ایک کم عمر شارح صحیحین

فاروق عبداللہ نراین پوری تعارف و تبصرہ

اگر آپ نے امام نووی رحمہ اللہ کی”المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج“ کا مطالعہ کیا ہوگا تو بے شمار جگہوں پر ”قال صاحب التحریر“ کا جملہ پڑھا ہوگا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ ”صاحب التحریر“ کون ہیں؟
آیئے آج آپ کی ملاقات اس عبقری شخصیت سے کراوتے ہیں۔
نام ہے: ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن محمد بن الفضل بن علی التمیمی الاصبہانی الشافعی۔
امام نووی رحمہ اللہ نے آپ کا یہی نسب نامہ ذکر کیا ہے۔ [المنہاج شرح مسلم بن الحجاج:۱/۱۴۵]جب کہ دوسرے علما نے ”التیمی“کہا ہے، اور یہی زیادہ مشہور ہے۔ آپ مشہور محدث امام قوام السنہ الاصبہانی کے فرزند ہیں، جن کی بہت ساری قیمتی تصنیفات معروف ومشہور ہیں۔ [ان کی تصنیفات کے متعلق جاننے کے لیے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی”تاریخ اسلام“(۱۱/۶۲۷) کی طرف رجوع کریں]
سنہ۵۰۰ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ اور صرف چھبیس سال کی عمر میں سنہ۵۲۶ میں انتقال کر گئے۔ لیکن اسی مختصر مدت میں آپ نے اپنے علم وفن کا جھنڈا گاڑ دیا اور اپنے پیچھے ایسا علم چھوڑ کر گئے کہ آج بھی شروحات حدیث میں گاہے بگاہے ہم ان کے علم سے مستفید ہو رہے ہیں۔ نہایت کم عمری میں ہی ذہانت اور فصاحت وبیان کی وجہ سے عربی زبان سمیت دیگر علوم وفنون کے امام تصور کیے جانے لگے۔ بلکہ ان کے والد محترم امام قوام السنہ الاصبہانی عربی زبان میں انھیں اپنے اوپر فوقیت دیتے تھے۔ نیز انھیں بہت عزیز بھی رکھتے تھے۔ بھری جوانی میں بیٹے کی وفات سے آپ کو بہت غم لاحق ہوا؛ لیکن رونے دھونے کی جگہ آپ نے ان کی ادھوری علمی خدمات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم مصمم کیا۔ بیٹے کی محبت اور اس کے بچھڑنے کے غم کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ صحیح مسلم کی شرح بیٹے کی قبر کے پاس ہی املا کرواتے تھے۔ جب اس شرح سے فارغ ہوئے تو آپ نے ایک شاندار دعوت اور شیرینی کا انتظام بھی کیا۔ [تاریخ الاسلام للذہبی:۱۱/۶۲۷، سیر اعلام النبلاء:۲۰/۸۴، شذرات الذھب لابن العماد:۴/۱۰۵]
امام ابو عبد اللہ نے صحیحین کی شرح شروع کی تھی لیکن تکمیل سے پہلے ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے، جسے بعد میں ان کے والد محترم نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ایک بیٹے کے لیے اس سے بڑے شرف کی اور کیا بات ہوگی!!
امام نووی رحمہ اللہ نے ان کی صحیح مسلم کی شرح کا نام ”التحریر فی شرح صحیح مسلم“ بیان کیا ہے۔ اور ان سے بہت زیادہ استفادہ ونقل کیا ہے۔ علامہ کرمانی نے بھی ”الکواکب الدراری“ میں ان سے نقل کیا ہے، اوربعض جگہوں پر ”قال صاحب التحریر“ کا جملہ استعمال کیا ہے۔ جب کہ بعض دوسری جگہوں پر ”قال التیمی“ کا جملہ۔ حافظ ابن حجر نے ”فتح الباری“میں، علامہ عینی نے ”عمدۃ القاری“ میں اور علامہ قسطلانی نے ”ارشاد الساری“میں یہی دوسرا جملہ ”قال التیمی“یا ”قال ابن التیمی“ کا استعمال کیا ہے۔ اس سے اس شرح کی علمی قیمت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
شیخ عبد الکریم الخضیر حفظہ اللہ (رکن کبار علما کمیٹی، سعودی عرب) فرماتے ہیں:
وهذا كتاب لم يُطبع ولم نقف عليه، وفوائده منقولة في شرح النووي، ويبدو أن التحرير شرح نفيس؛ لأن النووي ينقل عنه نقولًا في غاية الأهمية
(یہ کتاب مطبوع نہیں ہےاور نہ ہمیں مل سکی؛ لیکن اس کے فوائد امام نووی کی شرح میں منقول ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ”التحریر“بہت ہی عمدہ شرح ہے؛ کیونکہ امام نووی ان سے جو چیزیں نقل کرتے ہیں وہ حد درجہ اہم ہوتی ہیں)[https://shkhudheir.com/fatawa/464085386]
شیخ عبد الکریم الخضیر حفظہ اللہ کی بات بالکل صحیح ہے۔ جہاں تک اس کے موجود ہونے کی بات ہے تو شاید تاتاریوں کے حملہ میں یہ شرح ضائع ہو گئی۔ جو دیگر شارحین ان سے نقل کرتے ہیں وہ اکثر امام نووی رحمہ اللہ کے واسطے سے ہی نقل کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا بعض حصہ مخطوطہ کی شکل میں مکتبہ ظاہریہ دمشق میں موجود ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اپنے کسی لائق بندے کو توفیق عطا فرمائے جو اسے محقَّق انداز میں منظر عام پر لائے۔
جہاں تک ان کی صحیح بخاری کی شرح کی بات ہے تو علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے ”الجواہر والدرر“ (۲/۷۱۰)میں بیان کیا ہے کہ انھوں نے امام خطابی کی شرح ”اعلام الحدیث“ کو سامنے رکھ کر کام کیا ہے، امام خطابی نے جو حصہ شرح نہیں کیا تھا اس کی شرح کا انھوں نے اہتمام کیا ہے۔ اور امام خطابی کے بعض اوہام پر تنبیہ بھی کی ہے۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔

آپ کے تبصرے

3000