الرحیق المختوم پردارالافتاء دیوبند کے فتوے کے بعد رد وقدح کا جو سلسلہ شروع ہوا تو اس پر ایک تڑکتا بھڑکتا گرم گرم مضمون آگیا،اس مضمون میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سعودی عرب نے الرحیق المختوم کو ایوارڈ دینے میں ناانصافی کی ہے،یہاں تک کہ انعام کی بھاری رقم پر لار بھی ٹپکا دی،یہی نہیں بلکہ الرحیق المختوم میں فنی خامیاں اور اصولی وتحقیقی کمزوریاں دکھائی گئی ہیں،کچھ حوالے بھی نقل کیے گئے ہیں۔پہلی بات توبین السطور میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس وقت صحیح ہوتی جب ماضی میں ایوارڈ مسلک و فرقہ سے اوپر اٹھ کر نہ دیا گیا ہوتا لیکن یہاں تو پورا ریکارڈ موجود ہے،علی میاں ندوی بھی انھی لوگوں سے ایوارڈ لے کر آئے تھے۔تعصب کی یہی وہ خطرناک روش تھی جوکتاب پر فتوے کی محرک بنی ہے،صاحب مضمون کی کم ظرفی پر افسوس ہوتا ہے،لکھتے ہیں کہ’’میں نے صرف یہ سنا تھا کہ کتاب کو سعودی عرب نے ایوارڈ دیا ہے،اس لیے ساکت تھا،لیکن فتوے کے بعد جب کتاب کو اندر سے دیکھا اور ابھی اس کے ابتدائی صرف 250 صفحات کے حوالجات پر دو تین گھنٹوں میں طائرانہ نظر ڈالی تو مجھے بہت حیرت ہوئی‘‘۔
مطلب یہ کہ کتاب ایوارڈ یافتہ تھی پھر بھی نہیں پڑھی تھی،دیوبند کامتنازعہ فتوی آنے کے بعدصرف حوالوں پر نظر ڈالی ہے،سوچیے کتاب کے مطالعہ کا محرک کیا ہے؟یہی نا کہ پڑھ کر فتوی کی تصدیق کروں اور کسی طرح ثابت کروں کہ کتاب واقعی سطحی ہے،کیا فرق ہے آپ میں اوران مستشرقین میں جو صرف قرآن وحدیث کو خامیاں اور کمزوریاں نکالنے کے لیے پڑھتے ہیں،کتاب کے بارے میں تو پہلے ہی تعصب رکھا گیا تھا پھر اسی تعصب اور تنگ نظری کے شانہ بشانہ کتاب کے حوالوں کو پڑھتے چلے گئے،ظاہر سی بات ہے کتاب کی خوبیوں پر نظر جاہی نہیں سکتی کیونکہ آپ کو خوبیوں سے کوئی سروکار نہیں ہے،صرف عیوب نکالنا مقصود ہے،شاعر کہتا ہے؎
وَعَينُ الرِضا عَن كُلِّ عَيبٍ كَليلَةٌ
وَلَكِنَّ عَينَ السُخطِ تُبدي المَساوِيا
ترجمہ:پسندیدگی کی نگاہ (ظاہری)عیوب تک پہنچنے میں تھک جاتی ہے اور ناپسندیدگی کی آنکھ (پوشیدہ) برائیوں کو بھی ظاہر کر دیتی ہے۔
کاش صاحب مضمون یہ بھی پڑھ لیے ہوتے کہ سیرت نگاری کے نو شرائط کیا تھے، پھر کتاب کے مشمولات کا اس معیار پر ایک اورسرسری جائزہ دس پچاس صفحات کا لے لیتے تو الرحیق المختوم کے معیار بلند احساس ہوتا،لیکن یہاں تو سلفیوں کی نیک نامی سے پوری برادری جلتی ہے،اس لیے انسانیت اورانصاف کی توقع بھی کیسے کی جاسکتی ہے؟
کیا وجہ ہے کہ کتاب کے دیگر علمی وتحقیقی پہلؤوں سے قطع نظر زیادہ تر حوالوں کو موضوع بنایا گیا ہے،حقیقت یہ ہے کہ تنقیص وتنقید کے جارحانہ منصوبہ کی تکمیل کے لیے کہیں کوئی قابل ذکر چیز نہیں ملی تو حوالوں کا قصہ لے کر بیٹھ گئے،ثانوی اور غیرثانوی حوالوں کا شوشہ چھوڑنے لگے،اب وہ ثانوی حوالے مدعا اور مطلوب کے اثبات کے لیے کافی ہیں کہ نہیں؟اس سے کوئی غرض نہیں ہے،دوتین کتابوں کے بارے میں بار بار کہا جارہا ہے کہ ان کتابوں کے حوالے بکثرت ہیں،یہ تو خوبی ہے کہ حوالے دیے گئے ہیں گھپلہ نہیں کیا گیا ہے،تلبیس وملمع کاری نہیں ہے،جبکہ ان کتابوں کے علاوہ پچاس سے زائد کتابوں کے حوالے موجود ہیں،کوئی مجھے بتائے کہ ایک بار حوالہ دینے کے بعدپھر اس کتاب کا حوالہ دینا تصنیف وتحقیق کے اصول کے خلاف ہے؟اور حوالوں میں تکرار کا ہونا عیب ہے؟پھر آپ کے اپنے بزرگ ہی آپ کے کلیے کے مطابق سطحی قرار پاجائیں گے۔
آگے پھر الزام دھرتے ہیں کہ’’ مولانا مودودی کی کتاب کا حوالہ کس شان سے دیے ہیں،یہ دیکھنے کی چیز ہے‘‘۔
بین السطور کہہ رہا ہے کہ جب مودودی سے اختلاف رکھتے ہو تو ان کی کتاب کا حوالہ کیوں دیتے ہو،عرض ہے کہ بھائی تمھاری طرح علماء اہلحدیث تنگ نظر اور متعصب نہیں ہوتے،بلکہ وہ کھلے ذہن کےساتھ غیر مسلکی علماء سےاستفادہ بھی کرتے ہیں اور بلا جھجک حوالہ بھی دیتے ہیں اوربر موقع ضرورت گرفت بھی کرتے ہیں،یہ وسعت قلبی اور عالی ظرفی ہے، بد قسمتی سے تمھارے لوگ اس معاملے میں بڑے تنگ نظر واقع ہوئے ہیں،اسی لیے مودودی کاحوالہ ہضم نہیں ہورہا ہے۔اگر عالی ظرفی ہوتی تو الرحیق المختوم کودیوبند کا دارالافتاء سطحی نہیں لکھتا ،لکھتے ہیں کہ بعض مسائل میں جمہور کی رائے سے ہٹ کررائے دی ہے،آپ یہ بھی تو دیکھیے کہ صرف رائے نہیں دی ہے بلکہ دلائل بھی دیے ہیں،وجہ ترجیح بھی بتائی ہے،اب تمھاری طرح کورانہ تقلید ہر کسی کے بس کا روگ تو نہیں ہے کہ عقل ودماغ کو اپنے بڑوں کے قدموں میں ڈال دو،بذات خود دلیل و برہان کی روشنی میں غور وفکر نہ کرو۔مسئلہ نزول قرآن کی تاریخ کا ہی دیکھ لیجیے،معاملہ وہ نہیں ہے جو آپ نے دکھانا چاہا ہے بلکہ صاحب کتاب نے قرآن وحدیث اور تقویم کی شہادتوں کو جمع کرکےایک نتیجہ اخذ کیا ہے،دوسروں کے اقوال کو بھی ایمانداری سے بیان کردیا ہے،اب جسے اس موقف سے اختلاف ہو وہ دلائل سے دلائل کو کاٹے نہ کہ ہوائی باتیں کرے۔دراصل آپ نے اگر حوالہ جات پڑھنے کی بجائے کتاب پڑھا ہوتا تو آپ کومقدمہ میں صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کی یہ عبارت ضرور ملتی۔
’’البتہ جہاں یہ اندیشہ ہو کہ میری تحقیق قارئین کے لیے حیرت و استعجاب کا باعث بنے گی ،یا جن واقعات کے سلسلے میں عام اہل قلم نے کوئی ایسی تصویر پیش کی ہے جو میرے نقطۂ نظر سے صحیح نہ ہو وہاں دلائل کی طرف بھی اشارہ کردوں۔‘‘(الرحیق المختوم ص۳۲/المنار پبلی کیشنز دہلی)
اس وضاحت کے بعد اعتراض کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟اسی طرح کی دھاندلی پورے مضمون میں نظرآتی ہے۔
دو مقامات پر ضعیف احادیث کے تذکرے کا الزام بھی لگایا ہے،حوالہ ایسا گول مول دیا ہے کہ مل ہی نہیں سکا،دراصل انصاف پسند حوالے دیتے ہی ہیں آسانی سے مل جانے کے لیے لیکن جن کے دلوں میں کھوٹ ہو وہ حوالے دیتے ہیں نہ ملنے کے لیے تاکہ آدمی تھک ہار کے بیٹھ جائے،یہ حوالے بھی صاحب مضمون پر قرض رہیں گے۔
پھر صحیح اور ضعیف کا حوالہ آپ کب سے مانگنے لگے،آپ لوگوں کے دین میں تو ضعاف وموضوعات کا چلن ہے،تحقیق وتنقیح تو دور کی بات ہے ،آپ حضرات کے ہاتھ تو احادیث میں تحریف سے رنگے ہوئے ہیں،آخر لیل کو رکعت بنانے والے کون تھے؟جب الفاظ میں خرد برد نہیں کرسکے تو معنوی تحریف کی ایسی باد صرصر چلائی کہ الامان و الحفیظ۔
مضمون کسی مضحکے سے کم نہیں لگتا،سیرت پر لکھی گئی عالمی ایوارڈ یافتہ کتاب کے مواد،منہج تحریر، أسلوب نگارش،پایۂ تحقیق،ندرت بیان،حسن ترتیب،تقسیم عناوین،صحت استدلال،ہمہ گیری، اثرآفرینی پر کوئی تبصرہ نہیں بس پوری تان حوالہ جات اور کتابوں کے تکرار پر آکر ٹوٹتی ہے،یہ بھی لگتا ہے کہ موصوف نے کہیں سے کاپی پیسٹ کرلیا ہے،کیونکہ لہجہ بھی بہت کمزور اور معذرت خواہانہ لگ رہا ہے،لکھتے ہیں:
’’ذیل میں سرسری طور پر میں نے چند چیزوں کو جمع کیا ہے۔ احباب ان پر نظر کریں اور انٹرنیٹ پر موجود (جسے میں اس تبصرے کے بعد شیئر کررہا ہوں) اس کتاب کو اس کے درج ذیل صفحات نمبرات پر جاکر از خود بھی دیکھ لیں‘‘۔
’’انٹرنیٹ پر موجود ہے،خود جاکر دیکھ لیں‘‘یہ نہیں بتایا کہ انٹرنیٹ پر کہاں ہے؟جیب تو نہیں ہے کہ ہاتھ ڈالا اور نکال لیا،کچھ لنک دیے ہوتے یا پھر مطبع کا نام یا ایڈیشن، کچھ تو صراحت کی ہوتی،صفحات کے نمبرات تو مرعوب کرنے کے لیے ہیں،اس طرح کی ہاتھ کی صفائی بڑوں سے ورثے میں ملی ہے۔ درحقیقت یہ پورا معاملہ حسد وتعصب کا شاخسانہ ہے،جلن یہ ہے کہ اتنے بڑے مقابلے کو ایک اہلحدیث نےکیسےسر کرلیا؟ہمارے قبیلے کا کوئی کیوں نہیں آیا؟فتح کا یہ سہرا سلفیوں کےسر کیوں بندھ گیا؟جب کچھ نہ بن پڑا تو انگور کھٹے ہیں،یہ ناانصافی ہے،کتاب سطحی ہے،پھر اپنے بزرگوں کا حوالہ دیا جانےلگا،کتابیں گنائی جانے لگیں۔
اس تقسیم کو تعصب پر مبنی کہتے ہوئے یہ بھی بتادیتے کہ اصل انعام کی مستحق کون سی کتاب تھی؟اور وجہ ترجیح کیا ہے اور پھر امتیازات کیا ہیں تو بات عقل میں سماتی لیکن بالکل تغلقی فرمان کی طرح کتاب سطحی ہے،غیر معیاری ہے،اس کا مطالعہ غیر ضروری ہے۔
اخیر میں لکھتے ہیں:
’’گر کوئی باریک بیں علمی تحقیق کے ٹھوس اصولوں کے میزان پر بالاستیعاب اس کتاب کا جائزہ لے لے تو نہ جانے بات کہاں تک پہنچے گی اور حشر کیا ہوگا‘‘۔
آپ کی بے چین طبیعت نقد و جرح سے کب خاموش تھی،تاریخ اٹھا کر دیکھیے کہ ردود میں آپ کا پورا قبیلہ پیش پیش رہا ہے،اگر یہ آپ کی خاموش اور بے ضرر طبیعت تھی کہ آپ کے قبیلے نے کبھی اس کتاب پر انگلی نہیں اٹھائی تھی تو اب زہر خند اور منافقانہ فتوی لکھ مارنے کی ضرورت کیا تھی؟اور اس پر آپ کا شاہ کار مضمون کس مقدس مشن کی تکمیل کے لیے ہے؟یہ مصنوعی سادگی اچھی نہیں لگتی،یہ اہل حدیث علماء کی غیرت تھی کہ ہر موقع پر ردود کا دندان شکن جواب دیا ہے،ہرہر کتاب اور مضمون کا آپریشن کیا ہے،الحمدللہ ابھی تک کوئی جواب ادھار نہیں ہے،میرا مشورہ ہے کہ آپ کواگر الرحیق المختوم کی مقبولیت اورہردلعزیزی ہضم نہیں ہورہی ہے تو اندر ہی اندر جلیے اور پیچ وتاب کھائیے لیکن دھواں باہر نہ آنے دیجیے،فتوی دینے والوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اہلحدیث کے علاوہ جو دیوبندی مالکان پریس اس کتاب کی روٹی کھارہے تھے ان کا کیا ہوگا؎
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں
جزاكم الله خيرا، بہت عمدہ، بہت کرارا طماچہ
جزاكم الله خيرا، بڑا مسکت اور طمانچے دار جواب ہے اللہ مزید زور قلم دے، پچھلے چار دنوں سے اسی مکتب فکر کے کوئی شاہ صاحب سے اسی موضوع پر خوب بحث ہوئی، اور ان سے وعدہ بھی کیا تھا کہ پرفیسر قاسمی کے سرسری جائزے کے مسکت جواب کا انتظار کریں، سو یہ تحریر ان کے حوالے کرتا ہوں، اور مجھے یقین ہے کہ وہ قبول نہیں کریں گے کیونکہ ان جیسوں میں اعتراف حق کا مادہ ہی نہیں
السلام وعلیکم ۔تبصرہ اور تنقید میں تشنگی ہے ۔قاسمی صاحب نے نقاط کی شکل میں تنقید کی ۔اگر صاحب مضمون ان نقاط پر فردا فردا اپنی راے دیتے تو اور مدلل ہو جا تا ۔جزاک اللہ