طول غم حیات سے گھبرا نہ اے جگرؔ

رشید سمیع سلفی سیاسیات

فرقہ پرستی،ظلم وتعدی،تشدد وخونریزی،وحشت وبربریت،سبعیت ودرندگیت،جبر و قہر، تمردوطغیان،تعصب وتنگ نظری موجودہ حکومت کا طرۂ امتیاز ہے۔حکمرانوں کی پوری سیاست اور آئیڈیا لوجی اسلام دشمنی اور جارحیت پر مبنی ہے۔خاک وخون کا ایک زہرہ گداز موسم تو گذر چکا ہے،اب کسے خبر کہ مستقبل میں گردش لیل ونہار اور کتنی بلائیں لارہی ہے ؟ایک قوم کا وجود کراہ رہا ہے اور ایک قوم کی خونی پیاس ہل من مزید کی صدا لگا رہی ہے،ہزاروں انسانوں کے لہو سے سیراب ہونےکے بعد بھی لاشوں کے سوداگر چین سے نہیں بیٹھے ہیں،بڑھتےحوصلے اورجوش مارتا امنگ ہر پچھلا ریکارڈ توڑ دینا چاہتا ہے۔
مایوس ہوکر زندگی کی آس چھوڑدینا زندہ قوموں کا شیوہ نہیں ہے،اسی لیے قوم مسلم روح وجسم پر کاری زخموں کوسجائے آگے بڑھتی رہی ہے،ہر تباہی کے بعد اپنے بکھرے وجود اور جگر لخت لخت کو سمیٹتی رہی ہے،ڈھارس بندھاتی رہی ہے،اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے زخموں کی بخیہ گری کرتی رہی ہے،اپنے وجود کو سنبھالادیا، بکھرے اوراجڑے آشیاں کو پھر سے آباد کیا،تاکہ پھر زندگی کی گاڑی کو پٹری پر لاسکیں،لیکن ہمارا سکون اور ہماری ترقی کبھی لوگوں کو راس نہیں آئی؎

مری عاقبت کے دشمن مجھے چین آ چلا ہے

کوئی اور داغِ تازہ، کوئی اور زخمِ کاری

ملی وسیاسی نشیب وفراز کے کربناک دور میں کئی موڑ آئے لیکن کبھی بھی کسی حکومت کے زیر سایہ اس قوم کو اطمینان کے لیل ونہار میسر نہ آسکے، خلوص ووفا کی روایات پر چلنے والے مسلمانوں کو کوئی مخلص اور سچادوست نہیں ملا،جو بھی ملے وہ منافقت اور مفاد پرستی کے اسیر تھے،بہتیروں نے فائدہ اٹھایا، استعمال کیااور نظریں پھیر لیں،کوئی نہیں تھا جس نے زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ اس امت کو دیا ہولیکن لینے کو بہت کچھ لیا،ان کے ووٹ سے حکومت بنائی اور ترقی کے منازل طے کیے،لیکن قوم جہاں تھی وہیں کھڑی ہے۔
یہ قوم ہمہ وقت ایک طبقے کی دشمنی اور جارحیت کی زد پر رہی ہے،ان کی نظروں میں یہ کسی بھی رحم اور مروت کےمستحق نہیں تھے،ان پر کیا جانے والا ہر ظلم کسی کی طاقت کو بڑھاتا رہا،ان کی ترقی کسی کی تنزلی کے مترادف تھی،ان کے لیے امن وامان کسی کے لیے وبال جان تھا،پتہ نہیں یہ کس جرم کا بدلہ اور کس گناہ کی سزا اور کس زیادتی کا انتقام تھا؟جور مسلسل نے انھیں جانی، مالی، سماجی اور نفسیاتی اعتبار سےاپاہج بنادیا، ہر محکمے میں ایسے متعصب افراد پائے گئے جو موقع پاکر ان پر جبروظلم میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ہیں،ایسے ایسے دلدوز واقعات ہیں جنھیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے،جیلوں میں ایک کثیر تعداد ناکردہ گناہ کی سزابھگت رہی ہے،کتنے ہیں جو اپنا شباب جیل کی نذر کرکے باہر آئےہیں، پورا ملک مسلمانوں کے لیے زندان بن چکا ہے،کہیں کوئی پیش نہیں جارہی ہے،گذرتے لیل ونہار نے ایسا سبق دیا کہ مظلومیت کو اپنا مقدر سمجھ کرتلخئ ایام سے سمجھوتہ کرلیا ہے،مستقبل کو تقدیر کے رحم وکرم پر چھوڑ کر آگے بڑھ گئے ہیں۔
یہ موجودہ ہندوستان کی حقیقی تصویر ہے،مسلمان ایسے ہی مخدوش ترین حالات کا شکار ہیں،آنے والے شب وروز بہت زیادہ امید افزا نہیں ہیں،وقت کا تیور بڑے خطرناک اشارے دے رہا ہے،ایک مسلم کش منصوبہ ہے جس کی تکمیل کے لیے برسوں سے کوشش جاری ہے،لگتا ہی نہیں کہ ہندستان کا مسلمان کبھی اپنے دکھوں سے جانبر ہوسکے گا،امن وعافیت کی مسرت بخش فضا اسے میسر آسکےگی،مسلم قائدین کے حواس مختل ہیں،باتوں سے لگتاہی نہیں کہ یہ قوم کے لیے کچھ کرنے کے قابل ہیں،بزدلی وکم ہمتی اس قدر ہے کہ حکومت وقت کے ہر صحیح و غلط فیصلے پر آمنا و صدقنا کی رٹ لگا رہے ہیں۔
مستقبل کا نہ کوئی خاکہ ہے، نہ کوئی منصوبہ ہے،بس ہر بار چند بیان دےکر عہدہ برآ ہوجاتے ہیں،ایسا لگتا ہے کہ اس امت کی تباہی کا سودا کر لیا گیا ہے۔
یہ سکون کا سانس لے بھی نہیں پاتے کہ نئی مصیبت ان کے سر مسلط کردی جاتی ہے،ابھی این‌آر سی کو لے کر احتجاجات میں جان و مال کی جو تباہی ہوئی تھی،اس کے غم کا ابھی مداوا ہوا بھی نہیں تھا کہ کورونا وائرس کا دور شروع ہوا اور اس میں بھی انھیں سکون سے نہیں بیٹھنے دیا گیا،مختلف بہانوں سے تکلیف دینے کی کوشش کی گئی،کبھی تبلیغی جماعت کی آڑ میں پورے ملک میں مسلم مخالف لہر چلائی گئی اور کورونا جہاد کے نام پر جگہ جگہ ان کا بائیکاٹ کیا گیا۔ابھی کورونا سے پو ری طرح ابھر بھی نہیں سکے تھے کہ بابری مسجد کے مجرموں کو باعزت بری کرکے امت مسلمہ کے زخموں کو ہرا کیا گیا،ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک یاس و حرماں نصیبی کا تاریک سایہ پھیل گیا،مسلمان تڑپ ساگیا،میڈیا پر اپنے درد کا اظہار بھی کیا،لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟
آخر مسلمان کس جرم کی سزا پارہا ہے،کیا یہ دیش کا وفادار نہیں؟کیا یہ دیش کے لیے قربانی نہیں دےرہا ہے؟کیا اس ملک کا ناگرک نہیں،جب ملک تقسیم ہورہا تھا تو اس نے جانے والوں کا ساتھ نہ دے کر اس ملک میں رہنے کو ترجیح دیا،یہیں کا ہوکر رہالیکن نہ تو جانے والوں نے ان کو بخشا اور نہ رہنے والوں نےبخشا،یہ تو کہیں کے نہیں رہے،آج بھی جب مسلمان ملک میں کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو سرحد پار سے طعن وتشنیع کے تیر بھی اس کے دل و جگرکو زخمی کرتے ہیں،ہندستانی مسلمان کی زندگی کے یہی شب وروز ہیں۔
ہمیں فخر تو ہے کہ دنیا میں پچاس سے زیادہ مسلم ممالک ہیں لیکن یہ فخر و مباہات ہمارے دکھوں میں کمی کا باعث نہیں ہیں۔جب ہمارے خرمن پر بجلی گرتی ہے تو ہمارا فخر ہمارا منہ چڑھا رہا ہوتا ہے،ادھر آگ وخون کا ننگا ناچ ہوتا ہے اور ادھر سے صرف چند بیانات سے حق اخوت ادا کردیا جاتا ہے،مایوسی اور بےچارگی کے جس مقام پر آج امت اسلامیہ ہند کھڑی ہے،وہ اس قوم کے وجود کو اندر ہی اندر کھارہا ہے،آج یہ قوم بوسنیا،صومالیہ،برما کے ماضی کے ہولناک خونریزیوں کو یاد کررہی ہے،اور پوچھ رہی ہے آخر وہ بھی تو مسلمان ہونے ک ناطے ستائے جارہے تھے لیکن جبر وقہرکا سیلاب ان کے سروں سے گذر گیا اور وہ اب طوفان کے بعد کےخاموش شب و روز کو امن وعافیت سے ہم کنار کرچکے ہیں لیکن ہندوستان کا مسلمان ابھی بھی صبح امید کے انتظار میں ہے،ہمارے سروں سے گذرنے والا‌طوفان پھر پلٹ کر آتاہے اور ہنستی کھیلتی زندگیوں کو عبرت کا نشان بنا جاتا ہے۔
حالات کا ظاہر کتنا ہی غیر یقینی کیوں نہ ہو لیکن موسم بدلتا ضرور ہے،دنیا عالم تغیر ہے،ثبات و دوام کسی شئ کو حاصل نہیں ہے،پانی سر سے گذر رہا ہے،ایک قوم کا صبر مسلسل رنگ لا رہا ہے،پرنالے کا رخ ذرا تبدیل ہوا تو برسوں سے پکنے والا لاوا سڑکوں پر بہہ پڑا ہے،کورونا وائرس نے ایک احتجاج کا راستہ روک دیا تو ایک اور اقدام قیامت کے ہنگامے کھڑے کررہا ہے،یہ اس ملک کی انقلابی جنتا ہے جس نے سپر پاور انگریز کے چھکے چھڑا دیے تھے ، ان کے سامنے چند سر پھروں کی کیا حیثیت؟اللہ کرے سلسلہ آگے بڑھے اورملک کے افق سے ایک خوبصورت صبح کی پو پھٹے۔
کائنات میں سنت الہی جاری ہے،دیر سویرظلم کا قلع قمع ہوتا ہے اور مظلوم سرخرو ہوتا ہے،حالات کا جبر مسلسل اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے،باغی فنا کے گھاٹ اترنے سے پہلے خوب اودھم مچاتا ہے، سرکشی کا حد سےبڑھنا دلیل ہوتا ہے کہ ظلم کا انجام قریب ہے اورقاتلوں کا زوال ہونے والا ہے،شب دیجور گھنیری ہوتی ہے صبح کے اجالے سے مات کھانے کے لیے ،فرعون تب ڈوبتا ہے جب بنواسرائیل کی نسل کشی کا فیصلہ کرلیتا ہے،ہٹلر تب ہلاک ہوتا ہے جب بربریت انتہا کو پہنچ چکی ہوتی ہے،ابو جہل بھی حد سے تجاوز کرتا ہے تو ماردیا جاتا ہے،یہی قدرت کا نظام ہے،یہی سنت الہی ہے،انجام سے پہلے ظلم کا پارہ شباب پر پہنچ جاتا ہےاور دیکھتے دیکھتے عذاب کی خوراک بن جاتا ہے، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں؎

طول غم حیات سے گھبرا نہ اے جگرؔ

ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو

آپ کے تبصرے

3000