے میں کسی طرح کے لیت ولعل سے کام نہیں لیتے تھے ۔ان کی اس طبیعت ثانیہ کی وجہ سے نامعلوم کتنے طلبہ کو فیض پہنچا ہوگا اور آج وہ میدان عمل میں سرگرم ہوں گے ۔کتنے سعادت مند فیض یافتگان ایسے ہوں گے جو انھیں یاد کرکے ان کے حق میں دعائیں کرتے ہوں گے۔ یہی تو وہ ایصال ثواب کا مسنون طریقہ ہے جس کی بابت حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے تذکرہ فرمایا ہے۔مجھے ذاتی طور پر اس کا ایک تجربہ اس وقت ہوا جب میں اپنے خاندان کے ایک چچازاد بھائی کو جامعہ سراج العلوم میں داخلہ دلانے کے لیے لے گیا۔اس کی پوری حکایت یہ ہے کہ میں وطن میں تھا کہ ایک دن میرے خاندان کی ایک چچی صاحبہ تشریف لائیں اور انھوں نے کہا کہ بھیا میرا بیٹا کہہ رہا ہے کہ اب تعلیم نہیں حاصل کروں گا بلکہ ممبئی جاؤں گا۔وہ کسی طرح سے پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔میں نے چچا زاد بھائی کو بلا یا اور سمجھایا۔ان کی سعادت مندی تھی کہ میری بات مان گئے ۔اب سوال یہ تھا کہ داخلہ کس مدرسے میں دلایا جائے۔ داخلہ کا وقت بھی ختم ہورہا تھا۔خیر میں نے اللہ کا نام لیا اور انھیں ساتھ لے کرجامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر پہنچا۔بھائی عبدالمنان صاحب سے صورت حال بتائی اور یہ بھی عرض کیا کہ میرا یہ چچازاد بھائی الحمد للہ بہت ذہین ہے اور ذہین بچے عموماً تھوڑی بہت شرارت بھی کرتے ہیں۔مجھے امید ہے کہ آپ کی سرپرستی میں رہیں گے تو تعلیم بھی حاصل کرلیں گے اور ان کی بچپن والی شرارتیں بھی کم ہوجائیں گی۔
برادر معظم نے میری درخواست قبول فرمائی اورچچازاد بھائی جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے طالب علم بن گئے ۔دوسرے یا تیسرے سال جب وطن گیا اورحسب معمول ان سے ملاقات کے لیے جامعہ سراج العلوم پہنچا تو انھوں نے بتایا کہ آپ کا عزیز پڑھنے میں ماشاء اللہ بہت ذہین ہے لیکن دارالاقامہ کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے،اگر تمھارا خیال نہ ہوتا تو اس کا اخراج کردیا جاتا۔میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور درخواست کی کہ اپنی سرپرستی جاری رکھیں ۔اسی موقع پر میرے انتہائی محترم استاذ مولانا عبدالرشید مدنی حفظہ اللہ نے بھی ان کی ذہانت کی تعریف کی۔بعد میں کسی وجہ سے وہ جامعہ سراج العلوم بونڈیہار چلے گئے اور پھر وہاں سے میرے چھوٹے بھائی عزیزم اشتیاق احمد مدنی سلمہ کی سرپرستی میں صفا شریعت کالج ڈومریاگنج پہنچ گئے ۔مولانا عبدالواحد مدنی حفظہ اللہ کی خصوصی توجہ اور عنایت رہی۔ صفا شریعت کالج سے انھوں نے سند فراغت حاصل کی۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ مل گیا اور پھر وہاں سے امتیازی نمبرات سے بی ۔اے اور ایم۔اے کیا اور اب الحمد للہ صفا شریعت کالج میں تدریس کے علاوہ کئی ایک انتظامی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔مولانا عبدالواحد مدنی حفظہ اللہ ان کی کارکردگی سے مطمئن اورخوش ہیں۔اس طرح بھائی عبدالمنان سلفی صاحب کی خصوصی توجہ اور طلبائے مدارس سے دلی ہمدردی کی وجہ سے وہ طالب علم جو تعلیم سے کسی وجہ سے بے زار ہوگیا تھا،اس کی زندگی سنور گئی ،الحمد للہ آج وہ میرا عزیزہمارے خاندان کے لیے باعث صد افتخار ہے اور اصول فقہ اسلامی میں متخصص کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔لاک ڈاؤن میں تدریسی ضرورت کے لیے اصول فقہ پر وہ ویڈیوز بھی بنارہے ہیں ۔ موضوع سے دل چسپی رکھنے والے حضرات اور عزیز طلبہ یوٹیوب پر ان کے یہ دروس دیکھ سکتے ہیں۔اللہ نے انھیں بڑی صلاحیتوں سے نوازا ہے،ابھی انھوں نے علوم قرآن پر ایک کتاب بھی ترتیب دی ہے جو میرے زیر مطالعہ ہے،ان شاء اللہ جلد ہی اس کی اشاعت زیر عمل آئے گی۔
یہاں جامعات اور مدارس کی محترم انتظامیہ اور ان کے باوقار اساتذہ سے درخواست کروں گا کہ ان کا بنیادی مقصد نئی نسل کی تعلیم وتربیت ہے ۔مختلف سماجی پس منظر رکھنے والے طلبہ دینی مدارس کا رخ کرتے ہیں۔کئی طرح کی ان کے اندر کمیاں ہوتی ہیں،ماضی کی بعض غلط صحبتوں کی وجہ سے مزید خرابیاں ان کے اندر پیدا ہوسکتی ہیں۔ دارالاقامہ کی زندگی گزارتے ہوئے ان سے کئی طرح کی غلطیاں ہوسکتی ہیں،ان میں سے بعض کی سرکشی بھی سامنے آسکتی ہے۔آپ حضرات کی ذمہ داری ہے کہ ان کی عادتیں سدھارنے کی دردمندانہ کوشش فرمائیں۔ آپ حضرات سے بہ صد احترام درخواست ہے کہ طلبہ کے اخراج کے سلسلے میں عجلت سے کام نہ لیں۔بسااوقات کسی استاذ کی انتقامی کارروائی سے بہت سے طلبہ کی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں اور ان کے خاندان پر بھی اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار سراج العلوم پہنچا تو پتا چلا کہ جامع مسجد میں کوئی اہم میٹنگ ہورہی ہے جس میں بھائی عبدالمنان صاحب مصروف ہیں۔میں انتظار کرتا رہا جب وہ میٹنگ سے فارغ ہوکر آئے تو میں نے پوچھا کہ کس بابت میٹنگ تھی۔فرمایا:یار ایک طالب علم بہت شریر ہے ،اس سے کئی طلبہ متاثر ہورہے ہیں، اس کے اخراج کا فیصلہ لینا تھا چنانچہ فیصلہ لے لیا گیا۔میں نے عرض کیا کہ بھائی صاحب !اس روایت کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔کیا آپ کے اخراج کردینے سے وہ طالب علم سدھر جائے گا یا اپنے والدین کے لیے مزید باعث اذیت بن جائے گا۔انفرادی طور پر اساتذہ کرام ایسے طلبہ کو سمجھائیں ،ان کی نفسیات سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کے یہاں جو کمزوری ہے،اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔میں سمجھتا ہوں کہ دینی مدارس کے طلبہ الحمد للہ سرکشی اور بغاوت سے کوسوں دور ہیں۔انھیں اعتماد میں لے کر ان کی زندگیوں کو سنوارا جاسکتا ہے۔بھائی عبدالمنان صاحب نے پوری ہمدردی سے میری بات سنی اور فرمایا کہ تمھاری بات غلط نہیں ہے لیکن مدرسے کے داخلی انتظامات کو درست رکھنا بھی ضروری ہے۔
مجھے یاد ہے ایک بارجامعہ سلفیہ بنارس میں چوری کی کوئی واردات ہوگئی۔ناظم دارالاقامہ(یہاں نام لکھنا مناسب نہیں) نے حکم صادر فرمادیا کہ تمام طلبہ کی تلاشی لی جائے۔تلاشی ابھیان کے دوران ایک منتہی طالب علم کے صندوق سے ان کی کوئی تصویر نکل آئی جو کسی جونیر طالب علم کے ساتھ تھی ۔ مقدمہ پیش ہوا ،تصویر میں وجہ اشتراک پوچھی گئی۔جو جواب دیا گیا ،اس سے ناظم محترم مطمئن نہیں ہوئے اور کئی ایک اندیشوں کا اظہارفرماکر ان کا اخراج کردیا گیا۔وہ تو اللہ نے مدد کی اور انھوں نے بنارس ہندو یونیورسٹی میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم مکمل کی اور آج ایک کامیاب مدرس اور منتظم بن کر ایک تعلیمی ادارے کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اسلام میں الزام لگانے اور کسی کو متہم کرنے کے اصول اور ضابطے بنے ہوئے ہیں ،محض کسی شک کی بنیاد پر ایسا الزام عائد کرنا سنگین جرم ہے ،یہ الزام تو کسی بھی شریف انسان کی پوری شخصیت کو ختم کردے گا۔استاذ اور طالب علم کا رشتہ اور انتظامیہ اور طلبہ کا باہمی تعلق سوال کھڑا کرنے سے آج اگرچہ مانع ہے اور کسی فیصلے کے خلاف جانا بغاوت اور سرکشی ہے لیکن اللہ کی عدالت اس طرح کے تمام تحفظات اور نزاکتوں سے پاک ہے ،وہاں ہر مظلوم کو انصاف ملے گا، یہ اللہ کا وعدہ ہے۔کسی کی کوئی زیادتی کسی کے خلاف قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
عمر کے اس مرحلے میں اس واقعہ پر غور کرتا ہوں تو حددرجہ افسوس ہوتا ہے ۔الزام اور تہمت لگانے کے لیے اسلامی ضابطے کتنے سخت ہیں۔اگر الزام لگانے والا گواہ پیش نہ کرسکے تو الٹا مجرم قرار پاتا ہے اور اسے سزا دی جاتی ہے اور یہاں ہمارے مدارس جہاں شب وروز اسلام ہی پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے،ان کے کیمپس میں اس طرح کے حادثات اور واقعات رونما ہوجاتے ہیں اور ہمارے ایمان واسلام پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ہمارے محترم اساتذہ یہ بات یاد رکھیں کہ ذاتی عناد اور پسند وناپسند یا دنیادار اور جاہ پسند انتظامیہ کی نظر میں سرخروئی حاصل کرنے کی غرض سے اگر کسی طالب علم کی زندگی کے ساتھ آپ نے کھلواڑ کیا تو اس کی جواب دہی بہت سخت ہوگی اورآپ کو قیامت کے دن سخت محاسبہ سے بچانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔وہ طالب علم صرف ایک فرد نہیں بلکہ اپنے بھرے پرے خاندان کا چشم وچراغ ہے اور آنے والی اپنی کئی نسلوں کا سرپرست اعلی ہے ۔اس کی کامیاب اور خوش حال زندگی کئی معاصر اور آنے والی زندگیوں کی کامیابی اور خوش حال زندگی کی ضمانت ہے۔معلمی ایک بڑا محترم اورمقدس پیشہ ہے، قوم وملت کے بچے ایک معلم کے سپرد اس لیے کیے جاتے ہیں کہ وہ ایک شفیق استاذ اور محبت کرنے والا باپ بن کر ان کو بنائے اور سنوارے گا ۔اگر یہ صفت کسی معلم کے اندر موجود نہیں ہے تو خدارا روزی روٹی کے لیے کوئی اور ذریعہ تلاش کرلے ،مدرسے میں معلم بن کرمعصوم زندگیوں کو تباہ کرنے کی کوشش نہ کرے۔
برادر مکرم کوخاکسار کے سلسلے میں یہ حسن ظن تھا کہ کوئی علمی ذمہ داری یہ نبھا سکتا ہے ، ان کے اعتماد کا حال یہ تھا کہ اس بابت میرے کسی عذر کو وہ قبول نہیں کرتے تھے۔ جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر میں پچھلے سال جب ایک بڑی عالمی کانفرنس جامعہ کے جدید کیمپس میں منعقد کی گئی تو اس میں ایک سیمینار بھی رکھا گیا تھا جس میں علوم اسلامی سے تعلق رکھنے والے متنوع موضوعات تھے۔مجھے انھوں نے جو موضوع دیا تھا،اس کا تعلق براہ راست مدارس کے اساتذہ سے تھا ۔یعنی’’دینی مدارس میں تدریس حدیث کے طرق واسالیب‘‘۔میں نے ایک ملاقات میں عرض کیا کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا موضوع متعین کردیں جو میرے حسب حال ہو۔شرکائے مجلس میں سے کئی لوگوں نے میری تائید بھی کی کہ ہاں رفیق صاحب نے کبھی کسی دینی مدرسے میں تدریس کی خدمت انجام نہیں دی ہے تو وہ اس موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کرسکیں گے لیکن برادر محترم نے فرمایا کہ میں نے کچھ سوچ کر یہ موضوع رفیق کو دیا ہے اور جو میں چاہتا ہوں ،وہ مدرسے کا کوئی استاذ نہیں بلکہ صرف تم لکھ سکتے ہو۔چنانچہ موضوع پر مفصل مقالہ لکھ کر پروگرام میں حاضر ہوا ،علی گڑھ کے بھی کئی ایک احباب تھے۔ایک بڑی کانفرنس کے درمیان علمی سیمینار منعقد کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے ۔وہاں کچھ پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ سیمینار کب اور کہاں ہوگا۔ دوسرے دن فجر کے بعد وہ تشریف لائے اور فرمایا کہ سیمینار جدید کیمپس کی وسیع مسجد میں ہوگا۔صبح نوبجے اس کا آغاز ہونا ہے ۔سیمینار کی کارروائی تمھیں آگے بڑھانی ہے۔اسٹیج سے اعلان ہوگیا اور تمام مقالہ نگار حضرات وقت پر مسجد میں جمع ہوگئے اور انھوں نے اپنے اپنے مقالے پیش کیے۔کانفرنس کے بعد جب ماہنامہ السراج کا خصوصی نمبر شائع ہوا تو انھوں نے ترجیحی طور پر میرے مقالے کو شامل اشاعت فرمایا ۔دی فری لانسر ویب پورٹل پر بھی یہ مقالہ موجود ہے،دل چسپی رکھنے والے احباب چاہیں تو اس کو انٹرنیٹ پر پڑھ سکتے ہیں۔خاکسار نے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں تدریس حدیث کے تعلق سے کئی ایک تجاویز پیش کی ہیں جن پر اگر عمل کیا جائے تو خاطر خواہ نتائج سامنے آسکتے ہیں۔بھائی عبدالمنان سلفی نے فرمایا کہ تدریس حدیث کے تعلق سے میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا،وہ تمھارے مقالے میں آگیا ہے اور میرا مقصد پورا ہوگیا ہے۔ان کی اس حوصلہ افزائی پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔
جماعت اہل حدیث کے لیے ان کی خدمات اور قربانیوں کا تذکرہ جماعت کے ارباب حل وعقد کی ذمہ داری ہے ۔خدا کرے کہ ہماری تنظیم کے ذمہ داران ان کی تمام خدمات کو تحریری شکل دے دیں تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائیں۔صورت حال کا مشاہدہ اور مطالعہ بتاتا ہے کہ زبانی گفتگو کے سوا اس پہلو سے مزید کچھ کرنے کی امید کم ہی ہے ،ممکن ہے ’’ألیس منکم رجل رشید‘‘کی صدا سن کر کوئی صاحب قلم سامنے آجائے اور اس شعبے میں برادر گرامی نے جو نمایاں خدمات انجام دی ہیں،ان کو قلم بند کردے۔ ہندوستان کی طرح نیپال کی جمعیت اہل حدیث کی بھی انھوں نے بہت خدمت کی ہے۔دیکھیے ان کی شخصیت کے اس پہلو کو ابھارنے کی توفیق کس کے حصے میں آتی ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے ان کی دعوتی سرگرمیوں میں خاصا اضافہ ہوگیا تھا اور علاقے کا کوئی دینی جلسہ ہو،اس میں ان کی شرکت ضروری خیال کی جاتی تھی۔اپنے داعیانہ مزاج کی وجہ سے وہ کسی دعوت کو ٹھکرا نہیں سکتے تھے چنانچہ دن بھر تدریس اور انتظامی ذمہ داریوں کی تکمیل کے بعد سر شام جلسہ گاہ کے لیے نکل جاتے،جلدی فرصت مل جاتی اور جلسے کا مقام مدرسے سے زیادہ فاصلے پرنہیں ہوتا تو رات ہی کو واپس آجاتے نہیں تو فجر کے بعد روانہ ہوتے اور مدرسے کے وقت میں حاضر ہوکر اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہوجاتے۔ایک مرتبہ میں نے عرض کیا کہ تحریر وتصنیف کے لیے یکسوئی بہت ضروری ہے،آپ ذرا یہ ذمہ داری کم کریں ورنہ اپنے منصوبے کے مطابق تصنیف وتالیف کا کام نہیں کرسکیں گے ۔انھوں نے فرمایا:اس دعوتی مصروفیت کا اثر میری تحریری کاوشوں پر پڑرہا ہے لیکن لوگ پیچھا نہیں چھوڑتے ،مجبور ہوجاتا ہوں اور جلسوں میں شرکت کرنی پڑتی ہے۔برادر مکرم کو اللہ تعالیٰ نے تصنیف وتالیف کا جو ذوق عطا فرمایا تھا اور ان کی تحریر میں جو برجستگی اور ادبی حسن تھا ،اس کاکلی اظہار تو نہیں ہوسکا لیکن انھوں نے جو کچھ لکھا ہے ،وہ ان کا نام روشن اور زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند نے جب پاکوڑ کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تو اس سے پہلے جماعت کی تاریخ اور اس کی اہم خدمات پر مشتمل ایک دستاویزی مجلہ شائع کرنے کا بھی ارادہ کیا۔اس وقت جماعت کے ناظم مولانا اصغر علی امام مہدی صاحب تھے ۔انھوں نے اس کام کے لیے مولانا خالد حنیف صدیقی کو مکلف کیا۔خالد صاحب نے ناظم صاحب سے یہ کہا کہ رفیق احمد رئیس سلفی کو بھی اس کام میں شامل کرلیا جائے۔انھوں نے مجھ سے بات کی اور جماعت کی اس علمی خدمت کو باعث سعادت سمجھ کر میں نے ہامی بھرلی۔خالد صاحب کو علی گڑھ آنے کی دعوت دی،ان کا بنایا ہوا خاکہ دیکھا،اس میں کچھ حذف واضافہ کیا اور میرے پاس جو موضوع سے متعلق مواد موجود تھا،وہ ان کے حوالے کیا،بعض چیزوں کی نشان دہی کی ،انھوں نے جو کچھ لکھا یا جمع کیا تھا،اس پر نظر ثانی کی ۔ مجلہ تیار ہوگیا تو ناظم عمومی صاحب نے اسے فائنل کرنے کے لیے برادر مکرم عبدالمنان سلفی صاحب کو دہلی بلایا،میں بھی حاضر ہوا اور دو دنوں میں مجلہ کو آخری شکل دی گئی ۔ افسوس کی بات ہے کہ خالد صاحب نے ذمہ داران کے سامنے ہمارے تعاون کی کیا شکل بیان فرمائی کہ یہ دستاویزی مجلہ تنہا ان کے نام سے شائع ہوا جب کہ نصف مجلہ کی تیاری میں ہمارا تعاون شامل رہا تھا۔علمی کاموں میں اس طرح کی بے ایمانی ایک وبائی بیماری بن چکی ہے۔یہاں تکلیف اس بات پر نہیں کہ برادر مکرم اور میرا نام مجلے پر نہیں آیا بلکہ دکھ اس رویے پر ہے جو علمی حلقوں میں عموم بلوی کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
بھائی عبدالمنان سلفی اداراتی امور کا ایک طویل تجربہ رکھتے تھے،انتظامیہ کے محترم ذمہ داروں کے اشاروں کو اچھی طرح سمجھتے تھے ۔پورے اخلاص کے ساتھ بغیر کسی لاگ لپیٹ کے انھیں صحیح اور مناسب مشورے دیتے تھے۔میں نے ان کی یہ عادت کبھی نہیں دیکھی کہ انتظامیہ کی کسی مرحلہ میں مخالفت کرتے ہوں اور غیر متعلق لوگوں کے سامنے ان کی کارکردگی کا تذکرہ کرتے ہوں۔انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ سسٹم میں رہ کر ہی سسٹم کو مفید اور کارآمد بنایا جاسکتا ہے۔اسی چیز کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے اداروں میں انتشار پیدا ہوتا ہے اور خاص مجلسوں کی باتیں مجمع عام میں گفتگو کا موضوع بنتی ہیں۔میرے ہم درس ساتھی برادر مکرم عطاء الرحمن سلفی بن مولانا عبدالرحمن برادر خرد خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری نے مجھے بتایا کہ ایک بار مولانا عبدالمنان سلفی نے فون کیا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔جھنڈانگر میں ایک فلیٹ جو میں نے کرایے پر لے رکھا ہے اور جس میں جھنڈانگر میں قیام کے دوران ٹھہرا کرتا ہوں،وہاں ملاقات کرنے کا وقت دیا۔وہ وقت مقررہ پر تشریف لائے اور انتظامی امور سے متعلق بعض باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے رونے لگے۔ہمارے خاندان کی عادت ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ ناظم جامعہ کے کاموں میں کسی طرح کی مداخلت نہ کی جائے۔ اگر کوئی مشورہ طلب کیا گیا ہے تو اپنی صواب دید کے مطابق بہتر مشورہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ظاہر ہے معاملہ نازک تھا اور بات چوں کہ معقول تھی اس لیے شمیم بھائی ناظم جامعہ سے میں نے براہ راست گفتگو کی اور الحمد للہ وہ مسئلہ حل ہوگیا۔
مسئلہ کیا تھا، یہ بھائی عطاء الرحمن سلفی صاحب نے مجھے نہیں بتایا اور نہ مجھے مسئلہ جاننے کی کوئی خواہش تھی ،بات صرف مولانا عبدالمنان سلفی کے کردار وعمل کی کررہا تھا کہ انتظامی امور میں کوئی مسئلہ پیش آئے تو متعلق افراد ہی سے اسے حل کرایا جائے،ادھر ادھر بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اسی طرح کی بعض چھوٹی باتوں کو شرپسند عناصر لے اڑتے ہیں اور رائی کا پربت بناکر ایک چلتے ہوئے نظام کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بھائی عبدالمنان سلفی اپنے بزرگوں اور اصحاب علم وفضل کا احترام واکرام پوری طرح بجالاتے تھے۔اپنے بڑوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے مقام ومرتبہ کا لحاظ رکھتے تھے۔ اس طرح کے معاملات میں بسااوقات بدمزگی کی صورت بھی پیدا ہوجاتی تھی لیکن وہ دونوں طرف سے توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔بات ان دنوں کی ہے جب وہ مولانا عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ کے ادارے ’’المعہد الاسلامی‘‘نئی دہلی میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔یہی وہ وقت تھا جب ادارے کی طرف سے مولانا عبدالمجید اصلاحی رحمہ اللہ ابن قیم الجوزیہ کی مشہور زمانہ کتاب’’زاد المعاد فی ھدی خیرالعباد‘‘کے اردو ترجمہ کی خدمت پر مامور تھے۔ایک دن مولانا عبدالحمید رحمانی صاحب نے انھیں حکم دیا کہ روزانہ عصر کے بعد مولانا عبدالمجید اصلاحی صاحب کے کمرے میں جائیں اور ان کا کیا ہوا ترجمہ پڑھیں اور مجھے مطلع کریں کہ ترجمہ کس رفتار سے ہورہا ہے اور وہ متن سے کتنا ہم آہنگ ہے؟بھائی عبدالمنان سلفی نے عرض کیا کہ مولانا میری عمر اور میرا تجربہ بہت کم ہے ،میں مولانا اصلاحی کے بچوں جیسا ہوں،میری یہ مجال کہاں کہ میں ان کے ترجمے سے متعلق کوئی رپورٹ تیار کرکے آپ کی خدمت میں پیش کرسکوں،آپ یہ ذمہ داری کسی دوسرے بزرگ صاحب علم کے سپرد فرمادیں۔اس جواب سے مولانا رحمانی صاحب کو کوئی خوشی نہیں ہوئی لیکن بھائی عبدالمنان سلفی کو جو تربیت ملی تھی ،یہ اسی کا اثر تھا کہ انھوں نے اس بڑے کام کے سلسلے میں مولانا رحمانی سے معذرت کرلی اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے ایک بزرگ کے احترام واکرام میں کوئی فرق آئے۔
بات آگئی ہے تو عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ زاد المعاد کا مکمل ترجمہ مولانا اصلاحی صاحب نے کردیا تھا،اس کے کچھ حصوں پر نظر ثانی کا کام بھی ہوگیا ہے بلکہ جلد اول شائع بھی ہوگئی ہے لیکن کسی وجہ سے اب تک ادارہ مکمل ترجمہ شائع نہیں کرسکا ہے۔مولانا رحمانی رحمہ اللہ کی زندگی میں کئی ایک ملاقاتوں میں زاد المعاد کی اشاعت کا ذکر میں نے کیا تو مولانا کا جواب تھا کہ وسائل موجود نہیں ہیں اور کتاب پر نظر ثانی جس طرح میں چاہتا ہوں ، ہو نہیں پارہی ہے،اس لیے اس کی اشاعت میں تاخیر ہورہی ہے۔مولانا رحمانی رحمہ اللہ کا ادبی ذوق بہت اچھا تھااور وہ اپنے ادارے سے جب بھی کوئی کتاب شائع کرتے تھے تو اس کے موضوع اور اسلوب کو پوری طرح جانچنے کے بعد ہی اشاعت کی منظوری دیتے تھے۔زاد المعاد کو شائع نہ کرنے کی کچھ دوسری وجوہات بھی ہوسکتی ہیں جن کا راقم سطور کو علم نہیں لیکن اب جب کہ مولانا رحمانی اور مولانا اصلاحی دونوں اس دنیا میں نہیں ہیں، برادر عزیز محمد رحمانی جامعہ اسلامیہ سنابل کے روح رواں ہیں ،ان سے یہ درخواست ضرور کروں گا کہ زاد المعاد کے اردو ترجمے پر کافی محنت ہوئی ہے اور ایک بڑا سرمایہ لگا ہے،اس کو ضائع نہ ہونے دیں بلکہ کسی نہ کسی طرح اس کی اشاعت کا انتظام کریں ۔اشاعت کا تخمینہ لگواکر جماعت کے اصحاب ثروت سے اپیل کریں ۔مجھے امید ہے کہ اللہ کے مخلص بندے اس کی اشاعت کا خرچہ اٹھا لیں گے اور جامعہ پر کوئی اضافی بوجھ نہیں آئے گا۔
ادھر پچھلے کئی مہینوں سے ان سے ٹیلی فونی رابطہ بھی نہیں کرسکا تھا ،اسی لیے ان کی بیماری کا بھی مجھے علم نہیں ہوسکا۔مرکز علوم القرآن ،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ڈائرکٹر پروفیسر عبدالرحیم قدوائی صاحب نے ’’قرآن مجیدکے احکام اور اس کی تعلیمات‘‘کے ایک علمی پروجیکٹ کی منظوری دی اور راقم کو مکلف کیا کہ بیس مختلف موضوعات پر اہل علم سے مختصر رسالے لکھواکر دسمبر ۲۰۲۰ء کے آخر تک ان کی خدمت میں پیش کروں۔ مصنفین کی جو فہرست میں نے تیار کی،اس میں بھائی عبدالمنان سلفی کا اسم گرامی نمایاں تھا۔اسی سلسلے میں میں نے انھیں پروجیکٹ کا پورا خاکہ بھیجا اور اپنی درخواست بھی واٹس ایپ کے ذریعے ارسال کی۔اپنی وفات سے چار پانچ دن پہلے جب کہ بیماری شدید تھی اور وہ بہ مشکل گفتگو کرپارہے تھے، آڈیو کے ذریعے جو جواب بھیجا ،اسے ملاحظہ فرمائیں:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ کرے آپ بخیر وعافیت ہوں،الحمد للہ میں بھی جس حال میں ہوں،خیریت سے ہوں۔آپ نے یاد فرمایا،یاد فرمائی کا بہت بہت شکریہ۔ذرہ نوازی کے لیے بھی آپ کا شکریہ ہے،نوازش ہے،اللہ رب العالمین آپ کو مزید ترقیوں سے ہم کنارفرمائے۔اللہ رب العالمین کی مشیت سے مختلف مزمن بیماریوں سے نبردآزما ہوں،بلڈ پریشر ہے،شوگر ہے،ہارٹ کا مسئلہ ہے،تھائی رائیڈ ہے،پروسٹیٹ کے مسائل ہیں،ان سب مسائل کے ساتھ تقریباً ایک ہفتہ سے ٹائی فائڈ میں مبتلا ہوں اور اس کی وجہ سے کافی کمزوری آچکی ہے،بات کرنا بھی میرے لیے مشکل ہورہا ہے،لیٹا رہتا ہوں۔آپ کا غالباًفون آیا تھا واٹسآپ پر ،اس وقت میں دوپہر میں آرام کررہا تھا،اسی لیے رسیو نہیں کرسکا،بعد میں آپ کا میسج دیکھا بہر حال آپ ہم سب کے نہایت عزیز ہیں،نہایت اہمیت کے حامل اور علم وعمل سے بھرپور آپ کی شخصیت ہے،ہم لوگ آپ کے قدرداں ہیں،ہم لوگوں کو آپ پر فخر ہے،اللہ رب العالمین آپ کو مزید توانائی عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ اپنے دین کی خدمت لیتا رہے۔ابھی تو اس حوالے سے میں کچھ عرض نہیں کرپارہا ہوں،دیکھتا ہوں اگر طبیعت بحال ہوئی اور خیروعافیت سے رہا تو ان شاء اللہ آپ کے مشورے سے کچھ باتیں تحریر کرنے کی کوشش کروں گا۔اللہ رب العالمین آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ،یہاں بچے سب الحمد للہ خیروعافیت سے ہیں۔ہمارے یہاں آن لائن تعلیم کا سلسلہ ماشاء اللہ تقریباً دو ڈھائی مہینے سے چل رہا ہے ،کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے،گھنٹیاں کم ہوپاتی ہیں لیکن طلبہ سب جڑے رہتے ہیں،اور اس طریقے سے اساتذہ بھی تھوڑا مصروف رہتے ہیں،طلبہ بھی مصروف رہتے ہیں،یہ ایک اچھی کوشش ہے بہر حال۔آپ کی نگارشات سے میں مستفید ہوتا رہتا ہوں خاص طور پر دبستان میں اور مرکز تاریخ اہل حدیث میں ،آپ کی جو تحریریں پاتا ہوں ،میں بڑی دل چسپی سے پڑھتا ہوں اور ان سے استفادہ کی کوشش کرتا ہوں ،اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔درخواست ہے کہ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے شفائے کامل عاجل عطا فرمائے اور ہرقسم کے امراض وعوارض سے اللہ رب العالمین مجھے نجات دے اور کچھ اور موقع دے دے تاکہ دین کی کچھ خدمت ہم بھی کرسکیں،ٹوٹی پھوٹی خدمت۔اللہ رب العالمین ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے۔گھر میں بچوں کو سلام کہیے گا۔والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
وفات سے چند دنوں پہلے کی یہ آواز اب تک کتنی بار سن چکا ہوں ،مجھے خود یاد نہیں،اب بھی جب یاد آتی ہے تو یہی آواز سنتا ہوں۔یقین نہیں آتا کہ عزم وہمت سے بھرپور بھائی عبدالمنان اتنی جلدی ہم سے رخصت ہوجائیں گے لیکن اللہ کی مرضی اور اس کی حکمت کے آگے زبان کھولنے کی مجال کس میں ہے؟
آہ بھائی عبدالمنان سلفی!آپ اس دنیا سے چلے گئے اور مجھ جیسے سیکڑوں کو سوگوار کرگئے۔آپ کو اللہ نے جتنی صلاحیتوں سے نوازا تھا،ان پر کبھی آپ نے اظہار فخر کیا اور اظہار غرور وتمکنت،تواضع اور خاکساری ہمیشہ آپ کے ساتھ رہی اور اسی صفت نے آپ کو محبوب خلائق بنا دیا تھا۔زندگی کے کئی نشیب وفراز میں نے دیکھ لیے اور عزت نفس کے ساتھ علمی زندگی گزارنا کس قدر مشکل ہے،اس کا بھی کافی تجربہ ہے۔برادر گرامی کے بعد کون ہے جس سے اپنا غم بانٹ سکوں گا،کون ہے جو سراپا اخلاص کے ساتھ مناسب مشورے دے گا اور کس کے فراخ شانے میرا سہارا بنیں گے۔اپنی صحافتی زندگی میں مجھے کیا کچھ نہیں سننا اور سہنا پڑا لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود اگر سفر جاری ہے تو بھائی عبدالمنان سلفی جیسے مخلصین کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے ،جو مجھے سمجھتے بھی تھے اور پہچانتے بھی تھے ۔میری اس کمزوری کا بھی انھیں ادراک تھا کہ لکھنے کے لائق کوئی موضوع ہاتھ آجائے تو بہت زیادہ دنوں تک خود کو روکے رکھنا میرے لیے مشکل ہوتا ہے۔ان تمام بے اعتدالیوں کے باوجود وہ مجھ سے محبت فرماتے تھے اور عزیز رکھتے تھے۔
اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ بارالہا!بھائی عبدالمنان سلفی کی قبر کو نور سے بھردے،ان کی تمام دینی،دعوتی،علمی،تصنیفی اور تدریسی خدمات کو قبول فرمالے اور ان کے تسامحات سے درگزر فرما اور اپنے محبوب ومقبول بندوں میں انھیں شامل فرما۔ان کے اہل خانہ کو صبر وہمت عطا فرما،بیٹوں کو توفیق دے کہ وہ اپنی والدہ محترمہ کی اسی طرح خدمت کرتے رہیں جس طرح والدمکرم کی زندگی میں کرتے تھے،بیٹیوں کو ہمت دے کہ وہ شفیق باپ کی جدائی برداشت کرسکیں۔باتیں ختم نہیں ہوں گی اور نہ بھائی عبدالمنان سلفی کی یاد یں مٹ سکیں گی ،اب وہ ایسی جگہ پہنچ چکے ہیں جہاں کے لیے شاعر مشرق علامہ اقبال کے طویل مرثیہ کا وہ آخری شعر ہی پڑھا جاسکتا ہے جو انھوں نے اپنی والدہ کی وفات پر لکھا تھا؎
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
آپ کے تبصرے