ابھی ٹیچر پڑھاتے ہیں مگر وہ دن بھی آئے گا
بجائے ان کے کمپیوٹر ہمیں پڑھنا سکھائے گا
جی ہاں،انتظار بسیار کے بعد شاعر کی خواہش بر آئی ہے،کمپیوٹرزاب باقاعدہ طلبہ کو پڑھارہے ہیں،سکرین پر تدریس کا عمل جاری ہے،لیپ ٹاپ،موبائیل،ٹیب بچوں کے ہاتھوں میں تھمادیا گیا ہے،الیکٹرونک ٹیچر خم ٹھونک کے میدان میں آگئے ہیں،ان دنوں آن لائن تعلیم کا خوب چرچا ہے،دیہات کی زبان میں کہوں تو مشین چل رہی ہے پانی کھیت میں جائے یا گڑھے میں۔
اسکول والوں کو آن لائن تعلیم کی اس قدر جلدی تھی کہ مسائل ومشکلات پر ذرا بھی غور نہیں کیا،بس شروع ہوگئے۔سب جانتے ہیں کہ یہ عجلت کیوں ہے؟مال وزر کی ہوس آنکھوں کو اندھا کردیتی ہے،بعض ادارے تو یہ تک نہیں جانتے کہ آن لائن تعلیم کہتے کسے ہیں اور طریقۂ کار کیا ہے؟بس روزانہ کاپی پیسٹ کررہے ہیں،ٹیکس، فوٹوزاور امیجز ڈھکیلتے جارہے ہیں،کیا گھروں میں بچے پڑھ رہے ہیں؟فالواپ ہورہا ہے ؟اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔اگر اسی کا نام آن لائن تعلیم ہے تو واٹسپ یونیورسٹی کیا کم تھی؟ پھر یہ نیا شوشہ چھوڑنے کی ضرورت کیا تھی؟
بعض اسکول لائیو تدریسی عمل انجام دے رہے ہیں،اس کی افادیت تو پڑھنے والے ہی بتا سکیں گے،میرا سوال یہ ہے کہ آن لائن تعلیم کیا ایک بہتر متبادل ہے؟سکرین اور ویڈیوز پر انحصار طلبہ کے لیے کافی ہے؟کلاس روم اور ٹیچر کے بغیر تعلیم کو کس حدتک مفید بنایا جاسکاہے؟سوچیے کہ روبرو تعلیم کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟اورغائبانہ تعلیم میں تدریس کے تقاضے کس حد تک پورے ہورہے ہیں؟کیاافہام وتفہیم کما حقہ ہوپارہی ہے؟طلبہ اگرپہلی بار نہ سمجھ سکیں تودوبارہ سمجھانا کیسے ممکن ہوگا؟بورڈ اور سوال وجواب کے فقدان کا اثرکیا پڑھائی پرنہیں ہوگا؟نوٹ بک کا عمل کیسے پورا ہوگا؟نیٹ اگر سست رفتار رہا تو صورتحال کیا ہوگی؟کئی کئی گھنٹے سکرین پرلگے رہنے سےبچوں کی آنکھ اور جلد کا کیا بنے گا ؟کثیر مقدار میں ریڈییشن کے اخراج اور اس کے نقصانات سے طلبہ کو کیسے بچایا جاسکے گا؟مقصد صرف خانہ پری ہے یا پھر حقیقت میں طلبہ کوفائدہ پہنچاناہے،کہیں ایسا نہ ہو کہ پورا آن لائن کورس کرنے کے بعد طالب کو کہنا پڑے؎
تشنگی جم گئی پتھر کی طرح ہونٹوں پر
ڈوب کر بھی ترے دریا سے میں پیاسا نکلا
اگر یہ سلسلہ چل پڑاتو مستقبل میں اور بھی نئے نئے دروازے کھلیں گے،پھر یہ آن لائن تعلیم غیر ضروری طور پر اسکولوں کے لیے لاک ڈاؤن کو طول بھی دے گی،کیونکہ کام تو ہورہا ہے برائے نام ہی سہی،طلبہ کے ہوم ورک کی شکل کیا ہوگی؟پہلے تو ڈسپلن کے لیے تادیبی کاروائی ہوتی تھی،کیاآن لائن تعلیم میں اس کی گنجائش ہوگی؟کیونکہ جہاں طالب لیسن سن رہا ہوگا وہاں دوسرے بچے بھی تو ہوسکتے ہیں۔
غریب طلباء کا کیا ہوگا؟کوئی منصوبہ اداروں نے سوچا ہے؟یا پھر غریبوں کو قسمت کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا ہے،پھر جب اسکول کھلیں گے تو کیا ازسرنو نصاب شروع کیا جائے گا؟یا آن لائن تعلیم میں گذرے ہوئے اسباق سے آگے پڑھایا جائے گا،اگر آگے پڑھایا جائے گا تو جو طلبہ آن لائن تعلیم سے نہیں جڑسکے تھے ان کا کیا ہوگا؟شکل جو بھی بنے گی کمزوری اور خلا برقرار رہے گا جس کی تلافی کے لیے کوئی طے شدہ حل نہیں ہے،کیا متوسط گھرانے کے کثیر العیال والدین بھی بچوں کی تعداد کے مطابق وسائل فراہم کرسکیں گے؟جبکہ لاک ڈاؤن نے اضافی اخراجات کے قابل نہیں چھوڑاہے۔
میں نہیں کہتا کہ طلبہ کو آزاد اور بے مہار چھوڑدیا جائے،ایسا بھی تو کیا جاسکتا ہے کہ انھیں غیر نصابی معلومات فراہم کی جائیں،آزاد موضوعات پر کتابیں متعینہ وقت میں مطالعہ کے لیے دی جائیں،پھر وقت گذرنے پر احتساب بھی ہوتا رہے،تاریخ اور دینیات کی معلومات سے آگاہ کیا جائے،کمزور سبجیکٹ میں نوٹ بک کے ذریعے محنت کرائی جائے،بچوں کو گذشتہ سالوں کے نوٹ بکس کے ذریعے پرانے مضامین پڑھنے کا گھروں میں مکلف کیا جائے تاکہ تعلیم سے نہ صرف رشتہ باقی رہے بلکہ ماسبق یادداشت بھی تازہ ہوجائے،دوسرے غیر نصابی شغل کا پابند کیا جائے جو پڑھائی کے دنوں میں وقت نہ ہونے کی بنا پر نظر انداز کردیا جاتا تھا،غورکیجیے تو طلبہ کو ایسے کئی علمی مشاغل میں لگایا جاسکتا ہے جو ان کے لیے مفید ہوں گے،باقاعدہ نصاب کی تعلیم کے لیے اسکول کے کھلنے کا انتظار کیا جائے۔
مدارس بھی آن لائن تعلیم کو بڑی حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں،وہ بھی اس دوڑ میں اسکولوں اور کالجوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہتے ہیں،جی ہاں!وہ مدارس جنھوں نے اینڈرائیڈ موبائل پر پابندیاں عائد کررکھی تھیں وہ اب خودطلبہ کو موبائل خریدنے کو کہیں گے،پھر مدرسہ کھلنے پر ضبط کرنے کی وارننگ دیں گے ،آخرآن لائن تعلیم کی دوڑ میں یہ بھی پیچھے کیوں رہیں؟لبرل اور متجددین کے طعنوں سے بچنا بھی تو ہے،ورنہ دقیانوس،پچھڑے ہوئے،جدید دور کے تقاضوں سے نابلد اور نہ جانے کتنے الزامات سے متہم کئے جائیں گے۔
واضح رہے کہ مدارس کا طریقۂ تدریس مروجہ طریقے سے کافی حد تک میل نہیں کھاتاہے،سوچیے عبارت خوانی سے درس کا آغاز کرنے والے مدرس بغیر عبارت خوانی کے پڑھائیں گے،عبارت خوانی کے بغیر صرفی ونحوی تحلیل سے مسلسل طلبہ محروم رہیں گے،پھرکسی اینکر کی طرح یکطرفہ بولتے اور سمجھاتے چلے جائیں گے،تعلیم سوال وجواب سےعاری ہوگی،نیٹ کی سست رفتاری سے طلبہ کچھ کا کچھ سمجھ بیٹھیں گے،ایسا بہت حد تک ممکن ہے،مذاکرات اور اگلے سبق کا مطالعہ مدرسے کا ماحول نہ ملنے کےسبب ناقص ہوگا،تعلیم کے ساتھ تربیت بھی مدارس کے ترجیحات میں شامل ہے،اس کے لیے بھی کوئی موثر خاکہ نہیں ہوگا،خلاصہ یہ کہ آن لائن تعلیم صرف زبانی جمع خرچ اورلاک ڈاؤن کا فیشن ہے،جن مدارس کواسکولوں کے اس فیشن کا بہت شوق ہے تووہ ضرور طبع آزمائی کریں،ساتھ ہی ساتھ تحفظات بھی اختیار کریں کیونکہ تعلیم تو لاک ڈاؤن میں آن لائن ہوئی ہے مخرب اخلاق شیاطین بہت پہلے آن لائن ہوچکے ہیں؎
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
مجھے بھی آن لائن پڑھائی اچھی نہیں لگتی……